(منبرو محراب) حرمت قرآن اورہمارا طرزعمل - محمد رفیق چودھری

8 /

حرمت قرآن اورہمارا طرزعمل

(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ،لاہور میں نائب امیر تنظیم اسلامی محترم اعجاز لطیف کے07جولائی 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
ہمارا آج کاموضوع ہے :’’حرمت قرآن اور ہمارا طرزعمل۔پس منظر آپ کے علم میںہے کہ28جون کو جبکہ ویسڑن یورپ میں لوگ عید الاضحی منا رہے تھے تو ایک بدبخت شقی القلب عراقی جو خودکو ملحد قرار دیتا ہے۔ اس نے سویڈن کے دارالحکومت کی سب سے بڑی مسجد کے باہر اللہ کی آخری کتاب قرآن کریم کونظر آتش کرنے کی ناپاک جسارت کی،اندازہ کیجئے کہ ملزم نے اس گھناؤنے فعل کے لیے باقاعدہ عدالت سے اجازت حاصل کر رکھی تھی ۔امام مسجد نے پولیس سے درخواست بھی کی کہ کم ازکم اس کی جگہ کو تبدیل کر دیںلیکن پولیس نے امام مسجد کی درخواست پر کوئی نوٹس نہیں لیا اور بالآخر سرکاری سرپرستی میں یہ شیطانی فعل سرانجام دیا گیا ۔ ایک غم کا پہاڑ تھا جو مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا، اُمت کے جذبات بُری طرح  کچلے گئے ۔ پورا عالم اسلام سراپا احتجاج ہے ۔ مسلم حکمرانوں کا ردعمل اگرچہ کچھ دیر بعد آیا لیکن بہرحال انہوںنے پو ری شدت سے اس فعل کی مذمت کی۔ خاص طور پر پاکستان، ملائشیا، قطر ،ترکی، سعودی عریبیہ، سوڈان، صومالیہ ، مراکش ، عراق، کویت اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک نے آواز بلند کی اور ان میں سے بعض نے سویڈن کے سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا ۔ او آئی سی کا اجلاس 2جولائی کو سعودی عرب میں ہوا جس میں آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اجتماعی اقدامات پر زور دیا گیا ۔ ہمارے ہاں بھی بہرحال پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں بڑی دھواں دار تقریریں بھی ہو گئیں۔ مظاہروں اور جلوسوں کا اعلان بھی کر دیا گیا ۔ لیکن میں بڑے ادب سے پوچھوں گا کہ یہی پارلیمنٹیر ین وہاں بیٹھ کرخلاف قرآن قانون سازی کیوں کرتےہیں ؟ اس حوالے سے تازہ مثال ٹرانسجینڈر ایکٹ ہے ۔ یہ اسمبلی میں کس نے پاس کیا ؟ اس کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا جب فیصلہ آیا تو اس کی کتنی شقوں کو خلاف شریعت قرار دیا ہے ؟ ممبرانِ پارلیمنٹ میں سے کتنوں کو پتا ہے کہ قرآن میں کیا لکھا ہوا ہے ؟ ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو کم ازکم سورۃ الاخلاص کی صحیح تلاوت کر سکتے ہیں ؟
احتجاج کر لینا اپنی جگہ ہے لیکن ذرا سوچئے تو سہی قرآن کے حوالے سےہماری مداہنت کا کیا عالم ہے ؟ احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ تو جاری ہے اور جاری رہے گا لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے ؟یہ واقعہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ۔ اس سے پہلی امریکی پادری ٹیری جونز نے یہ حرکت کی ، اس سے بھی پہلے امریکی فوجیوں نے گوانتاناموبے جیل میں مسلمان مجاہدین کے سامنےقرآن مجید کی شدید بے حرمتی کی ،اسی طرح بگرام ایئر بیس کابل اور ابوغریب جیل میں قرآن کی توہین کی گئی۔اس پربھی پورے عالم اسلام میں مظاہرے ہوئے مگر توہین کا یہ سلسلہ نہیںرکا اور پھر قرآن مجید کے حوالے سے ایک اور سازش کی گئی کہ الفرقان کے نام سے قرآن کے متبادل کے طور پر ایک جعلی قرآن شائع کیا گیا اور اس کو بھی بڑا promote کیا جاتا ہے، اس پر بھی احتجاج ہوا لیکن یہ احتجاج صدا بصحرا ثابت ہوا اور یہ آپ کےعلم میں ہونا چاہیے کہ قرآن مجید اور صاحب قرآن ﷺ یہ دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔ محمد الرسول اللہﷺ خود چلتا پھرتا قرآن ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کا رویہ دونوں کی شان میں گستاخانہ ہے ، وہ وقتاً فوقتاً اس قسم کی حرکات سے ہمارے جذبہ ایمانی کو ٹیسٹ کرتے رہتے ہیں کہ ابھی اس خاکستر میں کوئی دبی ہوئی چنگاری ہے کہ نہیں ہے۔ ان کی یہ حرکتیں آگے سے آگے بڑھتی رہیں گی۔ جلانے والے نے اس کتاب کو جلایا جسے کائنات کے خالق نے قرآن کریم کہا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس کلام کو جگہ جگہ سراہا ہے۔ارشا د ہوتاہے :
{اَللہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ }(الزمر:23) ’’اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس کلام کو کئی حسین اور خوبصورت نام دیے ہیں ، قوموں کے عروج و زوال کو اس کے ساتھ منسلک کیا ہے ۔ یہاں تک فرمایا:
{لَــوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْـتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ ط} (الحشر:21) ’’اگر ہم اس قرآن کو اُتار دیتے کسی پہاڑ پر تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کے خوف سے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے علاوہ زبور، تورات، انجیل بھی نازل فرمائی ،کئی صحیفے نازل فرمائےلیکن قرآن پاک کے سوا کسی کے بارے میں یہ ارشاد نہیں فرمایا:
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(9)} (الحجر) ’’یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
قرآن ایک زندہ جاویدمعجزہ ہے جو حضور ﷺ پر نازل ہوا۔ اس کاتاقیامت حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہے ۔ گھناؤنی حرکتیں کرنے والے قرآن مجید یا اس کی تعلیمات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ ارشاد ہوتاہے :
{یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ(8)}(الصف) ’’وہ تلے ہوئے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا کررہیں گے‘اور اللہ اپنے نُور کا اتمام فرما کر رہے گا ‘خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
سورہ بروج میں فرمایا:
{بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ(21) فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (22)} ’’بلکہ یہ تو قرآن ہے بہت عزّت والا ۔لوحِ محفوظ میں (نقش ہے)۔‘‘
اسی طرح ارشاد ہوتاہے :
{بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌ م بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ط} ’’بلکہ یہ تو روشن آیات ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا ہے۔‘‘
کتنے حفاظ کو ختم کر دو گے، یہ قرآن ختم نہیں ہو سکتاہے اور فرمایا:{وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ(49)} (العنکبوت) ’’اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر وہی لوگ جو ظالم ہیں۔‘‘
