(اداریہ) کنگز پارٹیوں کی تشکیل و تعمیر اور اُن کی شکست و ریخت کی سبق ناآموز داستاں - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

کنگز پارٹیوں کی تشکیل و تعمیر اور اُن کی شکست و ریخت

کی سبق ناآموز داستاں

قیام پاکستان کے بعد پہلے چار (4) سال دنیوی اور دینی لحاظ سے اگر انتہائی شاندار اور مثالی نہ تھے تو ایسے بُرے بھی نہیں تھے سوا چار سال ایک وزیراعظم کا حکومت کرنا سیاسی استحکام کی گواہی ہے اور معاشی لحاظ سے قرض سے بچے رہنا اور سرپلس بجٹ پیش کرنا ظاہر کرتا ہے کہ نئی نئی جنم لینے والی یہ معیشت اپنے ننھے منھے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔ پاکستان اور بھارت اکٹھے آزاد ہوئے تھے۔ لیکن پاکستانی کرنسی بھارتی کرنسی کو پیچھے چھوڑ رہی تھی۔ نظریاتی سطح پر بھی قدم کچھ آگے کی طرف بڑھے تھے قراردادِ مقاصد منظور ہو چکی تھی اور تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے (31) اکتیس علماء اسلام کے نظام کے حوالے سے 22 نکات پر مشتمل متفقہ فارمولا دے چکے تھے۔ پھر 16 اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان کی شہادت کا سانحہ پیش آیا۔ کسی ظالم کی گولی نے سینہ تووزیراعظم لیاقت علی خان کا چھلنی کر ڈالا لیکن پاکستان کا سیاسی استحکام بھی بُری طرح مجروح ہوگیا۔ اگلے سات سال میں خواجہ ناظم الدین سے لے کر فیروز خان نون تک چھ وزیر اعظم آئے اور گئے۔ یہاں تک کہ پنڈت نہرو نے یہ طعنہ دیا کہ میں اُتنے کپڑے نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیراعظم بدل جاتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اپریل1951ء تک ڈگلس گریسی نامی ایک انگریز پاکستان کا آرمی چیف تھا اور بعدازاں ایوب خان آرمی چیف بن گیا اگرچہ اس تحریر کا یہ موضوع نہیں کہ پاکستان کیوں اور کیسے امریکہ کے کنٹرول بلکہ غلامی میں گیا لیکن صرف قارئین کی آگاہی کے لیے عرض کیے دیتے ہیں کہ جب برطانیہ کے پالتو ایک بیوروکریٹ ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کیا تو امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو واشنگٹن سے بلا کر راتوں رات وزیراعظم بنا دیا گیا اور اُس شخص نے پاکستان کو سیٹو اور سینٹوکارکن بنوایا گویا ہم سرکاری طور پر امریکہ سے بندھ گئے۔
جب پاکستان بنا تو اگرچہ کچھ دوسری سیاسی جماعتیں بھی تھیں لیکن اصل سیاسی جماعت مسلم لیگ ہی تھی۔ یہی پاکستان کی بانی جماعت تھی اور اسی جماعت کی حکومت تھی۔ 1947ء سے 1956ء تک پاکستان کی سرزمین آئین جیسی مقدس شے سے محروم رہی اور پورے پاکستان میں عام انتخابات بھی نہ ہوئے کیونکہ پنجاب کا جاگیردار اور بیوروکریٹ یہ جانتا تھا کہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے اقتدار مشرقی پاکستان کو منتقل ہو جائے گا اور یہ اُنہیں کسی صورت بھی قبول نہ تھا۔ شاید اسی بات کو بھانپتے ہوئے 1954ء کے صوبائی انتخابات جو بنگال میںہوئے تھے،بنگالیوں نے مسلم لیگ کو بُری طرح مسترد کر دیا اور جگتو فرنٹ کامیاب ہوگیا۔ مغربی پاکستان میں اقتدار پر قابض اس مافیا نے آبادی کے اس فرق کا حل یہ نکالا کہ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ختم کرکے ون یونٹ قائم کر دیا گیا۔ لیکن اس انقلابی عمل سے پہلے مسلم لیگ کے بطن سے ری پبلکن پارٹی نے جنم لیا۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ یہ نئی سیاسی جماعت راتوں رات وجود میں آگئی۔ مسلم لیگ کے لوگ قافلہ کی صورت میں اُس میں شامل ہوگئے۔ یہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس کی تشکیل و تعمیر سول ملٹری بیوروکریسی نے مل کر کی۔ لیکن فیروز خان کی وزارتِ عظمیٰ کے ختم ہوتے ہی جبر کے ہاتھوں تشکیل پانے والی یہ جماعت شکست و ریخت کا شکار ہوئی بلکہ یوں چکنا چور ہوئی کہ تاریخ میں کہیں اس کا ملبہ بھی دستیاب نہیں۔ بہرحال اب پورا پاکستان دو یونٹس پر مشتمل تھا: مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ مسئلہ آبادی کا نہ رہا بلکہ یونٹس کا بن گیا دونوں یونٹوں کے ایک جیسے حقوق ہوں گے، مساوی نشستیں ہوں گی لہٰذا آئین جو اسی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اٹکا ہوا تھا۔ مساوات قائم ہوئی اور فوری طور پر 1956ء میں آئین بن گیا۔ لیکن آئین بھی سیاسی استحکام نہ دے سکا۔ چودھری محمد علی نے آئین دیا۔ اُن کی حکومت ختم کی گئی۔ اُن کے بعد حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون وزیراعظم بنے ۔ یہ ایوب خان کے مارشل سے پہلے آخری وزیراعظم تھے۔
