(الہدیٰ) سُورۃُ النَّمْل (تمہیدی کلمات) - ادارہ

8 /

الہدیٰ

سُورۃُ النَّمْل (تمہیدی کلمات)

سورۃ النمل اس اعتبار سے پورے قرآن میں ایک منفرد سورت ہے کہ اس میںمکّی سورتوں کے تین مضامین یعنی التذکیر بآلاء اللہ‘ انباء الرسل اور قصص النّبییّن اکٹھے ہو گئے ہیں۔ ان میں سے دو مضامین پچھلی سورت یعنی سورۃ الشعراء میں بھی آئے ہیں۔ وہاں حضرت ابراہیمdکا تذکرہ قصص النّبییّن کے انداز میں ہے جبکہ باقی سورت پر انباء الرسل کا رنگ غالب ہے۔ اس کے مقابلے میں سورۃ النمل ان تین موضوعات کے تحت تقریباً برابر برابر تین حصوں میں تقسیم ہے۔ اس میں تین رسولوں (حضرت موسیٰ‘ حضرت لوط اور حضرت صالح ؑ )کے واقعات انباء الرسل کے انداز میں ہیں جبکہ حضرت سلیمان ؑ کا ذکر قصص النبییّن کی طرز پر ہے۔ آخر میں سورت کا تقریباً ایک تہائی حصّہ التذکیربآلا ء اللہ پر مشتمل ہے۔
آیت 1{طٰسٓ قف تِلْکَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتَابٍ مُّبِیْنٍ(1)} ’’ط‘س۔ یہ قرآن اور کتابِ مبین کی آیات ہیں۔‘‘
اگر ’’و‘‘ کو وائو تفسیری مانا جائے تو پھر ترجمہ ہو گا: ’’یہ قرآن یعنی کتابِ مبین کی آیات ہیں۔‘‘
آیت 2{ہُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ(2)} ’’یہ ہدایت اور بشارت ہے اہل ِایمان کے لیے ۔‘‘
آیت 3{الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ(3)} ’’جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا
کرتے ہیں اور وہی ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
یعنی آخرت پر ان کا پورا یقین ہے۔ سورۃ البقرۃ کے آغاز میں بھی متقین کی صفات کے ضمن میںعقیدۂ آخرت پر ایمان کے لیے لفظ ’’یُوْقِنُوْنَ‘‘ہی استعمال ہوا ہے۔دراصل انسان کے عمل اور کردار کے اچھے یا بُرے ہونے کا تعلق براہِ راست عقیدۂ آخرت کے ساتھ ہے۔ آخرت پر اگر یقین کامل نہیں ہے تو انسان کا عمل اور کردار بھی درست نہیں ہو سکتا۔

درس حدیث

دنیا کا غم

عَنْ اَنَسِ بِنْ مَالِکِ ؓ قَالَ رَسُوْْلُ اللہِﷺ :((مَنْ کَانَتِ الْاٰخِرَۃُ ھَمَّہٗ جَعَلَ اللہُ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہِ وَجَمَعَ لَہُ شَمْلَہُ وَأَ تَتْہُ الدُّنْیَا وَھِیَ رَاغِمَۃٌ وَمَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا ھَمَّہٗ جَعَلَ اللّٰہُ فَقْرَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَفَرَّقَ عَلَیْہِ شَمْلَہٗ وَلَمْ یَأْتِہٖ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا مَاقُدِّرَلَہٗ))(رواہ الترمذی)
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جسے سب سے زیادہ فکر آخرت کی ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اور اس کے اُلجھے ہوئے کاموں کو سُلجھا کر اس کے دل کو تسکین دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل و خوار ہو کر آتی ہے (یعنی دنیا کا مال و متاع جو اس کی قسمت میں لکھا ہے بغیر کسی شدید مشقت کے آسانی سے اس کے پاس پہنچ جاتا ہے )۔ جو شخص دنیا کے عیش پر مرمٹنے کا فیصلہ کر چکا ہو ، اللہ تعالیٰ اس پر محتاجی کو مسلط کر دیتا ہے (یعنی وہ محسوس کرتا ہے کہ میں لوگوں کا محتاج ہوں) اور اللہ تعالیٰ اس کے سلجھے ہوئے معاملات کو پراگندہ کر کے اُلجھا دیتا ہے( اس لیے وہ سکونِ قلب کی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے) اور دُنیا کا رزق (زیادہ نہیں بلکہ) اسے صرف اتنا ہی ملتا ہے، جتنا اس کے مقدر میں ہوتا ہے ‘‘۔