(تنظیم و تحریک) تحریک خلافت پاکستان - بنت اسلام

11 /

تحریک خلافت پاکستان

بنت اسلام

چند روز قبل مجھے داعی تحریک خلافت پاکستان ڈاکٹر اسرار احمد ؒ مرحوم کی تحریر’’پاکستان میں نظامِ خلافت کیا، کیوں اورکیسے؟‘‘کے مطالعہ کا اتفاق ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ضمن میں ایک حدیث پیش کی ہے جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے پانچ ادوار کا ذکر فرمایا ہے:
’’تمہارے اندر نبوت کا دور رہے گا جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ نبوت کو اُٹھا لے گا اور اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب چاہے گا خلافت کو اللہ اُٹھا لے گا اور اس کے بعد کاٹ کھانے والی ملوکیت ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اُٹھا لے گا۔ پھر جبر و استبداد کی بادشاہت ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اُٹھا لے گا پھر نبوت کے منہج پر خلافت قائم ہو گی۔ پھر آپ خاموش ہو گئے۔ (مسند احمد)
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ دور جس میں ہم سانس لے رہے ہیں چوتھے اور پانچویں دور کا درمیانی عرصہ ہے۔ یعنی اس وقت انسانیت پانچویں دور کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ بقول اقبال؎
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی ،نطق اعرابی
اپنی تحریر میں ڈاکٹر صاحب عالمی خلافت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قرآن وسنت کی رو سے ہمیں کامل یقین ہے کہ متذکرہ بالا ’’نظا م خلافت‘‘ پوری دنیا میں قائم ہوکر رہےگا۔البتہ یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا نقطہ آغاز بننےکی سعادت کس خطہ ارضی کے حصے میں آئے گی۔ اگرچہ چار سو سال کی تاریخ کے حوالے سے امید واثق ہے کہ اس کا نقطۂ آغاز سلطنت خداد پاکستان ہی بنے گی۔ میں ڈاکٹر صاحب سے اتفاق کرتی ہوں اور یقین کی حد تک کہہ سکتی ہوں کہ وہ خط ارضی پاکستان ہی ہو گا۔ مرحوم ڈاکٹر صاحب چونکہ تحریک پاکستان کا حصہ رہ چکے ہیں،او ر قیام پاکستان کےمقاصد سے آگاہ تھے،یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے جس شدومد کے ساتھ ان مقاصد کو زندہ رکھنےمیں جو کردار ادا کیا وہ کسی اور مذہبی جماعت یا شخصیت نے ادا نہیں کیا۔انہوں نے جس طرح اپنے ڈاکٹری کے پیشےکو چھوڑ کر ہمہ تن خود کو ملک و ملت اور بالخصوص ملت اسلامیہ کی نشاطِ ثانیہ کے حصول کے لیے وقف کردیا ۔ ان کایہ طرز عمل بعد میں آنے والوں کےلیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کے بعد ان کے فرزند اس مشن کو جس جذبےکے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں وہ دن دور نہیں جب ہم اس خطہ ارضی پر اعلائے کلمتہ اللہ اور حدوداللہ کا نفاذ دیکھیں گے۔ان شاء اللہ !
اپنی اس تحریر میں ڈاکٹر صاحب نے جدید تعلیم یافتہ اور مذہبی طبقے کے درمیان رسہ کشی کا ذکر کیا ہے جو سو فیصد درست ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اب صورتحال
کچھ تبدیل ہو چکی ہے۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں بھی اب کچھ نوجوان ایسے ہیں جو مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن سےآگاہ ہیں اور اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ پاکستان اور امت مسلمہ کی بقا کے لیے خلافت کا قیام ناگزیر ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی ڈاکٹر صاحب کو ہی جاتا ہے کیونکہ یہ انہی کی قربانیوںکا ثمر ہے۔ بقولِ اقبا ل
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
کے مصداق ڈاکٹر صاحب نے امت مسلمہ ، بالخصوص مسلمانان پاکستان میں اس ترنم کو پوری زندگی الاپا ہے ۔ اس حقیقت کا اعتراف ڈاکٹر صاحب خود ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔
’’آپ حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ میرا بنیادی کام ہی قرآن مجید کو پڑھنا اور پڑھانا ہے۔ ہماری دعوت کا پہلا قدم ’’رجوع الی القرآن‘‘ہے۔ اسی مشن میں میری پوری زندگی لگ گئی ہے۔ اب میرا آخری قدم ’’رجوع الی الخلافہ‘‘ ہے ۔ حضور ﷺ نے مکہ میں قرآن پڑھ کر سنایا اور مدینہ منورہ میں خلافت کا نظام قائم فرمایا ۔ یہی تدریج اور یہی طریقہ جو میں نے نبی اکرم ﷺ سے سیکھا ہے۔ حضور ﷺ کے ہاتھو ں یہ مشن بالفعل پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تھا ۔ لیکن ہم اگر اسی کام میں اپنی جانیں لگا دیں اور کھپا دیں تو کامیابی ہی کامیابی ہے۔‘‘
