(منبرو محراب) فلسفہ قربانی - ابو ابراہیم

11 /

فلسفہ قربانی(اُسوۂ ابراہیمی ؑکی روشنی میں )

 


مسجد دارالسلام ، باغ جناح لاہور میں صدر انجمن خدام القرآن محترم عارف رشید صاحب کے 2023ء کے خطاب عید الاضحی کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
10 ذوالحجہ کو ہر سال عید الاضحی منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر پورے روئے ارضی پربڑی تعداد میں مسلمان اللہ کے حضورنماز شکرانہ ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ ہمارادین عین فطرت ہے جس نے ہمیں سال میں دو تہوار دیے ہیں ۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی ۔عید کے معنی ہیں: وہ ایونٹ جوبار بار repeatہو۔ہمارے دین کی خوبصورتی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں تہواروں کو دو بڑی بڑی عبادات کے ساتھ جوڑدیا۔عید الفطر کے موقع پر ایک بڑا اجتماع ہوتا ہے جس میں ہم نماز شکرانہ ادا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزوںجیسی نعمت عطا کی اور ماہِ رمضان جیسا مہینہ عطا فرمایا جس میںاللہ نے اپناکلام نازل فرمایا۔یہ بہت بڑی نعمت ہے لہٰذا شکرانہ کے طور پر مسلمان اجتماع عید کے لیے نکلتے ہیں اور زبان پر تکبیر ہوتی ہے :اللہ اکبر،اللہ اکبرلاالٰہ الااللہ واللہ اکبراللہ اکبر وللہ الحمد! دوسری عید، عیدالاضحی ہے اس کواللہ نے ہمارے لیے حج جیسی افضل عبادت کے ساتھ جوڑدیاجوایک جامع عبادت ہے ۔اس میںبدنی اورمالی عبادتیں دونوںشامل ہیں۔ مسلمان زرکثیرخرچ کرکے حج کے لیے سرزمین حجاز (مکہ) میں پہنچتاہے اور وہاںطواف ،سعی بین الصفا والمروہ، وقوف عرفات ،قیام منیٰ اور قربانی وغیرہ مناسک ادا کرتے ہیں۔یہ اکثر وبیشترمناسک حج حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کے مختلف eventsہیں۔ قرآن حکیم میں 72مرتبہ حضرت ابراہیم ؑ کانام آیا ہے۔ قرآن کی 25سورتوںمیںآپ ؑکاذکرہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم d کوتمام انسانوںکاامام قرار دیا۔ ارشاد ہوتاہے:
{قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ط} (البقرہ:124) ’’تب فرمایا: (اے ابراہیم ؑ!) اب میں تمہیں نوعِ انسانی کا امام بنانے والا ہوں!‘‘
پھراللہ تعالیٰ نے آپؑ کواپناانتہائی محبوب دوست قرار دیا۔ازروئے الفاظ قرآنی:
{وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلاً(135)} (النساء:125) ’’اور اللہ نے تو ابراہیم ؑکو اپنا دوست بنا لیا تھا۔‘‘
پھرحضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کے اورکتنے ہی واقعات ایسے ہیںجو قرآن حکیم میں بیان ہوئے ہیں۔ ملت ابراہیمی کاذکربیسیوںمقامات پرہے اور حدیہ ہے کہ نبی اکرمﷺ سے واحدکے صیغے میںخطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورۃالنحل میںارشاد فرمایا:
{ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًاط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(123)} (النحل) ’’پھر (اے محمدﷺ!) ہم نے وحی کی آپ کی طرف کہ پیروی کیجئے ملت ِابراہیم ؑکی یکسو ہوکر‘اور وہؑ ہر گز مشرکین میں سے نہ تھے۔‘‘
معلوم ہواکہ آج جوملت محمدﷺ ہے وہ اصل میں ملت ابراہیم کاتسلسل ہے ۔قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کے بیان کا اگر جائزہ لیں تو اس سے بڑاtribute قرآن حکیم نے اورکسی کو پیش نہیںکیا۔ارشادباری تعالیٰ ہے :
{وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط} (البقرہ:124) ’’اور ذرا یاد کرو جب ابراہیم ؑ کو آزمایا اُس کے رب نے بہت سی باتوں میں تواس نے ان سب کو پورا کردکھایا۔‘‘
یہ عقل وشعورکاکڑا امتحان تھا ۔وہ معاشرہ جہاں شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیرے تھے وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نعرہ توحید بلند کیا :
{ اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَـآ اَنَا مِنَ الْمُشْرکِیْنَ(79)} (الانعام:79) ’’میں نے تو اپنا رُخ کر لیا ہے یکسو ہو کر اُس ہستی کی طرف جس نے آسمان و زمین کو بنایا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
