(زمانہ گواہ ہے) قرآن کی بے حرمتی اور اُمت مسلمہ کا لائحہ عمل - ابو ابراہیم

8 /

یورپ میں اسلامی شعائر کی بے حرمتی ریاستی سرپرستی میں

ہورہی ہے ، اُمت مسلمہ کے پاس اصل حل یہ ہے وہ دوبارہ خلافت کے

نظام کی طرف بڑھے : امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ 

سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کا واقعہ باقاعدہ پلان کے تحت کیا گیا : رضاء الحق

ہمیں سب سے پہلے کشکول توڑنا ہوگا تبھی ہم ایسے واقعات کے خلاف آواز

اُٹھا سکیں گے : ڈاکٹر محمد عارف صدیقی

 

قرآن کی بے حرمتی اور اُمت مسلمہ کا لائحہ عمل کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

سوال:سویڈن میں قرآن حکیم کی بے حرمتی کاواقعہ پیش آیا۔اس اندوہناک واقعہ کے پس پردہ مقاصد کیاتھے؟
رضاء الحق: بدبخت سلوان مومیکا نامی ملحد شخص جس نے یہ حرکت کی ہے دو سال پہلے عراق سے پناہ گزین کے طور پر سویڈن آیا تھا ۔ اس نے وہاں سٹاک ہوم کی مرکزی جامع مسجد کے سامنے نہ صرف یہ کہ قرآن پاک کے مقدس اوراق کو نظرآتش کیا بلکہ یہ کہتے ہوئے دل دہل جاتا ہے کہ سور کے مختلف اعضاء قرآن کے پاک کے اوراق کے اوپر گرائے اور پھر ان کے اوپر قدم بھی رکھا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون! یہ کہتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن قارئین کے علم میں لانا اس لیے ضروری ہے تاکہ اندازہ ہو کہ مغرب کس قدر اسلامو فوبیا اور اسلام دشمنی پر اُتر آیا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے پانچ واقعات تو صرف سویڈن میں ہی ہو چکے ہیں اور حالیہ برس کے دوران یہ تیسرا واقعہ ہے ۔ سویڈن کی حکومت کا یہ کہنا بالکل بے بنیاد ہے کہ یہ فعل انفرادی معاملہ ہے۔ ایسے واقعات منصوبہ بندی کے ساتھ اور منظم انداز میں ہورہے ہیں ۔ سلوان مومیکا نامی اس شخص نے ایک عرصہ سے عدالت میں درخواست دی ہوئی تھی کہ اسے قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت دی جائے ۔ پولیس نے ابتدائی طور پر اس کی اجازت دینے کی مخالفت کی ۔ پولیس کا موقف تھا کہ ایسے واقعات کی وجہ سے سویڈین کو بین الاقوامی سطح کے تعلقات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں سے آپ اندازہ کریں کہ مغربی تہذیب کس قدر گر چکی ہے کہ ایک طرف مسلمانوں کی دل آزاری کے لیے عدالت جایاجارہا ہے اور دوسری طرف اس کے خلاف جو دلیل پیش کی جارہی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے کسی کمیونٹی یا اس کے مذہب کو ٹارگٹ کیا جائے گا بلکہ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ ہمارے لیے امن و امان اور بین الاقوامی تعلقات میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ اس معاملے میں بھی ان کے تضادات صاف نظر آرہے ہیں ۔ ایک طرف وہاں کسی کالے کو نیگرو کہہ دیا جائے یا وہاں کے شاہی خاندان کے خلاف کوئی بات کر دی جائے ، یا ہولو کاسٹ کے معاملے پر ذرا سا سوال اُٹھا دیا جائے تو فوراً اس کے خلاف کیس ہو جائے گااور باقاعدہ سزا ہو جائے گی اور دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی رویہ ہے ۔ اس واقعہ میں ایک پورا سٹیج سیٹ کرکے ویڈیوہمیںدکھائی گئی اورایک دوسرا شخص وہاں پرترجمہ کررہاتھا۔ یعنی یہ ایک باقاعدہ پلان کے تحت کیاگیا۔اس کے پس پردہ محرکات بالکل صاف نظرآرہے ہیں۔ ان کومعلوم ہے کہ مسلمانوں کی غیرت دینی اورغیرت ایمانی کو وقتاً فوقتاً چیک کرتے رہناچاہیے۔ماضی قریب میں بھی نبی اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کرکے وہ مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو چیک کرتے رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات پرمسلم ممالک میں مسلمان مظاہرے کرتے ہیں اوراگر توڑ پھوڑ کا کوئی واقعہ ہو جائے تو عالمی میڈیا ان کی ویڈیوز بناکردنیا کو بتاتاہے کہ یہ دہشت گرد قسم کے لوگ ہیں۔ غیرمسلم ممالک میںاگر کوئی مسلمان اشتعال میں آکر قانون ہاتھ میں لیتا ہے تو اس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور اس کو استعمال کرکے اسلام کو مزید بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔بنیادی طورپرموجودہ فتنوں کے دور میں شیطان ننگا ناچ رہاہے اورجودجالیت پھیل رہی ہے اس کے ہتھیاروں میں سے ایک یہ ہتھیار استعمال میں لایا جا رہاہے ۔
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نےایک موقع پر فرمایا تھا : ’’اب میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران انگلستان کے وزیر اعظم نے قرآن کا نسخہ لہرایا اور کہا : جب تک یہ کتاب دنیا میں موجود ہے دنیا میں امن نہیں ہو سکتا ۔یہی آج پورا مغرب کہہ رہا ہے ۔امریکیوں نے نصاب کی کتابوں سے جہاد اور قتال کی آیتیں نکلوا دی، سعودی عرب میں نکلوا دیں، ہمارے ہاں نکل رہی ہیں، بہرحال سوچئے کہ کسی شخص نے قرآن کی بےحرمتی کرنی تھی نیوز ویک نے اسے کیوں شائع کیا ؟ کیا اسے پتانہیں تھا کہ مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے؟ یہ اس لیے چھاپا ہےکہ وہ چیک کر رہے ہیں کہ مسلمانوں میں کوئی غیرت باقی ہے یا نہیں ۔ ‘‘
سوال:سٹاک ہوم واقعہ پرروسی صدر پیوٹن نے اپنا ایک موقف دیاہے کہ روس میں ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے اوراگر کسی نے ایسا کیاتوہم اس کو قرار واقعی سزادیں گے ۔ان کا یہ بیان کتنی اہمیت کاحامل ہے ؟
رضاء الحق:کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ روسی صدر کایہ بیان اورطرزعمل عالم اسلام اور مسلم حکمرانوں کے دل جیتنے لیے ہے اور روس یوکرائن تنازعہ اور سویڈن ترکی معاملات کے تناظر میں اُن کی سیاسی چال ہے ۔ لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ پیوٹن کی یہ سیاسی چال نہیں ہے کیونکہ مغرب اورمغربی حکومتوں کے خلاف لوگوں میں ایک نفرت پیدا ہوگئی ہے، اسے صدر پیوٹن اپنے حق میں  استعمال کریں گے ۔ ایک چیز انتہائی اہم ہے کہ سوویت یونین (جوکمیونزم کے الحاد پرستانہ نظریہ کی بنیاد پرقائم کی گئی ریاست تھی)سے روس مختلف ہے ۔اب وسط ایشیائی ریاستیں جیسے ازبکستان ، ترکمانستان ، تاجکستان، کرغزستان ، قازقستان ، کریمیا، بیلا روس، چیچنیا وغیرہ روسی صدر پیوٹن کی حمایت کرتی ہیں ۔ اسی وجہ سے جب پیوٹن کے خلاف بغاوت کی کوشش ہوئی تو وہ ناکام ہوگئی ۔ صدر پیوٹن کا جو بیان قرآن کے متعلق آیا ہے وہ انہوںنے داغستان کی ایک مسجد میں دیا ہے جہاں ان کوعیدالاضحی کے موقع پر قرآن تحفہ کے طور پر پیش کیا گیا ، انہوں نے قرآن کو سینے سے لگایا اور کہا کہ یہ الہامی کتاب ہے ،اس کی نہ کسی کو تضحیک کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور ہمارے آئین اور قانون دونوں میں اس کی اجازت نہیں ہے ،کوئی ایسا کرے گا تو اس کو سزا دی جائے گی ۔ صدر پیوٹن کا یہ بیان اہم اس لیے ہے کہ دنیا اس وقت دو کیمپوں میں تقسیم ہو رہی ہے ۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ایک کیمپ وہ ہے جو مسلمانوں کے خلاف کھلی کارروائیاں کر رہا ہے ۔ دوسری طرف روس کا کیمپ ہے جو مسلمانوں کو نسبتاً سپورٹ کر رہا ہے ۔ اس کیمپ میں چین بھی ہے جس کے مسلمان ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ۔ اب مسلمان ممالک کے لیےبہتر یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو طاقتور کریں اور اس کے بعد دیکھیں کہ ہمارے مفاد میں کس کے ساتھ اتحاد کرنا ہے ۔
سوال: سویڈن کی ایک عدالت نے آزادی اظہار کی آڑ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت دے دی اور نیٹو کے چیف کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور اس حق سے لوگوں کو محروم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فرمائیے کہ آزادی اظہار کی یہ تعریف صرف قرآن پاک کی بے حرمتی اور صاحب قرآنﷺ کی شان میں گستاخی کے حوالے سے ہی کیوں استعمال کی جاتی ہے؟
ڈاکٹر محمدعارف صدیقی:یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ سویڈن کی عدالت نے قرآن مجید کو جلانے کی اجازت دی۔ اس سے پہلے یہ لوگ نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کرتے رہے ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب یہ آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ جب مسلمانوں کی طرف آزادی عمل کا استعمال ہوتا ہے تو ان کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔ سیدھی سی بات ہے کہ یہ مسلمانوں پر حملہ آورکیوں ہیں؟ آپ کا مال چلا جائے تو کوئی غم نہیں ہے ، مال دوبارہ کمایا جا سکتا ہے ، جان اللہ کی راہ میں چلی جائے تو اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی مگر دشمن اس وقت نہ تو ہماری جانوں پر حملہ آور ہے اور نہ ہی ہمارے مالوں پر ، وہ ہماری غیر ت پر حملہ آور ہے، اگر ہم نبی اکرم ﷺاور قرآن پاک کی حرمت اور تقدس کا دفاع نہیں کر سکتے تو پھر ہم اور کس چیز کا دفاع کر سکتے ہیں ۔ یہ آج سے نہیں ہورہا ہے ۔ آپ ان کی ٹائمنگ دیکھئے ۔ ادھر آئی ایم ایف سے معاملات ہورہے ہیں اور ادھر یہ واقعہ ہو رہا ہے ۔جب آپ کشکول لے کر آگے گئے ہوئے ہیں تو پھر دشمن آپ کو مسلسل ایسے teasersکے ذریعے چیک کرے گا کہ اس کی غیرت کس درجے پر پہنچ چکی ہے۔بلاشبہ بھکاریوں کی غیرت تو نہیں ہوتی۔ لہٰذا ہمیں سب سے پہلے کشکول توڑنا ہوگا تبھی ہم ایسے واقعات کے خلاف آواز اُٹھا سکیں گے ۔
سوال: کیا قرآن پاک کی توہین اور نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کے خلاف عالمی سطح پر قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے؟
ڈاکٹر محمدعارف صدیقی:یہ قانون سازی لفظوں کی حد تک تو بہت اچھی ہے مگر سمجھنے کی بات ہے کہ قانون تب ہی موثر ہوتا ہے جب حکمران سیدنا عمر فاروقh جیسا ہو ورنہ قانون تو مکڑی کا وہ جالا ہے جسے ہر طاقتور توڑ دیتا ہے اور یہ ہر کمزور کو جکڑ لیتا ہے۔ قانون پرعمل درآمد کے لیے قوت چاہیے۔ پاکستان کی عدالتوں نے کتنے اچھے اچھے فیصلے دیے ہیں کیا ان پر عمل ہو سکا ؟ عالمی سطح پر آپ ایسی قانون سازی اگرکر بھی لیں گے لیکن آپ کے پاس قوت نہ ہو توآپ کیا کر سکتے ہیں؟ اقوام متحدہ کی کتنی قراردادیں کشمیر، برما اور فلسطین کے حوالے سے موجود ہیں ؟ ان کا اُمت مسلمہ آج تک کوئی فائدہ ہوا ؟ اس لیے نہیں ہوا کہ ہمارے پاس طاقت نہیں ہے ۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ قانون سازی سے زیادہ ہمیں طاقت کے حصول پر توجہ دینی چاہیے۔معاشی ، عسکری ، ایمانی طاقت ، ٹیکنالوجی کی طاقت ، تقویٰ کی طاقت ۔ جب تک ہم اس طاقت کے حصول کے لیے کوشش نہیں کریں گے ذلت ورسوائی ہمارا مقدر بنی رہے گی۔ ہم کیوں بھول گئے کہ سیدنا رسول کریمﷺ سے منسوب روایت میں ہے کہ اللہ کوطاقتور مومن کمزور مومن کی نسبت زیادہ پسند ہے اب جو طاقتور ہے وہ ایمان میں بھی طاقتور ہو گا، کردار میں طاقتور ہوگا، تقویٰ میںبھی طاقتور ہوگا، عسکری علوم کا ماہر ہوگا وہ دشمن کو للکار کر جواب دینے کے قابل ہوگا ۔ اس وقت ضرورت اس امرکی بھی ہے کہ اگر حکمران اپنا فرض پورا نہیں کرتے تو ہر مسلمان اپنی اپنی سطح پر اپنا قرآن و سنت کے احکامات کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے لائحہ عمل مرتب کرے ،ایسا کریں گے تو عالم کفر ہر وقت خوف میں مبتلا رہے گا ۔ان کے دل میں جان جانے کا، مال جانے کا، اقتدار جانے کا خوف رہے گا، جب تک آپ دشمن کو خوف میںمبتلا نہیں کریں گے آپ کبھی بھی اس طرح کے معاملات کو نہیں روک سکتے۔
سوال: مغربی دنیا کی اسلامک فوبک دہشت گردی سے بچنے کے امت مسلمہ کو کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں؟
ڈاکٹر محمدعارف صدیقی:اس طرح کے اقدامات کو روکنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں امت کے تصور کو زندہ کرنا ہو گا۔لیکن ہم کیا کر رہے ہیں ؟ پہلے تو صرف عربی اور عجمی کی تقسیم تھی۔اب ہم نے کہا سب سے پہلے پاکستان ، پھر کہا سب سے پہلے پنجابی ، سب سے پہلے پختون ، سندھی وغیرہ ۔ پھر ہم نے برادری کی بنیاد پر تقسیم شروع کر دی۔ حالانکہ ہمیں مسلم امت کی حیثیت سے جسد واحد ہونا چاہیے تھا ۔ ہم ایک Punch کی طرح اکھٹے ہوتے اور عالم کفر کے منہ پر جالگتے تو اس کی کیا جرأت تھی لیکن ہم Punch بننے کی بجائے انگلیوں کی صورت میں تقسیم ہوگئے تو دشمن کے لیے ہمیں توڑنا آسان ہو گیا ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے ذاتی، مسلکی ،لسانی ،تہذیبی معاملات کو پس پشت ڈال کر امت کےتصور کو زندہ کرنا ہو گاکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی مسلمان کو تکلیف پہنچے تو پورے کا پورا عالم اسلام اکھٹا ہو کر اس کی مدد کرے ۔دوسرا یہ کہ ہمیں اپنی طاقت کے حصول پر توجہ دینا ہوگی ۔ ہم کہتے ہیں اسلام امن کا دین ہے ۔ مگر یہ امن قائم کیسے ہوگا ؟ کیا نبی اکرم ﷺ نے تلوار کا استعمال نہیں کیا ، جنگیں نہیں لڑیں ؟ ہمیں اپنے اندر یہ جذبہ بھی پیدا کرنا ہوگا ۔ ہمیں معاشی طور پر بھی خود کفیل بننا ہوگا ۔ جب تک ہم معیشت ، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں دوسروں کے محتاج رہیں گے وہ ہماری غیرت کوبھی للکاریں گے، ہماری اقدار اور ہمارے عقائد کو بھی بدلنے کی کوشش کریں گے ۔ لہٰذا سب سے پہلے ہمیں خود کفیل بننا ہوگا ۔ اس کے لیے تعیشات کو چھوڑنا ہوگا ۔ اس وقت مسئلہ ہمارے سروائیول کا ہے ، ہماری غیرت ایمانی کا ہے ، نبی اکرم ﷺکی حرمت کا ہے ، قرآن کے تقدس کا ہے ، اس وقت اگر ہمیں ان مغربی اشیاءکا بائیکاٹ کرنا پڑے ، ان مغربی کمپنیوں کو ملک سے نکالنا پڑے ، ان کے سفارت کاروں کو بھی نکالنا پڑے تو ہمیں اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے ۔جب تک ہم عالم کفر کو ایک ایک سخت جواب نہیں دیں گے اس وقت تک یقینی طور پر ہمارے ساتھ یہی ہوگا ۔ اس کے بعد کیا ہمارے میڈیا نے اپنا کردار ادا کیا ہے ؟ کتنے چینلز نے سویڈن میں ہونے والے واقعہ پر ردعمل دیا اور کس لیول پر دیا ۔ آپ نے یہ پروگرام کیا ہے، ممکن ہے وہ آپ کا چینل بند کر دیں جس طرح اس سے قبل ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے یوٹیوب چینل پر پابندی لگ چکی ہے ۔ آپ نے دوبارہ بنا لیا ، آج دوبارہ آپ پروگرام کر رہے ہیں ۔ اسی طرح ہمیں اپنا کام جاری رکھنا چاہیے تاکہ ہماری آواز کو دبایا نہ جا سکے۔
سوال: مغربی دنیا کی اسلاموفوبک دہشت گردی سے بچنے کے لیے اُمت مسلمہ کو کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں؟
رضاء الحق:پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی سٹیک ہولڈر ہیں(عوام ، عوامی نمائندے ، ریاستی ادارے) ان کو چند نکات پر one page پر آنا ہوگا ۔ ایک یہ کہ دنیا میں کہیں بھی اسلاموفوبیا کا واقعہ ہو، کسی مسلمان ملک پر حملہ ہو ، کہیں مسلمانوںپر ظلم ہو رہا ہو ، مقدس شعائر کی بے حرمتی ہورہی ہو توایسے واقعات کے خلاف ہمارے تمام سٹیک ہولڈر کو ایک پیج پر ہوں ۔ دوسرا یہ کہ جتنے بھی بین الاقوامی فورمز ہیں ، چاہے وہ او آئی سی ہو ، اقوام متحدہ ہو ،ا نسانی حقوق کا کمیشن ہو وہاں اپنا کیس لڑیں ۔ مغرب میں اگر کسی نسل کے خلاف کوئی بات کی جاتی ہے تو عدالت میں جاکر کیس دائر کر دیا جاتاہے کہ یہ racial discrimination ہے۔ مسلمان تو پوری دنیا میں تقریباً دو ارب کی آبادی پر مشتمل ایک اُمت ہیں ۔ اس کے خلاف جب بات ہوتی ہے تو انٹرنیشنل کورٹس میں جاکر کیس دائر کرنا چاہیے ۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود کوسیاسی ، معاشی ، نظریاتی ، عسکری اور ہر لحاظ سے مضبوط کرنا چاہیے ۔
سوال: پاکستان میں سابقہ حکومت نے ایک کوشش کی تھی جس کے نتیجہ میں ناموس رسالت کے حوالے سے ایک دن اقوام متحدہ میں رکھا گیا ،اسی طرح اب جو احتجاج ہو رہا ہے، پاکستان میں ایک دن منایاگیا ، احتجاج کیا گیا ، اسی طرح دوسرے ممالک میں بھی احتجاج ہو رہا ہے، حکومتی سطح پر بھی کہیں سفیروں کی طلبی ہوئی اور کہیں سے سفیر واپس چلا گیا ہے ، اسمبلیوں میں قراردادیں پیش کی گئی ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کے نتیجہ میں بھی مغرب میں کوئی قانون سازی ہو نے کا امکان ہے ؟ 
رضاء الحق: اس کے لیے بہت محنت کرنی پڑے گی دیکھیے۔اسلاموفوبیا کا دن ایک ٹوکن کے طور پر منایا جاتاہے ۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انہوں نے ایسے واقعات پر پابندی لگا دی ہے اور دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرے گا ۔ اصل بات یہ ہےکہ مسلم امہ اپنی صفوں میں طاقت اور اتحاد پیدا کرے ۔ اصل طاقت نظریاتی اور قتصادی طاقت ہے ، ہمارے پاس وسائل بھی ہیں ، اذہان بھی ہیں ، نظریہ بھی ہے ، جذبہ ایمانی بھی ہے ، ہمیں اپنے نظریہ کو قائم و نافذ کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ہمیں  اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانا ہوگا جس کی وجہ سے ہماری عسکری طاقت بھی بڑھے گی ۔ ان نکات پر ہم سب ایک پیج پر آجائیں تو پھر کسی کو کسی جرات نہیں ہو گی کہ دوبارہ ایسی حرکت کر سکے ۔
سوال: ماضی قریب میں اسلامو فوبیا کے زیادہ تر واقعات یورپ میں خصوصاً سکینڈ ے نیوین ممالک میں کیوں رونما ہو رہے ہیں؟
شجاع الدین شیخ:اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب اس صورت حال سےنکلنے کی سبیل عطا فرمائے جس سے ہم دوچار ہیں۔ جہاں تک یورپ میں خصوصاً سکینڈے نیوین ممالک میں قرآن حکیم کی بے حرمتی اور نبی اکرمﷺ کی شان اقدس میں یہ پے در پے گستاخیوں کا معاملہ ہے تو یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے کہ اس شخص نے کھڑے ہو کر معاذ اللہ بے حرمتی کی بلکہ باقاعدہ ریاستی سرپرستی میں یہ سب ہو رہا ہے اور عین اس موقع پر جب مسلمان عیدالاضحی منا رہے تھے ۔ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے پوری ایک شیطانی ذہنیت شامل ہے اور یہ اُن کا کام ہے جنہوں نے انسانیت کو غلام بنانے کاپروگرام بنا رکھا ہے۔ انہیں خطرہ اگر ہے تو اسلام کے عادلانہ نظام سے ہے چنانچہ وہ کبھی نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں اور کبھی قرآن کی بےحرمتی کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک اور انداز سے آپ دیکھیں کہ سکینڈے نیوین ممالک میں جہاں شرح آمدنی دنیا میں سب سے زیادہ ہے انہیں ممالک میں سب سے زیادہ خودکشیاں بھی ہورہی ہیں ۔وجہ الہامی تعلیم سے دوری ہے اور اسی کا شاخسانہ ہے کہ پھر مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ان واقعات سے مغربی ممالک کا منافقانہ چہرہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے ۔ ایک طرف اگر وہاں کوئی ہولو کاسٹ کی بات کرے تو اس کو سزادی جاتی ہے لیکن یہ کہ مسلمانوں کی الہامی کتاب کی شان میں گستاخی کی جائے تو یہ ان کے نزدیک آزادی اظہار قرار پاتا ہے۔
سوال: قرآن پاک کی بے حرمتی کے پے درپے افسوسناک واقعات پر حکومت پاکستان اور مذہبی جماعتوں کی پالیسی کیا ہے اور اس حوالے سے انہیں کیا اور کیسارول اداکرنا چاہیے؟
شجاع الدین شیخ:جی بالکل! نہ صرف یہ کہ پاکستان کی دینی جماعتوں بلکہ پاکستانی حکومت کو بھی آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے ،بلکہ پوری امت مسلمہ کی طرف سے آواز بلند ہونی چاہیے اور بنیادی بات یہ ہے کہ یہ حس ہماری بیدار رہے اور الحمدللہ ایک درجے میں میں سمجھتا ہوں کہ آواز تو بلند ہو رہی ہے لیکن بہرحال اس سے بڑھ کر بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص اگر آپ دیکھیں تو NATO کے سربراہ نے بھی اس کوآزادی اظہار قرار دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ترکی کو نیٹو سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے۔ خاص طور پر اوآئی سی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، سفارتی دباؤ ڈالنا چاہیے اور اس کے لیے معاشی بائیکاٹ ایک حل ہے ۔ جب ڈنمارک میں شان رسالت میں گستاخی کا ایک معاملہ ہوا تھا تو سعودی عرب نے معاشی بائیکاٹ کیا تھا، اس کانتیجہ یہ نکلا تھا کہ ان کے وزیر کوآکر معافی مانگنا پڑی تھی۔اس لائحہ عمل کو پوری مسلم اُمہ استعمال کر سکتی ہے ۔
