(زمانہ گواہ ہے) ’’پاکستان کاسیاسی نظام اورڈاکٹر اسراراحمدؒ‘‘ - محمد رفیق چودھری

8 /

سرمایہ دارانہ نظام کے تحت مغرب کی مادرپدر آزادجمہوریت پاکستان میں

نہیں چل سکتی۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بنا ہے لہٰذا اس

کے آئین کے مطابق بھی وہی جمہوریت ہونی چاہیے تھی جس کے بنیادی

اصولوں کا تصور ہمیں خلافت راشدہ سے ملتا ہے :ایوب بیگ مرزا

پاکستان میں اسلامی نظام صرف پُرامن اور منظم احتجاجی تحریک کے

ذریعے آسکتاہے ،وہ تحریک منکرات کے خلاف ہو تو ان شاءاللہ وہ آہستہ

آہستہ آگے بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں انقلاب آئے گا:خورشید انجم

’’پاکستان کاسیاسی نظام اورڈاکٹر اسراراحمدؒ‘‘ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمدباجوہ

سوال: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹراسرار احمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ جمہوریت کا تسلسل قائم رہنا چاہیے جیسا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا:
’’ہم ایک طرف یہ کہتے ہیں الیکشن ہونا چاہیے اس کا تسلسل جاری رہنا چاہیے لیکن دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں اسلام اس راستے سے نہیںآئے گا۔ پہلی بات ہم اس لیے کہتے ہیں کہ جمہوری عمل بند رہنے سے حبس ہو جاتا ہے،مختلف علاقوں میں احساس محرومیت پیداہوتا ہے اور اگرالیکشن ہوں تو شراکت کا احساس زندہ رہتا ہے ۔ ایک سادہ مثال میں دیتا رہا ہوں کہ کسی شخص کے زندہ رہنے کے تقاضےکچھ اور ہیں، اس کے مسلمان بننے کا تقاضا کچھ اور ہے، زندہ رہنےکے لیے اسےہوا ، پانی ، غذا وغیرہ چاہیے ،لیکن مسلمان بننے کے لیےاسے کوئی ایمان کی رمق چاہیے ۔یہ دونوں تقاضے علیحدہ ہیں۔ اسی طرح اس ملک کو باقی رہنے کے لیے جمہوری سیاسی انتخابی عمل کا جاری رہناضروری ہے ورنہ حبس ہوگا لیکن یہاں اسلام الیکشن کے راستے نہیں آ سکتا ۔ وہ آئے گا صرف انقلاب کے راستے سے ۔ ‘‘
آپ یہ فرمائیےکہ خلافت راشدہ کے دور کے بعد اکثر جو وقت گزرا ہے اس میں تو ملوکیت رہی ہے ؟ 
خورشید انجم: نبی کریم ﷺنے ایک حدیث میں پانچ ادوار گنوائے ہیں۔ پہلے حضورﷺ کا اپنا دور ہےدور نبوت۔ اس کے بعد دور خلافت راشدہ یا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ، پھر اس کے بعد کاٹ کھانے والی ملوکیت، پھر اس کے بعد جبری ملوکیت اوراس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ آئے گی۔ہمارے لیے آئیڈیل تو خلافت علیٰ منہاج النبوۃہے۔ دوسری تشبیہ جمہوریت کی بنتی ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحبؒ نے فرمایا کہ اس میں حبس کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی ، لوگوں میں احساس محرومی پیدا نہیں ہوتا ۔ ان کے اپنے نمائندے چاہے وہ جیسے بھی ہوں ان تک رسائی رکھتے ہیں اور ان کے مسائل سنتے ہیں ۔ ہماراملک ایک کثیر القومی ملک ہے، جہاں بہت ساری قومیں بستی ہیں ، پانچ تو بڑے صوبے ہیں ، پھر ان کے اندر مزید تقسیم در تقسیم ہے ۔ جب ہر علاقے سے عوام کا ایک نمائندہ حکومت میں شامل ہوگا تو پھر عوام میں شراکت کا احساس زندہ رہے گا ۔ اس کے نتیجہ میں کسی نہ کسی طرح ملک اور نظام کی گاڑی چلتی رہتی ہے ۔عوام کیSense of Participationکے لحاظ سے جمہوریت خلافت کے قریب ہے کیونکہ خلافت راشدہ میں مشاورت کا رویہ تھا ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا طریقہ بھی یہی تھا کہ اگر عوام مجھے قبول کرتے ہیں تو میں عہدہ قبول کروں گا ۔ انہوں نے بیعت عام لی تھی۔
سوال: جمہوریت مغرب کی دین ہے جہاں بے خدا تہذیب اور معاشرت ہے ۔ جبکہ پاکستان اسلام کےنام پر حاصل کیا گیا ایک نظریاتی ملک ہے۔ یہاں ہم جمہوریت کو کیوں رائج کرنا چاہتے ہیں ، یہ فرق ہمارے ذہنوں میں کیوں ہے ؟ 
ایوب بیگ مرزا: پہلی بات کی تھوڑی سی تصحیح کر لینی چاہیےکہ جمہوریت کوئی نظام نہیں ہےبلکہ ایک طرز حکومت ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے سائے تلےہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام اصل میں ایک استحصالی اور بدبودار نظام ہے ۔ اس کی سرانڈ کو چھپانے کے لیے جمہوریت کا خوشنما غلاف چڑھانا پڑا ۔ نعرہ دیا گیا: عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ۔ عوام چاہیں تو جس کو مرضی اپنا نمائندہ مقرر کرلیں اور وہ نمائندے اسمبلیوں میں جاکر جو چاہے قانون سازی کریں ۔ اگر اکثریت کہہ دے کہ مرد مرد سے شادی کر سکتاہے تو وہ قانون بن جائے گا ۔ یہ اصل میں جمہوریت کا مغربی تصور ہے ۔ حقیقی جمہوریت وہ ہے جس کا تصور خلفائے راشدین کے ہاں ملتا ہے ۔ جس میں رب کے سامنے جوابدہی کا احساس ہے ، انسانوں کی بہبود ، انسانی معاشرہ کی فلاح اور بھلائی کا تصور ہےاور مشاورت کا نظام ہے۔ اس کی جھلک آپ کو خلفائے راشدین کے دور میں نظر آئے گی۔اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس اتنا ہے کہ راتوں کو حضرت عمرh گشت کرتے ہیں کہ کسی گھر میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ۔ معلوم ہوا کسی گھر میں راشن نہیں ہے تواپنی کمر پر راشن لاد کر لے کر گئے ، غلام نے کہا حضور! میں اُٹھا لیتا ہوں فرمایا : روز محشر جواب عمرؓ نے دینا ہے ، یہ میری ذمہ داری ہے ۔ یہ ہے اصل جمہوریت اور اس میں غیر مسلم کو بھی اسی طرح انصاف مل رہا تھا جس طرح کا مسلم کو مل رہا تھا ۔ جمہوریت اس کا نام نہیں ہے کہ ووٹ ڈال دیا اور اب آ کر جو چاہے کرو۔ یہ مغرب کی مادر پدر آزاد جمہوریت ہے جو پاکستان میں نہیں چل سکتی ۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بنا ہے لہٰذا اس کے آئین کے مطابق بھی وہی جمہوریت ہونی چاہیے تھی جس کا تصور ہمیں خلافت راشدہ سے ملتا ہے ۔ اگرچہ آن پیپر تو پاکستان میں یہی جمہوریت ہے۔ آرٹیکل-A 2صاف کہتا ہے کہ پاکستان میں اصل حاکمیت اللہ کی ہے اور پارلیمنٹ کے نمائندے اس کوبطور امانت استعمال کریں  گے ۔ اسی طرح ہمارا آئین کہتا ہے کہ یہاں کوئی قانون سازی قرآن اور سنت کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ گویا آن پیپر تو ہمارے ہاں اصل جمہوریت ہے لیکن عملی طور پر وہی انگریز کا1935ء کا بنایا ہوا قانون چل رہا ہے ۔ اس کے تحت فیصلے ہو رہے ہیں ۔ لوگ ٹھیک کہتےہیں کہ یہاں اگر واقعتاً جمہوریت آتی تو آج ملک کا یہ حشر ہوتا؟ اس وقت پاکستان شاید ایشیا کا غریب ترین اور مفلوک الحال ملک ہے ۔ ہم چند ماہ پہلے کہہ رہے تھے کہ کہیں پاکستان سری لنکا نہ بن جائے آج سری لنکا پاکستان سے بہتر نظر آ رہا ہے۔ لہٰذا ایک وہ جمہوریت ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہےاور ایک وہ جمہوریت ہے جس میں خلافت راشدہ جیسی مشاورت ، رائے کی آزادی اور عدل و انصاف ہے ۔ خاص طور پر حضرت عمر h کے دور میں اس کی بنیادیں نظر آتی ہیں۔اگرچہ ان سے پہلے خلافت راشدہ میں ایڈمنسٹریشن ، قانون سازی اور عدلیہ ایک ہی تھی لیکن حضرت عمرh نے ان کو علیحدہ کرکے باقاعدہ ادارے بنائے ۔ اسی طرح آپ نے پولیس ، ڈاک ، مارکیٹ کنٹرول سمیت بے شمار شعبہ جات قائم کیے ۔ آج آپ دیکھ لیجئے ساری اچھی چیزیں وہیں سے لی گئی ہیں ۔ ہمیں اصل میں اس طرح کا نظام چاہیے ۔