انسان کے نزدیک سب سے بڑھ کراس کی عزیزترین شے اس کی جان ہوتی ہے ۔آپؑ نے اپنی جان کی بھی پروانہیں کی اور مشرکین کے سب سے بڑی معبد میں گئے اور ان کے تمام جھوٹے خدائوں کے مجسموں اور بتوں کو چکناچورکردیا۔حالانکہ واضح اندیشہ تھا کہ جب قوم کے لوگ واپس آئیں گے تو اپنے معبودوں کی حالت دیکھ کر آپ ؑ کی جان کے درپے ہوں گے مگر انہوں نے اللہ کی توحید کے لیے حمیت اور غیرت میں اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈالا اور کوئی اندیشہ ان کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکا ۔ اور پھر اسی عقیدۂ توحید کی خاطر اپنا وطن اور گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ بیت اللہ کی تعمیر کے ذیل میں ذکر آتا ہے ۔ فرمایا :
{وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط} (البقرہ:127) ’’اور یاد کرو جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ ہمارے گھر کی بنیادوں کو اٹھا رہے تھے۔‘‘
اس دوران اُن کی زبان پر یہ دعا جاری تھی :
{رَبَّـنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَـآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ص} (البقرہ:128)’’اور اے ہمارے رب! ہمیں اپنا مطیع فرمان بنائے رکھ اور ہم دونوں کی نسل سے ایک اُمت اٹھائیو جو تیری فرمان بردار ہو۔‘‘
اس سے بڑھ کرسعادت کیاہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور ان کی ذریت میں امت محمدﷺپیدافرمائی۔ہمیںچونکہ اسلام گھربیٹھے حاصل ہوگیا ہے، ہماری پیدائش مسلمان گھرانے میں ہوئی، اس لیے ہمیں اسلام کی قدر نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پر نظر دوڑائیے جو اس راستے میں آزمائشوں اور امتحانوں سے بھری ہوئی ہے ۔اصل شے امتحان ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط} (الملک :2)’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘
ہم میںسے بھی ہرشخص اس امتحان سے گزررہاہے ۔ بقول شاعر ؎
اس زیاں خانے میں تیر ا امتحاں ہے زندگی
ہمیںحضرت ابراہیم ؑ کے اُسوہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُسوہ حسنہ کی اصطلاح قرآن حکیم میں جہاںمحمدرسول اللہﷺ کے لیے استعمال ہوئی وہیں حضرت ابراہیم d کے لیے بھی استعمال ہوئی۔ سورۃ الممتحنہ میں فرمایاگیا:
{قَدْ کَانَتْ لَـکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ج} (آیت:4) ’’تمہارے لیے بہت اچھا نمونہ ہے ابراہیم ؑاور ان کے ساتھیوں (کے طرزِعمل) میں۔‘‘
آپ ؑ نے اللہ کے حکم سے ا پنی بیوی اورنوزائیدہ بچے اسمٰعیل کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ دیا۔کوئی شخص اس امتحان کی شدت کا تصوربھی نہیں کرسکتا۔ وہاںکوئی آبادی نہیںتھی،کوئی بستی نہیںتھی،کوئی پانی موجود نہیں تھا۔ آج مسلمان جومناسک حج میں سعی بین الصفا والمروہ کرتے ہیں وہ اسی بات کی یاد میں کرتے ہیں کہ حضرت اسمٰعیل d کی والدہ پانی کی تلاش میں اِدھراُدھر ایک چٹان سے دوسری چٹان تک دوڑتی رہیں لیکن پانی کہیں نہیں ملا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی ہے اورحضرت اسمٰعیل d کی ایڑیوں کے نیچے سے وہ چشمہ جاری کر دیا جو آج تک جاری ہے ۔جس کاپانی آج بھی معجزہ ہے۔ اس سے بہترین پانی کا آپ تصور نہیںکرسکتے جس میں اللہ نے شفا رکھی ہے ۔
سب سے بڑاامتحان جس کی یادمیں ہم قربانی کرتے ہیں کوئی آسان نہ تھا ۔ہم تو جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تین رات مسلسل ایک خواب دکھایا۔آپ ؑ نے فرمایا:
{قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ} ’’اُس نے کہا: اے میرے بیٹے !میں دیکھ رہا ہوں خواب میں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں‘‘
یہ مشکل مرحلہ تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی عمراس وقت سوبرس کی تھی۔سوبرس کی عمر میں اپنے نوجوان بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنا کوئی کم آزمائش نہیں تھی ۔ مگر حکم رب کا تھا لہٰذااس سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اس موقع پر جو باپ کے دل میں اولادکے لیے محبت اور شفقت ہوتی ہے وہ بھی آڑے نہیں آئی ۔ یہ وہ عظیم لمحہ ہے جس کی یاد میں پورے روئے ارضی پر لوگ قربانی کرتے ہیں۔ جس میں استطاعت ہے وہ ہمت کرے اوراللہ کی راہ میں قربانی کرے۔ اس دن اللہ کوسب سے بڑھ کر محبوب عمل قربانی ہے ۔ صحابہ کرام jنے حضورﷺسے سوال کیاتھاکہ اے اللہ کے رسولﷺ!یہ قربانیاںجو ہم کرتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے ؟آپﷺ نے بہت مختصرجواب دیا:((سنۃابیکم ابراہیم ))۔’’یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘
ہمارے لیے اصل غور وفکر کی بات یہ ہے کہ اگر اسوئہ ابراہیمی ؑہمارے لیے نمونہ ہے اوراسوئہ محمدی ﷺ ہمارے لیے نمونہ ہے تو ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جواللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔جس شخص نے اللہ کے حکم سے اپنے بیٹے تک کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا، اللہ کی خاطر اپنے نوزائیدہ بچے اور بیوی کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا اس قربانی کا کچھ نہ کچھ عکس تو ہماری زندگیوں میں بھی ہونا چاہیے۔ علامہ اقبال نے بہت صحیح فرمایا ؎
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہے تو باقی نہیں ہے
دوسرے مقام پربڑے خوبصورت الفاظ ہیں :
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
بہرحال ہم میں سے ہرشخص جب قربانی کے جانورکی گردن پر چھری پھیرے تو اُسے یہ بھی لازماً غور کرنا چاہیے کہ واقعتاً میری زندگی میں وہ تقویٰ،وہ ایمان اوروہ خلوص اور وفاداری ہے جواللہ اوراس کے دین کے ساتھ ہونی چاہیے؟ حضورﷺ نے فرمایاتھاکہ دین تونام ہی خیرخواہی، وفاداری کا ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا:
(( الدِّیْنُ اَلنَّصِیْحَۃُ ))’’دین خیر خواہی ہے‘‘۔
آپ ﷺنے یہ جملہ تین دفعہ دہرایا ۔ پوچھا گیا : قلنا لھن؟ یا رسول اللہ ﷺ کس کے لیے ؟ فرمایا :
قَالَ: ((لِلہِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ))’’ آپ نے فرمایا:اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول (ﷺ) کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔‘‘(مسلم)
ہم میںسے ہرشخص کواپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ واقعتاً ہم اللہ کے وفادارہیں؟اللہ نے جو شریعت کے احکامات نازل کیے‘ کیامیں اس پرکاربند ہوں؟ جو حرام اورناجائز چیزیںشریعت میںمنع کردی گئیں‘کیامیں اُن سے بچتا ہوں ؟کیا میں اللہ کے رسول ﷺ کے اُسوہ کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہوں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو وفاداری ہے اور اگر جواب نہ میں آئے تو پھر اسی لمحہ سے اصلاح کی کوشش شروع کرنی چاہیے ۔اسی طرح اللہ کی کتاب کے ساتھ میرا تعلق ہے ، کیا میں اس سے کوئی رہنمائی لیتا ہوں ؟ اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہوں؟ یہ کتاب اللہ نے صرف ثواب حاصل کرنے اورایصال ثواب کے لیے نازل نہیں فرمائی تھی بلکہ یہ کتاب ہدایت ہے۔ اسے ہم نے اپنی زندگیوں میں نافذ کرناہے۔ بہرحال عید کے دن جس طرح تکبیرات ہماری زبان پر ہوتی ہیںاسی طرح ہمیںیہ بھی سوچنا ہوگاکہ واقعتاً ہماری زندگیوں میں اللہ بڑاہے؟ ہمارے اس پانچ چھ فٹ کے جسم پراللہ کاحکم نافذ ہے؟ ہمارے گھر کی جو چھوٹی سی ریاست ہے اس میں اللہ کی شریعت موجود ہے؟اگر نہیں ہے توپھرہمیں فکرکرنی چاہیے اور ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺاوراس کی کتاب کے ساتھ وفاداری کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ صرف اسی صورت میں ہماری نجات ممکن ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فلسفۂ قربانی کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !