قرآن میں ہو غوطہ زن…
عامرہ احسان
عیدالاضحی ایک طرف جانوروں کی قربانی، فلسفۂ قربانی اور تکبیرات کی گونج میں گزرا۔ دوسری جانب پس منظر میں مسلسل نگوڑے آئی ایم ایف سے عیدی طلب بیانیوں اور کاسۂ گدائی میں ڈالروں کی آمد نے اس شعر میں رنگ بھرا۔ نماز وروزہ وقربانی وحج، یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے۔ بالآخر 13ذو الحج کو، جب ہمارے حاجیوں نے شیاطین پر رمی میں کماحقہ سنگ باری کرلی تو ہمارے اخباروں کی شہ سرخیاں آئی ایم ایف کے رام ہونے کی ’خوشخبریاں‘ لے کر آئیں! ’9 ماہ میں 3ارب ڈالر ملیں گے‘ … ہمارا شکرانہ تو صرف یہ رہا کہ نہ علامہ اقبال کڑھنے سلگنے کو موجود ہیں، نہ گورے کے جبڑوں سے پاکستان کو نکال لانے والے دھان پان تپ دق کے مریض، بانیٔ پاکستان۔ جن کی آخری تقاریر میں اسلامی ریاست کی تکمیل کی تمنائیں جھلکتی تھیں۔ اسٹیٹ بینک کو سود سے آزاد معیشت پر کام مکمل کرنے کی تاکید بھی تھی۔ ہم یہ دن دیکھنے کو بیٹھے ہیں کہ پہلے مسلسل قوم کو یقین دہانیاں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف سے رزق رسانی کی رہیں۔ اپنے معاشی الٰہوں سے قوم کو متعارف کروایا جاتا رہا… ’چین نے دیوالیہ ہونے سے ہمیں بچا لیا‘۔ سعودیہ، یو اے ای اور اسلامی ترقیاتی بینک کی نوازشات کا فخریہ تذکرہ تھا۔
یہ کسی ایک حکومت یا وزیراعظم کا المیہ نہیں، ہم ازلی ابدی بدعنوانی، بدانتظامی اور دین سے منہ موڑنے اور ’معیشۃ ضنکا‘ (اللہ کی وعید: ’تنگ زندگی‘) میں گرفتار ہیں۔ سود کے مکوڑوں بھرے پیکیج ہمارا رزق ہوں تو قوم کے پیٹ میں کیڑے ہی پڑیں گے۔ دماغ میں سرسریاں ہی سرسرائیں گی۔ کہتے ہیں: ’آئی ایم ایف پالیسی کے مطابق راستہ نکال لیا ہے۔ قرض کی قسط آنے سے معاشی پروگرام آگے چلے گا۔‘ ہچکیاں، سسکیاں لیتا ہی چل سکتا ہے! ہماری یہ مرثیہ خوانی، احساسِ زیاں جاتے رہنے پر ہے ساری! خودی پڑھائی نہ گئی کیونکہ خودی پال کر انسان سکون سے جینے کے لائق نہیں رہتا۔ اقبال کہہ گئے:
تری زندگی اسی سے تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو روسیاہی!اب اسی روسیاہی کا نام (فیئر اینڈ لولی کریم استعمال کرکے) ’خوشخبری‘ ہو چکا ہے۔ اب پاکستان کی شاہی خودی سے نہیں، سسک سسک کر لئے گئے کاسۂ گدائی میں بھرے آئی ایم ایف کے ڈالروں سے ہے!