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ قرآن مجید زندہ معجزہ ہے۔ یہ کوئی تاریخ یا جغرافیہ کی کتاب نہیں ہے مگر اس میں اللہ تعالیٰ نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان پر جب ہم غور کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں ۔ مثلاً لفظ شھر(جس کے معنی ہیں مہینہ) قرآن میں 12 مرتبہ آیا ہے اور سال میں 12 ہی ماہ ہوتے ہیں۔ الیوم کا لفظ قرآن میں 365مرتبہ آیا ہے اور سال میں اتنے ہی دن ہوتے ہیں ، الدنیا اور الآخرۃ جوڑا ہیں دونوں 115مرتبہ آئے ، الملائکہ جو خیر کی قوتیں ہیں88 مرتبہ اور شیاطین جو شرکی قوتیں ہیں وہ بھی 88مرتبہ ۔اسی طرح الحیاۃ(زندگی )  کا 145 مرتبہ ، زندگی کی بہن موت ہے اس کا بھی 145 مرتبہ ۔ الرجل (مرد) کا ذکر 24 مرتبہ اور المراہ (عورت) بھی 24 مرتبہ ۔ قربان جائیے کہ پورے قرآن میں مختلف چیزوں کے نام اس ترتیب سے استعمال ہوئے ہیں کہ بندہ غور کرکے حیران ہو جاتاہے ۔ آخری مثال یہ عرض کر رہا ہوں کہ لفظ البحر (سمندری پانی )  قرآن میں 32 مرتبہ آیا ہے اور البر (خشکی ) 13 مرتبہ آیا ہے ۔ اگر دونوں کو جمع کریں تو 45 بنتے ہیں۔ 32 ہوتا ہے 45 کا 71.11فیصد اور یہی اس کرہ ارض پر پانی کا تناسب ہے۔ اسی طرح 13 ہوتا ہے 45 کا 28.88فیصد اور یہی اس کرہ ارض پر خشکی کا تناسب ہے ۔
یہ چند مثالیں تھیں ۔ اگر آپ غور کریں تو ایسی ہزاروں مثالیں آپ کو مل جائیں گی ۔یہ کلام پاک معجزہ ہے تو اس کی حفاظت بھی اللہ خود کرے گا ، مغرب کی ان حرکتوں سے قرآن کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا البتہ مسلمانوں کے جذبات برُی طرح کچلے جاتے ہیں ۔ اب مظاہرہ کرنے اور ٹائر جلانے سے وہ قرآن جلانے سے باز نہیں آئیں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس معجزوں کی کتاب سے اپنا تعلق جوڑیں اور جس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن نازل کیا ہے اُس مقصد کو دوبارہ پورا کرنے کی کوشش کریں ۔ارشاد ہوتاہے :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَــوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(9)}(الصف)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو!‘‘
یہ ہے وہ اصل مشن جس کے لیے نبی اکرم ﷺ کو بھیجا گیا تھا۔ ختم نبوت کے بعد یہ ذمہ داری اس اُمت کے کندھوں پر ہے۔ ذرا سوچئے ۔ گستاخیاں کرنے والے بدبخت قرآن کی توہین کرنے پر اور رسالت کی توہین کرنے پر جہنم کے مستحق ٹھہریں گے لیکن ہم اپنی ذمہ داری پوری نہ کرکے کفار کو یہ سب کرنے کا موقع دے رہے ہیں تو ہم کس منہ کے ساتھ روز محشر اللہ کے حضور حاضر ہوں گے اوردربار رسالتﷺ میں آنکھیں چار کرنے کے قابل ہوں گے؟ حضور ﷺ تو قرآن کو چھوڑنے پر اپنی امت کا اللہ کے حضور گلہ اور شکوہ بھی کر رہے ہوں گے ۔اسی قرآن میں اس کا ذکر ہے لیکن عام طور پر بتایا کم جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا(30)}(الفرقان) ’’اور رسولؐ نے کہا (یا رسول کہے گا): اے میرے پروردگار !میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ ی ہوئی چیز بنا دیا۔‘‘
سورۃ الواقعہ میں قرآن کی عظمت پر شاندار تبصرہ کے بعد اللہ تعالیٰ نےجو کہا ہے اس پر ہمیں فکرمند ہونا چاہیے ۔ فرمایا:
’’پس نہیں! قسم ہے مجھے اُن مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔اور یقیناً یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو!یقیناً یہ بہت عزّت والا قرآن ہے۔ایک چھپی ہوئی کتاب میں ۔ اسے چھو نہیں سکتے مگر وہی جو بالکل پاک ہیں۔اس کا اُتارا جانا ہے ربّ العالمین کی جانب سے۔تو کیا تم لوگ اس کتاب کے بارے میں مداہنت کر رہے ہو؟اور تم نے اپنا نصیب یہ ٹھہرا لیا ہے کہ تم اس کو جھٹلا رہے ہو!‘‘(الواقعہ:75تا82)