سوال: مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کی مذمت اور سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کے حوالے سے تنظیم اسلامی کا لائحہ عمل کیا ہے؟
شجاع الدین شیخ: تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے تو ہم مستقل اقامت دین کی جدوجہد کے علاوہ امربالمعروف اورنہی المنکر کے فریضے کو انجام دینےکی کوشش کرتے ہیں ۔ رسول اللہﷺ کی مبارک حدیث ہےکہ جو کوئی تم میں سے منکر کو دیکھےتو وہ اپنے ہاتھ سے اس کوروکے ، اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے روکے اور اگر زبان سے بھی روکنے کی طاقت نہیں ہے تو دل میں برا جانے لیکن یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ چنانچہ ہاتھ سے روکنے کا اختیار تو ہمارے پاس نہیں ہے لیکن زبان سے روکنے کی ہم بھرپور جدوجہد کرتے ہیں ، مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کااہتمام ہوتا ہے۔ خطبات جمعہ میں گفتگو ہوتی ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے جہاں تک بات کو ہم پہنچا سکتے ہیں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ خود اُمت مسلمہ کا تعلق قرآن سے بہت معمولی رہ گیا ہے ۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:((اِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ)) ’’اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعے سے کچھ قوموں کو بامِ عروج تک پہنچائے گا اور اسی کو ترک کر نے کے باعث کچھ کو ذلیل و خوار کر دے گا‘‘۔ اقبال نے بھی کہا تھا؎
وہ زمانے میں معززتھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
آج اس ذلت اور رسوائی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خود قرآن حکیم کو پس پشت ڈالا ،ہماری عظیم اکثریت قرآن حکیم کو سمجھتی نہیں ہے، ہدایت حاصل نہیں کرتی، ہم نے اسلام کے نام پر جو ملک حاصل کیا 75 برس سے اس میں قرآن کے نظام کو نافذ نہیں کیا ۔ اس لیے آج اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے۔ اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے:
{اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(۷)}(محمد) ’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
آج ہم احتجاج ہی کر پاتے ہیں، اس سے آگے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نظام خلافت کے قیام کی طرف پیش رفت کی جائے، جب مسلمانوں میں مرکزیت تھی تو کبھی محمد بن قاسمؒ آ جایا کرتے تھے اور کبھی رہی سہی خلافت عثمانیہ کی طرف سے صرف آرڈر جاری ہوتا تھا تو برطانیہ میں گستاخانہ سٹیج شوز رک جاتے تھے ۔ آج مسلمانوں کے پاس مرکزیت نہیں ہے سو صرف احتجاج ہی کرپاتے ہیں لیکن جب خلافت قائم ہوتی ہے تو پھر فتویٰ جاری نہیں کیا جاتابلکہ فتوی نافذ کیا جاتا ہے۔لہٰذا تنظیم اسلامی اسی بات کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ نظام خلافت کے قیام کی طرف پیش رفت کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرف بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین!