فریضہ ٔ حج: حکم، شرائط فضائل
مفتی عارف محمود
حج اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک عظیم رکن ہے۔ تمام عمر میں ایک مرتبہ ہر اس مسلمان عاقل بالغ شخص پر فرض ہے جس کو الله تعالیٰ نے اتنا مال دیا ہو کہ وہ مکہ مکرمہ آنے جانے پر نہ صرف قادر ہو، بلکہ واپسی تک اپنے اہل وعیال کے مصارف بھی برداشت کرسکتا ہو ۔ ( حج کی باقی شرائط بھی اس میں پائی جاتی ہوں)
حج کی لغوی تعریف
لغت میں حج کسی عظمت والی جگہ، یا چیز کا بار بار بکثرت قصد وارادے کو کہتے ہیں۔
حج کی اصطلاحی تعریف
شریعت کی اصطلاح میں مخصوص ایّام میں مخصوص اعمال کے ساتھ بیت الله شریف کی زیارت وقصد کو حج کہتے ہیں۔
حج امت محمدیہ کی خصوصیت ہے
حج کا رواج اگرچہ سیدنا حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے سے ہے ، مگر اس وقت فرضیت کا حکم نہ تھا۔ حج کی فرضیت امت محمدیہ ﷺکے ساتھ خاص ہے۔
حج کب فرض ہوا؟
جمہور علمائے اہل سنت اور راجح قول کے مطابق حج ہجرت کے بعد 9 ہجری کے اواخر میں فرض ہوا، اس وقت حج کا زمانہ نہ ہونے کی وجہ سے حضو راکرمﷺ نے اگلے سال دس ہجری کو حج ادا فرمایا، اس کو حجۃ الوداع بھی کہتے ہیں ، کیونکہ اس کے بعد آپﷺ دنیا کو داغ مفارقت دے گئے۔
حج کی فرضیت کا ثبوت
حج کی فرضیت قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
قرآن مجید سے ثبوت
قرآن مجید کی متعدد آیات سے حج کی فرضیت ثابت ہے ۔ سورہٴ آل عمران میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْـبَـیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَـیْہِ سَبِیْلًا ط} (آیت:97) ’’الله ( کی خوشنودی) کے لیے لوگوں پر بیت الله کا حج (ضروری) ہے، اس شخص پر جو وہاں تک جاسکے۔‘‘
احادیث مبارکہ سے ثبوت
متعدد احادیث میں حج فرض ہونے کا تذکرہ ہے ۔ مسلم شریف میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ہمارے سامنے وعظ فرماتے ہوئے کہا :’’ الله تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے ، پس تم حج کرو۔‘‘
صحیحین میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ الله کے بندے او رسول ہیں، او رنماز پڑھنا، اور زکوٰۃ دینا، اوربیت الله کا حج کرنا، او ررمضان کے روزے رکھنا۔
شرائط حج
فرضیت حج کی پانچ شرطیں ہیں:
(1) اسلام-یعنی حج صرف مسلمان پر فرض ہے، کافر پر فرض نہیں ہے۔اور اگر کافر حالت کفر میں حج کرلے تو وہ کافی نہیں ہوگا کیونکہ حج سے پہلے اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔لہٰذا اسلام قبول کرنے کے بعد اگر وہ صاحب استطاعت ہے تو دوسرا حج فرض ہوگا۔
(2) عقل-یعنی حج عاقل اور باشعور مسلمان پر ہی فرض ہے، مجنون پر نہیں۔کیونکہ مجنون کو رسول اللہ ﷺ نے مرفوع القلم (غیر مکلف)قرار دیا ہے۔
(3) بلوغت-فرضیت حج کے لیے بلوغت شرط ہےکیونکہ نابالغ بچہ مکلف نہیں ہوتا، البتہ نابالغ بچہ حج کرسکتا ہے۔ لیکن بالغ ہونے کےبعد اگر وہ مستطیع ہو تو اسے فرض حج دوبارہ کرنا ہوگا۔
(4) آزادی-یعنی حج آزاد مسلمان پر ہی فرض ہوتا ہے، غلام پر نہیں.البتہ غلام حج کرسکتا ہے لیکن یہ حج فرض حج سے کفایت نہیں کرے گا اور اسے آزاد ہونے کے بعد بحالت استطاعت فرض حج دوبارہ کرنا پڑے گا۔
(5) استطاعت-یعنی وہ حج کرنے کی قدرت رکھتا ہو، مالی طور پر حج کے اخراجات اٹھا سکتا ہو اور جسمانی طور پر سفر حج کے قابل ہو۔راستہ پُر امن ہو اور قدرت حاصل کرنے کے بعدحج کے ایام تک مکہ مکرمہ میں پہونچنا اس کے لیے ممکن ہو۔
عورت کے لیے ان شرائط کے علاوہ ایک اور شرط یہ ہے کہ سفر حج کے لیے اسے محرم کا ساتھ میسر ہو۔اگر ایسا نہ ہوتو اس پر حج فرض نہیں۔
یاد رہے کہ جب کوئی شخص ان شرائط کے مطابق حج کی قدرت رکھتا ہو تو اسے پہلی فرصت میں حج کرلینا چاہیئے اور اگلے سال تک اسے مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔
سفر حج کے آداب
اگر کسی مسلمان پر حج فرض ہو جائے او رتمام شرائط پائی جائیں تو الله تعالیٰ پر بھروسا او رتوکل کرکے اس کی تیاری شروع کرے، تاخیر نہ کرے ، اس سلسلے میں چند آداب کی رعایت سے ان شاء الله حج مقبول کی سعادت نصیب ہو گی ۔ سب سے پہلے اپنی نیت درست کرے اور اس کی اصلاح کرے کہ یہ عمل ادائے فریضہ او رمحض الله کی رضا کے لیے کر رہا ہوں ۔ سفر سے پہلے صدق دل سے تمام گناہوں سے توبہ کرے ، اگر کسی کے حقوق ادا کرنے ہیں ، تو ادا کرے ، یا معاف کروائے، والدین زندہ ہوں تو ان سے اجازت لے ، اگر وہ خدمت کے محتاج ہوں تو بلا اجازت جانا مکروہ ہے۔ اسی طرح سفر حج سے پہلے کسی دین دار اور تجربہ کار شخص سے ضروریات سفر وغیرہ کے سلسلہ میں مشورہ کرے۔ حلال مال سے حج ادا کرے ، حرام مال سے حج قبول نہیں ہوتا ، اگرچہ فرضیت ذمہ سے ساقط ہو جاتی ہے ۔ کوئی صالح رفیق سفر تلاش کرے ، اگر عالم دین میسر ہو تو بہت بہتر ہے ، تاکہ وقت ضرورت کام آئے اور احکام حج کے سلسلہ میں مدد ومعاونت کرے۔
حج کے سفر سے پہلے حج کے مسائل سیکھے، تاکہ حج کو جیسے حج ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح ادا کرسکے۔ سفر حج کے دوران ہر طرح کے معاصی سے اجتناب کرے ، لڑائی جھگڑا، فحش گوئی اور فضول بازار میں گھومنے پھرنے اور وقت ضائع کرنے سے احتراز کرے، فضول خرچی بھی نہ ہو اور کنجوسی بھی نہ ہو، بلکہ میانہ روی اور اعتدال سے خرچ کرے۔ اپنے لیے اہل وعیال، علاقہ وملک اور تمام عالم اسلام کے لیے خوب اہتمام سے دعائیں کرے۔
حج کی تاکید اور تارک کے لیے وعید
حج فرض ہو جانے کے بعد بلا عذر اس میں تاخیر نہ کی جائے ، جلد از جلد ادائیگی کی کوشش کرے، حج کے بارے میں احادیث میں بہت تاکید اور باوجود قدرت واستطاعت کے نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔
امام ابوداؤد ؓ نے اپنی سنن کے کتاب المناسک میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضوراکرم ﷺنے فرمایا: جو شخص حج کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ جلدی کرے۔‘‘
امام ترمذی ؓ نے اپنی سنن کے ابواب الحج میں حضرت علی ؓ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص زاد راہ او رسواری کا مالک ہو کہ وہ اسے بیت الله تک پہنچا دے تو اس کے یہودی ، یانصرانی مر جانے میں ( بغیر حج کیے مر جانے میں) کوئی فرق نہیں اور یہ (وعید) اس لیے کہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ الله کی خوشنودی کے لیے لوگوں پر کعبہ کا حج ضروری ہے، جو وہاں تک جاسکتا ہو ۔
حضرت ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کو حج کرنے سے کوئی کھلی ہوئی ضرورت ، یا کوئی ظالم بادشاہ، یا کوئی معذور کر دینے والا مرض نہ روکے اور وہ بغیر حج کیے مر جائے تو اسے اختیار ہے، چاہے یہودی مرے ، چاہے نصرانی مرے۔‘‘
حضرت عمر ؓ کہا کرتے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان شہروں میں کچھ لوگوں کو بھیج کر معلوم کروں کہ کس کے پاس مال موجود ہے اور اس نے حج نہیں کیا ہے تو اس پر میں جزیہ لگا دوں۔کیونکہ وہ یقیناً مسلمان نہیں ہے۔ (صححہ ابن حجر فی الکبائر)
فضائل حج
انسان فائدے کا حریص ہے، فائدہ دیکھ کر مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے۔ حج کی خوبیاں وفضائل تو بہت زیادہ ہیں ، یہاں بعض کو بطور تذکرہ ذکر کیا جاتا ہے تاکہ حج کا داعیہ اور شوق پیدا ہو ۔
’’ جو شخص الله کے لیے حج کرے اور ( دوران حج) نہ اپنی اہلیہ سے ہم بستری کرے اور نہ فسق میں مبتلا ہو تووہ اس طرح ( بے گناہ ہو کر) لوٹتا ہے جیسے ( اس دن بے گناہ تھا) جس دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا۔‘‘(متفق علیہ)
حضرت عبدالله بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے فرمایا، حج اور عمرہ ساتھ ساتھ کرو ، دونوں فقرومحتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں ، جس طرح لوہار اور سنار کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کر دیتی ہے اور حج مبرور کا صلہ اور ثواب تو بس جنت ہی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا حج کرنے والے کی مغفرت کی جاتی ہے او رجس کے لیے حاجی مغفرت کی دعا کرے اس کی بھی مغفرت کی جاتی ہے ۔ایک روایت میں ہے کہ اے الله! مغفرت فرما حاجی کی اور جس کے لیے وہ مغفرت طلب کرے۔
بوڑھے، کمزور اور عورت کا جہاد
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’بڑی عمر والے، کمزور شخص اور عورت کا جہاد:حج اور عمرہ ہے۔‘‘(مسند احمد)
ام المومنین عائشہ ؓ فرماتی ہیں:میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم آپﷺ کے ساتھ جہاد اور غزوہ میں شریک نہ ہوں؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: ”لیکن سب سے بہتر اور اچھا جہاد حج:حج مبرور ہے۔‘‘ حضرت عائشہk فرماتی ہیں کہ ’’جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا ہے؛ تو اس کے بعد سے میں حج نہیں چھوڑتی ہوں۔‘‘(بخاری شریف)
حج مبرور
حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے ؟ تو آپؐ نے فرمایا:’’ الله اور اس کے رسول پر ایمان لانا ، پوچھا گیا کہ پھر کون سا عمل ؟ فرمایا:’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ‘‘ پوچھا گیا کہ پھر کون سا؟ فرمایا:’’ حج مبرور یعنی حج مقبول۔‘‘
صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا: ’’عمرہ ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دوسرے عمرہ تک ہوں اور حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ نہیں۔‘‘
حج مبرور کیا ہے ؟
علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں :
’’ حج مبرور وہ ہے جس میں حاجی کسی گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔‘‘
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ حاجی اس حال میں لوٹے کہ دنیا سے بے رغبت ہو اور آخرت کا شوق رکھنے والا ہو تو وہ حج مبرور ہے۔
علامہ طیبیؒ فرماتے ہیں کہ حج کے مقبول ہونے کی نشانی یہ ہے کہ حاجی تمام ارکان وواجبات کو اخلاص نیت کے ساتھ ادا کرے او رجن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے بچے۔
بعض نے کہا کہ اس کی نشانی یہ ہے کہ حاجی کی حالت تقویٰ کے اعتبار سے حج سے پہلی والی حالت سے بہتر ہو۔
حضرت علامہ محمدیوسف بنوری ؒ معارف السنن میں ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ حج مبرور کی تفسیر میرے نزدیک وہی ہے جو الله کے ارشاد:
{فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ط} (البقرہ:197)میں مذکور ہے،پس جس کا حج الله کے ارشاد کے موافق ہو تو وہ مبرور ہے۔
حج اتحاد امت کا سبب
درحقیقت پوری دنیا سے آنے والے حجاج کرام دربار الٰہی میں خصوصی نمائندے، وفد اور مہمان ہوتے ہیں کہ دنیا کے تمام چھوٹے بڑے شہری حتیٰ کہ بادیہ نشین اور دیہاتی بھی عشق الٰہی میں سرشار وارفتگی کے عالم میں چلے آتے ہیں اور میقات ہی سے سب احرام پہن کر سب ایک لباس میں ملبوس ہوجاتے ہیں، دنیا کے تمام مسلمان حاجیوں کی زبان پر ایک ہی صدا بلند ہوتی ہے ’’الہم لبیک‘‘۔ مختلف جگہوں کے ہوتے ہوئے اور مختلف زبانوں اور رنگ و نسل کے ہوتے ہوئے بھی سب ایک لباس میں اور سب کا قول و فعل بھی یکساں، یہ پُر کیف منظر امت مسلمہ کو اتحاد کی دعوت دیتی ہے، گویا سب کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بھلے دنیا میں دکھنے کے اعتبار سے الگ ہوں مگر ہم سب اللہ ہی کے بندے ہیں ہم مسلمان ہیں، ہماری مرادیں ہمارے مقاصد ایک ہیں۔
مدینہ میں روضہ شریف کی زیارت:
جن حضرات کے پاس گنجائش ہو تو وہ حج کے ساتھ مدینہ منورہ اور روضہ شریف کی زیارت کا شرف ضرور حاصل کریں، اس کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت ضروری ہو گئی۔‘‘ بلکہ بعض روایات سے اس کی تاکید معلوم ہوتی ہے۔ ایک روایت میں ہےکہ جو شخص مالی وسعت رکھے اور میری زیارت کو نہ آئے تو اس نے میرے ساتھ بڑی بے مروتی کی ۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے گھر اور اپنے پیارے حبیبﷺ کے شہر کی زیارت نصیب فرما دے ۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024