قرآن کی عظمت پرحقیقی معنوں میں غوروفکر کرنے والے قیامت تک اس میں کوئی شک نہیں پائیں گے ۔ جو چند لوگ شقی القلب ہیں ان کی شیطانی حرکتوں سے قرآن کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آئے گی مگر ہم میں سے ہر ایک کو بھی اپنے اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے ہم قرآن کو کس کس پہلو سے چھوڑے ہوئے ہیں ۔ لوگوں نے سمجھا ہواہے صرف رمضان المبارک میں پڑھ لیا تو کافی ہے ، حالانکہ یہ manual of life ہے،daily reference کی کتاب ہے۔ ایک تصور ختم کرنے کا بھی ہے کہ اتنے قرآن ختم کر لیے ۔ حالانکہ ختم کرنا ہی مقصد نہیں ہے بلکہ اس کو سمجھنا اور اس سے ہدایت حاصل کرنا اصل مقصد ہے۔ کیا ہم یہ مقصد حاصل کر رہے ہیں ؟ قرآن کو چھوڑنے کے یہ مختلف پہلو ہیں۔ آج نہ صرف ہم خود قرآن کو چھوڑے ہوئے ہیں بلکہ اپنی اگلی نسل کو بھی اس سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ جن ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنز میں ہم اپنے بچوں کو بھیج رہے ہیں وہاں قرآن پورے سلیبس کا کتنا حصہ ہے ؟اگر نویں دسویں کے امتحان میں قرآن کا بھی ایک پیپرشامل کرنے کی بات آئی تو اس کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے ۔ یہ قرآن کو چھوڑنے کے پہلو ہیں ۔ سب سے بڑا ظالم جس سے اللہ تعالیٰ خود انتقام لےگا وہ کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بتا دیا ۔ فرمایا :
{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَاط اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ(22)} (السجدۃ) ’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جسے اُس کے ربّ کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی مگر پھر بھی اس نے اعراض کیا۔یقیناً ہم ایسے مجرموں سے انتقام لے کر رہیں گے۔‘‘
آج اگر دیکھا جائے تو مسلمان قرآن کو چھوڑنے کی وجہ سے ہی اس حالت کو پہنچے ہیں کہ علی الاعلان قرآن کو جلایا گیا لیکن بد دعاؤں اور مذمت کے سوا ہم کچھ نہیں کر سکے۔ اے کاش کہ ہم اس نکتے کو سمجھ جائیں کہ قرآن سے عملی تعلق توڑ لینا، قرآن کو روزمرہ کی زندگی میں اپنا امام اور رہنما نہ بنانا اورسنت رسولﷺ سے لاتعلق ہوجانا درحقیقت قرآن اور حامل قرآنﷺ کی توہین ہے۔ جس کی ہماری عظیم ترین اکثریت مرتکب ہو رہی ہے۔ جب تک ہمground realities کو نہیں سمجھتے ہیں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ اقبال نے کہا تھا ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوارہوئے تارک قرآں ہوکر
اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ جو قرآن کو چھوڑ دیتا ہے اس کے لیے سزا ہے ۔ فرمایا : 
{وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَـیِّضْ لَـہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ(36)} (الزخرف)’’اور جو کوئی منہ پھیر لے رحمٰن کے ذکر سے‘ اُس پر ہم ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں ‘تو وہ اس کا ساتھی بنا رہتا ہے۔‘‘
آخرت میں جا کر جب اللہ کی بارگاہ میں حاضری ہو گی تو انسان کہے گا:
{قَالَ یٰـلَیْتَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ(38)} (الزخرف)’’ تو (اپنے ساتھی شیطان سے) کہے گا کہ کاش میرے اور تمہارے درمیان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا‘ تُوتو بہت ہی بُرا ساتھی ہے!‘‘
لیکن وہاں یہ ساری باتیں بے فائدہ ہوں گی ۔ اسی لیے اللہ نے اسی سورہ زخرف میںفرمایا:
{وَاِنَّـہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ ج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ (44)} (الزخرف)’’اور یہ (قرآن) آپ کے لیے بھی یاد دہانی ہے اور آپ کی قوم کے لیے بھی‘ اور عنقریب آپ سب سے پوچھ گچھ ہو گی۔‘‘
ذکر کے معنی honor اور شرف بھی ہیں ، صرف آپ ﷺ کے لیے نہیں بلکہ آپ ﷺکی اُمت کے لیے بھی ۔ عنقریب ہم سب سے اس کےبارے میں پوچھا جائے گا کہ ہمارا اس کے ساتھ کیسا طرزعمل تھا ۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا:
{اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا(24)} (محمد)’’کیا یہ لوگ قرآن پر تدبرنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑ چکے ہیں!‘‘
اور جو باتیں آخرت میں حسرت ناک طریقے سے جا کرکہنی ہیں وہ ساری کی ساری اللہ نے یہاں پر واضح کردی ہیں۔فرمایا:
’’اورہم نے جہنّم کے لیے پیدا کیے ہیں بہت سے جن اور انسان۔ان کے دل توہیں لیکن وہ ان سے غور نہیں کرتے‘ اُن کی آنکھیں ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں ‘اور ان کے کان ہیں لیکن وہ ان سے سنتے نہیں۔یہ چوپایوں کی مانند ہیں‘بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو غافل ہیں۔‘‘(الاعراف:179)
اور سورہ ملک میں جہاں فرمایا کہ جب فرشتےپوچھیں گے کہ تمہیں کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا کہیں گے :
’’اور وہ کہیں گے کہ اگر ہم سنتے اور عقل سے کام لیتے‘تو ہم نہ ہوتے ان جہنّم والوں میں سے۔‘‘(الملک:10)
اورپھر وہ اپنے قصور کا اعتراف کر لیں گے ۔ بہرحال ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہماری اکثریت قرآن حکیم کو اول تو باقاعدگی سے پڑھتی ہی نہیں ہے اور اکثر پڑھنےوالوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بھی محض حصول برکت و ثواب تک محدودہیں۔ ایک پڑھا لکھاشخص جو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے جانتے بوجھتے ہوئے اگر اس کو بغیر سمجھے پڑھتا ہے وہ بھی اس کی توہین کا مرتکب ہو رہا ہے، اس لیے کہ اللہ نے اس کو ہدایت کے لیے نازل فرمایا اور ہدایت بغیر سمجھے آ نہیں سکتی۔ دیگر علوم سیکھنے کے لیے ہم ملینز روپے خرچ کرتے ہیں ، پوری پوری زندگیاں لگاتے ہیں لیکن علوم قرآن اور اس کی زبان کو سیکھنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص قرآن پڑھے اور اس کو زبانی یاد کرے پھر قرآن نے جن چیزوں کوحلال قرار دیا ہے ان کے حلال ہونے کا، جن کو حرام قرار دیا ہےان کے حرام ہونے کا عقیدہ رکھے یعنی اس کے مطابق عمل کرے تواللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کے خاندان کے ایسے دس افراد کے بارے میں اس کی سفارش قبول کی جائےگی جن کے لیے جہنم واجب ہو چکی ہوگی۔ لیکن یہ کون سے حافظ کی بات ہو رہی ہے، وہ حافظ جس کو پتہ ہو کہ میں نے کیا حفظ کیا ہے۔ اس کے حلال کے مطابق اپنی زندگی گزار رہا ہے، اس کے حرام سےبچتے ہوئے عمل کرتا ہے ۔ ایک اور حدیث بہت ہی لرزا دینے والی ہے ۔ زیاد بن نوید ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک خوفناک چیز کا ذکر کیا اور پھر فرمایا کہ ایسا اس وقت ہو گا جب کہ دین کا علم مٹ جائے گا تو میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! علم کیونکر مٹ جائے گا جب کہ ہم قرآن مجید پڑھ رہے ہیں اور اپنی اولاد کو پڑھا رہے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنی اولادکو پڑھاتے رہیں گے۔ حضورﷺ نے فرمایا: اےز یاد !کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل مقدس کی کتنی تلاوت کرتے ہیںمگر ان کی تعلیمات پر عمل کتنا ہے ۔ یعنی اگر عمل نہیں ہے تو پھر باقی کچھ نہیں ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: سنو! اسلام کی چکی گھوم رہی ہے تو جس طرف قرآن کا رخ ہو ادھر تم بھی گھوم جاؤ۔سنو! قرآن اور اقتدار عنقریب دونوں جدا ہو جائیں گے۔ خبردار! تم قرآن کا ساتھ نہ چھوڑنا۔ مطلب حکمران قرآن سے دور ہوجائیں گے مگر تم نے قرآن کو نہیں چھوڑنا ۔ آئندہ ایسے حکمران ہوں گے جو تمہارے بارے میں فیصلے کریں گے، اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں گمراہ کر ڈالیں گے اور اگر تم ان کا حکم نہ مانوگے تو تمہیں موت کے گھاٹ اتارنے پر اُتر آئیں گے ۔ راوی نے سوال کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا ہےیا رسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ نےفرمایا : وہی کرو جو حضرت عیسیٰ d کے ساتھیوں نے کیا ،وہ لوگ آروں سے چیرے گئے ،سولیوں پر لٹک گئے، اللہ کی نافرمانی میں زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے جان دے دے ۔ یہی آج کے دور کا سبق ہے کہ اپنی جان دے دو لیکن قرآن کو مت چھوڑو ۔
محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے قرآن مجید کے پانچ حقوق گنوائے تھے ۔ اس حوالے سے ان کا کتابچہ بھی موجود ہے ۔
1۔قرآن پر ایمان لانا جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے ۔
2۔ قرآن کی تلاوت کرنا جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔
3۔ اس کو سمجھنا ۔ اس میں غوروفکر کرنا ۔
4۔ اس پر عمل کرنا ۔
5۔ اس کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا ۔
یہ کام ہم کریں گے توخود بھی توہین سے بچیںگے ورنہ کل ہم پر بھی توہین کی بات آئے گی ۔ ان پانچ حقوق کو ادا کرنے کے نتیجہ میں جب ہم ایک پوری کوشش کر کے اللہ کے دین کو غالب کریں گے توان شاءاللہ پھر کسی کی جرأت نہیں ہو گی کہ وہ قرآن کے بارے میں کوئی غلط بات بھی زبان سے نکال سکے جلانا تو دور کی بات ہے۔بحیثیت امت ہم نے اللہ کے دین سے غداری کی، آج کسی ایک مسلم ملک میں بھی اللہ کا دین قائم نہیں ،یہ معمولی جرم نہیں ہے، ہماری عظیم اکثریت اسی مادہ پرستی اور دجالیت کے سیلاب میں غرق ہے، ایک ہی دوڑ لگی ہوئی ہے جیسے بھی ہو جائز اور ناجائزطریقے سے مال و دولت حاصل کر لیں، دنیا کما لیں، چاہے رشوت اور سود سے آئے ، کبھی کبھار ہم کسی دارالعلوم یا کسی مسجد یا یتیم خانے کو چندہ بھی دے دیتے ہیں، رمضان کے آخری عشرے میں جا کر عمرہ بھی کر لیتے ہیںاور پھرسمجھتے ہیں کہ اللہ کو راضی کر لیا مگر بحیثیت مجموعی ہماری زندگی کا رخ دنیا پرستی کی طرف ہے۔ آج ہماری معیشت سود اور جوئے پر چل رہی ہے۔حالانکہ قرآن کہتا ہے کہ یہ دونوں حرام ہیں اور سود اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ ہے ۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ کرنے والے کیسے فلاح یاب ہو سکتے ہیں ۔ ہمارا معاملہ اس حوالے سے بہت خاص ہے اور آپ اندازہ کریں کہ کتنی ہمارے اندر منافقت ہے ۔ پندرہ ماہ گزر گئے کراچی میں بہت بڑا اجلاس ہوا تھا جس میں گورنرسٹیٹ بینک بھی شریک تھا ، علماء بھی شریک تھے ، وزیر خزانہ بھی تھے ، سب نے کہا کہ ہم وفاقی شرعی عدالت کےسود کے خلاف فیصلے کو نافذ کریں گے ۔ ان پندرہ ماہ میں ایک قدم بھی فیصلے پر عمل کی طرف نہیں اُٹھا ۔ اس کے برعکس شرح سود کو بڑھا دیا گیا ۔ اس وقت ہمارا بجٹ 14 ہزار ارب روپے کا ہے اور اس میں سے 7 ہزار ارب روپے سے زیادہ سود کی ادائیگی پر خرچ کرنا ہے ۔ اس پر دیدہ درہنی دیکھیے ! سٹیٹ بینک کا گورنر کہتا ہے کہ شرعی اصولوں کو بینکاری پر زبردستی لاگو نہیں کیا جائے گا۔ اندازہ کریں منافقت کس قدر ہے ۔ وہاں کھڑےہو کے کہہ رہے تھے کہ ہم وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے سود کا خاتمہ کریں گے اور یہاں کہہ رہے ہیں کہ شرعی اصولوں کو زبردستی لاگو نہیں کیا جائے گا۔ سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پرقائم کیا گیا۔ قائد اعظم نے 1948 میںاسٹیٹ بینک کی پشاور برانچ کے افتتاح کے موقع پر دو ٹوک الفاظ میں ملک کے معاشی نظام کی سمت کا تعین کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ اسے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق استوار کیا جائے گا۔ پھر یہ کہ آئین پاکستان واشگاف الفاظ میں اعلان کرتا ہے کہ مملکت خداداد میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہیں ہو گی۔ آئین کا آرٹیکل31ریاست کی ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ مسلمانان پاکستان کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اوراساسی تصورات کے مطابق ڈھالنے کے لیے تمام سہولتیں فراہم کرے ۔ آرٹیکل 38-F تقاضا کرتا ہے کہ ملک کےمعاشی نظام سے ربا کو جلد ازجلد ختم کیا جائے ،پانچ دہائیوں سے ملک سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں، اسلام کے احکامات سے بغاوت کے نتیجے میںملک سخت ترین معاشی تنگی اور تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔ جہاں دس کروڑ سے زیادہ عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اورسود خور مافیا عوام کا خون نچوڑ رہا ہےلیکن اس کے باوجود حکومت اور معیشت کے متعلق ریاستی ادارے وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خلاف فیصلے پررتی بھر عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ ریاستی سطح پر اس سے بڑا جرم اور کیا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کرحاصل کیا گیا سودی قرضہ کبھی پاکستان کی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتا، کبھی اس سے حالات سدھر نہیں سکتے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت سے سود کو فی الفور ختم کیا جائے ،ہمیں ملکی معیشت کو بچانے کے لیے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی استعماری اداروں کی جکڑ بندی سے نجات حاصل کر کے خود انحصاری کی طرف آنا ہوگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ عدل اجتماعی پرمبنی اسلام کے معاشی نظام کو اپنانے سے ہی ملک میں استحکام اور خوشحالی آ سکتی ہے۔ یعنی جوقرآن مجید کا دیا ہوا عادلانہ نظام ہے ،جو بالفعل محمدﷺ نے نافذ کر دکھایا، خواہ وہ سیاسی سطح پر ہو ، معاشی سطح پر ہو یا معاشرتی سطح پر ہو اس کو نافذ کریں گے تو تبھی خارجی سطح پر بھی توہین قرآن رک سکےگی اور ملک کے اندر بھی قرآن کو پس پشت ڈالنے کا جو طرزعمل ہے وہ رک سکے گا اور ہماری اللہ کی بارگاہ میںصحیح معنوں میں توبہ قبول ہوگی ۔ اللہ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین !