اسلامی نظام کی نظریاتی اساس :ایمان
(بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے ۱۹۸۸ ءکے ایک خطاب کی تلخیص)
خطبۂ مسنونہ اور تلاوتِ آیات:
جس سلسلۂ خطبات کا آغاز اس وقت ہو رہا ہے ‘ اس کا اصل موضوع ’’اسلام کا نظامِ حیات‘‘ ہے۔ چنانچہ ہمیں اسلام کے نظامِ حیات کے مختلف گوشوں پر قرآن حکیم کی روشنی میں غور و فکر کرنا ہے۔ لیکن ظاہر ہے‘ ایک خطبے میں ساری تفاصیل بیان نہیں کی جا سکتیں‘ لہٰذا آج کی نشست میں اس موضوع کے اصول و مبادی کو سمجھیں گے۔ بالفاظِ دیگر آج کے خطبہ میں ‘جو درحقیقت تمہید کی حیثیت رکھتا ہے ‘ہم اسلامی نظام کی فکری اساس کا مطالعہ کریں گے۔ اس بارے میں چند ابتدائی باتیں قابل ِغور ہیں۔
فرد میں فکر و عمل کی مطابقت
فرد کی شخصیت کے دو رُخ ہیں‘ یعنی اس کا فکر اور عمل ۔ ایک نارمل انسان میں یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں‘ ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ فکر صحیح ہوتو عمل صحیح ہو گا اور فکر میں کجی ہو تو اس کا لازمی نتیجہ عمل میں کجی کی صورت میں نکلے گا۔فکر محدود ہوتو عمل بھی محدود ہو گا‘ اور فکر میں وسعت کی صورت میں انسان کے اخلاق‘معاملات ‘ رویّے اور عمل میں بھی وسعت موجود ہوگی۔ فکر و عمل کی عدم مطابقت ایک صحت مند شخصیت میں نہیں ہوسکتی‘ البتہ مریض شخصیات کا معاملہ جدا ہے۔ اُن کے ہاں ہوسکتا ہے کہ فکر اور عمل کے دھارے مخالف سمت چلتے ہوں۔ مثلاً ایک شخص کوجسمانی عوارض لاحق ہیں۔ اس کے اندر خواہش تو ہے کہ کوئی کام کرے‘ لیکن جسمانی کمزوری اور معذوری کے باعث وہ اس کام کو سرانجام نہیںدے سکتا۔ اسی طرح ایک آدمی کو نفسیاتی عوارض لاحق ہوں‘ جن کی وجہ سے اُ س کی قوتِ ارادی مضمحل ہو جائے‘ تو وہ کچھ کرنا چاہتا بھی ہو پھر بھی کچھ کر نہیں پاتا۔اس کی بہت ہی سادہ سی مثال ہمارے معاشرے میں سگریٹ نوشی کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں کتنے ہی لوگ ہیں جو تمباکونوشی چھوڑ نا چاہتے ہیں‘ اس کے مضر اثرات ان کے علم میں ہوتے ہیں‘ لیکن وہ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اور اس کے چھوڑنے پر قدرت نہیں پاتے۔ تو یہ استثناء ہے۔ البتہ عام اصول یہی ہے کہ ایک نارمل شخص کے فکر و عمل میں مطابقت ہو۔
البتہ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مَیں لفظ ’’فکر‘‘ استعمال کر رہا ہوں ’’قول‘‘ نہیں۔ ایک نارمل انسان میں فکر و عمل کا تضاد نہیںہوتا۔ قول و فعل کا تضاد اور شے ہے‘اور ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے قول اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کو سخت غُصّہ دلانے والی شے ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں فرمایاگیا:
{یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(2) کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(3)} (الصف)’’اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ اللہ کے ہاں یہ بات سخت بیزاری کی ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں۔‘‘
قول و عمل کا تضاد اس لیے ہوتا ہے کہ انسان جو کچھ کہہ رہا ہوتا ہے اس پر اس کو ذاتی یقین حاصل نہیں ہوتا۔ وہ جس بات کا دعویٰ اور اعلان کرتا ہے‘ اُس پر عمل اس لیے نہیں کرتا کہ اس کی حقیقی سوچ وہ نہیں ہوتی۔ قول و عمل کے تضاد کی سب سے بڑی مثال ہم مسلمانوں کا طرز عمل ہے۔ ہماری عظیم اکثریت اس وقت جن چیزوں کو ماننے کی مدّعی ہے‘ وہ اکثر و بیشتر لوگوں کے ہاں صرف ایک عقیدہ کی حد تک ہیں اور بندھی پوٹلی کی صورت میں دماغ کے کسی گوشے میں رکھی ہوئی ہیں۔ یہ عقیدہ ان کے فکر میں پیوست شدہ اوران کی سوچ میں سرایت کیے ہوئے نہیں ہے۔ بہرحال مَیں یہاں ’’فکر‘‘ کا لفظ استعمال کر رہا ہوں‘اور لوگوں کے فکر و عمل میں تضاد صرف استثنائی حالات ہی میں نظر آئے گا‘ عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا۔
