(دعوت فکر) یوم تکبیر… ایٹمی پاکستان کی سلور جوبلی - نعیم اختر عدنان

8 /

یوم تکبیر… ایٹمی پاکستان کی سلور جوبلی

نعیم اختر عدنان

پچیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ پاکستان نے دنیا ئے اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان مملکت خداداد اور عطیہ خداوندی ہے۔ اس کا قیام چار سو سالہ تجدیدی و احیائی مساعی کا مرہون منت ہے۔ پاکستان کا بننا غلبہ اسلام کی طویل اور عالمی و کائناتی سکیم کا حصہ ہے۔ اسی خطہ پاک سے تعلق رکھنے والی افواج ارض مقدس میں واقع بیت المقدس کو یہودی قبضہ سے آزاد کرائیں گی ۔یہودی قوم کے لیے علیحدہ وطن ’’اسرائیل‘‘ کا قیام ایک بیماری ہے جس کا علاج اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی صورت میں پہلے سے کر دیا۔ ایسی خوش کن باتیں، دلفریب کہانیاں اور جاں پُر سوزباتیں سن کر اور پڑھ کر بچپن سے جوانی اور اب جوانی سے پڑھاپا آن پہنچا ہے۔ علامہ محمد اقبال ؒ جیسے نابغہ روزگار اور اسلامی مفکر کا یہ مژدہ جانفزا ’’میرعرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے‘‘ بھی کانوں میں رس گھولتا اور دلوں کو سکون بخشتا ہے۔ اگر ہم اپنے محبوب اور پیارے وطن کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو موجود لمحے میں ہم بحیثیت قوم 75 سالہ سفر طے کر کے پلاٹینم جوبلی‘ منا رہے ہیں ۔ تاریخ کے جھروکوں سے کچھ خوشگوار واقعات کا کھوج لگایا جائے تو قیام پاکستان کے ڈیڑھ سال بعد ہی دستور ساز اسمبلی نے ’’قرار داد مقاصد‘‘ کی منظوری سے اللہ تعالیٰ کے حق حاکمیت کو آئینی طور پر ریاست و مملکت کی سطح پر تسلیم کرکے عملاً یہ نعرہ مستانہ بلند کردیا کہ ؎
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بتان آزری
تب سے اب تک ریاست پاکستان کے ہر دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی کا یہ اعلان و اعتراف موجود ہے۔ 1973ء میں ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کی قیادت نے جو دستور تشکیل دیا تھا، اُس میں نہ صرف اسلامی دفعات کو شامل کیا گیا بلکہ آئینی طور پر ملک کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار پایا۔ اسی عہد حکومت میں 9 ستمبر1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے گلستان محمدی ﷺ کے عقیدہ ختم نبوت میں ضرب لگانے والے قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ اسی سال1974ء کو ’’شرارِبولہبی‘‘ کے پیروکار بھارت نے اسلام دشمن طاقتوں کے عملی تعاون سے راجستھان کے صحرامیں (مسکراتا بدھا) (Smilingbhudha)کے کوڈ نام سے ایٹمی دھماکہ کر کے خود کو ایٹمی صلاحیت کے حامل ممالک امریکہ، روس، برطانیہ ، فرانس اورچین جیسے ممالک کی فہرست میں اپنا نام لکھوالیا۔
مرتاکیانہ کرتا پاکستان کی اُس وقت کی قیادت جو ذوالفقار علی بھٹو جیسے مرد زیرک کے ہاتھ میں تھی، نے پاکستان کو ایٹمی طاقت کا حامل ملک بنانے کے لیے ’’ہرچہ باداباد‘‘ یعنی جو ہو سوہو کے مصداق ناممکن کو ممکن بنانے کا بیڑا اُٹھا لیا۔ یوں جس مشکل اور ناممکن العمل منزل کا آغاز ہوا تھا،اُس سفر کی تکمیل ضیاء الحق کے دور میں ممکن ہوئی۔ مگر ایٹمی قوت کے اعلانیہ اظہار اور عملی ثبوت کی فراہمی ابھی ایک قدم کی دُوری پر تھی۔1974ء کے بعد بھارت کی انتہا پسند حکومت ، جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے موجود ہے، نے اٹل بہاری 19جپائی کی قیادت میں مئی1998ء کی چلچاتی دُھوپ میں’’شکتی‘‘ کے نام سے پوکھران کے مقام میں دومراحل میں پانچ ایٹمی دھماکے کر کے ’’بھارت ماتا کی جے ‘‘کا عملی اظہار کر دیا۔ امن کے عالمی ٹھیکے داروں نے بھارت کےایٹمی دھماکوں پر تو چپ سادھ لی مگر ’’نزلہ برعضو ضیعف‘‘ کے مصداق پاکستان کو ’’ناں بچہ ناں‘‘ کی دھمکیاں اور لوریاں دے کر دو ہفتوں پر محیط ’’سٹک اینڈ کیرٹ‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے تمام ممکنہ تدابیر اور ہتھکنڈے استعمال کیے تاکہ پاکستان کو ہرممکن طریقے سے ایٹمی دھماکوں سے باز رکھا جائے۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو اربوں ڈالر امداد اور انعام کی پیشکش کی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔چنانچہ ایٹمی دھماکوں کے حوالے ے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو ’’نہیں جناب اب نہیں‘‘ کہہ دیا گیا جسے انگریزی میں ’’Absolutly not‘‘ کہتے ہیں۔ جس قادرِ مطلق ہستی نے انگریزوں اور ہندوئوں کے باہمی گٹھ جوڑ کے باوجود بھارت ماتا کے دوٹکڑے کر کے اس کے بطن سے دنیا کی سب سے بڑی مسلمان ریاست کو نہ صرف وجود عطا کیابلکہ پاکستان کو اُس کی گولڈن جوبلی یعنی پچاس سال مدت کی تکمیل پر دنیائے اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی مملکت کا منفرد اعزاز عطا فرمایا دیا۔ بقول شاعر؎
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
‫تا نہ بخشد خدائے بخشندہ‬
پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں بلوچستان کی سرزمین میں واقع پہاڑی سلسلہ’’چاغی میں ایٹمی دھماکوں کا چھکا لگا کر بھارتی بالادستی کا خواب چکنا چور کر دیا۔ 28 مئی1998ء کا دن نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لیے بے انتہا خوشی اور بے مثال مسرتوں کی نوید لے کر آیا ۔اسی عظیم اور یادگار دن کو ’’یومِ تکبیر‘‘ کا نام دیا گیا۔ بقول ڈاکٹر اسرار احمد ؒ پاکستان کے قیام طرح اس کی ایٹمی صلاحیت بھی ایک معجزہ اور عطیہ خداوندی ہے اور پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کی مشترکہ امانت ہے۔ جس کی حفاظت کرنا ہمارے دین کا تقاضا ہے۔ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بنانے میں جس شخصیت کا سب سے اہم اور کلیدی کردار ہے اُسے پوری دنیا ڈاکٹر عبد القدیر خان کے نام سے بخوبی پہچانتی ہے۔(( اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہُ وَارْحَمْہُ وَاَدْخِلْہُ فِیْ رَحْمَتِکَ وَحَاسِبْہُ حِسَابًا یَّسِیْرًا وَاَدْخِلْہُ فِیْ جَنَّتِکَ وَاَلْحِقْنَا بِعِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ ))آمِیْن!
اسلام کے نام پر بننے میں‘ ایٹمی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی کی حامل اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ابھی اقصائے عالم میں بہت سے کارہائے نمایاں سرانجام دینے ہیں۔ بقول اقبال؎
’’وقت ِفرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہیں
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
مگر پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں پر قابض طبقات کی عاقبت نا اندیشانہ پالیسیوں کی بدولت مملکت خداداد کی کشتی اس وقت سیاسی، معاشی، عدالتی و عسکری گرداب میں پھنس کر ہچکولے لے رہی ہے مگر جلد یا بدیریہ صورت حال لازما ًتبدیل ہو گی اور رات کے گھٹا اندھیروں کو مٹانے کے لیے جیسے صبح طلوع ہوتی ہے ویسے ہی ایمان و جہاد کے ولولہ سے لیس انقلابی تحریک کے خون سے تبدیلی آئے گی اور وطن عزیز کی فضائوں میں اُجالا پھیلے گا اوور دوست و دشمن پکار اٹھیں گے؎
شب گریزاں ہو گی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
علامہ اقبال کا یہ خواب ضرور شرمندئہ تکمیل ہو گا اور ’’نوبت باایں جا رسید‘‘کا وہ لمحہ ضرور آئے گا جب ہم یہ کہہ سکیں گے: ’’ہوتا ہے جادہ پیما پھر کاررواں ہمارا‘‘
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمیں کامل یقین اور امید واثق ہے کہ جب بھی رحمٰن کے مالیوں نے اپنا شعار چمن کی ترقی و خوشحالی کے موافق بنا لیا تو اس چمن میں روٹی بہار کو پلٹنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ان شاء اللہ
آخر میں جناب کوثر صدیقی کے دعائیہ اشعار پر اپنی گزارشات کا اختتام کر رہا ہوں :
یا رب فلک سے اونچا اس دیس کو اُٹھا دے
میرے چمن کو سب سے اچھا چمن بنا دے
عزت بڑوں کی کرنا، چھوٹوں سے پیار کرنا
دُنیا کی ساری اچھی باتیں ہمیں سکھا دے
منزل نصیب کرنا، گمراہی سے بچانا
جو سیدھے راستے ہیں اُن پر ہمیں چلا دے
محفوظ رکھنا شاخیں بلبل کے آشیاں کی
اس گلستان میں یا رب پھول امن کے کھلا دے
ہر پھول ہر کلی کی کرتا رہوں حفاظت
جنت سے اس چمن کا مالی مجھے بنا دے
بڑھتے ہوئے اندھیرے نفرت کے ختم کر کے
ہر دل میں ایکتاکی اِک شمع پھر جلا دے
ہر پیڑ اس چمن کا پھولے پھلے ہمیشہ
گہوارہ شانتی یا رب اسے بنا دے