پاکستان کی سلامتی کے لیے جمہوری تسلسل ضروری ہے
تاکہ بیرونی قوتوں کوہمیں نقصان پہنچانے کا موقع نہ ملے ۔
حقیقت میں پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لیے اسلام کا
نفاذ ضروری ہے جس کی بنیاد پر یہ بنا تھا ۔
ہمیں منکرات کے درمیان رہ رہتے ہوئے اپنی
عبادات پرمطمئن نہیں ہوناچاہیے
کیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا
فریضہ ادا کیے بغیر نجات ممکن نہیں
قیامت سے قبل کُل روئے زمین پربتمام وکمال اللہ کادین
غالب ہوگا۔ اُمت اس کی طرف کشاں کشاں جارہی ہے۔
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات
میز بان :آصف حمید
سوال:آپ پاکستان کی سیاسی صورت حال کے بارے میں کیارائے رکھتے ہیں ۔نیز اس کو بہتر بنانے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیاجاسکتاہے؟ (سیدعمربن ماجد)
امیرتنظیم اسلامی:پاکستان کی سیاسی صورت حال میں ہم دیکھتے ہیںکہ سیاستدانوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی عروج پرہے ۔ سیاسی اختلاف ہونا الگ شے ہے مگر اس کو دشمنی میں بدل دینا ، ذاتیات پر اُتر آنا ، یہاں تک کہ اخلاقی حدود کا پامال کر دیا جانا اورایسی زبان استعمال کرنا کہ شرفاء گھر میں بیٹھ کر نہ سن سکیں ، یہ سب نہیں ہونا چاہیے تھا مگر ہم اس سے بھی آگے جا چکے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ انانیت اورذاتیات کے معاملات اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے ہم کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں ہیں ۔ گزشتہ دنوں حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کی ہم نے تائید کی تھی کیونکہ پاکستان کی سالمیت کوجوخطرات لاحق ہیں ان سے نبردآزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اتفاق رائے سے آگے بڑھا جائے۔ سب کی رائے ہے کہ انتخابات ہونے چاہئیں لیکن کوئی فوری کرواناچاہتا ہے اورکوئی تھوڑی دیر کے بعد، اتفاق رائے سے ایک وقت کا تعین کر لینا چاہیے تاکہ جمہوری نظام چلتا رہے ۔ اس حوالے سے ہماری رائے دواعتبارات سے ہے ۔بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ فرماتے تھے کہ ایک ہمارا جسم ہے اور ایک روح ہے ۔ جس طرح جسم کو برقرار رکھنے کے لیے آکسیجن ، غذا ، پانی وغیرہ ضروری ہوتے ہیں اسی طرح روح کے لیے ایمان اور اس کے تقاضوں پر عمل ضروری ہے تاکہ ہم آخرت میں کامیاب ہو سکیں ، جہنم کی آگ سے بچ سکیں ۔ بعینہ یہی صورت حال پاکستان کی ہے جس کی سالمیت کے لیے جمہوریت ضروری ہے تاکہ ملک میں انتشار اور خانہ جنگی نہ ہو ، معاملات چلتے رہیں ، خاص طور پر بیرونی طاقتوں کو ہمیں نقصان پہنچانے کا موقع نہ ملے۔لیکن اس کے استحکام اور بقاء کے لیے اسلام کا نفاذ ضروری ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پرحاصل کیا گیا۔ مختلف علاقوں ، ثقافتوں ، زبانوں اور نسلوں کے لوگ اسلام کی بنیاد پر جمع ہو کر پاکستانی قوم بنے ۔ یہ نظریہ جب کمزور پڑا تو 1971ء میں ملک دولخت ہوگیا ۔ اسی طرح اب بھی پاکستان کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کو بطور دین یعنی نظام نافذ کیا جائے ۔ یہ کام ہوگا تو اللہ کی مدد بھی ہمیں حاصل ہوگی ۔ بقول اقبال ؎
اپنی ملت پرقیاس اقوام مغر ب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐجب تک اسلام کا نظام قائم نہیں ہوجاتاہم چاہتے ہیں کہ جمہوری نظام چلتا رہے ۔جہاں پرایک درجے میں اظہار رائے کی بھی آزادی ہوتی ہے ۔ جوتنقید کرناچاہے گاوہ تنقید بھی کرے گااورجودین کی دعوت کاکام کرناچاہے گاوہ بھی کرسکے گا۔ جواقامت دین کی جدوجہد کرناچاہے گااس کے لیے بھی مواقع موجود ہوں گے ۔ہم چاہتے ہیں کہ آئین اور قانون پر عمل درآمد ہو۔ ہمارے آئین میں کتاب وسنت کی بالادستی کاذکر بھی ہے گویاکہ ہم نے آئین کوکلمہ پڑھارکھاہے لیکن بقول ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کچھ چور دروازے بھی اس میں موجود ہیں جن کی ہم نفی کرتے ہیں۔ لیکن باہمی سرپٹھول کامعاملہ ،اخلاقیات کوپامال کرنا، ذاتی دشمنیاں نکالنا، انانیت وغیرہ نہیں ہوناچاہیے بلکہ لچک دکھا کر مذاکرات کے ذریعے کوئی راستہ اختیار کرلیاجائے تاکہ موجودہ ہیجانی کیفیت کاسلسلہ ختم ہو۔البتہ منافقانہ طرزعمل نہیں ہونا چاہیے ۔ حدیث میںمنافق کی چار علامات بیان ہوتی ہیں۔ جھوٹ، وعدہ خلافی، خیانت اور گالم گلوچ۔ یہ آج ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے جو ہمارے سیاستدانوں ، سرمایہ داروں اور عوام میں نظر آئے گا ۔ بدقسمتی سے بعض اوقات ہمارے دینی سیاسی حضرات کی زبان بھی ایسی ہو جاتی ہے جس کی دین اجازت نہیں دیتا لیکن یہ سارا کچھ ہو رہا ہے ۔ ہم نے بحیثیت قوم اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ہمیںعلیحدہ ملک عطا فرمائے گا تو ہم تیرے دین کو نافذ کریں گے مگر ملک بننے کے بعد ہم نے اللہ کے ساتھ بھی وفاداری نہیں کی ، اسلام کے نظام کے قیام کی طرف پیش رفت تودور کی بات ہے ،ہم نے پہلے ریورس گیئر لگائے اور اب توہم باغیانہ سرکشی کی روش پرآگئے اورایسے ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جو شریعت کے احکامات کے عین خلاف ہیں۔ بہرحال سیاسی انتشارہو، معاشی تباہی ہو، اخلاقی زوال ہو، ان سب مسائل کی اصل وجہ ایمان کے تقاضوں پر عمل پیرا نہ ہونا ہے۔ جب ہم اسلام کو قائم کرنے کی طرف پیش رفت نہیںکریںگے تو ہمارے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ چنانچہ تنظیم اسلامی انتخابی سیاست کاحصہ نہیںبنتی مگر وہ سیاست پرکلام کرتی ہے، تبصرے کرتی ہے ،نصح و خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ مشورے بھی دیتی ہے۔ معاملات کے سدھار کے لیے لوگوںسے درخواست بھی کرتی ہے تاکہ ملکی سالمیت قائم رہے۔لیکن ہم انقلابی جدوجہد کے پیش نظرمنہج انقلاب نبوی ﷺ کوسامنے رکھتے ہوئے تحریک کے راستے اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں اوراسی کی دعوت دے رہے ہیں ۔
سوال: کیاتنظیم اسلامی پی ٹی آئی یاکسی بھی سیاسی جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے ؟
امیرتنظیم اسلامی:تنظیم اسلامی کے تحت حالات حاضرہ کے تناظر میں پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے ، خطاب جمعہ میں بھی کلام ہوتاہے ،پالیسی سٹیٹمنٹ جاری ہوتی ہے ، ٹویٹس کیے جاتے ہیں ۔ حالات حاضرہ میں معاشی مسائل،دہشت گردی پربھی ہم کلام کرتے ہیں۔ اگر حکمرانوں کی طرف سے کوئی خیر کی بات آئے گی توتعاونوا علی البروالتقویٰ کے اصول کے تحت ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر وقت کے حکمرانوں کے بیانات یااعمال شریعت کے خلاف ہوں تونصح وخیرخواہی کاتقاضا یہ ہے کہ ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان کے اصول کے تحت ان کو متوجہ کیاجائے ۔اللہ ہمیں یہ توفیق دے کہ ہمارااس مؤقف کوپیش کرنے کاانداز ناصحانہ ہو،وہ مطلق انداز جوایک سیاسی گفتگو کا ہوتاہے وہ نہ ہو۔ا للہ اس سے ہمیںمحفوظ رکھے ۔ کچھ لوگ لاعلمی میں یہ سمجھتے ہیں کہ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ سیاست کے بارے میں بات ہی نہیںکرتے تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحبؒ کی وجہ شہرت خدمت قرآنی اوراقامت دین کی جدوجہد ہے لیکن ساتھ ساتھ حالات حاضرہ ، سیاسی صورتحال اور بین الاقوامی اور ملکی حالات کے بارے میں بھی ان کے بیانات ریکارڈ ہوتے تھے ۔ البتہ ڈاکٹر صاحبؒ کاخیال تھاکہ انتخابات کے ذریعے کبھی بھی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ ڈاکٹر صاحب ؒنے اس وقت بھی ٹی وی پر آکر گفتگو کی اوراس وقت انہوں نے کیمرہ استعمال کیا جب بہت سے دینی حضرات اس کے حق میں نہیںتھے۔ الحمداللہ ان کاماضی کابہت بڑا ورثہ آج ڈیجیٹل لیول پردستیاب ہے اورموجودہ سوشل میڈیا کے دورمیں جتنے لوگ ان کو سن رہے ہیں غالباً ان کی زندگی میں اتنے لوگوں نے ڈاکٹر صاحبؒ کو نہیں سنا ہوگا ۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ صرف ان کے دروس سنتے ہوںاورانہوں نے ان کے سیاسی تجزیے نہ سنے ہوں توا س وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہوں۔ ڈاکٹر صاحبؒ خطاب جمعہ میں حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے تھے اور بعض اوقات پورا خطاب ہی حالات حاضرہ پر ہوتا تھا ۔ جن لوگوں نے ان کے ان بیانات کو سناہے وہ بھی اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ سارا بیان بھی نصح وخیرخواہی کے جذبے کے ساتھ ہوتا تھا۔پھریہ کہ ان کابیان قرآن ،سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں ہوتا تھا ۔ لوگوںکو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر صاحب ؒکے ماضی کے حالات حاضرہ پرمشتمل خطابات کو سنیں۔ہمارادین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے توکیاہم سیاست کودین سے مائنس کرسکتے ہیں۔ اقبال نے فرمایا تھا ؎
جداہودیں سیاست سے تورہ جاتی ہے چنگیزیسیاست عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں انتظام چلانا۔شاہ ولی اللہ ؒکی کتاب ’’حجۃ البالغہ‘‘ میں سیاست ِمدن کے عنوان سے ایک پورا باب ہے۔دین سیاست کے حوالے سے پوری راہنمائی دیتاہے لہٰذا دین کا ایک داعی اوردین کادرد رکھنے والابندہ جودین کے لیے جدوجہد کر رہا ہے وہ کیسے اپنے آپ کو حالات حاضرہ سے علیحدہ کردے گا۔ وہ توچاہے گاکہ ان لوگوں تک اس کی بات پہنچے جن کواللہ نے کچھ اختیار دے رکھاہے ، ممکن ہے بعض اوقات ایسا کلام کسی سیاسی جماعت یا اس کے رہنما کے حق میں جائے گا اور کبھی اس کے خلاف بھی بات ہوگی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دین کے داعی نے اگر کسی سیاستدان کے اچھے کام کی تعریف کی ہے تو وہ لازماً اس کی پارٹی کا ہوگا اور جس کے برے کام پر تنقید کی ہے تو اس کا مخالف ہوگا ۔ اس معاملے کو بھی تھوڑا ٹھنڈے دل سے دیکھناچاہیے۔ رائے میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ؒ خود فرماتے تھے کہ آپ میری سیاسی آراء سے اختلاف رکھ سکتے ہواوران پرتبصرہ بھی کرسکتے ہو،تنقید بھی کر سکتے ہو اور لوگ کرتے تھے ۔بعض مرتبہ ڈاکٹر صاحبؒ اپنی رائے سے رجوع بھی فرماتے تھے۔ پی ٹی آئی کے حوالے سے بھی ہمارا اصول وہی ہے کہ نیکی اورتقویٰ کے کاموں میں تعاون اوربرائی کے کاموں میںتعاون نہ کرنا۔ مثال کے طورپرڈاکٹر اسرار صاحب ؒ برسوںسے کہہ رہے تھے کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہے ۔ا ب اگر عمران خان کی طرف سے یہ بات آئے اورہم بھی بات کو دہرا دیں کہ ہمیں امریکہ کی مخالفت کرنی چاہیے ۔ اس پر کوئی کہے کہ تنظیم اسلامی PTI کی حمایت کر رہی ہے تو یہ اس کی اپنی سوچ ہے ۔ اسی طرح ہم برسوں سے سو د کے خلاف مہم چلارہے ہیں اوروفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا۔ اگر وزیراعظم شہباز شریف اوروزیرخزانہ اسحاق ڈار کابیان آئے کہ ہم سود کے خاتمے کے لیے کوشش کریں گے تویہ ہمارے دل کی بات ہے جس کی ہم تائید کریں گے۔ لیکن اگر لوگ سمجھیں گے کہ آپ نے شہباز شریف کی حمایت کردی تو یہ ان کی سوچ ہے۔اس طرح عمران خان نے یواین اومیںاسلاموفوبیا کے مسئلے کو اٹھایا جس کی ہم نے تائید کی ۔ اگر نواز شریف ایسا کرتے تو ہم اس کی بھی تائید کرتے۔ خداکی قسم! ہمیںدین چاہیے، چاہے کوئی بھی نفاذ کے لیے کام کرے۔ ہم نے عمران خان سے ملاقات کی تھی اس پربھی لوگوں نے باتیں بنائی تھیں۔لیکن اس ملاقات میں ہم نے عمران خان سے کہا تھا کہ آپ ریاست مدینہ کانام لیتے ہیں لیکن آپ کے جلسوں میں کیاہورہا ہوتاہے ؟ یعنی اگر کوئی اچھاکام کرے گاتوہم اس کی تحسین کریں گے لیکن اگرآپ کے جلسوں میں ڈانس ہواورگانے بجیں توہم اس کی مذمت کریں گے اورہم نے مذمت کی۔ اگر دینی سیاسی جماعت کے لوگ کبھی نازیبا زبان استعمال کریں گے تو ہم اس کی بھی مذمت کریں گے ۔اس سارے تناظر میں ہم کھلے دل سے کہتے ہیں کہ اگر ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمارہے ہیں کہ میرے سیاسی تبصروں سے آپ اختلاف کرسکتے ہیں توہم اس اختلاف کے ساتھ چل سکتے ہیں ۔ ہمارا اتفاق اس بات پرہے کہ اقامت دین کی جدوجہد کوہم فرض سمجھتے ہیں۔ خود اللہ کی بندگی کرنا،بندگی کی دعوت دینا ،بندگی والانظام قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ، اس کے لیے منہج مصطفیٰﷺ کوسامنے رکھنا اور بیعت کی بنیاد پر جماعت قائم کرنا اور نفاذاسلام کے لیے تحریک چلانا ہمارا بنیادی مشن ہے ۔
