اسلام میں امانت داری کی تلقین
مولانا امان اللہ
اسلام میں امانت داری کی بڑی اہمیت ہے۔ جو امانت دار نہیں وہ مومن نہیں۔ شریعت نے ہر باب اور معاملہ میں خیانت سے منع فرمایا ہے۔ وہ تمام حقوق جن کی رعایت ونگہداشت کا انسان پابند بنایاگیا ہے خواہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ہوں یا بندوں کے۔ تمام شرعی احکام،اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں جن کا بوجھ انسانوں نے اٹھایا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئےاور انسان نے اسے اٹھا لیا،بےشک وہ بڑاہی ظالم اور جاہل تھا۔(الأحزاب: 72)
یہاں امانت سے احکام شریعت مراد ہیں۔ لہٰذا جس نے شرعی پابندی کا پورا پورا لحاظ کیا وہ عظیم اجر وثواب سے بہرہ ور ہوا اورجس نے ظاہرا تسلیم کیا مگر دل سے نہ مانا اورجس نے ظاہری اور باطنی دونوں طریقوں سے شرعی احکام کا انکار کیا، غفلت برتی وہ منافق وکافر قرار دیا گيا۔ سورۂ احزاب کی آخری آیت میں امانت الہٰی یعنی شرعی احکام کی پابندی کرنے والے مومنین ومومنات کے لیے بشارت اور منافقین ومنافقات اور مشرکین ومشرکات کے لیے عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے۔
اللہ کے بندو!جس طرح عبادات الہٰی، اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں اور ہم ان کی ادائیگی کے شرعا مکلف اور پابند ہیں۔ اسی طرح لوگوں کی ودیعتیں (یعنی وہ سامان جو لوگ ایک دوسرے کے پاس کچھ وقتوں کے لیے چھوڑدیتے ہیں اور ان کے عیوب اور رازدارانہ امور) بھی امانت ہیں۔ بادشاہ، وزراء اور افسران سے لے کر کلرک اور چپراسی تک ہر کوئی امانت دار ہے اور اس پر عائدذمہ داریاں، امانت ہیں۔ قاضی اپنے حکم قضامیں، مدرس اپنی تدریس میں امین ہے۔ اسی طرح بیوی اور بچو ں کی دینی واخلاقی تربیت بھی ایک اہم امانت ہے اور اس میں کوتاہی کرنے والا عند اللہ مسئول ہے۔ اسلام میں صلاح ومشورہ بھی بڑی اہمیت کاحامل ہے۔ جس سے مشورہ طلب کیاجائے اس پر لازم ہے کہ مشورہ طلب کرنے والوں کو صحیح مشورہ دے کیونکہ یہ بھی ایک امانت ہے اور مشورہ طلب کرنے والے پر بھی لازم ہے کہ وہ ایسے ہی شخص سے مشورہ طلب کرے جو اس کا مخلص اور ہمددر ہو۔ اس کے جذبات کو سمجھتا ہو، اسی کی خوشی میں اپنی خوشی اور اس کی تکلیف میں اپنے لیے تکلیف پاتا ہو۔ ورنہ غیر مخلص جس کی حیثیت ایک چھپے ہوئے دشمن کی ہو تو وہ کبھی بھی صحیح مشورہ نہیں دے گا۔
دوسری بات یہ کہ ایسے ہی شخص سے مشورہ طلب کرے جو معاملہ فہم ہو۔ کسی ناواقف شخص سے جو مطلوبہ امور کی بابت صحیح علم نہ رکھتا ہو، مشورہ طلب کرنا بجائے خود جہالت وحماقت ہے نیز مشورہ ایسے ہی شخص سے طلب کیا جائے جو مومن متقی ہوکیونکہ ایمان اور تقویٰ دھوکہ وخیانت سے انسان کوروکتے ہیں۔
مال کی طرح بات اور کسی کا راز بھی امانت ہے اگر اس پر کوئی شخص امین بنایاجائے تو اس کے لیے بات یاراز کا افشاء خیانت ہے۔ اور آج عام طور پر اس معاملے میں لوگ بڑی خیانتیں کرتے ہیں۔ کسی بات پر اختلاف ہوا اور تمام پوشیدہ رازوں کو اُگلنا شروع کردیا۔
ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے خوف کھانا چاہئے اسی طرح گھر کا ذمہ دار اپنے گھر میں امانت دار ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی ذمہ داریوں کے متعلق سوال کیا جائے گا؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُــؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالا}(النساء: 58) ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! ۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’’تمہارے پاس جس نے امانت رکھی ہے اس کی امانت ادا کردو، اور جس نے تم سے خیانت کی ہے، اس کے ساتھ تم خیانت مت کرو۔‘‘(ابو داؤد)
اس کی خیانت کا گناہ اس کے سر ہے، تمہاری امانت داری کا تمہیں ثواب ملے گا۔ امانت دار کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ اس نے لیا ہے اسے ادا کردے۔ لہٰذا ہرشخص اپنے واجبات وفرائض اور بطورامانت رکھی گئی چیزوں کی ادائیگی کا ازحد لحاظ کرے اور خیانتوں سے پرہیز کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ تمام حضرات وخواتین کو خیر خواہ اور امین بنائے۔ آمین۔
