(زمانہ گواہ ہے) ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ - وسیم احمد

9 /

ہماری پارلیمنٹ میں بظاہر اسلام کی بات کی جاتی ہے لیکن عملاً یہ

ہمیشہ سیکولرازم کے لیے کندھا فراہم کرتی ہے : سینیٹر مشتاق احمد خان

ٹرانسجینڈر قانون کے خلاف فیصلہ میں وفاقی شرعی عدالت نے واضح کر

دیا ہے کہ قانون میں کئی خلاف شریعت شقیں موجود تھیں : ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

اگر ہم نے اللہ کے دین سے بغاوت کی روش کو ترک نہ کیا تو کسی بڑے

سانحہ سے دوچار ہو سکتے ہیں : حافظ عاطف وحید

 

ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال: وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کے حوالے سے جو حالیہ فیصلہ دیا ہے اور اس کی کئی شقات کو غیراسلامی قرار دیاہے، آپ کے خیال میں دینی طبقات کے لیے یہ کتنی خوش آئند خبر ہے؟
ڈاکٹر فریدا حمدپراچہ:الحمدللہ یہ ایک بہت اچھی پیش رفت ہے اور عدالت نے ہمارے کئی اعتراضات کو تسلیم کیا ہے جن کی دینی طبقہ نشاندہی کر رہا تھا ۔ بینچ نے تسلیم کیا کہ بعض شقات شریعت کے منافی ہیں ۔ اس قانون میں ایک بڑا ابہام پیدا کیا گیا تھا وہ بھی سامنے آگیا۔ سب سے پہلے تو ٹرانسجینڈر اصطلاح ہی ہماری نہیں ہے۔ یہ مغربی اصطلاح ہے ۔ trans کا مطلب ہے تبدیل کرنا اور genderکا مطلب ہے صنف ۔ یعنی کوئی مرد ہے تو وہ اپنی مرضی سے عورت بن جائے اور عورت ہے تو مرد جائے۔ یہ تصور مغربی ہے ۔ اس بات کو سینیٹرمشتاق صاحب اسمبلی میں بھی بیان کرتے رہے اور عدالت میں بھی جماعت اسلامی ، تنظیم اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں کی طرف سے بات رکھی گئی ۔ پھر ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے بڑی محنت سے ایک کتاب بھی مرتب کی ۔ اس قانون میں پہلی خرابی یہ تھی جس کو عدالت نے تسلیم کیا ۔ اسی طرح ایک اور بنیادی فساد یہ ڈالا گیا کہ صنف اور جنس دونوں الگ ہیں ۔ یعنی اگر ایک بندے کی جنس مردوں والی ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ میں عورت ہوں تواس کا بنیادی حق ہے کہ اس کو عورتوں کی صنف میں شمار کیا جائے ، ڈاکومنٹس میں عورت لکھوانا چاہتا ہے تو لکھا جائے ، عورت بن کر جس مجلس میں جانا چاہتاہے ، جہاں نوکری کرنا چاہتا ہے ، اس کو یہ right دے دیا جائے۔یہ بہت بڑا فساد تھا ۔ ہماری معاشرت کی جو ایک (fabric)فیبرک ہے اس کو تباہ کرنے کی بات تھی۔ہماری معاشرت میں وراثت کا قانون ہے ، پردے کے قوانین ہیں ، اس کے ساتھ دیگر فقہی مسائل ہیں، خواتین سے متعلق قوانین ہیں ، ان سب معاملات میں بہت بڑا فساد ٹرانسجینڈر قانون کی وجہ سے ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ الحمد للہ عدالت نے ہمارے ان اعتراضات کو بھی تسلیم کیا ۔ تیسری بات یہ کہ دینی طبقات میں اس معاملے میں کوئی ابہام نہیں پایا گیا وہ اپنے مؤقف پر متحد ہیں ۔ 4۔ پھر یہ اطمینان ہوا کہ کوئی تو دروازہ ہے جو ہم کھٹکھٹا سکتے ہیں اور وہاں  سے بہتر فیصلہ آسکتا ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی ہوا کہ جو طبقات مغربی ایجنڈا لے کر چل رہے تھے وہ بے نقاب ہوگئے کیونکہ جو پریس کانفرنس اس کے بعد انہوں نے کی اس میں انہوں نے تسلیم کیا ان کا مسئلہ خنثیٰ یا خواجہ سراء نہیں ہیں بلکہ وہ ٹرانسجینڈر کا ایجنڈا لے کر چل رہے ہیں ۔ ان کے مطابق جینڈر ڈسفوریا ایک بیماری ہے جس کا علاج یہی ہے کہ اس میں مبتلا فرد کو اُسی کی مرضی کی صنف تسلیم کیا جائے ۔ اس سے ان کا ایجنڈہ بے نقاب ہوگیا کہ یہ ہم جنسی پرستی کا حق تسلیم کروانا چاہتے ہیں جوکہ کسی صورت میں بھی معاشرے کے لیے فائدہ مند نہیں ہے ۔ اس کے خلاف فیصلہ بہت خوش آئند ہے ہم عدالت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔
سوال: ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کےفیصلہ کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
حافظ عاطف وحید: آپ کے علم میں ہے کہ ایک مغربی ایجنڈا ہے جو دنیا پر مسلط کیا گیا ہے ا ور اس کے تانے بانےیقیناً بہت پرانے ہیں۔ renaissanceکی تحریک اصل میں دین بے زاری کی طرف مغرب کا پہلا قدم تھا ۔ اس کےبعد پھر جب روشن خیالی کی تحریک آئی تو اس کی وجہ سے سیاست ، معیشت ، معاشرت نے وحی کی تعلیم سے جدا رہ کر کے ایک نمایاں شکل اختیار کر لی اور انسان کے جبلی ، سفلی تقاضوں اور خواہشات کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل کی ۔ یہی تحریک آگے بڑھی تو اس کے ساتھ پھر feminism کا ایک اضافی لیبل لگ گیا ۔ حقوق نسواں کے عنوان سے سوشل انجینئرنگ پروگرام آگے بڑھے اور پھر ٹرانسجینڈ ایکٹ اور LGBTQ+وغیرہ جیسے ایجنڈے سامنے آئے ۔ یہ سب شیطانی ایجنڈا ہے ۔ مغرب تو کافی حد تک اس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ اب مسلم معاشروں کو اس چیلنج کا سامنا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وعدہ قرآن حکیم میں تین مرتبہ بیان ہوا ہے :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
یہ غلبہ دو طرح کا ہوتا ہے،ایک علم اور دلیل کی سطح پر ہوتا ہے اور دوسرا عملی صورت میں نفاذ ۔ اس کو سیاسی غلبہ کہہ لیجئے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آخری وقت تک جب بھی دین میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش ہو گی یا انسانوں پر کفر اور الحاد مسلط کرنے کی کوشش ہوگی تو اللہ تعالیٰ دین کی حقیقی تعلیمات کو سرفراز فرماتا رہے گا ۔ ہمارے ہاں چونکہ عوام میںدینی شعور بہت کم ہےاور پھر اسی عوام سے نکل کر حکومتی ایوانوں میں جاتے ہیں ۔ انہیں انداز نہیں ہے کہ جس انجینئر نگ پروگرام کا وہ حصہ بن رہے ہیں اس کی کیا مہلکات ہیں ۔ 2018ء میں جب یہ بل پاس ہوا تو اس وقت شاید بیشتر ممبران اسمبلی کو پتا بھی نہ تھا کہ یہ بل اصل میں ہے کیا جو ہم پاس کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ بل خواجہ سراؤں  کے حقوق کے تحفظ کی آڑ میں پاس کروایا گیا تھا ۔ لیکن بعدمیں جب اس کے عواقب و نتائج سامنے آنا شروع ہوئے تو پتا چلا کہ یہ تو وہی مغربی ایجنڈا ہے جس کے تحت ہم جنس پرستی ، مرد کی مرد سے شادی ، عورت کی عورت سے شادی کو تحفظ دیا جاتا ہے ۔ یہ وہ ایجنڈا ہے جو کسی معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے ۔ اب بل بھی پاس ہو چکا تھا اور قانون کا نفاذ بھی ہو چکا تھا ۔ اس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد نے اپنی خواہشات کے مطابق جنس تبدیل کر لی تھی اور ایک معاشرتی فساد برپا ہو چکا تھا ۔ تب اہل علم و بصیرت کو احساس ہوا تو پہلا قدم یہی تھا کہ اس شیطانی ایجنڈے کودلائل و براہین کےساتھ باطل ثابت کیا جائے ۔ چنانچہ وفاقی شرعی عدالت میں کیس گیا تو عدالت کے سامنے بھی یہ بات کھل کر آگئی کہ یہ معاملہ اصل میں کچھ اور ہے اور اس کے بد اثرات بہت دور تک جا سکتے ہیں ۔ لہٰذا معزز عدالت کا جو فیصلہ آیا ہے اس میں ٹرانسجینڈر ایکٹ کے بعض سیکشنز کو نہ صرف یہ کہ بالکل غیراسلامی قرار دیاگیاہے بلکہ یہ بھی کہاگیاہے کہ یہ فوری طورپر موثرالعمل ہونے کی قوت سے محروم ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ اس عدالتی فیصلے کو تنفیذی قوت بھی حاصل ہو گئی ہے ۔ یعنی علمی دلائل کی سطح پر بھی اللہ نے کامیابی دی ہے اور عملی سطح پر بھی یہ کامیابی ہے ۔ یہ بڑا خوبصورت فیصلہ ہے جو کہ تقریباً 100 صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں بہت باریکی سے دلائل بیان ہوئے ہیں اور اس قانون کے معاشرے پر جو مضر اثرات مرتب ہورہے تھے ان کا بھی احاطہ کیا گیا ہےکہ اس قانون کے نتیجہ میں ہم جنس پرستی جیسے بڑے گناہ کو فروغ مل سکتا تھا ، خاندانی نظا م اور معاشرہ درہم برہم ہو سکتا ہے ، پردے اور وراثت کے معاملات میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے ۔ اب ظاہر ہے یہ قانون غیر موثر ہوگیا تو اس کی جگہ نیا قانون لایا جائے گا جیسا کہ 2022ء میں ایک بل اس کے متبادل کے طور پر پیش ہوا تھا ۔ اللہ کرے وہ بل جلد سامنے آئے اور وہ اس عدالتی فیصلہ کے عین مطابق ہو ، اگر نہ ہوا تو پھر اس میں بھی ترمیم کی ضرورت ہوگی تا کہ یہ قانون صحیح طور پر موثر ہو سکے ۔
سوال: جب یہ بل 2018ء میں اسمبلی میں پیش ہوا تھا تو اس وقت پڑھے لکھے طبقات کو نظر آگیا تھا کہ اس میں غیراسلامی شقات موجود ہیں ، اس کے باوجود یہ بل پاس ہوگیا تو کیا یہ بحیثیت مجموعی تمام سیاسی جماعتوں اور پارلیمان کی ناکامی نہیں تھی؟
ڈاکٹر فریدا حمدپراچہ:اگر اس بل کی تاریخ سامنے رہے تو یہ پتا چلے گا کہ ہوا کیاہے۔ 2017ء میں مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والی چار خواتین اور ایک مرد نے یہ بل متعارف کروایا ۔ اس میں ٹرانسجینڈر کا لفظ موجود تھا لیکن بظاہر یہ کہا گیا کہ یہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے ہے ۔ اس بل کو اچانک اس وقت Tableکر دیا گیا جب سینٹ کے ممبران ریٹائر ہو رہے تھے، آدھے ممبران سیٹ چھوڑ چکےتھے اور آدھے جو باقی تھے وہ بھی دلچسپی نہیں لے رہے تھے ۔ یعنی اس میں بدنیتی شروع سے ہی شامل تھی۔ حالانکہ یہ بل متنازع بھی تھا اور کمیٹی کے مشاورتی مراحل سے بھی پورا طرح نہیں گزرا تھا کہ اچانک اس کو اسمبلی میں پیش کر دیا گیا اور وہاں جو ممبران اسمبلی تھے انہیں خبر بھی نہیں تھی کہ کیا پیش کیا جارہا ہے۔ وہاں  صرف ہاتھ اُٹھانے والے تھے جیسا کہ نصراللہ دریش صاحب ایک حکومتی پارٹی کے ڈسپلن انچارج تھے جب میں اسمبلی ممبر تھا تو انہوں نے اپنے پارٹی ارکان سے کہا کہ آپ ہمیشہ غلطی کر دیتے ہو ، جہاں ہاں کہنی ہوتی ہے وہاں نہ کہہ دیتے ہو اور جہاں نہ کہنی ہوتی ہے وہاں ہاں کہہ دیتے ہو ۔ آپ لوگ میرے ہاتھ کو دیکھا کرو ۔ اگر میں ہاتھ اس طرح کھڑا کروں تو آپ نے ہاں کہنا ہےا وردوسری طرح کھڑا کروں تو نہ کہنا ہے ۔ یعنی یہ ہمارے قانون ساز لوگوں کی حالت ہے ۔ یعنی کسی کو کوئی پتا نہیں کہ کیا پاس کر رہے ہیں ۔اسی طرح ٹرانسجینڈر ایکٹ بھی پاس ہوا۔ حالانکہ جن کے نام پر پاس ہوا (یعنی خواجہ سرا)انہوں نے کہا کہ یہ خواجہ سراؤں کے لیے ہے ہی نہیں بلکہ یہ ان کے خلاف ہے ۔ انہوں نےاس کے خلاف جلوس نکالے لیکن چونکہ یہ این جی اوز کا مغربی ایجنڈا تھا لہٰذا کسی سے نہیں پوچھا گیا اور پاس کر دیا گیا ۔
سوال: جب یہ بات سامنے آچکی تھی کہ ٹرانسجینڈر بل میں غیر شرعی شقیں شامل ہیںتو پھر ہماری سیاسی اور دینی سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں یہ قانون کیسے پاس ہوگیا۔ کیا یہ بحیثیت مجموعی پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کی ناکامی نہیں تھی؟
سینیٹر مشتاق احمد خان: ہماری پارلیمنٹ کی پیشانی پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔ہماری سینٹ آف پاکستان کے ہال میں چیئرمین سینٹ کی سیٹ کے عین اوپر سورہ حشرکا آخری رکوع لکھا ہوا ہے ۔ اسی طرح ہماری قومی اسمبلی کی بلڈنگ کی چھت کے اوپر اسماء الحسنیٰ لکھے ہوئے ہیں ، ہمارے آئین میں ایک درجن سے زائد آرٹیکلز ایسے ہیں جو دوٹوک اور واضح انداز میں کہہ رہے ہیں کہ ہمارا سپریم لاء قرآن و سنت ہے ۔ اس کے باوجود اسمبلی میں ٹرانسجینڈر قانون کا پاس ہوجانا افسوس ناک ہے ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ کسی اور کی غلام ہے۔ IMFکی غلامی ، FATFکی غلامی ، مغرب اور امریکہ کی غلامی اور پتا نہیں کس کس کی غلامی ہم لوگ کر رہے ہیں اور پھر ہماری پارلیمنٹ غلام ہونے کے ساتھ ساتھ انگوٹھا چھاپ بھی ہے ۔ اس میں %80ایسے لوگ ہیں جو Auto پر سیٹ ہیں ۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ میں کس چیز کے اوپر Yes کر رہا ہوں اور کس چیز کے اوپر No کر رہا ہوں۔ ٹرانسجینڈر ایکٹ پارلیمنٹ کا اجتماعی گناہ تھا ۔ بعض لوگوںکو احساس ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے پارلیمنٹ کے فلور پر معافی مانگی اور بعض اپنی غلطی کی تلافی کے لیے ترمیم کے ساتھ نیا بل لے کر آئے اور وہ کھل کر میرے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ہمارے آئین اور پارلیمنٹ میں بظاہر اسلام کی بات کی جاتی ہے لیکن عملاً یہ ہمیشہ سیکولرازم کے لیے کندھا فراہم کرتے ہیں ۔ آپ اندازہ کر لیں کہ فیڈرل شریعت کورٹ میںحکومت کے ہیومن رائٹس ڈیپارٹمنٹ نے ہمارے مقابلے میں جو جواب جمع کیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ سینیٹرمشتاق کہہ رہا ہے gender identity نہیں ہونی چاہیےحالانکہ یہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے ۔ لہٰذا ہم سینیٹر مشتاق کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہاں تک انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص دماغی مریض ہے اور اپنی جنس تبدیل کروانا چاہتا ہے تو یہ اس کا حق ہے ۔ یہ ہماری حکومتوں کا حال ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو یہاں یورپین اور امریکن وائرس ہے ، خصوصاً این جی اوز کی شکل میں اس کی وجہ سے ایسی قانون سازیاں ہوتی ہیں ۔
سوال:2018ء میں یہ قانون پاس ہوا ،اس کے بعد اب تک اس غیر شرعی قانون کی آڑ میں کتنے قانونی، انتظامی اور عملی اقدامات کیے جا چکے ہیں۔ 2021ء میں اس کے رولز بھی بن گئے ،اب ان سب چیزوں کو reverse کیسے کیا جائے گا؟