ادھر قائداعظم سے موسوم یونیورسٹی کے نوجوان لڑکے لڑکیاں گئوموتر والی ہولی پر شاداں وفرحاں رقصاں ہیں۔ ایسے میں یہ دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے کہ قوم کو یاد دلایا جائے کہ:
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا…یا یہ کہ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ ودو میں! ایسے اشعار کی درستی اور ترمیم لازم ہے۔ بڑی چیز نہیں ’بری چیز!‘ جہانِ تگ ودو میں۔ ہمارے پے درپے وزرائے خزانہ کی قرضہ طلب بھاگ دوڑ دیدنی رہی۔ اب اس کے پھل عوام چکھنے کو ہیں۔ سپر ٹیکس نافذ، بجلی گیس مہنگی کرنے کی تیاری ہے۔
ایک طرف سیاسی معاشی جھکڑ چل رہے ہیں۔ دوسری طرف سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین 9نئے صوبے بنانے کا مشورہ داغ رہے ہیں۔ کراچی، فاٹا، ہزارہ صوبے۔ نیز پنجاب اور بلوچستان کو تین، تین صوبوں میں تقسیم کردیا جائے۔ تاریخ پڑھی ہوتی تو اسپین کا زوال نگاہ میں ہوتا۔ تقسیم در تقسیم ملک کو کمزور کرنے کا آسان نسخہ ہے۔ کرسیاں ہی کرسیاں، نو صوبوں کے مناصب، اسمبلیاں، بجٹ، اسباب ووسائل کی فراہمی! کیا درفنطنی چھوڑی ہے! ابھی تو چیئرمین سینیٹ کا بے پناہ بھاری بھرکم مراعاتی بل شدید تنقید کے نتیجے میں انہیں واپس کرنا پڑا۔ معاشی بدنظمی اور چھینا جھپٹی کے اس غیرمنصفانہ، ظالمانہ نظام کی تبدیلی درکار ہے۔
عید پر امراء کے باربی کیو پر تو قدغن نہ لگی، سری پائے بھوننے، صاف کرنے والے 68گرفتار کرلیے کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث ہے یہ۔ اگرچہ عالمی سطح پر موسمیاتی ماحولیاتی بحران بھاری آفات لا رہا ہے۔ امریکا میں پہلے طوفانی بگولوں نے قیامت ڈھائی۔ چھتیں اڑ گئیں۔ درخت کھمبے گر گئے سیلابی صورت حال بنی۔ اب 3کروڑ افراد شدید گرمی سے جھلس رہے ہیں۔ ہلاکتیں، ہیوسٹن میں سڑکیں پگھل کر، دراڑیں پڑ گئیں۔ امریکا نے مسلمان بموں سے بھون ڈالے تھے۔ افغانستان، عراق، شام، یمن میں! موسم بگولے بن کر اور سورج تپش سے انہیں بھون دینے کو تل گیا۔ (موسمیاتی شدتوں کی ذمہ داری میں امریکا بڑا شریک ہے۔)
فرانس میں 17سالہ الجزائری نوجوان کے قتل کے نتیجے میں آتش فشاں مظاہروں نے ملک کو آن لیا۔ نسل پرستی، اقلیتوں کے ساتھ تعصب کا برتاؤ، بدسلوکی فرانس کا دیرینہ مسئلہ ہے سو اب اسے بھگت رہے ہیں۔ ہمیں بھاشن دینے والوں کی اپنی عدم برداشت نے 17سالہ کار سوار الجیرین کے سینے میں (پولیس نے) گولی مار کر بے دردی سے قتل کر ڈالا۔ مظاہرین نے درجنوں گاڑیاں، املاک، پولیس اسٹیشن نذر آتش کردیے۔
پیرس کے جنوب میں ایک میئر کے گھر میں گاڑی دے ماری، آگ لگا دی۔ میئر بھڑک اٹھا کہ یہ ’ناقابل بیان بزدلی اور (میرے بیوی بچے) قتل کرنے کی کوشش تھی۔‘ اور جس 17سالہ کو بلاجرم مارا گیا وہ کیا بلی چوہے کا بچہ تھا؟ فرانس کو اب فکر ہے اولمپک گیمز اور رگبی ورلڈ کپ کی جو ہونا طے ہے۔ بہت سی ثقافتی سرگرمیاں بھی انہیں روکنی پڑ گئیں۔ لینے کے دینے پڑ گئے۔ بسیں اور ٹرام سروس رات 9بجے کے بعد روک دی گئی ہے۔
سویڈن کی بدباطنی اسلاموفوبیا اور قرآن کی بے حرمتی کے پے درپے دہشت گردانہ واقعات پر مبنی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ یورپی ممالک پہلے آزادیٔ اظہار کی آڑ میں پشت پناہی کرتے ہیں ایسے واقعات کی، پھر مسلم دنیا سے ردعمل آنے پر منافقانہ معذرت کرکے ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ سویڈن ایک مرتبہ پھر آگ سے کھیلا ہے۔ عید الاضحی کے مقدس موقع پر تاک کر اسٹاک ہوم کی مرکزی جامع مسجد کے باہر، (سویڈن پولیس کی مکمل پشت پناہی میں) دو افراد نے قرآن پاک کے صفحات پھاڑکر ان سے اپنے جوتے صاف کرنے کی جسارت کی۔ پھر صفحات پر خنزیری مواد لتھیڑکر انہیں پھاڑا اور جلایا۔ گرفتار کسے کیا؟ وہ مسلمان جس نے غضب ناک ہوکر پتھر پھینکے!
پوری دنیا میں مسلمانوں نے اس پر شدید ترین ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ تکبیریں گونج اٹھیں۔ سویڈن کے سفیر مسلم ممالک میں بلاکر تادیب، تنبیہ کی گئی۔ او آئی سی تک بھڑک اٹھی اور تقدسِ قرآن اور شانِ رسالت کو ریڈ لائن قرار دیا۔ سویڈن کو نیٹو میں شمولیت کے لیے ترکیہ کی حمایت درکار ہے۔ اردوان نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ ’تم ہمارے عقائد کا لحاظ نہ کرو گے تو تمہاری مدد ہرگز نہیں کی جائے گی۔‘ ’ہم متکبر مغربیوں کو سمجھا دیں گے کہ مسلمانوں کی تذلیل آزادیٔ فکر نہیں ہے۔ ہم دہشت گرد تنظیموں اور اسلاموفوبیا کے خلاف حتمی فتح حاصل ہونے تک اپنا شدید ردعمل دکھائیں گے‘۔ یاد رہے کہ سویڈن اخلاقی گراوٹ کی انتہا، بحر مرداری تہذیب کا بہت بڑا پرچارک ہے۔ اسکولوں میں چھوٹے بچوں تک پر یہ ’تعلیم‘ مسلط کی جا چکی ہے۔ سو یہ گنوار آئے دن قرآن پر اپنا غصہ نکالتا ہے جو انہیں آئینہ دکھاتا اور زجر وتوبیخ کرتا ہے۔ یہ قومیں صرف تجارتی معاشی مفادات پر آنچ آنے پر تڑپتی ہیں۔ ان کا مکمل معاشی بائیکاٹ اصل علاج ہے۔ مسلم نوجوانوں کی یہ تربیت بھی لازم ہے کہ سویڈن کے جھنڈے جلانے سے بڑھ کر قرآن کی عظمت کا تقاضا خود چلتا پھرتا قرآن بن جاتا، اسے بحکم ربی مضبوط پکڑنا، اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت: ’یہ قرآن ایک سنجیدہ اور فیصلہ کن کلام ہے کوئی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ جو کوئی ظالم وجبار شخص اس قرآن کو چھوڑے گا اللہ اس کو کچل کر رکھ دے گا اور جس نے اسے چھوڑکر کسی اور جگہ سے ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کی اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ اور یہ قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے اور یہ حکیمانہ نصیحت ہے اور یہی سیدھا راستہ ہے۔‘ (ترمذی)
ہم انفرادی اجتماعی طور پر خود یہ بھلاکر اللہ کی پکڑ میں آئے ہوئے ہیں۔ خواہ ذی الحج کا تقدس پامال کرتے ہولی ناچنے گانے والے ’طالب علم‘ اور ان کے پشت پناہ پروفیسر، دانشور، اینکر ہوں یا آئی ایم ایف کے بھکاری یا اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جن جادو جنات کے کفریہ عملیات سے داغدار کرنے اور انہیں بڑھاوے دینے والے۔ ہم سبھی قرآن کے مجرم اور اس کے تقدس پر زبانی کلامی جذباتی نعرے لگانے والے ہیں۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
tanzeemdigitallibrary.com © 2024