اخوت اسلامی: قرآن وحدیث کی روشنی میں
مولانا رضوان اللہ پشاوریسابقہ طالب علم کلیۃ القرآن، لاہور
؎’’اخوت‘‘عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ ’’اخ‘‘ سے بنا ہے اور اس کے معنی ’’بھائی چارہ ،یگانگت اوربرادری‘‘ کے ہیں۔ اسلام میں تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، چاہے وہ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں اور ان کا کسی بھی رنگ ونسل اور وطن سے تعلق ہو،جو کلمہ طیبہ پڑھ کراسلام میں داخل ہو جاتا ہے وہ بحیثیت مسلمان ہمارا دینی بھائی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمدﷺ کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان ایک پائیدار اور مستحکم رشتہ قائم کیا،جسے قرآن کریم نے ’’رشتہ اخوت اسلامی ‘‘کا نام دیا ہے۔ اس رشتہ کی عظمت و فضیلت، افادیت اور اہمیت کے حوالے سے قرآن مجیدکی کئی آیات مقدسہ اور رسول اﷲﷺکی بے شماراحادیث مبارکہ موجود ہیں۔ حضرت ابوالحسن علی ندوی ؒنے اخوت کی دوقسمیں لکھیں ہیں ،اول یہ کہ پوری نسل انسانی ایک آدم کی اولاد ہے اور حضور اکرم ﷺنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ایسے معجزانہ الفاظ میں اس پر مہر لگادی کہ اس سے زیادہ اسلامی مساوات کا کوئی منشور نہیں ہوسکتا ۔آپ ﷺنے فرمایا کہ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، ثانی قسم یہ کہ چھٹی صدی عیسوی میں ایک نئی اخوت کی بنیاد ڈالی گئی ،اس اخوت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کاعقیدہ ،نوع انسانی کے لیے ہمدردی کا جذبہ ،عدل و مساوا ت کے اصول اور انسانوں کی خدمت کے عزم وارادہ پر تھی ۔
قرآ ن پاک میں اخوت اسلامی کا ذکر:
بعثت رسول ﷺ اور نزول قرآن کا ایک مقصدیہ بھی ہے کہ بنی نوع انسان کومنظم کر دیا جائے اورایک دوسرے کے ساتھ دشمنی اور عداوت کرنے والوں کو پیار ومحبت اوراخوت وبھائی چارہ کے رنگ میں رنگ دیا جائے ۔اﷲ تعالیٰ کے حکم سے حضوررحمت دوعالم ﷺ نے اہل ایمان کے درمیان ’’رشتہ اخوت‘‘ قائم کیا ۔یہ اتنا مضبوط اور پائیدار رشتہ ہے کہ اس کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکی اور نہ کرسکے گی۔ اس عظیم رشتے کی بنیاداسلام اوراﷲ ورسول ﷺکی محبت ہے ۔چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (سورۃ الحجرات) ’’بے شک ایمان والے (آپس میں) بھائی بھائی ہیں (اگران کے درمیان کچھ تنازع ہو جائے )تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح و صفائی کرا دیا کرو اور(ہر معاملہ میں)اﷲ سے ڈرتے رہو، تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔ اﷲ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے اوراخوت اسلامی کے رشتہ کی موجودگی میں رنگ ونسل، زبان ،قومیت اورعلاقوں کی بنیاد پربننے والے باقی تمام رشتوں کی حیثیت ثانوی بلکہ ختم ہوجاتی ہے ۔ اولاً ہم مسلمان ہیں ،پھر کسی دوسری پہچان وغیرہ کو اہمیت دی جاسکتی ہے جو مسلمان رشتہ اخوت پر دوسرے عارضی اور ناپائیدار رشتہ کو فوقیت یا اوّلیت دیتے ہیں وہ قرآن کے اس واضح اورصریح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں دوسرا حکم یہ دیاگیاہے کہ’’ اپنے دوبھائیوں میں صلح کرا دو‘‘۔آیت کے اس حصہ سے معلوم ہوا کہ دو مسلمانوں، افراد یا دوگروہوں میں اختلاف واقع ہو سکتا ہے ،لیکن ان کے قریب جوتیسرا فرد یا گروہ ہے ، اس کی ذمہ داری ہے کہ ان لڑنے یا اختلاف کرنے والوں میں فوراًصلح کرادے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کرے جو دوبھائیوں سے کیا جاتا ہے ۔ بحیثیت مسلمان یہ ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے کہ ہم مسلمانوں کے درمیان مزید جھگڑا کرنے کی فضا پیدانہ کریں بلکہ واقع ہونے والے جھگڑے کو نہ صرف ختم کروائیں بلکہ جھگڑے کی بنیاد اور سبب کا خاتمہ بھی کریں۔ آیت مبارکہ میں تیسرا حکم ہے کہ ’’اور اﷲ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیاجائے ‘‘۔ آیت کے اس حصے میں تنبیہ کی گئی کہ اہل ایمان کے درمیان اگراختلاف ہوجائے توتمہاری ذمہ داری ہے کہ ان کے درمیان اختلاف کی خلیج کو بڑھاؤ نہیں بلکہ کم کرنے کی کوشش کرو اور صلح کرانے میں کسی بھی فریق کے ساتھ زیادتی اورناانصافی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان سب کے ساتھ برابری اور خیر خواہی کا سلوک کیا جائے ۔
اخوت اسلامی ،اﷲ کی مہربانی ہے :
امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ آپس میں بھائی بھائی ہیں اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں اور جس طرح ایک بھائی دوسرے بھائی کے کام آتا ہے ،اس کے دکھ درداور سکھ میں کام آتا ہے ، اسی طرح تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ غریب ومحتاج مسلمان کی مالی امدادواعانت بھی کرتے ہیں۔ اس کے دکھ سکھ اورغمی خوشی کے مواقع پر تعاون کرتے ہیں، اس طرح امت مسلمہ میں باہمی اتحاد ویکجہتی اور امداد واعانت کی فضا قائم ہوتی ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَاناًج (آل عمرانـ:103) ’’اور سب مل کراﷲ کی رسی (پیغام ِہدایت) کو مضبوطی سے تھام لو اورآپس میں تفرقہ نہ ڈالواور اﷲ کی اس مہربانی(انعام) کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کی بدولت بھائی بھائی بن گئے ۔‘‘
اخوت اسلامی اور ارشاداتِ رسول ﷺ:
رسول اﷲ ﷺنے اپنے متعددارشادات میں اخوتِ اسلامی کی اہمیت،افادیت اور عظمت کو اجاگر اور واضح کیا ہے ۔فرمان رسول ﷺہے :عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ: رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : ((اَلْمُسْلِمُ اَخُوالْمُسْلِمِ ۔ لَا یَخَوْنُہ، وَلَا یُکَذِّبُہ، وَلَا یَخْذُلْہ۔کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ: عِرْضُہ،وَمَالُہ وَدَمُہ))(سنن ابن ماجہ) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کے معاملے میں خیانت نہیں کرتا ، دانستہ اس کو کوئی جھوٹی اطلاع نہیں دیتا اور نہ ہی وہ اس کو رسوا کرتا ہے۔ ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پر سب کچھ حرام ہے ، اس کا خون (یعنی جان)، اس کا مال اور اس کی عزت وآبرو۔ اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺکا ارشاد گرامی ہے: عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: ((لَا یُؤْمِنْ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبُّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہ))(صحیح بخاری)’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے لیے وہی چیزپسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ اس حدیث پاک میں ایمان کی ایک اعلیٰ اخلاقی صفت کو بیان کیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں ایمان کا معیار اور کسوٹی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرتا ہے جو وہ اپنی ذات کے لیے پسندکرتا ہے ۔ اس حدیث کے اندر یہ اشارہ ہے کہ جس طرح کو ئی اپنے لیے نقصان اور برائی پسند نہیں کرتاتو اسے چاہئے کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی کسی نقصان اور برائی کے عمل میں شریک نہ ہو بلکہ جتنا ہو سکے ،اپنے مسلمان بھائی کی عزت وآبرو کی حفاظت اور کامیابی وفائدہ کے لیے سوچے اور اس کی مدد کرے ۔چنانچہ ایک حدیث پاک میں رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے :((اَلْمُسْلِمُ اَخُوْ الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہ وَلَا یُسْلِمُہُ مَنْ کَانَ فِی حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہُ بِھَا کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِماً سَتَرَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ))(سنن ابو داؤد) ’’بے شک نبی کریم ﷺ نے فرمایا :مسلمان ،مسلمان کا بھائی ہے ،وہ اس پر ظلم نہیں کرتا نہ ہی اسے بے یار ومددگار چھوڑتا ہے اورجو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کسی ضرورت کو پوراکرتا ہے،اﷲ اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مشکل کو آسان کرتا ہے ، اﷲ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں آسانی پیدا کر ے گا اور جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی (کسی عیب یا غلطی کی) پردہ داری کرتا ہے ،اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ پوشی کرے گا ۔ دوسری حدیث میں فرمانِ نبوی ﷺہے : ((اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہ وَیَدِہ)) (متفق علیہ) ’’(حقیقی) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی اذیت و تکلیف) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے بے شمار ارشادات اور فرامین میں مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا اور حقیقی مسلمان کی نشانی یہ فرمائی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کو اذیت وتکلیف نہیں پہنچتی بلکہ ہر حالت میں سے راحت وسکون اور سلامتی ملتی ہے ۔
رشتہ مواخات کی بنیاد واساس:
حضور سید عالم ﷺکا یہ بہت بڑا عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آپ ﷺ نے امت مسلمہ کو ’’رشتۂ مواخات‘‘ کی ایک لڑی میں پرودیا ۔ جب آپﷺ اور مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو مسلمان بالکل بے سروسامانی کی حالت میں تھے ۔نہ ان کے گھر بار تھے اور نہ ہی دوسری ضروریاتِ زندگی کاکوئی انتظام تھا۔اس موقع پراﷲ کے پیارے رسول حضورخاتم الانبیاءﷺ نے انصار اور مہاجرین صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کے درمیان ’’عقدمواخاۃ‘‘(بھائی چارہ)قائم فرمایا اور ایک صحابی کو دوسرے صحابی کادینی واسلامی بھائی بنادیا۔
رشتہ مواخات میں صحابہ کرام ؓکا ایثار:
انصارصحابہ کرام ؓنے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے والے اپنے مہاجرین صحابہ کونہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ ان کو اپنی ہر چیزمیں برابر کاحصہ دار بنادیا۔ جس صحابی کے پاس دومکان تھے ، اس نے ایک مکان اپنے دوسرے مہاجر بھائی کو دے دیا۔ جس کے پاس دس بکریاں تھیں، اس نے پانچ بکریاں اپنے اسلامی مہاجر بھائی کو دے دیں۔ اسی طرح دوسری املاک (باغات، زمینیں وغیرہ)کو بھی تقسیم کر دیا۔ انصارزراعت کے پیشے سے منسلک تھے اور مہاجرین تجارت کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ انصار نے مہاجرین کو اپنی زراعت میں شامل کرلیااورمہاجرین انصار سے مل کر اپنی تجارت کر نے لگے۔ اس طرح انصار اور مہاجرین نے باہم مل کر زراعت وتجارت میں معاشی استحکام اور ترقی حاصل کی۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک انصاری صحابی حضرت سعد بن ربیعؓ کی دو بیویاں تھیں تو اس نے اپنے مہاجر بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے کہا کہ میری دو بیویاں ہیں،ان میں سے جس کو تم پسند کرو، میں اسے طلاق دے دوں گا اور( عدت کے بعد) تم اس سے نکاح کر لینا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ آپ کے اہل اورآپ کا مال آپؓ کو مبارک ہو مجھے کوئی بازار تجارت کا راستہ بتا دے۔ اس طرح کے انوکھے، بے مثال اورحیرت انگیزایثار وقربانی کی مثال شاید ہی دنیا کی تاریخ میں مل سکے ، یہ توصرف آقائے دوجہاں حضر ت محمدمصطفیٰﷺ کے پیارے اصحاب کاعمل وکردارہے ۔ جامع ترمذی میں حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہمابیان کرتے ہیں کہ جب اﷲ کے پیارے رسول حضور خاتم الانبیاءﷺنے صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کے درمیان ’’عقدمواخاۃ‘‘ (بھائی چارہ)قائم فرمایااورایک صحابی کو دوسرے صحابی کادینی واسلامی بھائی بنادیاتو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نہایت آبدیدہ ہوکر بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضرہوئے اورعرض کیاکہ یارسول اﷲ ﷺآپ نے ’’عقد مواخاۃ‘‘ میں تمام صحابۂ کرام کوتو ایک دوسرے کابھائی بنادیاہے لیکن مجھے کسی کابھائی نہیں بنایا، میں تو یوں ہی رہ گیاہوں۔رسول اﷲﷺنے نہایت پیاراور محبت کے اندازمیں فرمایاکہ: ’’اے علی!تم دنیاوآخرت دونوں میں میرے بھائی ہو۔‘‘ (جامع ترمذی)
اخوت اسلامی میں صحابہ کرام ؓ کی ایک اور مثال:
اسلامی اخوت وبھائی چارہ کا یہ عظیم الشان مظاہرہ تاریخ نے نہ پہلے کبھی دیکھا تھا اورنہ آئندہ دیکھ سکے گی۔یہ اسی جذبہ اخوت کا ہی کمال تھا کہ ایک جنگ میں زخمیوں میں سے ایک زخمی کی آواز آئی ’’پانی دو‘‘۔ جب اس کو پانی دے دیا گیااور وہ پانی پینے لگا تو دوسرے زخمی کی آواز آئی ’’پانی چاہئے‘‘ تو پہلے زخمی نے پانی پئے بغیر چھوڑ دیا اور کہا پہلے اسے پانی دے دو۔جب پانی دوسرے زخمی کو دے دیا گیا اور وہ پانی ہونٹوں سے لگانے لگاہی تھا کہ تیسرے زخمی کی آواز آئی ’’پانی دیجئے ‘‘۔گویا پانی کا پیالہ اسی طرح کئی زخمی صحابیوں کے درمیان گھوم پھر کر جب پہلے زخمی کے پاس لایا گیا تو وہ شدت پیاس اورزخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہو چکا تھا۔ پانی کا پیالہ دوسرے زخمی کے پاس لایا گیاتووہ بھی شہید ہو چکاتھا۔ سب زخمی صحابہ کرامؓ نے اس طرح جامِ شہادت نوش فرما لیا۔ موت سب کے سامنے تھی، مگر ہر ایک نے اپنے دوسرے بھائی کے لیے پانی خود نہ پیا اورجامِ شہادت نوش کر لیا۔ رسول اکرم ﷺنے مسلمانوں کے اس باہمی تعلق کو کہیں ’’بھائی‘‘کہہ کر بیان فرمایا تو کہیں اسے ’’جسم واحد‘‘ قرار دیا اور کہیں اسے ’’مضبوط دیوار‘‘ کی مانند قرارد یا جس کی ایک اینٹ دوسری کی تقویت کاباعث بنتی ہے ۔ فرمان نبوی ﷺ ہے : ((اَلْمُؤْمِنُ اَخُوا لْمُؤْمِنِ کَالْجَسَدِ الْوَاحِدِ اِنِ اشْتَکٰی شَیْئً مِّنْہُ وَجَدَ اَلَمَ ذٰلِکَ فِیْ سَائِرِجَسَدِہ)) (صحیح مسلم) ’’مومن ، مومن کا بھائی ہے (اور وہ) ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصے (عضو) کو کوئی تکلیف پہنچے تو اس کا درد اس کے تمام بدن میں محسوس ہوتا ہے۔‘‘یعنی ایک دوسرے پر رحم وشفقت کے معاملے میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے ، اگرکسی ایک عضوکوشکایت وتکلیف ہوتی ہے تو باقی تمام جسم بھی بیداری اور بخاروتکلیف کی صورت میں اسی طرح کرب (واذیت)کو محسوس کرتا ہے ۔