کچھ عرصہ جرنیلوں کے کندھوں پر سوار رہنے کے بعد ایوب خان کو اپنی حکومت قائم رکھنے اور مستحکم کرنے کے لیے سیاست دانوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مصنوعی سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور تعمیر کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔ مسلم لیگ کیونکہ پاکستان کی بانی جماعت تھی لہٰذا اُس پر فوجی ہاتھ پڑا اور ایوب خان کی حمایت کرنے والے سیاست دانوں کو جمع کرکے ایک کنونشن منعقد کیا گیا نئی مسلم لیگ کا نام کنونشن مسلم لیگ ہوگیا۔ گویا پرانی مسلم لیگ نے کنونشن مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی جماعت کو جنم دیا۔ یہ سب کچھ ایک فوجی جرنیل کے اقتدار کو سویلین اور قانونی لباس اوڑھانے کے لیے کیا گیا۔ ایک وقت جب ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے ذوالفقار علی بھٹو اس حکومتی جماعت کے جنرل سیکرٹری بنے۔ اُنہوں نے ایک دلچسپ تجویز دی کہ ہر ضلع کا D.C کنونشن مسلم لیگ کا صدر ہوگا اور شہر کا S.P سیکرٹری جنرل ہوگا۔ بنیادی جمہوریتوں کا تجربہ کرکے طویل عرصہ تک پاکستان پر حکومت کرنے کا پلان تھا۔ لیکن 1969ء میں ایک عوامی تحریک نے زمین پر کھڑے کیے جانے والے اس بے بنیاد ڈھانچہ کو تہس نہس کر دیا۔ حکومت نہ رہی اور زبردستی کی بنائی گئی کنونشن مسلم لیگ بھی غتربود ہوگئی۔ ضیاء الحق نے ایم کیو ایم اور سپاہ صحابہ بنائیں۔ ایک وقت دونوں نے بہت زور اور طاقت دکھائی اگرچہ انہیں کچھ عوامی حمایت بھی حاصل ہوئی۔اوّل الذکر جماعت ایک لسانی جماعت ہے اور دوسری مذہبی فرقہ کی بنیاد پر ہے، پھر بھی کیونکہ بنیادی طور پر جرنیل کی تشکیل کردہ اور تعمیر کردہ جماعتیں تھیں لہٰذا آج کل انتہائی غیر مقبول اور غیرمؤثر ہو چکی ہیں۔ ضیاء الحق کے دور میں پرانی مسلم لیگ کو بھی زندہ کیا گیا۔ یہ جماعت آج تک زندہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اسے عوامی جماعت بنا دیا اور سچ یہ ہے کہ اس کے لیے اُنہوں نے انتھک محنت کی۔ نواز شریف نے نہ صرف مسلم لیگ کو عوامی سطح پر زندہ کیا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بُری طرح پیچھے چھوڑ دیا اور کم از کم پنجاب میں ایک زبردست عوامی جماعت بن گئی۔ مسلم لیگ کو البتہ میاں نواز شریف کے معاہدہ کرکے جدہ جانے سے اور علاج کی آڑ میں لندن جانے سے عوامی سطح پر سخت دھچکا لگا۔ اگر وہ ملک سے باہر جانے کے حوالے سے ڈٹ جاتے اور ملک میں رہ کر مقابلہ کرتے تو اُن کی عوامی پوزیشن نہ صرف پنجاب بلکہ ملک بھر میں انتہائی مضبوط ہوتی اور آج اُن کے برادرِ خورد کو حکومت کرنے کے لیے روایتی بیساکھیوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ بہرحال اُن کی مقبولیت اگرچہ کم ہوگئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی۔
مشرف نے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا تو اُس نے بھی مسلم لیگ پر ہاتھ صاف کیا اور مسلم لیگ کے بطن سے مسلم لیگ ق کو پیدا کر لیا۔ یہ بھی ایک جرنیل کی تشکیل اور تعمیر کردہ جماعت تھی۔ اُس کا انجام بھی شکست و ریخت کی صورت میں ہوا اور آج وہ بھی ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ نواز شریف کے ملک چھوڑنے کی وجہ سے عمران خان کو زبردست چانس مل گیا۔ اُن کی جماعت پاکستان کی سب سے بڑی عوامی جماعت بن گئی۔ تب قوتوں نے اُسے برداشت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ اب ایک جیسے رٹے رٹائے بیان دے کر سیاسی کارکن تحریک انصاف سے الگ ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف اب زیر عتاب ہے۔ لہٰذا اُس کا وہی رواجی بندوبست کیا جا رہا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کو دردِ زہ شروع ہو چکی ہے، اُسے گھسیٹ کر لیبر روم لایا جا رہا ہے۔ جماعت چونکہ کافی بڑی ہوگئی تھی ممکن ہے ایک سے زیادہ بچوں کو جنم دے۔ جنہیں جبر کی چھاؤں میںپرورش کیا جائے گا۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پہلے جو مصنوعی جماعتوں کی تشکیل ہوئی اور ایک وقت گزرنے کے بعد وہ شکست و ریخت سے دو چار ہوئیں۔ ان نئی تشکیل شدہ جماعتوں کا انجام بھی اُن سے مختلف نہیں ہوگا۔ ہم قریباً اپنی ہر تحریر میں واقعات تحریر کرکے اپنی طرف سے کچھ تبصرہ کرتے ہیں لیکن اس تحریر پر ہمارا تبصرہ ہے ’’بلاتبصرہ‘‘۔