(اداریہ) G-20 - ایوب بیگ مرزا

8 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاG-20

جی 20 گروپ کا قیام 1999 ءمیں ہوا تھا جس کا مقصد معاشی معاملات پر رابطہ کاری تھا۔ 2007 ءکے عالمی معاشی بحران کے بعد اس فورم کو 2008 ءمیں سربراہان مملکت کے اکٹھ کا بھی درجہ دے دیا گیا۔ جی 20 فورم کے ایجنڈے میں اب اقتصادی معاملات کے علاوہ تجارت، ترقی، صحت، زراعت، انرجی، موسمیاتی تبدیلی اور انسداد کرپشن کے موضوعات بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس فورم میں ہر سال ایک ممبر اپنے ملک میں اس کا اجلاس منعقد کرتا ہے۔ جی 20 میں 19 ممالک اور یورپی یونین شامل ہیں۔ ان ممالک میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، جنوبی کوریا، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکیہ، برطانیہ، اور امریکہ شامل ہیں۔ بھارت نے یکم دسمبر 2022 ءکو جی20 کی صدارت سنبھالی تھی اور یہ رواں برس پہلی بار جی 20کے سربراہی اجلاس کی میزبانی انجام دے رہا ہے۔ بھارت ہمیشہ ایسے مواقع پر عالمی سطح پر بھرپور سیاسی مفادات سمیٹتا ہے۔ بھارت اس منصب پر 30 نومبر 2023 تک فائز رہے گا۔

ٹورازم کے فروغ کے لیے منعقد ہونے والے جی 20 کے اجلاس کے لیے بھارت نے اپنے تئیں یہ شاطرانہ چال چلی کہ اس کا اجلاس مقبوضہ کشمیر کے صدر مقام سری نگر میں رکھا جائے تاکہ جب دنیا کی سپر پاورز اور دیگر اہم ممالک کے مندوبین یہاں آ کر شرکت کریں گے تو گویا وہ اس متنازع خطے کے بھارتی علاقہ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دیں گے۔ کئی ہفتوں سے وادی کو فوجی قلعے میں تبدیل کر دیا گیا۔ فوجی و نیم فوجی دستے سری نگر کی سڑکوں پر سراغ رساں کتوں کے ساتھ گشت کرتے رہے۔ بے شمار شہریوں کو گرفتار اور نظر بند کر دیا گیا۔ شہریوں کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے مظاہروں سے دور رہنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ دنیا بھر سے تقریباً 61 غیر ملکی مندوبین اجلاس میں شرکت کے لیے سری نگر پہنچے ۔مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں جی20کا تین روزہ اجلاس سخت سکیورٹی حصار میں شروع ہوا۔ جی 20 کے مندوبین نئی دہلی سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سری نگر پہنچے ۔جی 20 کے مندوبین کے سری نگر پہنچتے ہی ان کے شیڈول میں تبدیلی کر دی گئی۔ بھارتی حکومت نے سکیورٹی خدشات کے باعث مندوبین کاسری نگر سے اکاون کلومیٹر شمال مغرب میں واقع صحت افزا مقام گلمرگ کا دورہ منسوخ کر دیا۔ پہلے شیڈول کے مطابق مندوبین 24مئی کا پورا دن صحت افزا مقام گلمرگ میں گزارنے والے تھے۔ اس سے قبل انہیں اُسی روز ڈل جھیل کی سیر کرائی گئی اور پھر سری نگر کے مضافات میں واقع داچھی گام نیشنل پارک کی سیر کرائی گئی۔

وادیٔ کشمیر میں قیام کے دوران انہیں ایک تقریب میں کشمیر کی منفرد دستکاریوں اور دوسری مصنوعات سے متعارف کرایا گیا اور کلچرل پروگرامز میں انہیں مدعو کیا گیا۔ سری نگر میں ہونے والے اجلاس کے دوران توجہ کا مرکز فلم ٹورازم رہا، جسے فروغ دینے کے لیے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے گزشتہ تین برس کے دوران کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔ ورکنگ گروپ کے اس اجلاس کے دوران رکن ملکوں اور دیگر شرکاء کو فلموں کی آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے جنت نظیر کہلائے جانے والے کشمیر کا انتخاب کرنے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی گئی۔ چین ، سعودی عرب ، ترکیہ نے اِس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا جبکہ مصر ، انڈونیشیا سمیت کئی ممالک کے نمائندے شریک نہیں ہوئے۔ اِن ممالک نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے متنازع علاقے میں منعقد ہونے والے جی 20 ٹوراِزم اجلاس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ چینی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بیان دیا کہ ’’چین متنازعہ علاقوں میں جی 20 کا کوئی بھی اجلاس بلانے کی بھرپور مخالفت کرتا ہے اور ایسی کسی بھی میٹنگ میں شرکت نہیں کی جائے گی۔ ‘‘
پاکستان نے سری نگر اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دو اور شہروں جموں اور لیہہ میں جی20 کی تقریبات کے انعقادپر اعتراض کیا۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر چونکہ ایک متنازع علاقہ ہے اس لئے بھارت یہاں اس طرح کے اجلاس اور تقریبات کا اہتمام کرکے اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر قراردادو ں، عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی کررہا ہے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ’متنازع علاقہ‘ ہے اور اس اجلاس کو سری نگر میں منعقد کر کے انڈیا نے ’جموں و کشمیر کی بین الاقوامی متنازع حیثیت‘ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ بھارت نے پاکستان کے اس اعتراض کے جواب میں کہا کہ جی20 اجلاس پورے ملک میں ہورہے ہیں اس لیے جموں و کشمیر اور لداخ میں ان کا انعقاد کوئی انہونی بات نہیں۔ اس لیے کہ پورا علاقہ بھارت کا ایک اٹوٹ اور ناقابلِ تنسیخ حصہ ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019ءکو مقبوضہ کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کردیا تھا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنا یا تھا، جسے متنازع ریاست کو ملک میں ضم کرنے کی طرف ایک بڑا اور اہم قدم خیال کیا جاتا ہے۔ کانفرنس کے انعقاد کیخلاف مقبوضہ اور آزاد کشمیر میں ہڑتال کی گئی۔ یورپ میں بھی مظاہرے ہوئے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کی جانب سے دی جانے والی کال پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہا کہ جموں و کشمیر میں کوئی بھی بین الاقوامی تقریب علاقے کی زمینی صورتحال کو تبدیل نہیں کرسکتی جہاں گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے لوگوں کو اپنے حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر بدترین ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی رہنما اور کشمیری رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کا کہنا تھا کہ بھارت کے زیر اہتمام کشمیر میں جی 20 اجلاس منعقد کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا۔انہوں نے کہا کہ جی 20 ممالک کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر اجلاس سے بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ نیویارک میں کشمیری نژاد امریکیوں کی بڑی تعداد نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جی20 اجلاس کے خلاف اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز کے سامنے مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر مقررین نے کہا کہ اجلاس کے انعقادکا مقصد اقوام متحدہ کی طرف سے اعلانیہ متنازعہ علاقے میں صورتحال کو معمول کے مطابق ظاہر کرنا ہے۔سری نگر کے مختلف علاقوں میں بھارتی فوج نے دکانداروں کو طلب کر کے انہیں دکانیں کھولنے کی ہدایت کی۔ فورسز جی 20اجلاس کے وفود کی سکیورٹی کے نام پر گھروں پر چھاپے مارتی رہیں اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں کرتی رہیں۔ مقامی لوگوں نے میڈیا کو بتایا کہ بھارتی فوجی اہلکار ان کے گھروں میں گھس کر خواتین اور بچوں سمیت مکینوں کو سخت ہراساں کرتے رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا کوئی ملک بھی اُس وقت تک ایک زور دار اور متاثر کن مؤقف اختیار نہیںکر سکتا جب تک وہ اقتصادی اور سیاسی طور پر ایک مضبوط ملک نہ ہو اور اپنے پیارے وطن پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ یوں تو عرصہ دراز سے اِس کی حیثیت یہ ہے کہ نہ تین میں تیرا میں لیکن گزشتہ ایک سال میں اقتصادی بدحالی اور بدترین سیاسی انتشار نے اس کا کچومر نکال دیا ہے۔ ایک سال میں شرح نمو 6% سے گرتی ہوئی صفر پر آیا چاہتی ہے۔ چند ماہ پہلے تک ہم کہتے تھے کہ ہماری حالت سری لنکا جیسی نہ ہو جائے۔ آج ہم کہتے ہیں کہ کاش ہم سری لنکا جیسے ہی ہو جائیں، کیونکہ اس وقت پاکستان خطے کا غریب ترین ملک ہے۔ اُس کے باوجود ہماری سیاسی جنگ جاری ہے۔ ایک مضحکہ خیز جمہوریت ہم پر مسلط ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومتی بندہ اپوزیشن لیڈر ہے۔ ٹارگٹڈ قانون سازی ہو رہی ہے۔ عدلیہ کا حال یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کہتے ہیں کہ اُنہیں اُن کا گھر جلانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے حوالے سے چیف جسٹس کی بے بسی قابل دید ہے۔ نظرثانی کیس دیوانی کیس کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہ لطیفہ بھی ہوا ہے کہ جج ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے پر کہہ رہا ہے ’’میں نے تمہاری رہائی کا حکم دے دیا ہے لیکن جب تک تم پریس کانفرنس نہیں کرو گے تمہیں یہ لوگ چھوڑیں گے نہیں۔‘‘ اس پر جن ممالک کو بنانا ری پبلک کا طعنہ دیا جاتا ہے وہاں کے باشندے نیچے آنکھیں کرکے ہنستے ہوں گے اور اپنے آئینی اور قانونی ہونے پر فخر کرتے ہوں گے۔
اس پس منظر میں جب پاکستان جی 20 اجلاس کے سری نگر میں انعقاد پر اعتراض کرے گا تو وہ ایک مذاق ہی سمجھا جائے گا۔ بہرحال ایسا نہیں ہے کہ پاکستان آج جس حال کو پہنچا ہے وہ کسی ایک حکومت کا کارنامہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے جسے نہ ماننا ڈھٹائی ہوگی کہ آخری سال آخری حد کراس کر گیا۔ اس صورتِ حال میں پاکستان درج ذیل شعر کے پہلے مصرعہ کے مصداق اور بھارت دوسرے مصرعہ کے مصداق نظر آتا ہے۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے