اداریہ
ایوب بیگ مرزاآہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک28 جون کو جب مغربی یورپ میں مسلمان عید الاضحیٰ منا رہے تھے ایک بدبخت شقی القلب عراقی سلوان مونیکا جو خود کو ملحد قرار دیتا ہے، نے سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے باہر اللہ کی آخری کتاب قرآنِ کریم کو نذرِ آتش کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ مسجد کے ڈائریکٹر امام محمد خلفی نے احتجاج کے آغاز ہی میں پولیس سے درخواست کی کہ وہ احتجاج کی جگہ کو تبدیل کر دیں خاص طور پر اس لیے بھی کہ قانون میں اس کی گنجائش موجود تھی لیکن پولیس نے اُن کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور اس شیطانی ذہنیت کے حامل شخص کے اس گھناؤنے فعل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ایک پہاڑ تھا جو عالم اسلام پر ٹوٹ پڑا مسلمانوں کے جذبات بُری طرح کچلے گئے۔ اُن پر سکتہ طاری ہوگیا، اُن کی بے بسی دیدنی تھی۔ مسلمان حکمرانوں کا ردعمل کچھ دیر بعد آیا۔ بہرحال دیر آید درست آید اور اُنہوں نے پوری شدت سے اس قبیح فعل کی مذمت کی۔ ان میں خاص طور پر پاکستان، ملائیشیا، قطر، ترکی، سعودی عرب، سوڈان، صومالیہ اور متحدہ عرب امارات کے حکمران شامل تھے۔ 02 جولائی کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں او آئی سی کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے اجلاس میں مستقبل میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات سے بچنے کے لیے اجتماعی اقدامات پر زور دیا گیا۔ سعودی عرب، عراق، کویت، متحدہ عرب امارات اور مراکش سمیت مختلف ممالک نے سویڈن کے سفیر کو طلب کرکے احتجاج کیا۔ سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ بار بار کی جانے والی نفرت انگیز کارروائیاں کسی بھی جواز کے ساتھ قبول نہیں کی جا سکتیں۔ حکومتِ پاکستان نے بھی اس حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا تاکہ اس سانحہ کی بھرپور مذمت کی جائے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے 07 جولائی 2023ء کو احتجاجی کال دے دی تاکہ یورپ کو ایک میسج دیا جا سکے۔ سویڈن کے منہ میں دو زبانیں تھیں ایک طرف اس سانحہ کی مذمت کی اور دوسری طرف یہ بھی ارشاد ہوا کہ اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے موجودہ قوانین کے تحت احتجاج کرنے کی درخواست کو مسترد نہیں کیا جا سکتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں کا مسئلہ اپنی دینی، شرعی اور روحانی ذمہ داری نبھانا نہ تھا بلکہ لیپاپوتی کرنا تھا اُس عوام کو تھپکی دے کر اور لوری سنا کر گہری نیند سلانا تھا جس کا اِس خوفناک دھچکے سے جاگ جانے کا خطرہ تھا۔ ہم الزام نہیں لگا رہے مسلمان حکمرانوں نے کسی ایسے اقدام کا زبانی اظہار بھی نہ کیا جس سے عملاً سویڈن کو کسی قسم کا معاشی یا سیاسی نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ بعض ممالک کے وزارت خارجہ نے سویڈن کے سفیر کو طلب کرکے احتجاج یقیناً کیا۔ پاکستان کو یہ جرأت بھی نہ ہوئی۔ سب طرف سے یہ آواز ہی آئی ’’اب کہ مار کر دِکھا‘‘ اور ہمارے وزیر خارجہ تو اس سانحہ کے فوری بعد امریکہ روانہ ہوگئے۔ امریکہ نے سرکاری طور پر نہ بلایا تو نجی دورے پر ہی جا پہنچے، تاکہ شیطان بزرگ جو تمام اسلام دشمن قوتوں کا سرغنہ ہے کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر قسم اٹھا کر کہہ سکیں، خدا کی قسم میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس معصوم کی پشت سے دستِ شفقت نہ اٹھائیے۔ الیکشن نامی ڈراما پاکستان میں رچایا جانے والا ہے۔ ہُما کو حکم دیں کہ میرے ہی سر پر بیٹھے۔ بہرحال سویڈن کے خلاف کسی مسلمان ملک کو اعلانِ جنگ کرنے کی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی ایسا کسی طرف سے مطالبہ آیا۔
اگر OIC کے سربراہ اجلاس میں دوٹوک اعلان کر دیا جائے کہ جو بھی ملک قرآن پاک یا حضورِ اقدسﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرے گا تمام مسلمان ممالک اُس کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کر لیں گے اور اس پر سختی سے عمل کریں گے تو یہ یورپین ممالک ناک کی لکیریں نکالنے پر تیار ہو جائیں گے۔ لیکن مسلمان ممالک کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ غریب اسلامی ملک IMF کے محتاج ہیں اور امیر ممالک کے حکمرانوں کی کرسی کی چابی امریکہ وغیرہ کے کنٹرول میں ہے۔ جسے چاہیں بٹھا دیں جسے چاہیں اٹھا دیں۔ یہ گورے لوگ عجیب قسم کے جمہوری، دیانت دار اور منصف مزاج ہیں اپنوں سے واسطہ ہوگا تو تجارت انتہائی دیانت داری سے ہوگی، عہد ایفائی بھی ہوگی اور راست گوئی بھی ہوگی اور غیروں سے پالا پڑے گا تو بددیانتی، آمریت اور عہدشکنی قومی مفاد کا تقاضا ہے لہٰذا یہ عمل صالح ہوگا۔ البتہ ہولوکاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کی تعداد کو کم کرنا بھی جرم ہے اور کسی آزادیٔ تحریر و تقریر کی کوئی حیثیت نہیں جبکہ سویڈن یا فرانس وغیرہ میں جو کچھ ہوا اُس کی وہ مذمت نہیں کر سکتے کہ نام نہاد اظہارِ رائے کی آزادی کا حق سلب ہوتا ہے۔ درحقیقت آج دنیا Might is Right کا اصول تسلیم کر چکی ہے۔ عدل اُس عمل کا نام بن چکا ہے جو طاقتور کو فائدہ پہنچائے۔ کشمیر جیسا مسئلہ ہو جسے نصف صدی سے زیادہ وقت ہو چکا ہے کہ سلامتی کونسل کی قرار داد منظور ہو چکی ہے لیکن عمل درآمد نہیں ہوگا اور مشرقی تیمور کو عیسائی ریاست بنانے کا معاملہ ہو تو گھنٹوں اور دنوں میں عمل ہوگا۔ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے نکال کر صہیونی آبادکاروں کو بسایا جائے گا تو سلامتی کونسل زبانی کلامی کارروائیاں کرتی رہے گی۔ اسرائیل سے دست بستہ گزارشیں کرتی رہے گی۔
درحقیقت مسئلہ جرم ضعیفی کا ہے۔ مسلمانوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کوئی اُن کو اُن کا حق پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کرے گا۔ امتِ مسلمہ کو اپنے تن میں جان پیدا کرنا ہوگی۔ یہ امتِ مسلمہ کا وہ زریں دور نہیں کہ مسلمان قابض افواج کو اگر ایک علاقہ خالی کرنا پڑتا ہے تو وہ اعلیٰ ترین اخلاقی نمونہ پیش کرتے ہوئے غیر مسلموں کو اکٹھا کرکے اُن کو جزیہ کی رقم واپس کر دیتے ہیں کہ یہ ہم نے تم سے جزیہ اس بنیاد پر لیا تھا کہ ہم تمہاری حفاظت کریں گے لیکن اب کیونکہ ہم اس پوزیشن میں نہیں تو آپ کو آپ کا جزیہ واپس کر رہے ہیں۔ آج جو قوتیں دنیا پر قابض ہیں اُن کے اخلاق کا معیار جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کی دنیوی اور اُخروی نجات اس میں ہے کہ وہ اسلام کا عادلانہ نظام قائم کریں جس میں اپنے ہم قوم اور اپنے ہم مذہب کے لیے ہی نہیں سب کے لیے عدل ہے، غیر مسلم بھی مسلمان کے لیے خلاف فیصلہ حاصل کر سکتا ہے اگر وہ حق پر ہے۔ اگر مسلمان ایسا نہیں کرتے تو سمجھ لیں کہ اُن کے لیے زمین کا پیٹ زمین کی پیٹھ سے بہتر ہے۔ خالی خولی باتوں اور بے ہنگم نعروں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ درحقیقت ایمان کی ضرورت ہے اور عمل صالح درکار ہے وگرنہ ہم سے شودروں جیسا سلوک ہوتا رہے گا۔ ہماری مقدس ہستیوں اور شعائر اسلامی کا مذاق بنتا رہے گا بلکہ بات مزید بڑھ سکتی ہے، شاید آنے والے وقت میں ہمیں رسمی احتجاج کی اجازت بھی نہ دی جائے۔ آج قرآن پاک کے نذرِ آتش کیے جانے پر قوم بے بس ہے، آنسو بہا رہی ہے، سسکیاں لے رہی ہے، آہیں بھر رہی ہے، غالب صدیوں پہلے کہہ چکے ’’آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک‘‘ لہٰذا اسلامی نظام اگر قائم نہیں ہوتا تو پھر انتظار کیجئے اس عمر کے گزرنے تک یا شاید قیامت تک۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024