اخوت کو قائم رکھنے کا حکم :
اخوت اسلامی ایسا انمول ، پائیداراورعظیم رشتہ ہے کہ اس کو قائم رکھنے کے لیے باربار حکم دیا گیا ہے ۔ ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ((اَیَّاکُمْ َوالظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحدیثِ وَلَا تحَسَّسُوْا وَلاَ تَجَسَّسُوْا وَلاَ تَباغَضُوْا وَلاَ تَدَابَرُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَاللّٰہِ اِخْوَاناً)) (صحیح بخاری) ’’رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: برے گمان سے بچو ! بے شک برا گمان بڑی جھوٹی بات ہے ۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ لگو اور ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے دشمنی کرو اور نہ ایک دوسرے کو چھوڑو اور اﷲ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ ۔ ‘‘
اﷲ کے پیارے رسول ﷺنے اخوت اسلامی کے آداب اور احترام کے حوالے سے اپنے فرمان میں اخوت اسلامی کے رشتے کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے اصول بیان فرمائے ہیں۔ اگر صاحبان ایمان ان اصولوں پرچلنے لگیں توان کے درمیاں کبھی جھگڑے اور فتنہ وفسادبرپا نہیں ہوں گے ۔پہلا اصول یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے حوالے سے برا گمان قائم کرنا خلافِ شرع ہے ۔ ہمیشہ دوسروں کے متعلق اچھا گمان رکھنا چاہئے ، ہوسکتا ہے جسے ہم برا سمجھ رہے ہو ں،وہی اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب ہو ۔ حدیث پاک کے پہلے حکم میں ذہن کی صفائی پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان کے بارے میں اپنا ذہن صاف رکھو ۔برے گمان کی مذمت بھی بڑے سخت الفاظ میں ہوئی ہے کہ برا خیال جھوٹی باتوں میں بڑا جھوٹ ہے کسی دوسرے مسلمان کا بلا وجہ تعاقب کرنا یا دوسروں کی بلاوجہ جاسوسی کرنے کوسختی سے منع کر دیا گیا۔اسی طرح کسی سے خواہ مخواہ بغض، کینہ اور عداوت ودشمنی نہیں رکھنی چاہئے بلکہ مسلمانوں کو سب کے ساتھ محبت وشفقت کا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر کسی سے محبت وشفقت کرنی ہے یا کسی سے عداوت ودشمنی کرنی ہے تو اس کے لیے یہ اصول فرمایا گیا ہے کہ : ((اَلْحُبُّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ للّٰہِ)) ’’کسی سے محبت بھی اﷲ کے لیے کرو اور دوسرے پر غصہ بھی اﷲ کے لیے کرو۔‘‘ یعنی ہر کام اﷲ کی رضا کیلیے ہونا چاہئے ۔ ایک اورحدیث پاک میں رسول اﷲ ﷺ نے ارشادفرمایا: ((مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِاسْتَکْمَلَ اِیْمَانَہ)) (مشکوٰۃالمصابیح) ’’جس شخص نے اﷲ (کی رضا اور خوشنودی) کے لیے (اس کے نیک بندوں سے) محبت کی اور اﷲ کے لیے کسی(کافر یا اﷲ تعالیٰ کے نافرمان)سے بغض رکھا اور اﷲ ہی کے لیے (کسی کو کچھ) عطا ء کیا اوراﷲہی کے لیے (کسی کو برائی اور گنا ہ وغیرہ سے ) روکا تو پس اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔اس حدیث میں تکمیل ایمان اوراخوت اسلامی کے چار سنہری اصول بیان کئے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں:(1) اﷲ کے لیے محبت کرنا (2)اللہ کے لیے بغض رکھنا(3) اﷲ کے لیے عطاء کرنا (4) اﷲ کے لیے روکنا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اس حدیث میں ان چاروں اعمال کو ایمان کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ایک حقیقی مسلمان صرف اپنے خالق و مالک اﷲ وحدہ‘ لا شریک سے ہی محبت کرتا ہے اور اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو بھی محض اﷲ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی(کافر یا اﷲتعالیٰ کے نافرمان اور ظالم و جابر)سے بغض و عناد رکھتا ہے تو وہ بھی اﷲ ہی کے لیے ،کیونکہ اﷲ کے رسول ﷺ نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے ۔ حدیث کے آخری الفاظ میں حکم دیا گیا ہے کہ’’ اﷲ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اﷲ کے رسول ﷺ کو تمام مسلمانوں کا آپس میں حقیقی بھائیوں جیسا سلوک رکھنا کتنا عزیز اور محبوب ہے ۔ اﷲ کے نبی ﷺنے اپنے غلاموں کو واقعی ایسے رشتۂ اخوت میں جوڑ دیا تھا کہ جس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ۔ اسی حوالے سے ایک حدیث مبارکہ میں فرمان رسول ﷺہے کہ جو لوگ صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، قیامت کے دن وہ نورانی چہروں کے ساتھ نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے اور انہیں کوئی غم نہیں ہو گا۔ چنانچہ حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی کریم ﷺنے فرمایا کہ:’’اﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سے بعض بندے ایسے بھی ہیں جونہ تونبی ہیں اور نہ شہیدلیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن ان کاجودرجہ ہوگااسے دیکھ کرنبی اور شہیداُن کی تحسین کریں گے ۔صحابۂ کرام ؓ نے پوچھاکہ یارسول اﷲﷺ! ہمیں بتائیں کہ وہ کون لوگ ہوں گے ؟ آپ ﷺنے فرمایاکہ یہ وہ لوگ ہیں جوآپس میں محض اﷲ تعالیٰ کے واسطے محبت رکھتے ہیں نہ ان کاآپس میں کوئی لین دین ہے اورنہ کوئی رشتہ ہے ۔اﷲ کی قسم!ان کے چہرے نورانی ہوں گے اوروہ نورکے منبروں پر بیٹھے ہوں گے ، جب دوسرے لوگ ڈررہے ہوں گے توانہیں کوئی ڈرنہیں ہوگااورجب دوسرے لوگ غمگین ہوں گے توانہیں کوئی غم نہیں ہوگا۔(سنن ابی داؤد)
اخوت اسلامی کے ثمرات اور فوائد:
اخوت وبھائی چارہ مسلمانوں کے درمیان وہ عظیم رشتہ ہے جس کی بدولت مسلمان جہاں کہیں بھی بستے ہوں وہ اپنے آپ کو ایک معاشرہ کا حصہ سمجھتے ہیں۔اخوت سے باہمی اختلافات اور تنازعات کو ختم کیا جاتا ہے ۔ اخوت وبھائی چارہ سے مسلمان ایک دوسرے کی مدداور خدمت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں،جس سے معاشرتی زندگی کو استحکام ملتا ہے اورمعاشرہ میں ایک اچھی اور عمدہ فضا قائم ہوتی ہے اورنیکیوں کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے ۔ اخوت وبھائی چارہ سے مسلمانوں میں اتحاد ویکجہتی پیدا ہوتی ہے ، جس سے مسلمانوں کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے اورمسلمانوں کی یہ قوت دیکھ کرکفار کے دلوں پر رعب ودہشت طاری ہو جاتی ہے ۔ اخوت وبھائی چارہ کی بنیادپر جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مالی مدد کرتا ہے تو اسلامی معاشرہ میں مالی استحکام پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ میں امن وسکون اور جذبہ ہمدردی پیدا ہوتی ہے ۔ اخوت وبھائی چارہ کی فضا میں معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ دوسروں کا دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔ مصیبت وآزمائش کے موقع پرایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ غم وخوشی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024