(اداریہ) خود کردہ را علاجے نیست! - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ

ایوب بیگ مرزا

خود کردہ را علاجے نیست!

پاکستان کے تمام ریاستی ادارے ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں۔ فوج چونکہ پاک سرزمین کی سرحدوں کی محافظ ہے، اہل پاکستان نے آئین کے تحت یہ مقدس ذمہ داری فوج کو تفویض کی ہوئی ہے جس کو نبھاتے ہوئے بعض اوقات انھیں اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑتا ہے لہٰذا وہ انتہائی قابل قدر اور قابل عزت ہیں۔ یہ بات ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور بالاتر ہونی چاہیے۔ اسی طرح عدلیہ بھی انتہائی قابل عزت اور قابل احترام ادارہ ہے۔ عدل قوم کا ہی نہیں امت کا اثاثہ ہے۔ عدل تو اسلام کا کیچ ورڈ ہے۔ عدل اسلام کی روح ہے ۔ اسلام میں سے عدل نکال دیں تو کچھ نہیں بچتا۔ بلکہ عدل تو یونیورسل ٹروتھ ہے۔ عدل سے کوئی انسان بقائمی ہوش وحواس انکار نہیں کر سکتا۔ گویا بیرونی خطرات سے قوم کو بچانا اور اندرونِ ملک عدل قائم کرنا دو انتہائی مقدس فرائض ہیں اور یہ فریضے ادا کرنے والے دونوں ادارے انتہائی قابل عزت اور احترام ہیں لیکن بصد احترام عرض ہے کہ یہ دونوں ادارے اپنے اپنے فرائض ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ یقیناً ان اداروں میں اچھے لوگ بھی ہوں گے بلکہ اچھے لوگ ہیں۔ لیکن کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ چند افراد کی بنیاد پر نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی کیا جاتا ہے۔
ان اداروں کا اصل کام سے بلکہ کہنا چاہیے سیدھے راستے سے ہٹ جانا کہیں جسٹس منیر سے شروع ہوتا ہے تو کہیں میجر جنرل (ر) سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان سے۔ یہاں مرغی پہلے یا انڈہ والا معاملہ ہے۔ کیا مولوی تمیز الدین کے حق میں سندھ ہائی کورٹ کا میرٹ پر دیا گیا فیصلہ محکمہ دفاع نے جسٹس منیر پر دباؤ ڈال کر بدلوایا تھا یا جسٹس منیر نے اپنے تئیں طاقتوروں کو خوش کرنے کے لیے کیا تھا۔ بہرحال یہاں سے معاملہ ڈی ٹریک ہوا۔ یہیں سے پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاست دانوں نے سیاست کم کی اور ان اداروں نے زیادہ کی۔ کون بنے گا وزیراعظم اور کون رہے گا وزیراعظم؟ اس کی ذمہ داری ایک ادارے نے سنبھال لی اور دوسرا ادارہ طاقتور کی معاونت کرتا رہا۔ کبھی خوش دلی سے، کبھی نیم دلی سے اور کبھی کبھار بددلی سے ۔ یہاں ضمناً عرض کر دیتے ہیں کہ حکومتوں کی اس اتھل پتھل میں آج تک تو یہ ہوتا رہا کہ آئین کو بڑی محبت اور عقیدت سے ایک طرف یوں بٹھا دیا جاتا تھا جیسے گھر کے کسی مریض، جو بوڑھا بھی ہو چکا ہو ، کو احترام سے گوشہ نشین بنا دیتے ہیں۔ لیکن چند ماہ پہلے ہماری رائے میں اس بیچارے کو آنجہانی کر دیا گیا۔ یہ قتل ناحق ہوا اور بڑی بے دردی سے ہوا، خدا مغفرت کرے ، عجب آزاد مرد تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ البتہ یہ واحد مُردہ ہے جسے دفنایا نہیں جارہا۔ کہتے ہیں آئین مرا نہیں زندہ ہے۔ اس کا سانس چل رہا ہے۔ اور اس کا ایک ثبوت یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ رضا ربانی جو کبھی آئین دیکھتے ہی دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیتے تھے وہ ماتم کناں نہیں۔ ہماری رائے میں وہ سکتے میں ہیں۔ اللہ نہ کرے انھیں ہوش آئے۔ کیا وہ یہ منظر دیکھ سکیں گے کہ ان کا محبوب آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر مظلوم ترین شے بن گیا ہے۔ کوئی اس کو گود لینے کو تیار نہیں۔ کوئی اسے پچکارنے کو تیار نہیں اور آئین اپنا رخِ نا زیبا رضا ربانی کی طرف کر کے مسلسل کہے جا رہا ہے: ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو‘‘۔
بہرحال ہم تو رضا ربانی صاحب کا بہت احترام کرتے ہیں کیونکہ ان کے والد محترم قائد اعظم کے ADC تھے اور روایت کے مطابق انہیں روزہ نہ رکھنے پر قائد اعظم سے ڈانٹ پڑی تھی، پھر انھوں نے آئندہ روزہ رکھنے کا قائد اعظم سے وعدہ کر لیا تھا۔ موجودہ حکمران آئین کی مٹی پلید کرنے تک محدود نہیں رہے بلکہ اُنہوں نے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانیں گے۔ جمہوریت کی تاریخ میںشاید یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی حکومت اپنے ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے کا باقاعدہ اعلان کر دے۔ آئین کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی اسمبلی اگر اپنی معیاد مکمل کرکے تحلیل ہو تو 60 دن میں انتخابات لازم ہیں اور اگر مدت پوری کرنے سے پہلے تحلیل کر دی جائے تو پھر 90 دن میں انتخابات ہوں گے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی فیڈریشن قائم ہے، مرکز اور صوبوں کے انتخابات کہیں بھی ہوں، ہرگز لازم نہیں کہ انتخابات سارے ملک میں ایک ہی وقت میں کرائے جائیں۔ قصہ مختصر پنجاب میں پہلے صدر اور الیکشن کمیشن کی مرضی سے طے ہوا کہ 30اپریل کو انتخابات ہوں گے لیکن مرکزی حکومت نے تعاون نہ کیا۔ پھر 14 مئی کو انتخابات کی تاریخ خود سپریم کورٹ نے دی، لیکن سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ کیا گیا اور 14 مئی گزر گئی۔ ہم نے سطور بالا میں جن دو اداروں کا ذکر کیا ہے، اُن میں سے پہلے والا ڈٹ کر حکومت کا ساتھ دے رہا ہے۔ عدلیہ نے بھی ظاہر کیا کہ وہ بھی اپنے فیصلے پر ڈٹ جائے گی اور 14مئی کو انتخابات کا اپنا حکم واپس نہیں لے گی۔
یوںمعلوم ہو رہا تھا کہ موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس منیر کی قبر پر زوردار لات ماریں گے اور نظریہ ضرورت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے گا۔ یاد رہے چند سال پہلے ایک اور چیف جسٹس یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ عدلیہ کو میرٹ پر انصاف کرنا چاہیے، چاہے آسمان ہی کیوں نہ گِر جائے۔ اگرچہ اس حوالہ سے ابھی پانی سر سے نہیں گزرا، لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن جو حکومت کے ساتھ ایک فریق بنا ہوا ہے، نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کر دی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ اُن کا قانونی حق ہے۔ لیکن جو بات غیر معمولی ہے اور قابل تشویش ہے کہ ہم تو یہ دیکھتے اور سنتے آئے ہیں کہ نظر ثانی کی اپیل میں کوئی نیا نکتہ اٹھایا نہیں جا سکتا بلکہ سابقہ فیصلے میں کسی بڑی غلطی کی نشاندہی کی جاتی ہے، جس پر اپیل کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں آج تک جو نظر ثانی کی اپیلیں ہوئی ہیں اُن پر فیصلہ گھنٹوں میں اگرنہیں تو چند دنوں میں ہو ہی جاتا ہے اور فیصلہ بدل جانے کی نظیریں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن موجودہ چیف جسٹس نے 9 دن کی تاریخ دے ڈالی۔ دنیا جہاں کو نوٹس جاری کر دیئے جن میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں تو گویا انتخابات کو دور کرنے اور التوا میں ڈالنے والے کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک بار پھر بادی النظر میں جسٹس منیر زندہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ بندوقیں بندے مارتی ہی نہیں زندہ بھی کر دیتی ہیں۔ انتظامی سطح پر بھی تحریک انصاف کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ کئی ہزار کارکن گرفتار ہیں جو ضمانت کروا کر سڑک تک پہنچتا ہے پھر دھر لیا جاتا ہے۔ تشدد بھی جاری ہے۔ بوڑھی عورتوں کو بالوں سے گھسیٹ کر سڑک پر لایا جا رہا ہے۔ جوان لڑکیوں سے بدتمیزی کی جا رہی ہے۔ جوان لڑکوں کو عمران خان کی کال پر لبیک کہنے پر عبرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پنجاب کے وزیراطلاعات عامر میر اعلان کرتے ہیں کہ چالیس دہشت گرد زمان پارک میں چھپے بیٹھے ہیں، اُنہیں نکالا جائے گا۔ لیکن عمران کی حکمت عملی کامیاب ہوئی۔ اُس نے عالمی میڈیا کو فوری طور پر بلا کر اپنے زمان پارک والے گھر کی سیر کرا دی اس پر تحریک انصاف کی طرف سے یہ بیان جاری ہوا کہ جن دہشت گردوں نے منہاج القرآن پر حملہ کرکے حاملہ عورتوں کو سیدھی گولیاں ماری تھیں، وہ تو کئی سال گزر گئے پکڑے نہیں گئے۔ قصہ مختصر بادی النظر میں ملک میں وحشت اور دہشت کی فضا ایک پلان کے مطابق پیدا کی جارہی ہے۔ یہ افواہ بھی اُڑا دی گئی کہ باہر سے ایک طیارہ عمران خان کو بیرون ملک لے جانے کے لیے آگیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اگر عمران خان واقعتاً اس موقع پر پاکستان سے باہر فرار ہوتے ہیں چاہے اُن پر جسمانی تشدد ہی کیوں نہ ہو تو پھر کوئی اور کہے نہ کہے ہم کہیں گے کہ اُس کی ساری سیاست فراڈ تھی۔ وہ ایک بزدل انسان اور بھگوڑا ہے۔ عوام کو بہادری کے سبق دینے والا یہ شخص بہروپیا ہے۔ وہ ناقابل اعتبار اور جھوٹا ہے۔ لیکن اگر وہ جان بچانے کے لیے باہر جانے سے انکار کرتا ہے تو وہ پاکستان کا واحد سیاست دان قرار پائے گا جو بندوقوں کے سامنے ڈٹ گیا جس نے اپنی زندگی اپنی فیملی سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ عوام کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ہماری حالت اس وقت یہ ہے کہ PDM کی حکومت ہو یا اپوزیشن کی جماعت تحریک انصاف سب مجنوں بن کر اقتدار کی لیلیٰ کا اندھا دھند تعاقب کر رہے ہیں۔ عوام کی بدحالی، ملکی سالمیت اور قومی مفادات سب کچھ بالائے طاق رکھا ہوا ہے۔ آہ! کاش کوئی قومی اور ملکی مفاد میں عارضی پسپائی اختیار کرلے۔ دنیا بھر میں ہمارا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ پاکستان کے حالات اِس وقت اُس گھر کی طرح ہیں جہاں گھر والے دن رات لڑتے رہتے ہیں۔ نہ خود سکون کرتے ہیں، نہ ہمسایوں کو سکون لینے دیتے ہیں اور بالآخر اس گھر کے بکھرنے پر کوئی افسوس کا اظہار نہیں کرتا۔ خود کردہ را علاجے نیست!