خورشید انجم: آپ نے سچ کہا کہ جمہوریت مغربی بے خدا اور بے دین تہذیب کی اختراع ہے۔ اصل میںاس کا تاریخی پس منظر دیکھا جائے تو یورپ جسے ڈارک ایجز کہتا ہے اس دور میں یورپ میں بادشاہت اور پاپائیت کا زمانہ تھا ۔ بادشاہ اور پوپ ایک دوسرے کو His Holinessاور His Majesty کے خطابات سے نوازا کرتے تھے ۔ اس زمانے میں یورپ کے جو لوگ بغداد اور اندلس کی مسلم یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرکے آئے انہوں نے یورپ میں بادشاہت اور پاپائیت کے تسلط کے خلاف ایک سوچ اُبھاری ۔ اس کے نتیجہ میں  یورپ میں ریفارمیشن اور Renaissanceکی تحریکیں اٹھی ہیں اور پھر وہ تبدیلی آئی ہے جس نے جمہوریت کو متعارف کروایا ۔ لہٰذا بنیادی طور پر جمہوریت اسلامی فکر اور تصورات کا ہی نتیجہ ہے۔یعنی مسلمانوں نے ہی اہل مغرب کو ڈارک ایجز سے نکالا۔ اسلامی تہذیب میں انسانی حریت ، اخوت اور مساوات کا جوطرزعمل تھا اُسی نے جمہوریت کی شکل اختیار کی لیکن بعدازاں مغرب نے اس کو بگاڑ دیا ۔
سوال:ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنے خطابات میں نظریاتی سیاست اور عملی سیاست میں فرق بیان کیا ہے ۔ جیسا کہ ڈاکٹر اسرار احمد ؒنے فرمایا:
’’کوئی باشعور مسلمان غیر سیاسی نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ خالص غیرسیاسی ہے تو بے شعور ہے ،کیونکہ دین کی حقیقت اس پر کھلی نہیں کہ اسے معلوم ہو کہ یہ بھی دین کا ایک شعبہ ہےجیسے:((الحیاء شعبۃ من الایمان)) اسی طرح السیاسۃ شعبۃ من الاسلام ہےالبتہ اس سیاست کی کچھ شاخیں ہیں ۔ ایک نظری سیاست ہے اور ایک عملی سیاست ہے ۔ نظری سیاست میں سب سے بڑا کردار صحافت ، میڈیا ، اہل فکر ودانش کا ہوتاہے جو حکمرانوں کو ایک خاص رُخ پر ڈالتے ہیں۔ کسی شخص کی کردار سازی ان کے ذریعے ہوتی ہے ۔ لہٰذا اصل سیاستدان وہ ہیں اگرچہ وہ عملاً سیاست میں نہیں ہوتے اور نہ ہی سیاستدان کہلائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ وہ الیکشن نہیں لڑتے اور نہ ہی حکومت یا اپوزیشن میں جاکر بیٹھتے ہیں ۔ میں نظری سیاست میں پہلے دن سے ہوں، تبصرہ کرتا ہوں، کتابیں لکھتا ہوں جو چیز صحیح ہے اس کی نشاندہی کرتا ہوں، اس کی تحسین اور اس کی تائید کرتا ہوں، جو میرے خیال میں غلط ہے ، اس کی نفی کرتا ہوں اور حکمرانوں کو مشورے دیتا ہوں کہ یہ کام نہ کیا جائے ۔ دوسری سیاست عملی ہے ۔اس کی مزید دو قسمیں ہیں ۔ ایک انقلابی سیاست ہے اور ایک انتخابی سیاست ہے ۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام ٹھیک ہے ، کہیں کوئی جزوی اصلاح کی ضرورت ہے جسے حکومت میں آکر ٹھیک کیا جا سکتا ہے تو وہ انتخابات میں حصہ لے ۔ جس کو عوام مینڈیٹ دے وہ حکومت میں آکر نظام چلائے اور جہاں اصلاحات کی ضرورت ہے وہ پوری کرے ۔ بنیادی طور پر انتخابی سیاست نظام کو چلانے کے لیے ہوتی ہے ۔ نظام بدلنے کے لیے نہیں ہوتی ۔ کیونکہ انتخابات کے ذریعے نظام چلایا جا سکتا ہے لیکن بدلا ہرگز نہیں جا سکتا ۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ ہمارے ملک کا نظام ہی غلط ہے ، اس کی بنیاد ہی غلط ہے ۔ اس کا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام ہی غلط ہے تو پھر اس کا عملی سیاست میں جانا وقت ضائع کرنا ہے ۔ وہ اپنا وقت اور پیسہ بھی ضائع کرے گااور کارکنوں کی صلاحیتیں ، جان ، مال بھی بے سود کھپائے گا ۔ اس صورت میں درست راستہ انقلابی سیاست کا ہے ۔ انقلابی سیاست یہ ہے کہ انقلابی نظریے کو پھیلایا جائے، جولوگ اس نظریے کو قبول کریں انہیں منظم کیا جائے ۔ ان کی تربیت کی جائے اور پھر جب ایک منظم اور تربیت یافتہ جماعت تیار ہو جائے تو وہ اس نظام کے ساتھ ٹکرائے ۔ اس لحاظ سے میں انتخابی سیاست سے تو باہر ہوں لیکن نظری اور انقلابی سیاست میں تو میں نے اپنی زندگی لگادی ہے ۔ چاہے اس کا کوئی نتیجہ ظاہر نہ ہوسکے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ ‘‘
یہ ڈاکٹر صاحبؒ کا مؤقف ہے جبکہ اس کے برعکس آج کل ایک رائے یہ آ رہی ہے کہ انسان کو نیوٹرل ہونا چاہیے ، آپ اس بارے میں کیا فرمائیں گے ؟ 
خورشید انجم: ڈاکٹر صاحبؒ نے خود بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کو سمجھا دیا ہے ۔ اصل میں یہ ایک بڑی غلط فہمی میں کہہ دیا جاتاہے کہ سیاست بُری چیز ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور کی سیاست تو واقعی ایک سنڈاس بن چکی ہے ۔ ہمارے سیاستدان چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں ، جیسا ان کا کردار ہے ، جیسی گفتار ہے ، اس سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ سیاست ایک گندا جوہڑ ہے ۔ لیکن اصل سیاست کچھ اور چیز ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیاہے کہ :
((کانت بنواسرائیل تسوسھم الانبیاء)) بنی اسرائیل کی سیاست تو انبیاء کرتے تھے ۔
پھر اسی طرح شاہ ولی اللہؒ نے اپنی کتاب حجۃ البالغہ میں سیاست مدن کے عنوان سے ایک پورا باب شامل کیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کبھی بھی نیوٹرل نہیں رہے البتہ ون سائیڈڈ بھی نہیں رہے ۔ وہ فرماتے تھے ہو سکتا ہے میں غلطی پر ہوں ، اصلاح کی گنجائش ہر ایک کو ہوتی ہے لیکن وہ سیاسی معاملات میں کبھی خاموش نہیں رہے ۔ ان کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ جس پارٹی یا سیاستدان کا جو کام انہیں اچھا لگا ہے اس کی انہوں نے تائید کی ہے اور جہاں برا لگا ہے اس کی مخالفت سرعام کی ہے ۔ان کی اپنی رائے تھی جو کسی عوامی رجحان یا ہجوم کے زیر اثر نہیں تھی بلکہ وہ حق بات کی تلاش میں رہتے تھے اور وہی بیان کرتے تھے۔ جیسا کہ بھٹو کے خلاف جو نظام مصطفیٰ کی تحریک چلی تھی تو انہوں نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ یہ اینٹی بھٹو تحریک ہے ، اس کا نظام مصطفیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ پھر یہ بات ثابت بھی ہوگئی ۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد جب مشرف نے علماء اور مشائخ کا اجلاس بلایا تھا تو ڈاکٹر صاحبؒ  نے اس کے منہ پر جاکر ساری باتیں کہہ دی تھیں جو حق پر مبنی تھیں ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک مسلمان کو سیاست سے الگ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سیاست دین کا حصہ ہے ۔
