الہدیٰ
جھوٹے شعراء اور ظالموں کو دھمکی
آیت 225{اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ(225)} ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں سرگرداں رہتے ہیں۔‘‘
غزل کے ایک شعر میں شاعر لوگ مشرق کی بات کرتے ہیں تو دوسرے میں مغرب کی۔ ایک مصرعے میں اپنی آسمان کی سیر کا ذکر کرتے ہیں تو دوسرے میں زمین پر آکر صحرا نوردی کرتے نظر آتے ہیں۔
آیت 226{وَاَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ(226)} ’’اور یہ کہ وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔‘‘
شعراء کے بارے میں سب سے بڑی بات یہاں یہ بتائی گئی کہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے اور یہ عادت بہت گھٹیا کردار کی مظہر ہے۔
آیت 227{اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللہَ کَثِیْرًا} ’’سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں اور کثرت سے اللہ کا ذکرکریں‘‘
کوئی شاعر اگر حقیقی مؤمن ہو اور اعمالِ صالحہ پر کاربند ہونے کے ساتھ ساتھ کثرتِ ذکر اللہ پر بھی مداومت کرے تو وہ یقیناً مذکورہ بالا مذمت سے مستثنیٰ ہو گا اور اس کا کلام بھی خیر اور بھلائی کا باعث بنے گا۔ اس سلسلے میں حضرت حسّان بن ثابتh کی مثال دی جا سکتی ہے جو دربارِ نبویؐ کے شاعر تھے۔
{وَّانْتَصَرُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا ظُلِمُوْاط} ’’اور وہ بدلہ لیں اس کے بعد کہ اُن پر ظلم کیا گیا ہو۔‘‘
یہ ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ضرورت پیش آنے پر ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے اپنی زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے۔
جیسے حضورﷺ نے حضرت حسان ؓ کے بارے میں فرمایا تھا کہ حسّانؓ کے اشعار کُفّار کے خلاف مسلمانوں کے تیروں سے بھی زیادہ مؤثر ہیں۔
{وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ(227)} ’’اور عنقریب یہ ظالم جان لیں گے کہ کس جگہ لوٹ کرجائیں گے!‘‘
ان کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔یہ اسی طرح کا محاورہ ہے جیسے ہمارے ہاں اردو میں کہا جاتا ہے کہ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یعنی ابھی ان لوگوں کو نظر نہیں آ رہا‘ لیکن عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب قرآن کا بیان کردہ بھیانک انجام ان لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ہو گا۔بارک اللہ لی ولکم فی القرآن العظیم‘ ونفعنی وایّاکم بالآیات والذِّکر الحکیمoo
درس حدیث
سیاسی کشیدگی کیوں؟حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے مہاجروں کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو گئے (تو ان کی سزا ضرور ملے گی) اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ (بری چیزیں) تم تک پہنچیں۔ جب بھی کسی قوم میں بے حیائی (بدکاری وغیرہ) علانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔ جب وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، ان کو قحط سالی، روزگار کی تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے سے سزا دی جاتی ہے۔ جب وہ اپنے مالوں کی زکوٰۃ دینا بند کرتے ہیں تو ان سے آسمان کی بارش روک لی جاتی ہے۔ اگر جانور نہ ہوں تو انہیں کبھی بارش نہ ملے۔ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتے ہیں تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلط کردیے جاتے ہیں، وہ ان سے وہ کچھ چھین لیتے ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جب بھی ان کے امام (سردار اور لیڈر) اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان میں آپس کی لڑائی ڈال دیتا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024