اب اگر مذکورہ بالا حدیث پر غور کیا جائے تو جیسا کہ آ پ ﷺکے فرمان کے مطابق دوبارہ خلافت منہج نبوت پر قائم ہو گی۔ منہج نبوت سے یہا ں مراد وہ تربیت اور کردارہے جو آپ ﷺ نے تزکیۂ نفس کےذریعے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اندر پیدافرمایا ۔ جس پر خلافت راشدہ کا قیام عمل میں آیا ۔
اب چونکہ ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ جو کہ اصل میں ’’جیو ورلڈ آرڈر‘‘ہے کا دور ہے۔اور طاغوتی طاقتیں اس ورلڈ آرڈر کو 2030تک پوری دنیا میں لاگو کرنا چاہتی ہیں۔ انسانیت آج جس کرب میں مبتلا ہے اور اس ورلڈ آرڈر کے لاگو ہونے کے بعد جس اذیت میں مبتلا ہو گی اس کے شدائد کے بارے میں بھی احادیث میں خبر دی گئی ہے۔ ایسے میں ایک عادل امت کی موجودگی میں انسانیت پر ظلم وستم اللہ کے غضب کو بھڑکانے کا سبب ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ہمہ تن اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور دنیا میں قیام امن کے لیے خلافت کے قیام کی بھرپور کوشش کریں ۔
موجودہ صورتحال میں عوام کو اگر خلافت کے قیام کے لیےقائل کر بھی لیا جائے اور اخلاق و تربیت اور تزکیہ نفس کےبغیر ہی اگر خلافت کا قیام عمل میں آئے تو یہ لا حاصل ہو گا، کیونکہ ایسی خلافت اعلائے کلمۃ اللہ کے قیام کی کوشش میںناکام رہے گی۔لہٰذا ضروری ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں جو نوجوان قرآن کے پیغام سے آگاہ ہیں اور اپنی زندگیاں اس کام کے لیے وقف کر چکے ہیں، انہیں تربیت اور قیادت فراہم کی جائے، کیونکہ نوجوانوں کی یہ جماعت قیادت کے فقدان کےباعث منتشر ہے۔ اس لیے ڈاکٹر اسرار احمدؒ مرحوم کے فرزند جو ان کے بعد ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہیں،میری ان سے درخواست ہے کہ انسانیت اور بالخصوص پاکستان کی نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کے لیےاورپاکستان میں خلافت کےقیام کے لیے جلد از جلد ایک ایسا پروگرام تشکیل دیں جس میں قرآن کے پیغام سے آگاہ نوجوان نسل کو متحد کیا جا سکے اور انہیں تربیت اور قیادت فراہم کی جاسکے ۔
اس پروگرام میں درج ذیل تربیتی مقاصد شامل ہوں:
انسان کیا ہے ؟ اسے زمین پر کیوں بھیجا گیا ؟ اللہ تعالیٰ اور بندے کے تعلق کے بارے میں جان سکیں۔ زندگی کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں جان سکیں۔ ہر معنی اور ہر لحاظ سے اتباع الٰہی اور اتباع رسولﷺ کو اپنا سکیں۔
آفاق وانفس پر غور وفکر کر کے معرفت نفس اور معرفت الٰہی کے قابل ہو سکیں۔ روح،خدا اور آخرت کا یقین حاصل کر سکیں۔ تزکیہ نفس ، علم و حکمت قرآن سے روشناس ہو سکیں۔ فلسفہ خودی اور اپنی اہمیت جان سکیں۔ عقائد کی درستگی کر سکیں۔
نفسیات انسانی کے متعلق جان سکیں۔
سیرت النبی ﷺ اور سیرت صحابہ کا اثرقبول کر سکیں۔ تاریخ یہود اور تاریخ امت مسلمہ کے بارے میں جان سکیں۔ اور ان کا موازنہ کر سکیں۔ جغرافیہ ، زراعت ، تجارت اور صنعت کا ملکی معیشت میں کردار جان سکیں۔ اخلاقی ، روحانی ، لسانی وادبی اور تہذیبی روایات و اقدارکی اہمیت جان سکیں۔ مسلم ممالک میں جاری سرد جنگ کے بارے میں جان سکیں۔ عظیم طاقتوں کے درمیان جاری طاقت کی جنگ کے بارےمیں جان سکیں۔ انسانی ہمدردی کے نام پر قائم نام نہاد اداروں اور ان کےکردار کے بارے میں جان سکیں۔
دشمنان اسلام کے مکروہ چہروں کو پہچان سکیں۔زرعی ، صنعتی، جغرافیائی اور تجارتی اعتبار سے پاکستان کی اہمیت جان سکیں۔ احیائے خلافت اور احیائے ملت اسلامیہ میں اپنے کردار کےبارے میں جان سکیں۔ سود اور معاشی دہشت گردی کی تاریخ کے بارے میں جان سکیں۔ یہ جان سکیں کہ سود کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔
امت مسلمہ کو فرقوں میں تقسیم کرنے والے عناصر کےبارے میں جان سکیں۔ غزوۂ ہند کے بارے میں جان سکیں۔
قرآن کی رو سے دیکھنے والے،سننے والے اور سمجھنےوالے حقیقی انسان بن سکیں۔ موجودہ دور میں امت مسلمہ پر طاری جمود کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کے قابل ہو سکیں۔ یہود کے انجام، مسیح دجال،او رمسیح عیسیٰ اور امام مہدی کے بارے میں جان سکیں۔ عین الیقین اور حق الیقین کی کیفیت کے ساتھ حدوداللہ کےنفاذ میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
امید کرتی ہوں کہ بانی تحریک خلافت پاکستان مرحوم ڈاکٹراسرار احمد کے اس مشن کو آگے بڑھانے والے میری اس درخواست کا مثبت جواب دیں گے ۔