علم حاصل کرنے کے فضائل وآداب
مفتی محمد وقاص
علم( جسے جہالت کی ضد کہا جاتا ہے) انسانی زندگی کا وہ انمول زیور اوربیش قیمت دولت ہے کہ جس کی بدولت انسان حق و باطل ، حلال و حرام ، جائز و ناجائز اور صحیح اور غلط میں واضح فرق کرسکتا ہے ۔انسان کے پاس اگر علم ہے اور وہ اس عظیم الشان دولت سے مالا مال ہے تو پھر گویااپنی زندگی کے سفر میں اُس نے اپنے ہاتھ میں مشعل راہ تھام رکھی ہے اور وہ اس راستے کے تمام نشیب و فراز ، اُتار چڑھاؤ اور جملہ سفری صعوبتوں سے گزر کر بڑی آسانی اور اطمینان کے ساتھ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جائے گا۔ لیکن اگر اس کے پاس علم نہیں ہے ا ور وہ اس دولت سے کلیتاً محروم ہے تو پھر اس کی مثال اُس اندھے شخص کی سی ہے جو رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بغیر کسی رہبر کے اپنے نشانِ منزل کی جانب ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے سفر کرنا شروع تو کردے لیکن راستہ کے ہر خار ، ہر روڑے ، ہر موڑ اور ہر کھڈے سے اُس کی ضرور ٹکر ہوگی اور اُسے ضرور ان سے اُلجھنا پڑے گا ۔ علم ٗقرآن و حدیث کی مبارک اور رُوشن تعلیمات کے اُس مجموعہ کا نام ہے کہ جس کی بدولت انسان اپنے حقیقی خالق و مالک اور اپنے پالنے والے کو پہچانتا ہے اور اس کی ذات کی معرفت حاصل کرتا ہے ، تاکہ وہ اپنی حیاتِ مستعار اس کے احکامات اور حضور نبی کریمﷺ کے مبارک طریقوں کے مطابق گزارکر دُنیا و آخرت کی بھلائیوں سے مالا مال ہوکر اللہ کریم کے حضور کامیاب بندہ بن کر پیش ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضاو خوشنودی کا پروانہ اُسے نصیب ہوجائے۔ قرآن مجید میں مختلف جگہ اللہ تعالیٰ نے علم والوں کا مقام و مرتبہ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ تم میں سے اُن لوگوں کے درجے بلند کرتا ہے جو ایمان لائے اور جنہیں علم عطا کیا گیا ۔‘‘ (المجادلۃ) ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: (اے محمدؐ! ) آپ فرمادیجئے! کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں؟ (الزمر) یعنی ہرگز برابر نہیں ہوسکتے، پس ثابت ہوا کہ علم والوں کا مقام و مرتبہ غیراہل علم سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے۔ اسی طرح حدیث شریف میں آتا ہے رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں، میں علم بانٹنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطافرمانے والے ہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم) ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ : ’’علم کا طلب کرنا ہر مسلمان (خواہ مرد ہو یا عورت دونوں) پر فرض ہے ۔‘‘ (جامع الصغیر) ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب آدمی مرجاتا ہے تو اُس سے اُس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ، مگر تین اعمال کا ثواب اُس سے منقطع نہیں ہوتا : اوّل صدقۂ جاریہ۔ دوسرے علم کہ جس سے لوگ متنفع ہوتے رہیں ۔ تیسرے فرزند صالح کہ جو میت کے لیے دُعائے خیر کرتا رہے ۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت کثیر بن قیسؒ سے روایت ہے کہ میں دمشق کی مسجد میں حضرت ابو درداءؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ ُان کے پاس ایک شخص آیا اورآکر عرض کی: ’’اے ابو درداء ؓ! میں مدینۃ الرسولؐ سے صرف ایک حدیث سننے کے لیے تمہارے پاس آیا ہوں جس کی بابت مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے وہ حدیث نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے اور کسی ضرورت سے تمہارے پاس نہیں آیا۔ ‘‘حضرت ابو درداءؓ نے فرمایا کہ : ’’بے شک میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : ’’جو شخص دین کا علم حاصل کرنے کے لئے کسی راستہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے راستوں میں سے کسی راستہ پر اس کو چلائیں گے ، اور فرشتے طالب علم کی خوشنودی کی خاطر اپنے پر ان کے لئے بچھا تے ہیں اور عالم کے لیے زمین و آسمان کی مخلوقات حتیٰ کہ پانی کے اندر مچھلیاں تک استغفار کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیساکہ چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہوتی ہے اور علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء اپنے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑتے بلکہ وہ تو اپنے پیچھے علم چھوڑ کر جاتے ہیں ، پس جس شخص نے علم حاصل کیااُس نے بہت بڑی دولت حاصل کرلی۔‘‘(ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، دارمی ، مسند احمد) حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رات کا ایک گھڑی علم پڑھنا پڑھانا رات بھر عبادت کرنے سے افضل ہے۔ ‘‘ (مسند دارمی) ایک حدیث میں صحیح سند سے حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد مروی ہے کہ : ’’اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندے (عالم باعمل) کو جہنم میں داخل نہیں فرمائیں گے ۔ (جامع الصغیر) ایک حدیث میں آتا ہے : ’’تم اللہ تعالیٰ کو لوگوں کا محبوب بنادو ، اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنالیں گے۔‘‘ (کنز العمال) ایک حدیث میں آتا ہے کہ: ’’آخرت میں اگر فقہاء (علمائے دین)اولیاء اللہ نہیں ہیں تو پھر کوئی بھی اللہ کا ولی نہیں ہے (یعنی علماء ضرور اللہ کے ولی ہیں) (سخاوی) ایک حدیث میں آتا ہے رسولِ مقبولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’اللہ تعالیٰ تروتازہ (خوش و خرم) رکھے اُس شخص کو کہ جس نے مجھ سے کچھ سنا پھر اُس نے آگے ویسا ہی پہنچادیا جیساکہ اس نے سنا تھا ، اس لئے کہ بہت سے وہ لوگ جن کو کلام پہنچایا جائے اُس کلام کے سننے والے سے اس کو زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔‘‘ (ترمذی ، ابن ماجہ) ایک حدیث میں آیا ہے کہ : ’’قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب اُس عالم کو ہوگا کہ جس نے (دُنیا میں) اپنے علم سے نفع نہیں اٹھایا۔‘‘ (جامع الصغیر) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ : ’’ جہنم میں ایک وادی (جنگل) ہے جس سے خود جہنم ہر روز چار سو بار پناہ مانگتی ہے ، اُس میں ریاکار علماء داخل ہوں گے۔‘‘ (مشکوٰۃ) ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ جس نے کسی کو ایک آیت بھی کلام اللہ کی سکھادی تو وہ سکھانے والا طالب علم کا آقا بن گیا۔‘‘ ( معجم طبرانی) ایک حدیث میں آتا ہے کہ جس عالم سے مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ بغیر کسی شرعی عذر کے اس کو چھپالے اور بیان نہ کرے تو کل قیامت کے دن اُس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔‘‘ (مشکوٰۃ)
خ خ خ
tanzeemdigitallibrary.com © 2024