اسلامی بھائيو! امانت کی ضد خیانت ہے اور جس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے برگزیدہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کا تاکیدی حکم فرمایا ہے اسی طرح اللہ اور رسول نے خیا نتوں سے بھی بازرہنے کی سختی سےممانعت فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اے ایمان والو: نہ تو اللہ اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم (ان باتوں کو)جانتے ہو۔‘‘(الانفال: 27)
یعنی ان کے حقوق کی ادائیگی اور اللہ کی الوہیت اور رسول کی رسالت کے تقاضوں کی تکمیل میں کسی قسم کی خیانت وبدعہدی کوراہ نہ دو اور اسی طرح تم اپنے درمیان ایک دوسرے کے حقوق اور اموال وغیرہ امانتوں کے اندر بھی خیانت نہ کرو۔ خیانت یہود ومنافقین کی صفت ہے۔
سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَمِنْہُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْـنَارٍ لَّا یُــؤَدِّہٖٓ اِلَـیْکَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَـآئِمًاط} (آل عمران: 75) ’’اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں، ہاں یہ اور بات ہے کہ تو اس کے سر پر ہی کھڑا رہے۔‘‘
میں یہود اور ان کی خیانت بیان کی گئی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے :
’’منا فق کی تین نشانیاںہیں کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب کسی چیز پر امانت دار بنایاجائے تو خیانت کر جائے۔‘‘ (متفق علیہ )
حقیقت یہ ہے کہ امانت میں خیانت ظلم ہے اور ظالم کسی حال میں اللہ تعالیٰ کے انتقام سے بچ نہیں سکتا۔ اِلاّ یہ کہ توبہ کرے اور حق والے کا حق ادا کرے ۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے اند آخری زمانہ کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی بتائی گئی کہ لوگوں کے سینوں سے اما نتیں ختم کردی جائیں گی۔ گویا ایمان اور فطرت سلیمہ کے نتیجہ میں لوگوں میں جو امانت داری موجود ہے وہ برے اعمال اور بدنصیبی کے سبب رفتہ رفتہ زائل ہو جائےگی۔ جب نور امانت زائل ہوگا تو اس کی جگہ سیاہی آئے گی، پھر سیاہی کے بعد سیاہی مزید گہری ہوتی چلی جائے گی، پھر تو امانت دار تلاش کرنے سے بھی نہ ملے گا۔ یہاں تک کہ خیر اور ایمان سے محروم لوگ ہی لائق ستائش اور قابل تعریف ٹھہریں گے۔
صحیحین میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’سب سے بہتر زمانہ میرا ہے ، پھر میرے بعد والوں کا، پھر ان کے بعد والوں کا۔ عمران بن حصین کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے یہ دو بار فرمایا یا تین بار۔ پھر ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو بلاطلب کے گواہ بنا کریں گے، خیانت کریں گے اور امانت دار نہیں رہیں گے۔ نذریں اور منتیں مانیں گے، لیکن انہیں پورا نہ کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو جائےگا۔‘‘
امانت داری موجود ہے وہ برے اعمال اور بدنصیبی کے سبب رفتہ رفتہ زائل ہو جائےگی۔ جب نور امانت زائل ہوگا تو اس کی جگہ سیاہی آئے گی، پھر سیاہی کے بعد سیاہی مزید گہری ہوتی چلی جائے گی، پھر تو امانت دار تلاش کرنے سے بھی نہ ملے گا۔ یہاں تک کہ خیر اور ایمان سے محروم لوگ ہی لائق ستائش اور قابل تعریف ٹھہریں گے۔
صحیحین میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’سب سے بہتر زمانہ میرا ہے ، پھر میرے بعد والوں کا، پھر ان کے بعد والوں کا۔ عمران بن حصین کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے یہ دو بار فرمایا یا تین بار۔ پھر ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو بلاطلب کے گواہ بنا کریں گے، خیانت کریں گے اور امانت دار نہیں رہیں گے۔ نذریں اور منتیں مانیں گے، لیکن انہیں پورا نہ کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو جائےگا۔‘‘ خخخ
خخخ
خخخ
tanzeemdigitallibrary.com © 2024