سوال: لوگ ریاست مدینہ کالفظ استعمال کرتے ہیں خلافت اسلامیہ کالفظ کیوں نہیں استعمال کرتے ؟
امیرتنظیم اسلامی:جب ریاست مدینہ کالفظ استعمال ہوتاہے توغالباًبعض لوگوں کے ذہن میں مدینہ شریف کی نسبت ہوتی ہے۔ جیسے بعض لوگ نظام مصطفیٰ ﷺ بھی کہتے ہیں توریاست مدینہ بھی کہاجاسکتاہے اور خلافت اسلامیہ بھی کہاجاسکتاہے ۔اس حوالے سے ایک اصول ذہن میں رکھیں ۔ڈاکٹر صاحبؒ نے منہج انقلاب نبوی ﷺ کے ذیل میں اس کی وضاحت کی ہے ۔جب ہم اسلامی انقلاب کہیں گے تومراد یہ ہوگی کہ حاکمیت اللہ کی ہو ،کتاب وسنت کی بالادستی ہو اور کوئی قانون کتا ب وسنت کے خلاف نہیںہوگا۔ ان اصولوں کے مطابق نظام چلالیں اور اس کو اسلامی انقلاب کہہ لیں ، اسلامی نظام کہہ لیں یا جو بھی نام دے دیں ۔ البتہ خلافت قرآنی اصطلاح ہے جس کو ہمارے خلفاء نے استعمال بھی کیا۔ اس کوہمیںپروموٹ کرناچاہیے ۔بس ایک خیال رہے کہ اگر کبھی کسی اصطلاح کے استعمال کے ذیل میں شبہات آسکتے ہوں تواس کاہمیں جواب دیناچاہیے ۔ کیونکہ بعض لوگوں نے لفظ خلافت کو بھی بدنام کرڈالاتوکبھی کبھی ہمارے مسلمان بھائی بھی کہہ دیتے ہیں کہ اچھاہے کہ یہ لفظ استعمال نہ کریں۔سوال یہ ہے کہ اگر ہم استعمال نہ کریں تو کیاقرآن سے بھی ہٹادیںگے ؟ قرآن میں ارشاد ات موجود ہیں کہ :
{وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓـئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط}(البقرہ:30)’’اور یاد کرو جب کہ کہا تھا تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ۔‘‘
{وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ } (النور:55) ’’اللہ کا وعدہ ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں‘کہ وہ ضرور انہیں زمین میں خلافت (غلبہ) عطا کرے گا ۔‘‘
البتہ اگر کوئی اصطلاح کتاب وسنت والی نہیں ہے ،اس کو استعمال نہ کیاجائے توبہتر ہوگا۔ یہی معاملہ ریاست مدینہ کی اصطلاح کے استعمال میںہے ۔ اگر کوئی ریاست مدینہ سے یہ مراد لیتاہے کہ وہاں یہودیوں کا قانون بھی چل رہا تھا اور ہمارا بھی چل رہا تھا تو اس سے کوئی مسلمان اتفاق نہیں کرے گا ۔ لیکن اگر کوئی ریاست مدینہ کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کرنا چاہتا ہے تو وہ ریاست مدینہ کی اصطلاح استعمال کرے لیکن اس کی پوری وضاحت ضروری ہوگی کہ اس سے مراد کیاہے ۔
سوال:سورۃ البقرۃ کی پہلی آیت کے مطابق قرآن متقین کے لیے ہدایت ہے۔ جبکہ ہدایت کی ضرورت تو گمراہ کوہوتی ہے متقی توپہلے ہی سے ہدایت پرہوتاہے ۔ اس کی وضاحت فرما دیں ؟(حافظ طیب ،وزیر آباد)
امیرتنظیم اسلامی:اس سے ملتا جلتا سوال ایک ہندو نے ڈاکٹر صاحب ؒ سے کیاتھاکہ قرآن ایک جگہ کہتاہے: (ھدی للناس)قرآن لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ لیکن دوسری جگہ یہ بھی فرماتاہے:(ھدی للمتقین) قرآن متقین کے لیے ہدایت ہے توکیا قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے یامتقین کے لیے ؟اس کا جواب یہ دیاگیاکہ Potentiallyقرآن پاک سب کے لیے ہدایت ہے مگر یہ ہدایت ملے گی اُسی کو جس کے دل میں تھوڑا بہت بھی رب کا خوف ، تقویٰ ، ڈر ہوگا ۔ جیسے سورج کی روشنی سب کے لیے ہے جوچاہے فائدہ اٹھائے لیکن جو کھڑکیاں دروازے بند کرلے تو اس کو روشنی نہیں ملے گی۔اسی طرح قرآن کی روشنی توموجود ہے جوچاہے فائدہ اٹھالے مگر دل کاسوئچ آف ہو تو وہ محروم رہے گا ۔ابولہب کاآف تھاتوہدایت نہیں ملی ۔ لیکن حضرت سلمان فارسیh کا آن تھا تواللہ نے حضورﷺ کے قدموں میںپہنچا دیا۔یہاں سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ ہدایت کی ضرورت تو گمراہوں کو ہوتی ہے متقین تو پہلے ہی ہدایت یافتہ ہوتے ہیں ۔ یہاں ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کس درجے کی ہدایت مطلوب ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ جنت والوں کاترانہ حمدبیان فرماتاہے :
{ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ھَدٰىنَا لِھٰذَاقف }(الاعراف:43) ’’ اور وہ کہیںگے کل شکر اور کل تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچادیا۔‘‘
یعنی ہدایت وہ مطلوب ہے جو ہمیں جنت تک پہنچا دے ۔ یعنی وہاں پہنچنے تک ہم ہدایت کے محتاج ہیں۔ ہمارے انتہائی سینئر رفیق تنظیم ڈاکٹر عبدالسمیع صاحبؒ بڑا پیار انکتہ بیان کرتے ہیں کہ سورۃ الفاتحہ میں ہم دعا کرتے ہیں:
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَO}
قرآن اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کے ذریعے دیا اور ہدایت ہم تک حضورﷺ کے ذریعے پہنچی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(52)} (الشوریٰ) ’’اور آپؐ یقیناً سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔‘‘
حضورﷺ جب دنیا سے تشریف لے گئے توآخری نماز کی آخری رکعت میں بھی حضورﷺ نے یہ دعا تلاوت کی ہوگی کہ:
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَO}
جن کے ذریعے یہ ہدایت پہنچی وہ اگر اتنی دعاکررہے ہیں توہم گناہگاروں کوہدایت کے لیے کتنی دعا کی ضرورت ہو گی۔ اگلی بات یہ ہے کہ تقویٰ کے بھی درجات ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سورۃالمائدہ کا مقام بہت اہم ہے ۔ جہاں تین مرتبہ تقویٰ کا ذکر آیا ہے :
{اِذَا مَا اتَّـقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط} (آیت:93)
’’ جب تک وہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ‘پھر مزید تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لائیں‘ پھر اور تقویٰ میں بڑھیں اور درجۂ احسان پر فائز ہو جائیں ۔‘‘
ڈاکٹر صاحب ؒ نے اس کوحدیث جبرائیل سے جوڑااور اسلام،ایمان اوراحسان کاذکر کرکے اس آیت کی تشریح بیان فرمائی ۔گویاتقویٰ کے بھی درجات ہیں۔پھرسورۃ محمد میں فرمایا:
{وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَّاٰتٰىہُمْ تَقْوٰىہُمْ(17)} ’’اور وہ لوگ جو ہدایت پر ہیں اللہ نے ان کی ہدایت میں اور اضافہ کر دیا ہے اور انہیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرمایا ہے۔‘‘
یعنی متقین کوبھی مزید تقویٰ اورمزید ہدایت کی ضرورت ہے تاآنکہ اللہ اپنی رحمت سے انہیں جنت میںداخل فرمادے ۔
سوال:پاکستان میں منکرات کے درمیان رہ کرصرف عبادت اوردرس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے یہ خوف دامن گیر رہتاہے کہ اس طرح کہیں ہمارا انجام بھی دینی حمیت سے محروم اس متقی اور پرہیز گار جیسا نہ ہو جائے جس پرنافرمانوں سے زیادہ اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے ۔ آپ کے بقول پاکستان میں اقامت دین کے لیے ٹکراؤ موزوں نہیں۔ پاکستان میں کوئی بدر برپا کرنا اگر ممکن نہیں تو ان منکرات سے دور جاکر کسی صحرا میں پناہ گزین ہونا بھی ممکن نہیں ۔ کیا پاکستانیوں کے پاس ان منکرات کے درمیان بے غیرت بن کررہنے کے سواکوئی اورراستہ نہیں ہے ؟(امۃ الاحد صاحبہ)
امیرتنظیم اسلامی:یہ ایک بہن کی طرف سے بہت اچھاسوال ہے۔اس لیے کہ دین کے قیام کی جدوجہد میں اصلاً باہر کی ذمہ داری مردوں پرہے لیکن بعض مرتبہ مائیںایسی ہوتی ہیں جواپنے بیٹوں کو اس مشن کے لیے تیار کرتی ہیں اور کبھی بیویاں ایسی ہوتی ہیںجواپنے شوہروں کوتیار کرتی ہیں اورکبھی بہنیں ایسی ہوتی ہیںجواپنے بھائیوںکو تیار کر رہی ہوتی ہیں۔ جہاں تک ٹکراؤ کی بات کی ہے تو اس وقت ہم مسلمان معاشرے میں ہیں جہاںحکمران یاصاحب اختیار لوگ کلمہ گومسلمان ہیں ۔ یہ مسئلہ خروج کامعاملہ ہے اور مسئلہ خروج پر آج صرف تنظیم اسلامی ہی کلام نہیںکرتی بلکہ اس پرہمارے اسلاف نے بھی کلام کیا ہے ۔ انہی آراء کی روشنی میں ہم بیان کرتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں اقدام جب ٹکرائو کی سطح پرآئے گا تو یہاں مسلح تصادم موزوں نہیں ہے ۔ اس لیے کہ قتال کی شرائط پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ دوسری بات ،جب اقدام کامرحلہ آئے گاتوہم جان لیںگے نہیں البتہ جان دینے کے لیے ہم تیار ہوں گے۔ جانیںدیے بغیراور خون بہائے بغیراگر اللہ کادین غالب ہو جاتا تو خون ِمحمد مصطفی ﷺ کا ایک قطرہ بھی اللہ بہنے نہ دیتالیکن آپ ﷺ کاخون طائف اوراحد میں بہا۔ بہرحال مسلم معاشرے میںہم اقدام کے اس مرحلے میں جان دینے کی بات کرتے ہیں جان لینے کی بات نہیں کرتے ۔ البتہ اس مرحلہ تک جماعت کی تیاری ہمارے پیش نظر ہے ۔درحقیقت منکرات کے درمیان میں رہ کر اپنی عبادات پرمطمئن نہیںہوناچاہیے ۔ غالباً اس حوالے سے انہوںنے جس حدیث کاحوالہ دیا ہے وہ اس طرح سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو۔ فرشتہ واپس آکر کہتاہے کہ اے اللہ !وہاںتیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے پلک جھپکنے میں بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اللہ نے فرمایاکہ اس بستی کوپہلے اس پرالٹو پھر دوسروں پر کیونکہ ہماری نافرمانیاں ہوتی رہیںاوراس کے چہرے کا رنگ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ یہ حدیث ڈاکٹر صاحبؒ سورۃ العصر کے درس میں بیان کرتے تھے۔سبق یہ ہے کہ ہمیں برائیوں سے مصالحت نہیںکرنی۔ رسول اللہﷺ نے مکی دور میں رہتے ہوئے بتوں کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ آپﷺ نے اپنی 23سالہ جدوجہد میں 21 ویں برس جاکربتوں کوتوڑا۔ اس سے پہلے آپ ﷺ نے بتوں کو غلط کہا ہے، منکر کو منکر کہا ہے اور انہیں ایک لحظہ کے لیے بھی قبول نہیں کیا ۔ اگر مصالحت کی آفر آئی بھی تو آپ ﷺ نے لکم دینکم ولی الدینکا قرآنی حکم سنا دیا۔ حاصل کلام یہ کہ ہمیں اپنی ذات کی فوری فکر کرنی ہے ،اپنے دائرہ کار کی فکر کرنی ہے اوراپنے اس معاشرے کے اندر جہاں تک ہمارا بس چلتا ہے وہاں تک ہم مکلف ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ تم بدی کودیکھوتوہاتھ سے بدل دو، اگر ہاتھ سے بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے تو زبان سے بدلنے کی کوشش کرو اور اگر ا س کابھی اختیار نہیں تودل میں برا جانولیکن یہ ایمان کاکمزور ترین درجہ ہوگا۔اگر مفاہمت شروع ہوگئی توپھرمنکرات کوبرا کہناتودور کی بات ہے بلکہ بندے خود منکرات میںمبتلا ہوجائیں گے ۔ جیسے کہ حدیث میں بنی اسرائیل کاذکرآتاہے کہ وہ اول اول منکرات سے روکتے تھے، اس کے بعد روکناچھوڑ دیا، انہی کے ساتھ رہتے تھے ،کھاتے پیتے تھے اورپھران کے دل ان کی طرح ہوگئے جیسے وہ منکرات میںمبتلا تھے اسی طرح یہ بھی ہوگئے۔آج اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیںہے تو زبان سے بدی کوروکنے کی طاقت توہے ،دعوت دین کے مواقع ہیں ، جماعت سازی،کردار سازی ،جماعت کو منظم کرنے کے مواقع ہیں۔معاشرے میں لاکھوں کروڑوں افراد تک دین کوپہنچانے کے مواقع ہیں۔ یہ جو بس میں ہے ہم اتنے کے ہی مکلف ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط} (البقرہ:286)
’’اللہ تعالیٰ نہیںذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔‘‘
جوبس میں ہے وہ کرنے کی کوشش کریںگے تواللہ تعالیٰ وہ دن بھی عطا فرمائے گاجوبظاہر ہمارے بس میںنظر نہیں آ رہا۔ مسلمانوں کے معاشرے میں اگرچہ بدر تو نہیں سج سکتا لیکن فضائے بدر تو پیدا کی جاسکتی ہے ۔ بقول اقبال ؎
فضائے بدر پید اکرفرشتے تیری نصرت کو
اترسکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
مگر بدر میں جو313کھڑے ہوئے تھے وہ پہلے مکہ مکرمہ میں قرآن کے ذریعے تیار ہوئے تھے۔یعنی مکی دور کاجہاد قرآن کے ذریعے سے ہوا تھا۔اگراس کو بائی پاس کرکے ہم کوئی بدر برپا کرناچاہیںگے تویہ سنت رسولﷺ سے مطابقت نہیں ۔
سوال: اگر کوئی تحریک 30 یا40 سال میں اپنے اہداف حاصل نہ کرسکے تووہ ختم ہوجاتی ہے۔ کیا تنظیم اسلامی اس سے مستثنیٰ ہے ؟(شارق عبداللہ، کراچی)
امیرتنظیم اسلامی:اگر وسیع ترتناظر میں دیکھیں تو اللہ کے دین کے لیے محنت ایک مستقل عمل ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحبؒ کا کتابچہ ہے :تنظیم اسلامی کا تاریخی پس منظر، جس میں سابقہ امت مسلمہ بنی اسرائیل اور موجودہ امت کاایک موازنہ اورتاریخ پیش کی گئی ہے۔ اس کے ذیل میں ڈاکٹر صاحبؒ نے یہ بیان فرمایا کہ دین کا احیاء اب ہوناہے ۔ یعنی گولڈن دور رسول اللہ ﷺ کادور اورخلفائے راشدین کادور ہے۔ مگر قیامت سے قبل پوری زمین پربتمام وکمال اللہ کادین غالب ہوگا۔ اُمت اس کی طرف کشاں کشاں جارہی ہے۔ ابھی اس میں بہت سے نشیب وفراز آنے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ وہ احیاء کا عمل اتنا وسیع اور بسیط ہے کہ جس میں افراد اور جماعتیں توچھوٹی بات ہے، تحریکیںبھی کھپتی چلی جائیں گی اور احیاء کاعمل تدریجاً آگے بڑھتا چلاجائے گا۔ پھرڈاکٹر صاحبؒ نے یہ بھی فرمایاکہ ہم آج اور کل اپنے اپنے دور میں دیکھیںگے کہ مختلف گوشوںمیںمختلف جماعتیںکام کررہی ہیں ا ورکبھی کبھی ان کاکام ایک دوسرے کے بالکل متضاد نظر آئے گا لیکن جب آپ پورے کینوس کو دیکھیںگے تو ہر شے آپ کو اپنی جگہ فٹ نظرآئے گی۔ بہرحال اگر ہم اس پورے احیائی عمل کودیکھیںتوشاید صدیاں کھپ جائیں گی۔ واللہ اعلم!آپ نے سوال میں لفظ تحریک استعمال کیا۔میں تھوڑا سافرق کروں گا۔ تنظیم اسلامی ایک جماعت ہے اورمنہج انقلاب نبوی ﷺ کوسامنے رکھتے ہوئے اپنے تئیں ایک ایسی جماعت کو تیار کرنی کی کوشش کررہی ہے جوانقلابی جدوجہد کے ذریعے اللہ کے دین کو اولاًپاکستان اوربالآخر پوری دنیا میں غالب کرے ۔ اس منہج کے حوالے سے آپ حضورﷺ کے دور کو دیکھیں تودوبڑے بڑے ادوار نظر آتے ہیں ۔ ایک مکی دور ہے جس میں جماعت تیار ہوئی اورایک مدنی دور ہے جہاں پرباقاعدہ ٹکرائو کاعمل شروع ہوا۔ اس ٹکرائو کوتھوڑی دیر کے لیے فرق کرنے کے اعتبار سے ہم اقدام اور تحریک کہہ لیتے ہیں تو وضاحت ہو جائے گی کہ ایک جماعت تیار ہوگئی، تب وہ نظام سے ٹکرانے کے لیے تحریک کا آغاز کرے گی۔ ان شاء اللہ۔جہاں تک جماعتوں کے بوڑھا ہونے کا سوال ہے تو ظاہری بات ہے جب نتیجہ سامنے نہیںآتا تو بندے اور جماعت بے تاب ہو جاتے ہیں اور پھر وہ دائیں بائیں کے کاموں میں لگ جاتے ہیں جیسے کہ آپ نے خدمت خلق کی بات کہی یا رسومات کی اصلاح کے کام میںلگ جانا۔اس پرہم یہ ضرور کہیںگے کہ اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں کو اپنے اصل مقصد کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ فردکے پیش نظر تواللہ کی رضا اور آخرت کی نجات ہے۔جماعت اسی لیے بنائی جاتی ہے اور ہم جماعت میں اسی لیے شامل ہوتے ہیں تاکہ ہم اپنے اقامت دین کی جدوجہد والے فریضے کو بھی انجام دے سکیں۔یہ مقصد پیش نظر رہے گا تو بندے مضطرب نہیں ہوں گے اور نہ جماعتیں بوڑھی ہوں گی ورنہ بڑھاپا تودور کی بات ہے پھرجماعت موت کاشکار ہوجائے گی۔ اس سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے ۔
سوال:اگر میں ایک شخص کوایک لاکھ روپے بطور قرض دوںجس کواس نے ایک سال کے بعد واپس کرنا ہو اور ایک سال کے بعد ملک میں مہنگائی میںدس فیصد اضافہ ہوگیاتواس صورت میں واپس ملنے والی رقم ایک لاکھ کی بجائے نوے ہزار رہ گئی ۔ ایسی صورت میں کہوں کہ میں میر ا نقصان پورا کیاجائے تو مجھے مزید ملنے والادس ہزار سود کہلائے گا؟(شکیل زاہد)
امیرتنظیم اسلامی:اس کاایک بہت سادہ ساجواب یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ کل روپے کی قدر بڑھ جائے توکیاآپ لاکھ کی بجائے نوے ہزار لینا گوارہ کریں گے ؟فوراً جواب آئے گاکہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کامطلب ہے کہ مسئلہ روپے کی قدرنہیں بلکہ مسئلہ لالچ کا ہے کہ آپ کو کچھ ملنا چاہیے ۔ اگر آپ کوکچھ چاہیے ہے تو پھر آپ بزنس کریں ۔اللہ کیافرماتاہے :
{وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبوٰاط} (البقرہ:275)
’’حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور ربا کو حرام ٹھہرایاہے۔‘‘
اس کے لیے بہتر راستہ تجارت ہے ۔البتہ ایک نکتہ اہل علم نے بیان فرمایاکہ آپ یہ کرسکتے ہیں کہ آپ کسی کوقرض دے رہے ہیں توسونے کو معیار بنالیں کہ میںتمہیں آج دس گرام سونادے رہا ہوںاور تم ایک سال کے بعد دس گرام سونایااس کی رقم مجھے لوٹانا۔ اس کی توگنجائش بنتی ہے کیونکہ آپ نے اس کو ایکcommodity standard کے ساتھ نتھی کردیا۔
سوال:آپ ہرسال دورئہ ترجمہ قرآن QTV پر کرتے ہیں، مجھے اس چیز سے اختلاف ہے ۔ میں نے آج تک نہیں سناکہ کسی شخص کی زندگی چینلز پرقرآن سن کر بدلی ہو۔ بندکمروںمیںیہ ریکارڈنگ ہوتی ہے ان میں ویسے بھی تاثیر نہیںہوتی۔ تنظیم کوچاہیے کہ وہ اچھی اور پائیدار ریکارڈنگز خود کرے اور چینلز پرمہیاکرے۔کیاٹی وی چینل پردئیے گئے دروس قرآن زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں یاسامعین کے سامنے ؟(محمدرفیق، کراچی )
امیرتنظیم اسلامی:الحمدللہ!تنظیم اسلامی کے زیراہتمام پاکستان بھر میںکم وبیش 100 مقامات ہیں جہاں دورئہ ترجمہ قرآن یاخلاصہ مضامین قرآن کے پروگرامز ہوتے ہیں اورا ن میں حاضرین موجود ہوتے ہیں۔ میراگمان ہے کہ کراچی شہر میںان پروگراموں میں تقریباً پندرہ سے بیس ہزار لوگ موجود ہوتے ہیں ۔ ہم نے وہ پروگرام بند نہیں کیے۔ تحدیث نعمت کے طور پرعرض کردوں میںنے بھی بیس سال ایسے ہی دورئہ ترجمہ قرآن کرایا ہے۔ ۔ الحمدللہ! پھرکوروناوائرس کی وبا آگئی ۔کورونا میں تو فزیکلی نماز نہیںہورہی تھی تودورئہ ترجمہ قرآن کیسے ہوتا۔ پھر کوشش ہوئی اوراللہ نے کیوٹی وی والوںکے ذریعے ایک راستہ کھول دیااورا نہوں نے ہمیںرات ساڑھے نو سے بارہ کاوقت دے دیاجوکہ میڈیا کی زبان میں کہوں تو کوئی پرائم ٹائم نہیں ہے۔کیونکہ رمضان شریف میں پرائم ٹائم ہوتاہے سحری کا وقت یاافطار کاوقت۔ بہرحال کورونا کے دوتین سال اسی طرح گزر گئے ۔ اب معاملہ یہ ہے کہ Qtvپروگرام بند کرنے کو تیار نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ 150 ممالک میں پروگرام دیکھا جاتاہے ۔ ان میں سے بہت سے ممالک میں جہاںعوامی سطح پردورئہ ترجمہ قرآن کے پروگرام نہیںہوتے ان کو29راتوں میںقرآن پاک کے دورہ سے گزرنے کاموقع ملتاہے۔ بالخصوص خواتین اور بزرگ حضرات اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اب اگر ہم کہیںکہ ہم نہیںکریں گے تواس پرہمارا دل مطمئن نہیں ۔ ہم نے مشورہ بھی کیاتو فیصلہ یہی ہوا کہ اس پروگرام کوجاری رہنا چاہیے ۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیںہے باقی سب ہم نے چھوڑ دیا۔ خطبات جمعہ بھی جاری ہیں ، دروس قرآن بھی ہورہے ہیں ،رمضان میں دورہ ترجمہ قرآن بھی ہوتے ہیں ۔ الحمدللہ! اس میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہورہا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک نے ہمیں ٹی وی پر موقع دیا ، جب تک رب کو منظور ہوگا تو ہم اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ ان شاء اللہ!تنظیم اسلامی ہمیشہ سے ایسے پروگرامز محض اللہ کی رضا کے لیے کرتی رہی ہیں اور آئندہ بھی کرتی رہے گی ، اس سے کوئی مالی منفعت ہمارا مقصود نہیں ہے ۔ الحمد اللہ ۔
آصف حمید:ریکارڈنگ کے حوالے سے ان کی کچھ غلط فہمیاں ہیں۔اصل میں ٹرینڈ چینج ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا ہے ۔ اس میں یہ ہوتا تھاکہ فوکس دورہ کروانے والے کو کیا جائے۔ اس لحاظ سے ریکارڈنگ کی کوالٹی الحمدللہ ٹھیک ہے اورمزید بہتری کی کوشش جاری رہتی ہے ۔ میں اس حوالے سے کیوٹی وی والوںکا شکریہ ادا کرناچاہوںگاکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات کی توفیق دی۔کیونکہ اپنے چینل پرڈھائی تین گھنٹے لائیو دکھانا بہت مشکل ہوتاہے ۔ چینل والوں سے پوچھیں ان کی جان نکل جاتی ہے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ان کوجزائے خیر دے اوران کوہدایت دے کہ وہ باقی چیزیں بھی مکمل طور پر اسلام کے مطابق کریں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024