سوال: ڈاکٹر صاحبؒ نے انقلابی سیاست کےمختلف مدارج اور اس کے مختلف stages بتائے ہیں ۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا :
’’انقلابی سیاست تین چیزوں کا نام ہے ۔پہلے ذہنی اور فکری انقلاب لایا جائے، ہر نظام کسی فکر پر قائم ہوتا ہے۔ اس نظام کو بدلنا ہے تو متبادل فکر لائیے ۔وہ لوگوں کے ذہنوں میں اتاریے۔ نمبر دو۔ جب ذہنوں میں یہ متبادل فکر آ جائےگا تو ان کے اخلاق اور اعمال میں بھی انقلاب آ جائے گا، سوچ بدل گئی تو عمل بھی بدلے گا ۔ پہلے یہ دو کام ہیں کسی بھی انقلاب کے لیے۔البتہ یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ کبھی بھی یہ تبدیلی اکثریت میں نہیں آیا کرتی بلکہ ایک اقلیت میں آتی ہے۔ ان دو تبدیلیوں  کے بعد اب یہ اقلیت نظام کے ساتھ ٹکراؤ مول لیتی ہے ۔ لیکن اس سے قبل یہ اقلیت منظم ہو کر ایک تنظیم کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ جیسےآپ کہتے ہیں نا ایک اکیلا دو گیارہ ، تیسرا لگ گیا تو ایک سو گیارہ ،چوتھا لگ گیا تو ایک ہزار ایک سو گیارہ ،تنظیم اس کانام ہے۔ اس اعتبار سے وہ اقلیت منظم ہونے کے بل بوتے پر غالب آتی ہےاور نظام کو بدل دیتی ہے ۔ ورنہ کبھی بھی دنیا میں انقلاب اکثریت نہیں لاتی ۔ خود حضور ﷺ کے زمانے میں بھی (جب انقلاب آیا)پورے جزیرہ نما عرب میں اکثریت مومنین صادقین کی نہیں تھی۔ کیا روسی انقلاب کے وقت روس میں اکثریت کمیونسٹوں کی ہو گئی تھی؟آخری وقت تک نہیں ہوئی۔ پچیس لاکھ تیس لاکھ، کروڑوں کی آبادی میں کمیونسٹ پارٹی کے ممبرتو چند لاکھ ہی رہتے تھے۔لہٰذا انقلابی عمل میں کبھی اکثریت نہیں ہوا کرتی، اقلیت ہوتی ہے لیکن منظم ہو کر اور اپنی قربانی کے جذبے کے تحت وہ اکثریت پر غالب آ جاتی ہے ۔‘‘
ہماری سیاسی جماعتیں جب تبدیلی یا انقلاب کی بات کرتی ہیں تو ان کے پیش نظر یہ مدارج اور stages اس انداز میں نہیں ہوتے جس طرح ڈاکٹر صاحبؒ بیان فرما رہے ہیں آپ کے خیال میں ان کے پیش نظر تبدیلی کیسے ممکن ہے؟
ایوب بیگ مرزا: پہلے تو میں ایک بات پچھلے سوال کے حوالے سے عرض کرنا چاہوں گا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جیسے ڈاکٹر صاحبؒ نے کہا کہ ہر باشعور آدمی سیاسی ہوگا اور اگر وہ سیاسی نہیں تو وہ باشعور نہیں ۔یہی بات میں جماعتوں کے حوالے سے بھی کہتا ہوں کہ اگر وہ سیاسی نہیں تو باشعور نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں انقلاب کا لفظ بہت بدنام ہو چکا ہے اور بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ اسے جان بوجھ کر بدنام کیا گیا ہے ۔ اصل میں معاملہ یہ ہے کہ واقعتا اگر کوئی نظریاتی سطح پہ انقلاب آئے گا تووہ یقینا جیسے ڈاکٹر صاحبؒ نے فرمایا ہے کہ وہ اقلیت لائے گی، اکثریت اگر اس پر آ جائے گی تو انقلاب کی ضرورت کیا ہے؟ جہاں تک ہماری جماعتوں کا تعلق ہے تو اصل میں سوچ یہ بن گئی ہے کہ میری ذات میں انقلاب آ جائے، میرے خاندان میں انقلاب آجائے، میرے بزنس ، بینک بیلنس ، پراپرٹی اور ہر چیز میں انقلاب آجائے ۔ سب کی بات نہیں ہے ۔ ہر معاشرے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ خورشید انجم صاحب نے بھی فرمایا کہ جواس وقت کی سیاست ہے اس میں ساری توجہ اپنے اقتدار اورمال پر مرکوز ہو چکی ہے ۔ ان کے نزدیک تو یہی ہے کہ میرا بینک بیلنس بڑھ گیا ، میری باہر جائیدادبڑھ گئی تو یہی انقلاب ہے ۔
سوال:ڈاکٹر صاحب نے فرمایا تھا کہ سیاست عبادت کاجزو ہے اور اگر اس پہ اپنا اظہار خیال کرنا ہے اور اس کے پیچھے جذبہ خیر خواہی کا ہے تو اس سےبہتر کوئی بات ہی نہیں ہے : 
’’بخاری ومسلم دونوں میںحضرت جریر ابن عبداللہ h سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :میں نے رسول ﷺ سے بیعت کی تھی اس پر کہ نماز قائم رکھوں گا، زکوٰۃ ادا کرتا رہوں گا اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کروں گا۔یعنی ساری دعوت و تبلیغ،نصیحت، تعلیم، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا جذبہ محرکہ جو ہونا چاہیے وہ لوگوں کی خیر خواہی ہو ،آپ تنقید کر رہے ہیں تو خیر خواہی کے لیے کیجیے،کوئی حکمران ہو چاہے آپ کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو ، آپ اس سے متفق نہیں ہیں ، لیکن بالفعل حکمران ہو گیا ہے، توآپ اس کو بھی صحیح مشورہ خیرخواہی کے جذبہ کے ساتھ دیتے رہو اور غلط بات پر ٹوکتے رہو۔ اصل میں یہ وہ عمل ہے کہ جو میں نے چونکہ جاری رکھا ہےپوری زندگی جب سے میں نے اپنی تنظیم اور جماعت کا سلسلہ شروع کیا ہے اس کے بعد سے اس پر کچھ ہمارے ساتھی ناراض بھی ہوتے تھے کہ آپ خواہ مخواہ مشورے دیتے رہتے ہیں ، آپ کا مشورہ سنتا کون ہے لیکن آپ کے مشوروں سے کبھی کوئی خوش ہو جاتا ہے تو کبھی کوئی ناخوش ہو جاتا ہے، عوام میںاُلٹے اثرات پیدا ہو جاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید آپ فلاں کی حمایت کر رہے ہیں اور وہ عام لوگوں کے نزدیک کوئی پسندیدہ شخصیت نہیں ہوتی ۔چنانچہ اپنے رفقاء کے ہاں بہت عرصے تک اس پر میری مخالفت ہوتی رہی جب تک کہ میں نے بات کو کھول کھول کر بیان نہیں کر دیاجیسا کہ آپ کے سامنے بھی بیان کر رہا ہوں کہ سیاست میرے نزدیک عبادت کا جزو ہے، سیاست عین عبادت ہے جس کے لیے میرے پاس جونص قطعی ہے وہ حدیث نبوی ﷺ ہے: ((کانت بنواسرائیل تسوسھم الانبیاء کلماھلک نبی وخلفہ نبی ))بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے۔ جب بھی کوئی نبی فوت ہو جاتا تھا ،دوسرا نبی ہی اس کی جگہ پر قائم مقام ہو جاتا تھا تو یوں سمجھ لیجیے جو کام نبیوں نے کیا ہو ( اس کی کیسے نفی کی جاسکتی ہے ) اورپھر ہمارا دین توہما پہلو ہے ، اس میں انسانی زندگی کے سارے شعبے شامل ہے، کیسے ممکن ہے کہ سیاست جیسا اہم شعبہ اس سے باہرہو۔‘‘
یہ ڈاکٹر صاحب کا موقف تھاکہ جب سیاست میں کوئی بات کرنی ہو تو خیرخواہی کے جذبہ کے تحت کی جانی چاہیے
لیکن ہمارے ہاں دیکھنے میں یہ آ رہا ہے اور خاص طور پہ سوشل میڈیا پر سیاسی مخالفت اور تنقید اپنی شدت میں ایسی شکل اختیار کر گئی ہے کہ الامان و الحفیظ ۔ یعنی معاملات برداشت سے باہر ہو گئے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی محفل میں بھی جب سیاسی موضوع ڈسکس ہوتا ہے تو بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ آپ کے خیال میں یہ رجحان کس طرف بڑھ رہا ہے اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
خورشید انجم: اس وقت بڑی ہی افسوسناک صورتحال ہے اور چونکہ سوشل میڈیا پر ہر ایک کو اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کہہ دے یا چلا دے۔ اب اس میں نصح و خیرخواہی والی کوئی بات نہیں رہی بلکہ سب ہی اس حمام میں ننگے ہو چکے ہیں ۔ ہربندہ اپنی پارٹی اور اپنے لیڈر کی ہربرائی سے صَرف نظرکر رہا ہے بلکہ اس کو defend کر رہا ہے اور مخالف پارٹی اور اس کے لیڈرز کی ہر اچھائی پر تنقید کر رہا ہے ۔ پھر اس مقابلہ آرائی میں جس طرح کی بدتمیزی اور بدزبانی کا عنصر شامل ہوگیا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک ریوڑ اچانک کھل جائے اور پھر کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتا ۔ خاص طور پر جو نوجوان ہیں ان کی تو کوئی تربیت ہی نہیں ہے بلکہ بڑے بھی اس کا شکار ہیں البتہ کچھ نہ کچھ برداشت ہے لیکن چھوٹے تو اپنے آپ کو سراپا حق سمجھ رہے ہیں اور دوسرے کو سراپا باطل سمجھ رہے ہیں ۔ اس طرح وہ اس کو حق اور باطل ، کفر اور اسلام کی جنگ بنا رہے ہیں ۔ حالانکہ یہ totally اقتدار کی جنگ ہے ۔ ہر ایک کوشش کر رہا ہے کہ میں کسی طرح اقتدار میں آؤں اس کے لیے یہ ساری کوشش ہو رہی ہے ۔اصل میں جیسا کہ ڈاکٹر صاحبؒ نے فرمایا کہ سیاسی مخالفت یا حمایت نصح و خیرخواہی کے جذبہ کے تحت ہونی چاہیے ۔ اگر یہ نہیں ہوگا تو پھر وہی ہوگا جو ہو رہا کہ جن بوتل سے باہر آگیا ہے اور اب اس کو قابو کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ سیاسی قائدین کو اس پر اب سوچنا چاہیے اور قوم کی احسن انداز سے تربیت کرنی چاہیے ۔
سوال:ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے الیکشن کے ذریعے اسلام نہیں آ سکتا، وہ انقلابی راستے سے ہی آسکتا ہے : 
’’آج کے دور میں دو شکلیں ہو سکتی ہیں آخری اقدام کی، ballotیاbullet کے ذریعے سے۔ اگر واقعتاً ملک کی فضا اتنی ہموار ہو چکی ہے اور کوئی جماعت عوام کی توجہ کی اتنی مرکز بن چکی ہے کہ اُس سے عوام غلبہ دین کی توقع کر رہے ہوں اور ایک الیکشن میں ہی سویپ کرکے اپنی اکثریت حاصل کر لے تو اس کے ذریعے سے بھی اسلام نافذ ہو سکتاہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو پانچ چھ دینی جماعتیں ہیں (جے یو آئی ، جے یو پی ، ان کے مختلف دھڑے ، جماعت اسلامی ، جمعیت اہل حدیث وغیرہ)۔ یعنی اسلام کے نام پر ووٹ مانگنے والے بہت ہیں (لہٰذا ووٹ تقسیم ہو جاتا ہے ۔ ایسی کئی وجوہات کی بناء پر ) ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کے ذریعے اسلام کا آنا ناممکنات میں سے ہے ۔ دوسرا راستہ ایجی ٹیشن کا ہے ،نہی عن المنکردینی فریضہ ہے ، منکرات کے خلاف کھڑے ہو جاؤ ، کہو کہ یہ چیزیں حرام ہیں ان کو بند کرو ، اس بنیاد پر ایک پُرامن اور منظم ایجی ٹیشن (جو کہ خالصتاً دینی مسئلے پر ) ہو تو کچھ جانیں دینے کے بعد بہرحال پھر حکومت اس جائز مطالبہ کو ماننے پر مجبور ہو جائے گی اور پھر اس ذریعے سے اسلامی نظام آ سکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب ؒکے اس مؤقف کے تناظر میں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کسی تبدیلی یا انقلاب کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ؟
خورشید انجم:ڈاکٹر صاحبؒ نے خود ہی وضاحت کر دی ہے کہ الیکشن کے ذریعے تبدیلی تب آسکتی ہے جب ایک ہی الیکشن میں کوئی جماعت سویپ کرجائے ۔ پھر انہوں نے کہا کہ اس کے لیے کوئی ایسی جماعت ہو جو عوام کی توجہ کا مرکز ہو لیکن اس وقت تو دینی جماعتیں مزید دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہیں لہٰذا وہ معاملہ مزید دور ہو گیا ہے ۔درست راستہ اب وہی ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحبؒ نے فرمایا کہ منکرات کے خلاف ایک پُرامن اور منظم احتجاجی تحریک چلائی جائے ۔ ایسا دنیا میں ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے ۔ ہماری دینی جماعتوں نے بھی کئی مطالبات اس طریقے سے منوائے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے کہ مظاہرہ ایسا ہو کہ ایک گملا تک نہ ٹوٹے ۔ وہ تو یہاں تک بھی کہتے تھے کہ مظاہرہ ہوا لیکن توڑ پھوڑ کوئی اور کر گیا تو ایسی جماعت کو پھر کسی قسم کے جلوس یا مظاہرے کا حق ہی نہیں ہے۔ البتہ پُرامن اور منظم احتجاجی تحریک ہو تو ان شاءاللہ وہ تحریک آہستہ آہستہ آگے بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں انقلاب آئے گا۔
سوال:تنظیم اسلامی ڈاکٹر صاحبؒ کے اسی موقف کو لے کر ابھی بھی چل رہی ہے یا اس میں حالات کے مطابق کوئی تبدیلی آپ کو فیزیبل نظر آ رہی ہے؟
ایوب بیگ مرزا: اصل میں میںیہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحبؒ نے جو احتجاجی تحریک کا نظریہ پیش کیا ہےوہ اب بھی قابل عمل ہے ۔ اس وقت لوگ ہر شے سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔اگر ایسی کوئی تحریک چلائی جائے گی تو اس کو عوامی حمایت حاصل ہوگی ۔
سوال: احتجاجی تحریکیں پاکستان میں پچھلے پانچ سال، دس سال جتنی بھی چلی ہیں اُن کوتو crush کر دیا گیا ۔اگر ایسی کسی تحریک کا نمونہ ہمارے سامنے موجود ہو جو یہاں کامیاب ہوئی ہو تو پھرہم سمجھیں گے کہ یہ ڈاکٹرائن فیزایبل ہے مگر ہمیں تو ایسی کوئی نظیر نظر نہیں آتی ؟ 
ایوب بیگ مرزا: ہمارے سامنے ایک مثال تو تحریک پاکستان کی ہے ۔ لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان بن جائے گا لیکن1940ء کی قرارداد کے بعد کس طرح یہ تحریک کامیاب ہوئی یہ اللہ جانتا ہے۔ایک طریقہ تو وہی ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحبؒ نے فرمایا کہ ایک جماعت ایسی ہو جس پر عوام کا اعتماد ہو اور ایک ہی الیکشن میں سویپ کر جائے۔ جیسا کہ عوامی لیگ نے بنگال میں  سویپ کیا تھا۔ تو اس کے ذریعے بھی اسلام آسکتا ہے بشرطیکہ وہ دینی جماعت ہو لیکن موجودہ دور میں ایسی کوئی پارٹی نظر نہیں آتی۔ اس کا کوئی دور دور تک امکان فی الحال نظر نہیں آتا ۔موجودہ حالات میں اصل طریقہ وہی ہے جو دوسرا طریقہ ڈاکٹر صاحبؒ نے بتایا کہ پُرامن اور منظم احتجاجی تحریک چلائی جائے ۔ آج ہو جائے یا دس سال بعد ہو یہ بات الگ ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی طریقہ کار نہیں۔ البتہ کل کیا ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی نہیں جانتا لوگوں کے دل پھر جائیں۔ ایک جگہ ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے ہیں کہ جمہوریت پاکستان کی ماں ہے اور اسلام اس کا باپ ہے ۔ اگر یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو پھر ان شاء اللہ پاکستان صحیح راہ پر گامزن ہو گا۔ اِس سے پاکستان کے موجود رہنے کا جواز بھی رہے گا اورپاکستان مستحکم بھی ہو گا لیکن جیسا کہ اس وقت انتشار چل رہا ہے ، عین ممکن ہے کہ اسی شر میں سے خیر نکل آئے ۔ یہ کچھ نہیں کہہ سکتے لہٰذا اس وقت جیسے کہتے ہیں :
Every thing is a Melting pot جب وہ ہے تواس سے کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