جس طرح ایک فرد کا معاملہ ہے اسی طرح کا معاملہ ایک معاشرے ‘ قوم اور کمیونٹی کا بھی ہے۔ ایک قوم اور معاشرہ کا بھی ایک اجتماعی فکر ہوتا ہے۔ اسی اجتماعی فکر سے اس کے نظامِ حیات کی تشکیل ہوتی ہے ۔ یعنی اس کا نظامِ اقدار وجود میں آتا ہے‘ اس کے نظامِ اخلاق کی تعمیر ہوتی ہے‘ اس کے نظامِ معاشرت کی صورت گری ہوتی ہے‘ اُس کا نظامِ معیشت تشکیل پاتا ہے‘ اُس کا نظامِ سیاست وجود میں آتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اجتماعی نظامِ حیات ایک حیاتیاتی اکائی (organic whole) ہے۔ یہ ایک ایسی حیاتیاتی حقیقت ہے جس کے اجزاء کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ نظامِ حیات ایک حیاتیاتی حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ قوم اور معاشرے کی اجتماعی فکر کے ساتھ مربوط ہوتا ہے۔ اگر اجتماعی فکر‘ اجتماعی سوچ اور اجتماعی نقطۂ نظر تبدیل نہ ہو تو معاشرے کے اجتماعی نظامِ حیات میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔(یاد رہے کہ مَیں لفظ ’’فکر‘‘ استعمال کر رہا ہوں‘ ایک ایسے موروثی عقیدہ کی بات نہیں کر رہا جو محض نسلاً بعد نسلٍ چلا آتا ہے‘ لیکن قوم کے اجتماعی فکر اور سوچ میں پیوست نہیں ہوتا۔) مثال کے طورپر کمیونزم‘ ڈیموکریٹک سوشلزم یا سوشل ڈیموکریسی‘ یہ بھی اجتماعی نظام ہیں جن سے ایک خاص قسم کی معیشت اور ایک خاص طرز کی سیاست وجود میں آتی ہے۔ یہ ایک مخصوص اجتماعی فکر کی پیداوار ہیں۔ ان نظاموں کی فکری اساس جدلی مادّیت کا نظریہ ہے‘ جس نے پوری کائنات اور تاریخ کی ایک مادّی توجیہہ کی۔ اس نظریہ یا فکر کے مطابق انسان کے لیے اہم ترین مسئلہ اس کا معاشی مسئلہ ہے‘ لہٰذا اجتماعی زندگی میں اصل شے وقت کا معاشی نظام ہے‘ اور معاشی نظام ہی سے اخلاقی اقدار وجود میں آتی ہیں۔ یہ فکر و فلسفہ ایک شخص نے اپنی کتاب میں پیش کیا۔ اس فکر نے کچھ لوگوں کے ذہنوں پر تسلط قائم کیا۔ پھر انہی لوگوں نے اس فکر کے زیر ِاثر اشتراکی انقلاب برپا کیا۔ کمیونزم‘ سوشلزم اور سوشل ڈیمو کریسی وغیرہ یہ جدلی مادّیت کے شیڈز ہیں۔ ان سب کی فکری اساس اسی پر استوار ہے۔ اسی طرح کا معاملہ اسلام کے نظامِ حیات یا اسلامی نظامِ زندگی کا ہے۔ اس کی بھی ایک فکری اساس ہے۔ اس کے لیے ہمارے ہاں ایک اصطلاح ’’ایمان‘‘ ہے۔ لیکن مَیں یہ اصطلاح استعمال کرنے کی بجائے اس کے لیے ’’فکری اساس‘‘ کا لفظ استعمال کررہا ہوں‘ تاکہ آپ اس حقیقت پر ذرا وسعت ِنظر سے غور کرسکیں۔
’اسلام کا نظام ِحیات‘کی اصطلاح: حادث یاقدیم ؟
’’اسلام کا نظامِ حیات‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو حقیقتاً تو قدیم ہے‘ لیکن واقعتاً حادث ہے۔ حادث اس معنی میں کہ ہمارے دینی لٹریچر میں اس اصطلاح کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ اصطلاح نہ تو قرآن مجید میں موجود ہے اور نہ احادیث نبویہؐ کے ذخیرہ میں جو میری نگا ہ سے گزرا ہے‘ مجھے مل سکی ہے۔ میرا گمان ہے کہ ہمارے متقدمین ‘مفکرین اور ائمہ کے ہاں بھی یہ اصطلاح موجود نہیں ہے۔ بلکہ میرے علم کی حد تک لفظ ’’نظام‘‘ بھی پہلی بار شاہ ولی اللہ دہلویm نے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے ’’فَکُّ کُلَّ نِظَامٍ‘‘ کا انقلابی نعرہ لگایا۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ ’’اسلامی نظامِ حیات‘‘ کی اصطلاح حادث ہے۔ یہ اصطلاح قدیم اس اعتبار سے ہے کہ یہ نوشتہ ٔدیوار کی مانند ایک روشن حقیقت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جزیرہ نمائے عرب میںجو انقلاب برپا کیااور آپؐ جو ہمہ گیر تبدیلی لائے‘ اس نے زندگی کے تمام گوشوں کو تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ آپﷺ کا برپا کردہ انقلاب صرف عقیدے کی تبدیلی نہ تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اس سے صرف انفرادی زندگی میں تبدیلی آگئی تھی اور محض انفرادی اخلاق کی تربیت اور تزکیہ کا سامان ہوگیا تھا۔ یہ ساری چیزیں بھی موجود تھیں‘ لیکن ان کے ساتھ ساتھ یہ انقلاب ایک مکمل نظامِ معیشت‘ ایک مکمل نظامِ سیاست وحکومت‘ ایک مکمل قانونِ حدود وتعزیرات ‘ایک مکمل قانونِ وراثت‘ ایک مکمل قانونِ فوجداری و دیوانی کا حامل تھا۔ الغرض یہ زندگی کے ہر ہر گوشے کو بدل دینے والا انقلاب تھا۔ یہ کامل نظامِ حیات تھا۔ آپ ﷺنے اس نظامِ حیات کا عملی نمونہ بھی قائم کرکے دکھا دیا۔ ساری دنیا مانتی ہے کہ یہ نظام تقریباً تیس برس کامل صورت میں دنیا بھر میں قائم رہا۔ اگرچہ بعد میں اس پر زوال آیا‘ لیکن آنِ واحد میں یہ سارا نظام ختم نہیں ہوگیا‘ بلکہ اس کا خاتمہ بھی بتدریج ہوا۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ اسلام کا نظامِ حیات حقیقتاً توقدیم ہے ‘لیکن جہاں تک ’’اسلامی نظامِ حیات‘‘ کی اصطلاح کا تعلق ہے تو یہ ایک حادث اصطلاح ہے۔
میرے نزدیک ’’اسلامی نظامِ حیات‘‘ کی اصطلاح کا آغاز بہت ہی مرعوبیت کے ساتھ اور شکست خوردہ ذہنیت کی بنا پر ہوا ۔ جب مغرب میں مختلف عمرانی نظریات سامنے آئے‘ مختلف نظامِ ہائے حیات کا تصوّر اُبھرا تو اُن سے مرعوبیت کے سے اندازمیں ہمارے ہاں بھی ان نظریات کا ایک عکس اسلامی نظامِ حیات یا اسلامی نظام کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مثلاً جب یورپ میں آمریت کا دور دورہ ہوا اور فاشزم اور نازی ازم کا غلغلہ بلند ہوا تو ہمارے ہاں بھی کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ آمریت ہی صحیح اسلامی نظام ہے۔ پھر جب وہاں جمہوریت کا نعرہ لگا تو ہم نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا نظامِ سیاست بالکل جمہوری ہے اور یہی نظام واقعتاً حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کا عطا کردہ ہے۔ اسی طرح جب وہاں سوشلزم کا شہرہ ہوا تو اسی مرعوبیت کے ساتھ ہم نے کہا کہ سوشلزم عین اسلام ہے اور یہ کہ اسلام سوشلزم کا داعی ہے۔ یہی معاملہ ’’نظامِ حیات‘‘ کی اصطلاح کا ہے۔ مغرب میں نظامِ زندگی کا تصوّر اُبھر کرسامنے آیا اور اس ضمن میں انسان نے مختلف ارتقائی مراحل طے کیے تو ہمارے ہاں بھی ’’اسلام کے نظامِ حیات‘‘ کا تصوّر پیدا ہوا۔
البتہ جیسے جیسے وقت گزرا‘ ہمارے ہاں ایسے مفکرین پیدا ہوئے جو بحمد ِا للہ مرعوبیت اور شکست خوردہ ذہنیت سے بہت حد تک آزادتھے۔ انہوں نے مغرب کے عمرانی نظریات کا تنقیدی مطالعہ کیااور اس میں صحیح اور غلط اجزاء کو علیحدہ علیحدہ کیا۔ پھر ان اجزاء کے حوالے سے اسلام کے نظامِ حیات کو مرتّب اور مدوّن کرکے لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ نظامِ حیات کے حوالے سے مرعوبیت کی کیفیت اب ایک شعور اور خود اعتمادی والی فضا میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس کا ایک اور منطقی تقاضا بھی سامنے آیا۔ اسلامی نظامِ حیات کی طرح لوگوں میں یہ تصوّر بھی اُبھرا کہ اسلامی نظامِ حیات کو قائم کرنے کے لیے ایک ’’اسلامی تحریک‘‘ برپا کرنا ضروری ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے مغر ب میں مختلف نظام ہائے حیات کے لیے تحریکیں چلیں‘ مثلاً جمہوری تحریک‘ اشتراکی تحریک‘ نازی تحریک وغیرہ۔
’اسلامی تحریک ‘ کی اصطلاح کا پس منظر
لفظ ’’تحریک‘‘ بھی ہمارے ہاں ابتدائی دینی لٹریچرمیں موجود نہیں ہے۔ ایک زمانے میں اس لفظ کا استعمال شروع ہواتو ہمارے بعض بزرگوں نے اس پر گرفت کی کہ اس لفظ کا استعمال خطرات سے خالی نہیں ہے۔ اس لیے کہ لفظ ’’تحریک‘‘ کے مخصوص مفاہیم ہیں۔اگر آپ اسلام کو ایک ’’تحریک‘‘ قرار دیں گے تو اس سے اُن مفاہیم کو پھیلنے سے نہیں روک سکیں گے جوتحریک کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ سارے مفاہیم اور تصوّرات بھی اسلام میں شامل ہوجائیں گے۔ اس حوالے سے ایک دور میں مولانا سید سلیمان ندویؒ نے ایک وقیع شذرہ بھی تحریر کیا تھا۔
اسلامی تحریک کی اصطلاح دراصل گزشتہ صدی کی تیسری دہائی کے بعد بکثرت استعمال ہونا شروع ہوئی۔ دراصل مسلم لیگ جو پہلے خواص کی جماعت تھی‘ 1937 ء کے بعد عوامی تحریک کی صورت میں اُبھری۔ اس دور میں مسلم لیگ نے کانگرس کی تحریک کے مقابلے میں مسلمانوں کو جمع کرنے کے لیے اسلامی حکومت ‘اسلامی نظام اور اسلامی سیاست جیسی اصطلاحات کو بکثرت استعمال کیا ۔ چنانچہ اس سے ان اصطلاحات کا بہت چرچا ہوا اور لوگوں میں اسلامی حکومت قائم کرنے کا ایک جذبہ اُبھرا ۔ انہیں خیال آیا کہ ہمارا بھی اپنا ایک نظام ہے اور ہمیں اپنے اس نظام کو برپا کرنا چاہیے‘ اسلامی حکومت قائم ہونی چاہیے۔
1939ء میں مولاناابو الاعلیٰ مودودیؒ نے علی گڑھ کے سٹریچی ہال میں ایک تقریر کی‘ جس میں انہوں نے اس دو رکے تناظر میں یہ بیان کیا کہ بہت سے سیاسی اور سماجی عوامل کے باعث اگرچہ ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کی شدید خواہش تو پیدا ہوچکی ہے اور اُن میں ایک جوش وجذبہ پایا جاتا ہے‘ لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے کہ اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے۔ انہوں نے بھرپور تجزیے اور مضبوط دلائل کے ساتھ یہ بات ثابت کی کہ مسلمانوں کی ایک قومی تحریک کے ذریعے اسلامی ریاست کبھی قائم نہیں ہوسکتی۔ اس کے نتیجے میں صرف ایک قومی ریاست ہی وجود میں آسکتی ہے۔ اُن کا یہ تجزیہ ایک تلخ حقیقت تھی جسے بعد میں تاریخ نے سچ ثابت کردیا۔ آج پاکستان کے قیام کو 41 برس ہوچکے ہیں۔ (یاد رہے کہ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا یہ خطاب 1988 ء کا ہے) مسلم لیگ کی قومی تحریک کے نتیجے میں پاکستا ن تو معرضِ وجود میں آگیا‘لیکن اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کا خواب تا حال شرمندئہ تعبیر ہے۔ مولانا مودودیؒ نے واضح کیا کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے ایک ’’اسلامی تحریک‘‘ ضروری ہے‘ جس کے کچھ نمایاں خدوخال ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے خود پیش قدمی بھی کی کہ قومی تحریک کی منجد ھار سے ہٹ کر ایک الگ راستہ اپناتے ہوئے’جماعت ِ اسلامی‘ کے نام سے ایک جماعت کی تاسیس کی۔(جاری ہے)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024