آئی ایم ایف کا پروگرام اور پاکستان کی زبوں حالی
وقاص احمد
(رکن غازن فکری، تنظیم اسلامی پاکستان)
پاکستانی معیشت کے حوالے سے اگر گزشتہ دو دہائیوں میں گزرے ہوئے عرصے پر ہی بات کر لی جائے تو ان بائیس تئیس سالوں میں ریاست و حکومتِ پاکستان کے بے سمت اور گمراہ کن معاشی اقدامات، غلط سیاسی پالیسیوں اور تباہ کن اسٹریٹجک فیصلوں کی وجہ سے آج پاکستان کی معیشت بالکل گھٹنوں پہ آگئی ہے اور خدا جانے بند کمروں میں وہ کیا فیصلے ہوئے ہیں جس پر پاکستان کی اس کمزور ترین معیشت کو آئی ایم ایف نے تین ارب ڈالر دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اشرافیہ اور مقتدر حلقوں کی مجرمانہ غفلتوں اور پاکستانی عوام پر پے درپے ظلم کے بعد یہ مقام آگیا ہے کہ سنہ 2000 ءسے لے کر آج تک مزدوروں اور محنت کشوں کی بنیادی تنخواہوں میں جس شرح سے اضافہ ہوا، مہنگائی میں اس سے قدرے زیادہ شرح سے اضافہ ہوتا رہا۔ یعنی مثال کے طور پر سنہ 2000ء سے سنہ 2002ء کے درمیان میں مزدور کی کم ازکم اجرت ماہانہ 2500سے 3000 روپے تھی تو آٹا 9سے 10 روپے کلو تھا، دودھ 22 روپے لیٹر تھا۔آج کم از کم ماہانہ تنخواہ 30,000سے 32,000روپے ہے لیکن آٹا 150 روپے کلو اور دودھ 210 روپے لیٹر پر آگیا ہے۔ آج محنت کش، لوئر مڈل کلاس، مڈل کلاس کی قوت خرید کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے اور جس حالت میں سنہ 2000 ءمیں تھا آج اس سے بدتر حالت میں ہے اس کا جواب ہمارے حکمرانوں سے اللہ ہی لے گا کیونکہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے خمیر میں اب اس بات کی سکت، حیثیت اور صلاحیت نہیں رہی کہ وہ اس مسئلے کو حل کر سکیں کیوں کہ وہ خود اس مسئلے کا حصہ ہیں، الّا ماشاءاللہ۔ دوسری طرف تمام مزدور یونینز، لوئر، مڈل کلاس تناظیم اور تحاریک کو ایک سازش کے تحت بتدریج ختم کر دیا گیا ہے جو متحد ہوکر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں۔
خبریں یہی آ رہی تھیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم نہیں کر رہا اور گزشتہ کئی مہینوں سے معاملات آگے نہیں بڑھ رہے لیکن اچانک ایسا کیا ہوا کہ آخری لمحوں میں وزیراعظم شہباز شریف کے فرانس کے دورے نے آئی ایم ایف کا دل برف کی طرح پگھلا دیا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انہوں نے پاکستان کو تین ارب ڈالر دینے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس کے پیچھے کیا راز پنہاں ہیں وہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ معاشی اور مالیاتی سطح پر شرائط ماننے کے لیے شہباز شریف نے جس طرح 415 ارب روپے کے نئے ٹیکسز کے اوپر مزید 215ارب پرروپے کے ٹیکسزکا اضافہ کیا جس میں پٹرول لیوی کو ساٹھ روپے تک لے جایا گیا ہے اور تنخواہ دار پر مزید ٹیکس لگائے گئے ہیں اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اب آئی ایم ایف کو اس بات کی کوئی خاص پرواہ نہیں کہ پاکستان اپنے معاشی ڈھانچے میں کون کون سی سٹرکچرل(Structural) تبدیلیاں کرتا ہے ، کیا ریفارمز کرتا ہے بلکہ اسے اب بس قرض واپس حاصل کرنے کی فکر ہے اور قرض کے خوفناک جال میں مزید پھنسا کر پاکستان سے مختلف سیاسی اور اسٹریٹجک نوعیت کے فیصلے کروانا مقصود ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے قیام پزیر ہونے کے اسّی سال بعد آج بھی حتمی فیصلے امریکی سرکار ہی کرتی ہے۔ چین آئی ایم ایف کا ایک بڑا ممبر ہے لیکن پھر بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا کنٹرول بہت زیادہ ہے ۔ ان تمام باتوں میں خالص معاشی و مالیاتی شرائط کے علاوہ امریکی حکومت کی کچھ سٹریٹجک شرائط بھی تسلیم کی گئی ہونگی جسکے بعد اس پروگرام کی منظوری دی گئی ہے۔ ظاہر ہے مذاکرات میں سٹریٹجک اور عالمی سیاسی معاملات بھی زیر بحث آتے ہیں۔ تبھی اسحا ق ڈارنے لانگ رینج میزائیلوں کا تذکرہ تو کیا لیکن اس سے آگے ان کی ہمت نہ ہوئی۔ اندرون ملک سیاست میں بھی طاقت کا حصول باہمی تعاون سے ہوتا ہے ۔ پاکستان کی طرف سے مبینہ طور پر یہ بات کی گئی ہوگی کی ایک خاص سیاسی پارٹی کے بیانئے اور انسانی حقوق کے مسائل کو اہمیت نہ دی جائے اور الیکشن جب بھی کرائے جائیں اس کے نتائج کو قبولیت بخشی جائے اور اس حوالے سے کسی خدشے کا شکار نہ ہوا جائے۔
امریکا اور اس کے پرانے اتحادیوں کے معاشی ہتھیار کے طور پر کام کرنے والے آئی ایم ایف کا یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ وہ ملکوں کو (انکے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے) پہلےقرضوں میں جکڑ تا ہے اور پھر اپنی مرضی کے فیصلے کرواتا ہے۔ جان پرکنز کیConfessions of Economic Hitman کتاب میں اس کے مذموم طریقے اور انداز کھول کھول کر بیان کر دیے گئے ہیں ۔ اوپر اوپر سے تو اسٹرکچرل ریفارمز کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن اندر خانے مقتدر حلقوں سے یہی کہا جاتا ہے کہ اپنے ملک کا جو حشر کرنا چاہے کریں لیکن ہمیں ہمارا سرمایہ بمع سود کے وقت میں واپس کیا جائے ۔ مشورہ تو دیا جاتا ہے لیکن اس بات پر زور زبردستی نہیں کی جاتی کہ بیمار صنعتوں کی نجکاری کریں یا پھر اور اس میں سے رسنے والے پاکستان کی خون پسینے کی کمائی کو بچائیں۔ ملک میں کرپشن کا خاتمہ کریں ۔ نظام عدل و انصاف کو آزاد و شفاف کریں، کفایت شعاری کو اپنائیں ، غیر پیداواری اخراجات کو کم سے کم رکھیں، سارے کاروباروں کو انکم ٹیکس نیٹ میں لائیں۔ (آخر ایسا کیوں ہے کہ صرف لیاقت آباد کراچی کی مارکیٹ لاہور کی تمام ماریکٹو ں سے زیادہ ٹیکس دیتی ہے)۔ دفاعی نوعیت کے اخراجات کو Rationalize کریں اور زیادہ سے زیادہ پیسہ ٹیکنالوجی کے حصول، صنعتی پیداوار ، ہیومن کیپٹل ڈیولپمنٹ ، تعلیم و تربیت اور صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے خرچ کریں جو پاکستان کی شرح نمو اور اشیاء اور سروسز کی برآمدات میں اضافہ کرے۔
1944 ءمیں ترتیب دیے گئے اس مالیاتی نظام کے اصولوں کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے امیر لوگوں کی دولت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جبکہ غریب کی آمدنی، اس کی بچت، اس کی قوت خرید بتدریج نیچے جاتی رہتی ہے ۔ حکومت آہستہ آہستہ عام آدمی سے مفت سہولیات بھی چھینتی رہتی ہے۔حکومت اپنے بپلک سیکٹر ترقیاتی بجٹ میں بھی کٹوتی کرتی رہتی ہے۔ آئی ایم ایف چند خیراتی ٹائپ کی سرگرمیوں کی اجازت تو دیتا ہے لیکن کسی ٹھوس اور مفید سطح کی فری سروس کو روکنے پر واویلا نہیں کرتا۔ تعلیم اور صحت پر خرچ کرنے پر زور نہیں دیتا۔ یہ کام تو ویسے بھی قرض لینے والے ملک کے لوگو ں اور ان کے نمائندوں کا ہے۔ جتنا معاشی ڈسپلن ہوگا اتنے فنڈز میسر ہونگے عوام پر خرچ کرنے کے لیے۔
آئی ایم ایف کے تین ارب ڈالر مل جانے سے پاکستان مزید ایک ایسے جال میں پھنسنے والا ہے بلکہ پھنس چکا ہے جس کے خوفناک اور بھیانک نتائج ہم تاریخ کے اوراق میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک امریکا کے سٹریٹجک معاشی ہتھیار کے طور پر دنیا میں متعارف کرائے گئے تھے۔ جنہوں نے مو جودہ جدیدسودی قرض دینے اور لینے کا نظام قائم کیا۔ جس میں سینٹرل بینک اور اس کی اندرونِ ملک پالیسیاں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ پورا معاشی اور مالیاتی نظام ہی ہے جس کی وجہ سے آج دنیا کا بڑا حصہ غربت اور پسماندگی کا شکار ہے۔ قرضوں میں الجھانے کے بعد عالمی طاقتیں اپنی مرضی کے سودے کرتی ہیں ۔ کاروباری اور تجارتی معاہدے کرتی ہیں۔ اس ملک کے وسائل پہ قبضہ کرتی ہیں، اس ملک کی معدنیات اور منافع بخش اثاثوں پر قبضہ کرتی ہیں۔پاکستان میں اثاثے حوالے کرنے کا عمل زور و شور سے شروع ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے آرجنٹینا، یونان، آئرلینڈ، سری لنکا اس بحرانی کیفیت سے گزر چکے ہیں۔ اس کام کے لیے طاقتوں کو کسی فوج اور کسی حملے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بقول غالب ؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
tanzeemdigitallibrary.com © 2024