سینیٹر مشتاق احمد خان: یہ قانون تو خود بھی اسلام ، اسلامی اقدار، اسلامی تہذیب ، روایات ، ہمارے خاندانی نظام ، نکاح اور پردے کے نظام پر ایک ڈرون حملہ تھا ، لیکن اس قانون کے تحت جو رولز بنائے گئے وہ اس سے بھی بڑھ کر شرمناک تھے ۔ حتیٰ کہ وہ غلاظت جو قانون کے اندر نہیں تھی وہ بھی ان رولز میں ڈال دی گئی ۔ لہٰذا ان رولز کو بھی وفاقی شرعی عدالت نے دو ٹوک الفاظ میں ناقابل تنفیذ قرار دے دیا ۔ جہاں تک اس قانون کے معاشرے پر بداثرات کا تعلق ہے تو میں نے پارلیمنٹ سے سوال کیا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ کے نفاذ کے بعد کتنے لوگوںنے جنس تبدیل کی ہے تو مجھے سینٹ میں تحریری جواب دیا گیا کہ 30 ہزار کے لگ بھگ لوگوں نے اپنی جنس تبدیل کروالی ہے ۔ جب میں یہ اعدادو شمار سوشل میڈیا پر لے کر آیا اور پھر عوام اس قانون کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو پھرنادرا نے پینترا بدلا کہ نہیں یہ کلیریکل مسٹیک ہے۔ حالانکہ کلیریکل مسٹیک ایک کا ہوسکتا ہے، دو کا ہوسکتا ہے، چلیں مان لیں 50 کا ہو سکتاہے ، 100 کا ہو سکتا ہے ، 30 ہزار افراد کا ڈیٹا نادرا میں کس طرح غلط ہو سکتا ہے ۔ پھر اگر یہ غلطی تھی تو اب تک پارلیمنٹ کے فلور پر آپ نے تصحیح کیوں نہیں کی ۔ اب صرف سوشل میڈیا پر نادرا پریشر میں آکر من گھڑت اعداد بتا رہا ہے ۔ میںسمجھتا ہوں کہ اس قانون کے نتیجہ میں ہم جنس پرستی ، مرد کی مرد سے شادی ، عورت کی عورت سے شادی کا راستہ ہموار ہوگیا تھا ۔ پھر اس قانون کے ہوتے ہوئے ہماری مسلم عورتوں کا پردہ ، عفت اور عزت انتہائی خطرے میںپڑگئی تھی ۔ ذرا سوچئے ! جب ایک مرد اس قانون کی آڑ میں عورت بن کر خواتین کے تعلیمی اداروں میں ، خلوت و مجلس میں ، تقریبات میں ہرجگہ عورتوں میں جا سکے گا تو پھر اس کے کس قدر خوفناک نتائج برآمد ہوں گے ۔
سوال: ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف فیصلے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے مغربی ممالک کے دائیں بازو کی جماعتوں کے ایجنڈے کے لیبل اور ہیڈنگز بدل کر یہ ورڈیکٹ جاری کر دیا ہے۔ کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟
سینیٹر مشتاق احمد خان: ہمارے ہاں دستور میں بہت اچھی چیزیں ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ جیسے اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قانون بننے سے پہلے اس کے اوپر قرآن و سنت کی روشنی میں رائے دے۔اس نے اس قانون کے اوپر رائے دی کہ خلاف شریعت ہے۔اسی طرح پاکستان کے دستور میں وفاقی شرعی عدالت واحد عدالت ہے جس کو سوموٹو کا اختیار حاصل ہے۔ سپریم کورٹ اگر سوموٹو لیتی ہے تو وہ184کے تحت انسانی حقوق کی آڑ میں لیتی ہے ۔ لیکن فیڈرل شریعت کورٹ کو تو باقاعدہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی قانون خواہ وہ قومی ہو ، وفاقی ہو ، یا صوبائی ہو اس کے اوپر سوموٹو لے سکتا ہے۔ اگر کوئی قانون غیر شرعی ہو تو اس کو کاالعدم قرار دے سکتا ہے ۔ اس میں مغرب کے کسی رائٹ ونگ کا کہیں سے بھی کوئی اثر نہیں ہے ۔ معزز عدالت نے دلائل سے بتا دیا ہے کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ کی فلاںفلاں شقیں قرآن و سنت کے خلاف ہیں ۔ یورپ کی رائٹ ونگ کہاں قرآن و سنت کے حوالے دیتی ہے ؟ یہ بچکانہ باتیں ہیں ۔
سوال: اب آپ اس فیصلے کا مستقبل کیا دیکھ رہےہیں، کہیں یہ فیصلہ بھی سپریم کورٹ میں چیلنج تو نہیں ہو جائے گا ؟
سینیٹر مشتاق احمد خان: بدقسمتی سے جنرل ضیاء الحق کے دور میں کچھ ترامیم کرکے فیڈرل شریعت کورٹ کو شوپیس بنا دیا گیا ۔ اس ترمیم میں کہا گیا کہ اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل ہو تو اس کا فیصلہ(stay) سٹے ہو جائے گا ۔ حالانکہ باقی عدالتوں میں یہ نہیں ہوتا۔ باقی عدالتوں میں جب تک عدالت خود سٹے نہ دے کوئی عدالتی فیصلہ جو زیریں عدالت کا ہو وہ سٹے نہیں ہوتا ۔ لیکن وفاقی شرعی عدالت کے ساتھ یہ ظلم کر دیا گیا ۔ اب میں آپ کے توسط سے عوام کو یہ بھی بتا دوں کہ میں نے ایک آئینی ترمیم پیش کی تھی تاکہ وفاقی شرعی عدالت کو موثر بنایا جا سکے لیکن میری اس آئینی ترمیم کو لاءاینڈ جسٹس کمیٹی آف دی سینیٹ میں مسترد کردیا گیا ۔ یہ وہ امریکن وائرس ہے ، یہ وہ سیکولر اور لبرل سوچ ہے جس نے بغیر کسی دلیل کے ہماری مجوزہ ترمیم کو رد کر دیا لیکن ہم بھی تھکیں گے نہیں ، نہ ہی رکیں گے کیونکہ ہم نے اسلام کا دفاع کرنا ہے اور ہمیشہ کرنا ہے ۔ یہ دفاع ہم عدالتوں میں بھی کریں گے، پارلیمنٹ میں بھی کریں گے، میڈیا اور عوام میں بھی کریں  گے ان شاء اللہ ۔ یہی ہمارا مشن ہے ۔ جب میں نے یہ ایشو اُٹھایا تھا تو پی ڈی ایم حکومت نے کہا تھا کہ ہم وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو قبول کریں گے اور اس پر قانون سازی بھی کریں گے ۔ اب میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں ۔ ایک یہ کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نہ جائے اور دوسرا یہ اس حوالے سے قانون سازی کے لیے میرا مجوزہ بل جو پارلیمنٹ میں موجود ہے اس میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ اس پر فوری عمل درآمد کرائے تاکہ عوام سے جو انہوں نے وعدہ کیا تھا اور میڈیا کے ذریعےسے کیا تھا وہ پورا ہو سکے۔
سوال: سینیٹر صاحب نے جس عزم کا اظہار کیا ہے اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے ؟ 
ڈاکٹر فریدا حمدپراچہ: سینیٹر صاحب اپنے جذبہ ایمانی کے ساتھ ہم مسلمانوں کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ہر چیز واضح ہے ۔ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ آرٹیکل 31 ریاست کو پابند کرتاہے کہ وہ معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنائے ۔ اسی طرح آئین حکومت کو پابند کرتاہے کہ جلد سے جلد سود کا خاتمہ کرے ۔کوئی چیز رکاوٹ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہماری حکومتیں ایسا کرنا نہیں چاہتیں ۔ جو بھی دینی قوتیں اسلامی شعائرکے دفاع کے لیے ڈٹ کر کھڑی ہیں انہیں اللہ اجر دے ۔ یہ بہت بڑا جہاد ہے اور دوسری طرف حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں ہے ، نہ ان کے پاس کوئی قانونی دلیل ہے ، نہ اخلاقی جواز ہے وہ صرف عالمی ایجنڈے پورے کر رہے ہیں۔ان لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ قرآن میں اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ :
{وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا} (طٰہٰ:124) ’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقیناً اُس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی‘‘
یعنی جومیری نافرمانی کریں گےتباہ حال معیشت ان کا مقدر بن جائے گی تو وہ آج ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے ۔
سوال:وفاقی شرعی عدالت کا سود کے خلاف جب فیصلہ آیا تھا تو ہم اسی فورم پر بیٹھ کر بڑے پراُمید تھے کہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی اکانومی کے حوالے سے اچھے دنوں کا آغاز ہو جائے مگر اس فیصلے کو آئے 400 دن گزر چکے ہیں ، ابھی تک کچھ ہوا نہیں ۔ گزشتہ برس اس معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنا دی گئی تھی ، پھر ایک سٹیرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے چیئرمین اسحاق ڈار صاحب بنے تھے ۔ کیا آپ کسی مثبت پیش رفت کی اُمید ہے ؟
ڈاکٹر فریدا حمدپراچہ: کوئی کام نہیں ہوا ، کوئی قدم آگے نہیں بڑھا ۔جب کسی مسئلہ کو ٹالنا ہو تو کمیٹی بنا دی جاتی ہے ۔ جب پہلی کمیٹی بنی تھی تو اس وقت ہم علماء  سے ملے سب نے یہی کہا کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے کہا کہ ایک طرف سٹیٹ بینک فیصلے کے خلاف اپیل میں جارہا ہے ، حکومت اس کو روک نہیں رہی اور دوسری طرف ٹاسک فورس بنا کر ہمیں بہلایا جارہا ہے ۔ یہی حشر بعد کی سٹیرنگ کمیٹی کا بھی ہوا ۔ صورتحال مایوس کن ہے ۔
سوال:آئین میں ایسی ترامیم کرنے کی جب ضرورت پیش آتی ہے تو کیا ہم اپنی پارلیمنٹ کو اس چیز کا پابند نہیں بناسکتے کہ آپ قانون سازی کرنے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کر لیں؟
حافظ عاطف وحید: جہاں تک میرے علم میں ہے پارلیمنٹ کی طرف سے جوبل یا مسودہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جاتاہے وہ صرف اسی پراپنی رائے دیتی ہے یا نظرثانی کرتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پارلیمنٹ کی صوابدید پر ہے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجے یا نہ بھیجے۔ حالانکہ یہ معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہیے کہ جو بھی بل یا ترمیم آئے اس کو سب سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈیسک سے گزارا جانا چاہیے ،اگر اس کی طرف سے کوئی سفارشات آتی ہیں تو ان پر عمل درآمد کے لیے بھی باقاعدہ کوئی نظام ہونا چاہیے بجائے اس کے لیے اس کی سفارشات کو اُٹھا کر الماریوں میں بند کر دیا جائے ۔ سینکڑوں معاملات ہیں جن کے اوپر اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سفارشات دی ہوئی ہیں اور وہ صرف ریسرچ پیپر کے طور پر لائبریریوں اور الماریوں کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔ اصل میں کچھ کھلونے دے کر ہمیں بہلایا جارہا ہے ۔ جیسے تھوڑی دیر پہلے سینیٹر صاحب فرما رہے تھےکہ اپنی جگہ اسلامی نظریاتی کونسل بھی اور وفاقی شرعی عدالت بھی بہت اہم ادارے ہیں۔اگران کے ساتھ صحیح معاملہ کیا جائے تو پاکستان کو بہت فائدہ ہو سکتاہے ۔ یعنی اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو کسی بڑے دھچکے کے بغیر اسلامی معیشت اور اسلامی معاشرت کی شاہراہ پر لایا جائے تو اس کا طریقہ وہی ہے کہ آئین اور قانون پر ٹھیک طریقے سے عمل درآمد ہو ۔ یہ ہماری قومی ضرورت بھی ہے ، ورنہ اگر آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا تو خدانخواستہ پاکستان کسی بڑے سانحہ سے دوچار ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں بڑی افراتفری ہے ، انتشار ہے ۔ قرآن مجید کاصاف حکم ہے:
{یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(2)کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(3)}(الصف) ’’اے مسلمانو! تم کیوں کہتے ہو وہ جو کرتے نہیں ہو؟ بڑی شدید بے زاری کی بات ہے اللہ کے نزدیک کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں۔‘‘
ہم نے آئین کے اندربڑے بڑے دعوے کیے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں ایسی معیشت ہو گی، ایسی معاشرت ہو گی، یہاں عدل ہو گا، انصاف ہو گا، دعوے تو یہ ہیں لیکن درحقیقت کیا ہو رہا ہے اور مجھے یاد ہے کہ گزشتہ سال وفاق ہائے صنعت و تجارت کے کراچی میں پروگرام میں جہاں  ہر مکتب فکر کے لوگ آئے ہوئے تھے، حکومتی نمائندے بھی موجود تھے ، اسحاق ڈار صاحب بھی موجود تھے اور وہاں  سٹیٹ بینک کے گورنر نےکھڑے ہو کر کہا تھا کہ ہم اس فیصلے پر عمل درآمد کریں گے۔ اب اگر اپنے اس دعوے پر انہوںنے عمل درآمد نہیں کیا تو انہیں چاہیے کہ ذرا سوچیں تو سہی اگلی آیت کیا کہہ رہی ہے:{کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ } اللہ کے نزدیک یہ بہت ہی غضب کو بھڑکانے والی بات ہے ۔لہٰذا اللہ کا غضب تو ہمیں نظر آرہا ہے ۔ بہت سے لوگ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ عملی طور پر ڈیفالٹ کر چکے ہیں بس ظاہر نہیں کیا جارہا ۔کچھ عارضی سہارے لیے ہوئے ہیں ۔ یعنی بہت ہی خطرناک دوراہے پر اس وقت ہم کھڑے ہیں ۔ اگر ہم نے توبہ نہ کی اور اپنی سمت کو درست نہ کیا ، عوام بھی اور خواص بھی فکر مند نہ ہوئے تو کسی بڑی تباہی سے کوئی چیز روکنے والی نہیں ہے اس لیے کہ ہر طرح کی تباہی کو ہم خوددعوت دے رہے ہیں ۔
ڈاکٹر فریدا حمدپراچہ: آئینی لحاظ سے حکومت پابند ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹس پر اسمبلی میں بحث کرے اور اس پر عمل درآمد کی رپورٹ دے۔ لیکن صرف اتنا ہوتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹس کو لاکر اسمبلی ممبران کے سامنے ٹیبل پر بنڈل کی صورت میں رکھ دیا جاتاہے ، سپیکر صاحب کہہ دیتے ہیں کہ یہ وہ رپورٹس ہیں ، نہ کوئی ان رپورٹس کو دیکھتا ہے نہ پڑھتا ہے ، پوری اسمبلی میں سے دس بارہ ممبران ہوں گے جو ان رپورٹس کو ساتھ لے جاتے ہوں گے ورنہ وہیں ٹیبل پر پڑی رہتی ہیں اور اگلے دن واپس الماریوں میں رکھ دیا جاتا ہے۔یہ صورتحال ہے۔
سوال: پاکستان معاشی لحاظ سے بیرونی قرضوں اور آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے ،دوسری طرف مغرب ہمارے خاندانی اور معاشرتی نظام پر حملے کر رہا ہے، اس ساری صورتحال سے نکلنے کا حل کیا ہے؟
ڈاکٹر فریدا حمدپراچہ: معیشت کی تباہی اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ 1.6ملین ڈالر لینے کے لیے تڑپ رہے ہیں ، منتیں کر رہے ہیں اور ہر شرط ماننے کو تیار ہیں ۔ ان کی شرائط کو پورا کرتے کرتے بجلی ، گیس ، پٹرول کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچا دیں ، مہنگائی کس قدر بڑھ گئی ، IMFبھی کوئی ایسی شرط نہیں رکھتا کہ اشرافیہ کو جو مراعات دی جارہی ہیں ان پر بھی کوئی قدغن لگائی جائےیا ان سے بھی زیادہ ٹیکس لیا جائے ۔ بدقسمتی سے صرف عوام کا خون پسینہ نچوڑا جاتاہے ۔ اشرافیہ کو پٹرول ، بجلی ، گیس ہر چیز مفت مل رہی ہے ، ان کی عیاشیاں ختم نہیں ہورہیں، مہنگی مہنگی گاڑیاں ان کے لیے آرہی ہیں ۔ آپ نے سودی نظام بھی جاری رکھا، آپ نے ظالمانہ ٹیکس بھی غریب عوام پر بڑھا دیے ، آپ نے معاشرتی فرق کوبھی تقویت دی،آپ نے ایسے طبقے کو مسلط کر دیا جو کرپٹ اور عیاش ہے تو پھر معیشت کیسے ٹھیک ہوگی ۔ جب تک یہ نہیں ہوگا جو قرآن پاک نے ارشاد فرمایا:
{وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ} (الاعراف:96) ’’اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر کھول دیتے آسمانوں اور زمین کی برکتیں۔‘‘
وہ برکتوں کے دروازےنہیں کھل رہےاس وجہ سے کہ ہم بغاوت کے راستے پر جارہے ہیں ۔