(منبرو محراب) والدین کے حقوق اور دجالی تہذیب - ابو ابراہیم

9 /

والدین کے حقوق اور دجالی تہذیب

(سورۃ الاحقاف کی آیت 15کی روشنی میں)

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے26مئی 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
قرآن حکیم میں سورۃ الاحقاف کی آیت 15میں والدین کے حوالے سے کلام آیاہے۔والدین کے بیان کے حوالے سے یہ بہت جامع آیت ہے جس میں خصوصاً والدہ کی ان مشقتوں کا ذکر ہے جو وہ بچے کو حمل میں اُٹھائے رکھنے ، جنم دینے اور دوبرس تک دودھ پلانے کے دوران اُٹھاتی ہے ۔ اس کے علاوہ انسان کی چالیس برس کی عمر کوپہنچنے کے بعد دعاؤں کا ذکر ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًاط} (آیت :15)’’اور ہم نے تاکید کی انسان کو اُس کے والدین کے بارے میں حسن سلوک کی۔‘‘
اس سے پہلی دو آیات میں ایمان پر استقامت کا بیان ہے۔ اللہ پرایمان کاتقاضا یہ بھی ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے ۔بندہ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری اختیار کرے ، اپنے لیے بھی دعائیں مانگے، اپنی اولاد اور اپنے والدین کے لیے بھی خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے ۔ خود بھی والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنے اور اپنی اولاد کو بھی صدقہ جاریہ بنانے کی کوشش کرے ، اسلام پر قائم رہے ۔ یہ سب ایمان کے تقاضے ہیں ۔
گزشتہ دنوں مسجد حرام کے شیخ شریم صاحب کا عربی خطبہ ترجمہ کے ساتھ سننے کو دستیاب ہوا ۔ اس میں انہوں نے اسی آیت کو بیان کیاتھا، ہمیں لگاکہ وہ خود بھی رورہے ہیں اورحرم میں موجود تمام لوگ بھی افسردہ ہیں ۔ آج دجالی تہذیب کا دنیا پر غلبہ ہے اور سال میں ایک بار والدین کا دن منایا جاتاہے۔ 14مئی کو ساری دنیا میں مدرز ڈے منایا گیا ۔ 18جون کو فادرز ڈے منایا جائے گا ۔ والدین سے محبت کا یہ تصور دجالی تہذیب کا دیا ہوا ہے جس
کی اٹھان وحی کی تعلیم کے بغیر ہے ۔بدقسمتی سے اس بے خدا تہذیب کے اثرات ہمارے معاشرے میں بھی آچکے ہیں ۔ اب تولوگ سمجھتے ہیں کہ وہاں سے جو فرمان آئے گا وہی مستند اور موزوں ہے۔ پھرایک سرمایہ دارکادماغ ہوتاہے وہ تواپنی پروڈکٹ کوبیچنے کے لیے نئے نئے راستے تلاش کرتاہے۔لہٰذا ہر ماہ اپنی پروڈکٹس بیچنے کے لیے کوئی نہ کوئی دن منایاجائے گا ۔ ویلنٹائن ڈے ، ہیلو وین ڈے وغیرہ کیسے کیسے دن آج منائے جارہے ہیں اور ان میں کیا کیا شیطانی کردار اپنائے جاتے ہیں ۔ الامان و الحفیظ ۔ 15 سال پراناانگریزی کا ایک بڑا لیڈنگ نیوزپیپرہے اس میں کوارٹرپیج پرایک اشتہار فادرز ڈے کے نام پرشائع ہواجس کے الفاظ تھے :
’’آپ ایک آرڈر پلیس کریں ایک بڑا سامگ،ایک ٹائی اور دوکفلنگ۔فلاںمشہور کورئیر کمپنی آپ کے والد کو آپ کی طرف سے پہنچادے گی۔‘‘
یہ سب کیوں ؟کیا میں اپنے اباکوخود کوئی تحفہ پیش نہیں کر سکتا؟مجھے کیاایسی ضرورت پیش آگئی کہ میںتمہیں آرڈر دے کراپنے والد کو اپنے گھر کے اندر کورئیرکے ذریعے تحفہ منگوا کردوں؟بہرحال یہ وہ سرمایہ دارانہ دماغ ہے جو اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے لوگوںمیں اپنی پروڈکٹ کوبیچنا چاہتاہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں تہذیب اور اقدار کا جوبیڑا غرق ہورہاہے اس حوالے سے ہماری آنکھیں کھل نہیں رہیں ۔
میں 2007ء میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں اسلامیات پڑھاتا رہا ہوں۔ جب یہ موضوع آیا اورکلام کیا توچار طلبہ نے کہاکہ سر!برسوں کے بعد یاد آیاکہ والدین کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے ۔اب حالت یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں اولڈ ہائوسز بنتے ہیں۔اب ہمارے شہروں میں بھی بن رہے ہیںاوربڑے اچھے پیکجز آفر کیے جارہے ہیں کہ آپ اپنے ابا اماں کویہاں ڈیپازٹ کرالیں ،ہم ان کی take careکرلیں گے۔ کبھی کچھ پروگرامز کے لیے ایدھی ہوم جاناہوا تو دیکھا کہ کیسے کیسے ماں باپ وہاںسڑ رہے ہیں اورجوان اولادیں شہر کے اندر موجود ہیں ۔اناللہ واناالیہ راجعون!یہ مغربی تعلیم ، مغربی تہذیب نے ہمیں کہاں تک پہنچا دیا ۔ ہماے سامنے کتنے کیسز آتے ہیں جن میں اولاد والدین سے بدتمیزی کرتی ہے بلکہ ان کو مارتی پیٹتی بھی ہے ۔بیٹے نے باپ کو مارا یابیٹی ماں کے سامنے سینہ سپرہوکرکھڑی ہوگئی۔احادیث میںعلامات قیامت کاتذکرہ بھی آتا ہے کہ کس طرح کااولاد والدین سے سلوک کرے گی ۔ اللہ ہمارے گھرانوں کی حفاظت فرمائے ۔آمین !
اللہ کی قسم !اگر ایمان نہ ہواوروحی کی تعلیم سامنے نہ ہو تو گمراہی ، جہالت اور ظلم کہاں تک پھیلے گا اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اب بچے ایسے ایسے سوالات کررہے ہیں کہ جومیں آپ کے سامنے بیان نہیںکرسکتا۔آج بچے کہتے ہیں :کون سے حقوق ، کیسے حقوق ؟ والدین نے شادی کرلی اور ہم پیدا ہوگئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اگر عقل پرپرکھیں گے تو عقل یہاںتک لے کے جائے گی۔ کیا شیطان کی عقل کمزورتھی ؟لیکن غلط جگہ استعمال کی، وحی کے مقابلے میں استعمال کی۔ عقل پرستوںکے فتنوں کی بنیادپرہی ہمارے معاشرے میں یہ باتیں ہورہی ہیں۔ پھرایک طبقہ ہے جو نکاح کاانکارکررہا ہے اورایک طبقہLGBT کوپروموٹ کر رہا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے گھر اور خاندانی نظام تباہ اور برباد ہو رہے ہیں ۔ آج اسی مغربی تہذیب کی وجہ سے اہل مغرب خودکشیاں کر رہے ہیں ، ان کے دانا اس تباہی پر رو رہے ہیں ۔ اسی طرح کل ہم بھی چیخیں گے ، چلائیں گے لیکن وقت کی ڈور ہاتھ سے نکل چکی ہوگی تو کیوں نہ آج ہی صراط مستقیم پر آجائیں جس کی طرف اللہ کی کتاب رہنمائی دے رہی ہے ، فرمایا :
{وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًاط} ’’اور ہم نے تاکید کی انسان کو اُس کے والدین کے بارے میں حسن سلوک کی۔‘‘(آیت :15)
وصیت اس بات کو کہتے ہیں جوکسی کی اصلاح کی نیت کے ساتھ کہی جائے، جوتاکید کے ساتھ کہی جائے ۔ لیکن جب وصیت کی نسبت اللہ کی طرف ہوتویہ اللہ کا حکم ہوتاہے ۔ یعنی یہاں اللہ تعالیٰ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا باقاعدہ حکم دے رہا ہے ۔ یہ اہم بات ہے ۔یہ دنیا کے کسی چارٹرکا،کسی آئین کاآرٹیکل نہیں ہے ،یہ کسی پارلیمنٹ میں پاس کیاہوا بل نہیں ہے بلکہ یہ خالق کائنات کاحکم ہے۔ قرآن حکیم میں جابجا اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق کا ذکر فرمایا اور کم ازکم پانچ مرتبہ اللہ نے اپنے حق کے فوراً بعد والدین کے حق کو بیان فرمایا۔تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام منتخب نصاب میںسورۃبنی اسرائیل کا تیسرا اور چوتھا رکوع بھی پڑھایا جاتاہے جس کی تشریح میں ذکر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے ،مگر ہماری تخلیق کاذریعہ ماں باپ بنے۔ اللہ تعالیٰ رازق ہے مگر ہم تک رز ق پہنچنے کا ذریعہ ماں باپ بنے۔ اللہ تعالیٰ محافظ ہے مگر ہماری حفاظت کا ذریعہ ماں باپ بنے۔اللہ تعالیٰ رب حقیقی ہے یعنی ایک ایک حاجت کوپورا کرنے والا ہے،البتہ ظاہر میں ربوبیت کی ذمہ داری ماں باپ نے ادا کی ۔تبھی ماں باپ کے لیے یہ دعا ہے :
{رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(24)}(بنی اسرائیل) ’’ اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسے کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔‘‘
لیکن اکثر بندے اللہ کی نعمتوں کااعتراف نہیں کرتے اوراللہ کی ناشکری کرتے ہیں ۔ اللہ خود کہتاہے :
{وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ(13)} (سبا)’’اور (واقعہ یہ ہے کہ ) میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہی ہیں۔‘‘
یعنی اکثر لوگ احسان فراموش ہوتے ہیں، اسی طرح اکثر مرتبہ اولاد والدین کے ساتھ ناہنجاری سے پیش آتی ہے ۔ ان کے احسانات کااعتراف نہیں کرتی ۔ مال مفت دل بے رحم والی بات ہوتی ہے اورپھرنافرمانی کرتی ہے ۔ بہرحال اس آیت میں اللہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دے رہاہے ۔ آگے فرمایا :
{حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًاط} (الاحقاف :15)’’اس کی ماں نے اسے اٹھائے رکھا (پیٹ میں) تکلیف جھیل کر اور اسے جنا تکلیف کے ساتھ۔‘‘
ایک مرد اس کا اندازہ نہیں کر سکتا کہ ایک ماں اولاد کی وجہ سے کتنی تکالیف سے گزرتی ہے لیکن وہ ساری تکلیف اولاد کی محبت میں برداشت کرتی رہتی ہے ۔ ماں کے دل میں اولاد کی محبت اور والد کے دل میں اولاد کی شفقت ڈالنے والا اللہ ہی ہے ۔ اللہ الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے احساس دلارہاہے ۔ آگے فرمایا:
{وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًاط} (الاحقاف :15)
’’اور اس کا یہ حمل اور دودھ چھڑانا ہے (لگ بھگ) تیس مہینے میں۔‘‘
یعنی تیس مہینے مسلسل ماںجس طرح کی تکالیف سے گزرتی ہے اور یہ کوئی معمولی مشقت نہیں ہے ۔ اسی لیے نبی اکرمﷺ سے پوچھاگیااے اللہ کے رسول ﷺ! میرے حسن سلوک کاسب سے بڑھ کرمستحق کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔پوچھا اس کے بعد کون؟ فرمایا : تمہاری ماں ، پھر پوچھا گیا اس کے بعد کون ؟ تیسری مرتبہ پھر فرمایا : تمہاری ماں ۔ چوتھی مرتبہ فرمایا : تمہارا باپ ۔ محبت اور اطاعت میں اللہ تعالیٰ کا حق سب سے اوپر ہے ۔ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کا حق سب سے اوپر ہے ، لیکن خدمت اورحسن سلوک کی بات آئے گی توانسانوں میں ماں باپ اوپرہیں ۔ بیوی کا بھی حق ہے ، اولاد کا بھی حق ہے لیکن ماں باپ کا حق سب سے اوپر ہے اوراگر ایک خاتون شادی شدہ ہے توسب سے بڑھ کر اس کے شوہر کا حق ہے ۔حسن سلوک کے لحاظ سے ماں پہلے ہے لیکن اطاعت کے لحاظ سے باپ پہلے ہے ۔ مرد کو گھر کا سربراہ بنایا گیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ}(النساء:34) ’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں‘‘
گھر کا نظام چلانا ہے تو باپ کی اطاعت ضروری ہے اس لیے اطاعت کے لحاظ سے باپ کا درجہ بلند ہے ۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں :جنت تمہاری ماں کے قدموں میں ہے۔ پھرآپﷺ نے فرمایا:اللہ کی رضاوالد کی رضا میں ہے، اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا:تباہ وبرباد ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے اس کے ماں باپ(ایک یادونوں)بڑھاپے کو پہنچ جائیں اوروہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرکے جنت نہ کماسکے۔یہ حضور ﷺ کی اپنی حدیث بھی ہے اوراس کاوہ ورژن بھی احادیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے منبر کی سیڑھی پرایک ایک قدم رکھا توآمین کہا پھر بتایا کہ جبرائیل امین نافرمانوں کو بددعائیں دے رہے تھے ، ان میں یہ بددعا بھی تھی کہ تباہ وبرباد ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے اس کے ماں باپ(ایک یادونوں)بڑھاپے کو پہنچ جائیں اوروہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرکے جنت نہ کماسکے۔اس پر میں نے آمین کہا ۔ اب ذرا سوچئے! فرشتوں کے سردار کی بددعاہواوررسولوں کے سردار کی آمین ہوتوکیا یہ بددعا رد ہوسکتی ہے ؟ اللہ ہمیں ماں باپ کا فرمانبرار بننے کی توفیق عطافرمائے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا :ماںباپ کودیکھوتومقبول حج کا ثواب ملے گا۔ صحابی نے پوچھا:یارسول اللہﷺ !میں سو مرتبہ دیکھوں تب بھی ؟آپﷺ نے فرمایا: تو سومرتبہ دیکھ میرے رب کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ۔ ہمارے سب سے بڑے پیر اور مرشدہمارے ماں باپ ہیں۔ ان کی دعا انسان کی زندگی بدل دیتی ہے اور بددعا جہنم تک پہنچا سکتی ہے ۔ لیکن آج دجالی تہذیب نے ان کو اولڈ ہائوس میں پہنچا دیا ۔ حالانکہ ساری زندگی اگر ان کی خدمت کی جائے تو پھر بھی حق ادا نہیں ہو سکتا ۔ تبھی تو سورئہ بنی اسرائیل میں آیا کہ ان کواُف بھی نہ کہنا،نہ جھڑکنااور نرمی سے بات کرنا،اوراپنے کندھے کو عاجزی سے جھکاکر رکھنا اور اس کے بعد بھی اللہ سے دعا کرنا :
{رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(24)}(بنی اسرائیل)
شکرکریں ہم لوگ مسلمان ہیں اورہمارے ماں باپ مسلمان ہیں۔ اُ ن نومسلم افراد سے پوچھئے جن کے والدین کفر کی حالت میں فوت ہوگئے وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کے لیے دعا بھی نہیں کر سکتے۔ اگر چلے گئے توان کے لیے استغفار کریں۔مسنداحمدمیں ہے کہ ماں باپ کو بتایاجاتا ہے کہ تیرے بیٹے نے تیرے لیے استغفار کیااس لیے تیرا درجہ بلند کیاجارہاہے ۔نیک اولاد ماں باپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے ۔ہم خود نیک بنیں ماںباپ کو اللہ تعالیٰ اجرعطا فرمائے گا۔ ان شاء اللہ !اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے۔ احادیث میںیہ بھی ہے کہ اگر ماں کاانتقال ہوگیا ، خالہ ہے تو اس کی خدمت کرو۔باپ کاانتقال ہوگیاتوچچا کی خدمت کرو۔ اگر خالہ نہیںہے توماں کی کچھ سہیلیاں ہوں گی ان کی خدمت کرو۔باپ کے کوئی دوست ہوں گے ان کی خدمت کرلو۔ ایک حدیث میں ہے کہ باپ نہیں ہے تو بڑے بھائی کی خدمت کرو ۔ مسلمان توجب چاہے نیکی کی کمائی کرسکتا ہے ۔ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔آگے فرمایا:
{حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃًلاقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ}’’یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے اور چالیس برس کا ہو جاتا ہے‘وہ کہتا ہے: اے میرے پروردگار !مجھے توفیق دے کہ میں شکر کرسکوں تیرے انعامات کا جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائے۔‘‘(الاحقاف:15)
چالیس برس کی عمرذہنی ، فکری اور شعوری اعتبار سے پختگی کی عمر ہوتی ہے ۔ اکثر انبیاء علیہم السلام کوبھی چالیس برس میںہی اظہار نبوت کا معاملہ ہوا۔بعض داعی دین جو غیر مسلموں میں دعوت دین کا کام کرتے ہیں ان کے تجربات اور مشاہدات کا حاصل یہ ہے کہ چالیس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انسان کوحق کو پہچاننے کا موقع مل جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کچھ مشاہدات کروا دیتاہے ۔ اللہ کی نعمتوں کا احساس بھی ہونے لگتاہے تب اس کے اندر شکرگزاری کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے ۔ شکر گناہ سے بچنا بھی ہے ، نعمتوں کا اعتراف بھی شکر ہے ، اپنے عمل اور کردار کو اللہ کی اطاعت میں لانا بھی شکرگزاری ہے ۔ حلال کمانا اور حرام سے بچنا بھی شکر ہے ۔ ہم کچھ بھی ہیں ظاہر کے اعتبار سے ماںباپ کی وجہ سے ہیں۔ بکری کابچہ پید اہوتاہے چند گھنٹے ٹانگیںکانپتی ہیں لیکن پھرسیدھاکھڑا ہوجاتاہے ۔ لیکن انسان کابچہ توپہلے آٹھ دس ماہ اُٹھنے سے بھی معذورہوتا ہے ۔ باقی چیزیںہم سب کو پتاہے کہ وہ کتنا محتاج ہوتاہے۔ کون ہے جو اس کے لیے خود کو انوسٹ کرتاہے ، کس نے پیٹ کاٹ کر انوسٹ کیاتھا۔ کس نے راتوں کی نیند حرام کی تھی ۔ کس نے گرمی کی مشقتوں کے مہینے برداشت کیے تھے۔یہ ماںباپ ہی توتھے۔اولاد جو کچھ بھی ہے وہ ماں باپ کی بدولت ہے لہٰذا اس کابھی شکرانہ بندے پرواجب ہے ۔ اللہ اکبر!آگے فرمایا:
{وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىہُ } ’’اور یہ کہ میں ایسے اعمال کروں جنہیں تو پسند کرے ‘‘
بندہ جتنا بھی اچھا بن جائے لیکن اللہ کی توفیق کے بغیر وہ نیکی نہیں کرسکتا ۔ اسی لیے تو ہم نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے دعا کرتے ہیں :
{اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُO}’’ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے اور ہم صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں اور چاہتے رہیں گے۔‘‘
اور اسی لیے ہرنماز کے بعد دعا ہے :((اللہم أعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک))’’ اے اللہ ! اپنے ذکر، شکر اور اپنی بہترین عبادت کے سلسلہ میں میری مدد فرما‘‘۔
اللہ کی توفیق کے بغیر اس کی عبادت اورشکرادا کرنا ممکن نہیں۔دنیا بہت سی باتوں کو اچھاسمجھتی ہے ۔ آج تولوگ کھلواڑ ،کنسرٹس اورہلے گلے کوبڑااچھاسمجھتے ہیں کہ اس سے لوگ entertainہوجاتے ہیں۔لوگوںکو سکون واطمینان مل جاتاہے ،لوگوںکی بوریت دور ہوجاتی ہے ۔ یہ کتنابظاہر اچھالگ رہاہے مگر اللہ کو توپسند نہیں ۔ اللہ کے رسولﷺ نے تومنع کیا ہے موسیقی اوراس طرح کی چیزوں سے ، چاہے لوگ اس کو کتنااچھاسمجھ رہے ہوں۔ کوئی بھی عمل اگر اللہ اوراس کے رسولﷺ کی اطاعت کے خلاف ہے تووہ اچھا عمل نہیںہے اور عمل بظاہر کتنا اچھا ہواس میں نیت کا کھوٹ آجائے تووہ شرک ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ صَلَّی یُرَائِی فَقَدْاَشْرَکَ))’’ جس نے دکھاوے کی نماز ادا کی اس نے شرک کیا۔ ‘‘
یہاں دعا ہے کہ اے اللہ عمل وہ ہوجس سے تو راضی ہوجائے۔وہ تیر ی اورتیرے رسول ﷺ کی اطاعت کے مطابق ہواور اخلاص نیت سے ہو۔ یعنی اصل میں اللہ کے ہاں قبول ہوجائے ۔ ہر بندہ کوشش کرتاہے کہ دنیا کو اچھا لگے لیکن سوچنا چاہیے کہ میں اللہ کو بھی اچھا لگ رہا ہوں ؟ بڑے بڑے ایوارڈ باہر پڑے ہیں بندے قبر میں چلے گئے ۔ کچھ نہیں گیاساتھ صرف عقیدہ اورعمل ساتھ جاناہے، جس کے مطابق فیصلے ہونے ہیں ۔آگے فرمایا:
{ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ط}’’ اور میرے لیے میری اولاد میں بھی اصلاح فرما دے۔‘‘
یعنی اے اللہ !اولاد کو بھی خیرکی ،شکر کی ، نیکی اور اپنی اطاعت کی توفیق دے ۔یہ بھی میرے لیے صدقہ جاریہ بنے ۔صدقہ جاریہ تو سب کو معلوم ہے لیکن ایک گناہ جاریہ بھی ہوتاہے۔ قابیل نے ہابیل کو قتل کیاتھا۔بخاری شریف میں حدیث ہے قیامت تک جتنے ناحق قتل ہوں گے ، گناہ کا ایک حصہ قابیل کے حصے میں بھی جمع ہوگا ۔ آج والدین کو سوچنا چاہیے کہ انہوں نے اولاد کو کہاں لگا رکھا ہے ، وہ ان کے لیے صدقہ جاریہ بن رہی ہے یا گناہ جاریہ بن رہی ہے۔کل اس کا جواب ہمیں بھی دینا پڑے گا ۔ لہٰذا دعایہ ہونی چاہیے کہ میری اولاد خیرپر،نیکی پر ہواورمیری نسلیں تیرے دین پرہوں۔یہ میرے لیے اصل سرمایہ ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے بیٹیوں کے بارے میںفرمادیاکہ جس نے دو یاتین بیٹیوںکی پرورش کی تویہ اس کے لیے جہنم سے بچانے کاذریعہ بن جائیںگی۔اولاد کی دینی تربیت کریں یہ صدقہ جاریہ بنے گی اور اللہ کے عذاب سے بچانے کا ذریعہ بنے گی ۔ آگے فرمایا :
{اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَO}’’میں تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں اور یقیناً میں (تیرے) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔‘‘
یہاںیہ نہیں کہاکہ انی مسلم (میں مسلم ہوں)۔ نہیں ،بلکہ کہا :انی من المسلمین( میں مسلمانوں میں سے ہوں )۔ یہ عاجزی اورانکساری کی طرف بھی اشارہ ہے۔ بات یہ ہورہی ہے کہ جب بندہ چالیس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو وہ رب سے یہ دعا مانگتاہے ۔ آج ہم سوچتے ہیں کہ ساٹھ کے بعد ریٹائرمنٹ جب ہوگی تو اس کے بعد دین کے بارے میں سوچیں گے ۔ حالانکہ معلوم نہیں چالیس سال سے پہلے ہی کب مہلت ختم ہو جائے لہٰذا بلوغت کی عمر سے لے کر تادم موت انسان کو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق دے ۔آمین !