(اداریہ) اسلام کے ارکان خمسہ - ایوب بیگ مرزا

8 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزااسلام کے ارکان خمسہ

ہر مسلمان اچھی طرح جانتا ہے کہ اسلام کے پانچ ارکان کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ہیں۔ جہاں تک پہلے رکن کلمہ کا تعلق ہے، یہ اسلام کا دروازہ ہے۔ اس سے گزر کر ہی کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور مسلمان کہلانے کا حق دار ہو جاتا ہے۔ کلمہ پڑھنے کا مطلب ہے کہ ایک شخص گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ مبارک کلمہ ایک ایسا بیج ہے جس میں اسلام کا مکمل درخت موجود ہے۔ مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان نے تسلیم کر لیا کہ اُس کا خالق، مالک، رازق، پروردگار اور مشکل کشا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ گویا وہ زندگی گزارنے کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔ پھر یہ کہ اللہ رب العزت بھی ہے، اگر وہ اپنی اس صفت کا کھربواں حصہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اتنا حصہ جسے انسان ہندسوں میں شمار ہی نہ کر سکے، کسی کو عطا فرما دے تو وہ شخص دنیا میں بڑی عزت والا ہو جائے گا۔ بہرحال ہماری کیا حیثیت ہے، حمد باری تعالیٰ کا حق تو کوئی بھی ادا نہ کر سکا۔ جہاں تک کلمہ کے دوسرے حصہ یعنی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ انبیاء اور رُسل دنیا میں اللہ کے نمائندے کی حیثیت سے آئے البتہ حضورﷺ کی نرالی اور بے مثل شان یہ تھی کہ آپ ﷺ نہ صرف اس سنہری زنجیر کی آخری کڑی تھے اور آپ ﷺ کے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا بلکہ اُس نورِ ہدایت کی تکمیل بھی ہوگئی جس کی طرف تمام انبیاء و رُسل منزل بہ منزل بڑھ رہے تھے۔ کلمہ میں گواہی دی جاتی ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ لہٰذا آپ ﷺ کا طرزِ حیات انسانوں کے لیے مکمل اور فطری اُسوہ ہے۔ آپؐ کا طرزِ حیات ہی صراطِ مستقیم ہے۔ اس کے علاوہ اس سے اِدھر اُدھر ہونا سب کجی ہے، سب غیر فطری، غیر منطقی اور گمراہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا بلکہ ہر وہ عمل جس کا ذکر کرنے سے بھی بعض لوگ جھجکتے ہیں۔ سب کچھ محفوظ کر دیا گیا تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے کسی قسم کی الجھن باقی نہ رہے کہ اُنہیں کیسا طرزِ حیات اختیار کرنا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اُس کمال تک پہنچنا تو ممکن نہیں، لیکن اُس آئیڈیل کی نقل کرنا، اُسے ہدف بنا کر کوشش کرنا لازم ہے۔ بہرحال ’’من کجا تو کجا‘‘ والا معاملہ ہے۔ ہم تو ہدیۂ تبریک پیش کرنے سے بھی ڈرتے ہیں کہ قلم سے کوئی گستاخی سرزد نہ ہو جائے۔ جب غالب جیسا قادر الکلام شخص اپنی بے بسی کا یوں اظہار کرتا ہے:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
’’حضور ﷺ کی ثناء ہم نے اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دی ہے کیونکہ وہ پاک ذات ہی حضور ﷺ کے مرتبہ کو جانتی ہے۔ ‘‘
قصہ مختصر قابل تقلید صرف یہی طرزِ حیات ہے۔ باقی سب سراب ہے۔ اس میں فرد کا بھلا ہے، اسی میں اجتماعیت کا بھلا ہے اور اگر دنیا سمجھے تو اسی میں انسانیت کا بھلا ہے۔ اسی لیے ہم نے آغاز میں عرض کر دیا تھا کہ پہلا رکن وہ بیج ہے جس میں اسلام کا سارا درخت موجود ہے۔ یہ تو انسانوں کی خوش قسمتی کا معاملہ ہے کہ کون اس پر لبیک کہتا ہے اور دنیا و آخرت میں سرفراز و کامران ہوتا ہے اور کون بدقسمت انکار کرکے راندئہ درگاہ ہوتا ہے اور خود کو آتشِ دوزخ کا ایندھن بناتا ہے۔ ظاہر ہے مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے کو کسی اعلانیہ گواہی کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے، پھر اُس کے کانوں میں اذان اور اقامت کی گونج اُس کے مسلمان ہونے پر مہرتصدیق ثبت کر دیتی ہے۔ البتہ دکھ سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت مفت میں ملنے والی اس عظیم نعمت کی قدر نہیں کر پاتی۔
یوں تو اسلام کا ہر رکن اپنی جگہ انتہائی اہم ہے، لیکن حضور ﷺ نے نماز کو دین کا ستون قرار دیا۔ اِسے مسلمان اور کافر میں فرق قرار دیا۔ اس کی اہمیت کا یوں بھی اندازہ کریں کہ روزہ، زکوٰۃ اور حج کے احکامات وحی کے ذریعے زمین پر حضور ﷺ کو پہنچائے گئے جبکہ نماز کا حکم حضور ﷺ کو عرشوں پر بلا کر دیا گیا۔ نماز نہ سفر میں معاف ہے اور نہ جنگ میں، البتہ سفر میں اُسے مختصر کر دیا گیا اور دورانِ جنگ مزید مختصر کرنے کے ساتھ ساتھ ادائیگی کے طریقے میں بھی فرق آگیا۔ لیکن اس سے استثناء کسی صورت میں نہیں ہے۔ نماز پڑھنے کے کئی دنیوی اور طبعی فائدے ہیں، ہم اُس طرف نہیں جاتے۔ نماز مسلمان کو ڈسپلن سکھاتی ہے۔ کیسے یکدم دنیوی امور کا سلسلہ منقطع کرکے اپنے خالق و مالک کے سامنے حاضر ہو جانا، جھک جانا ہے اور سر بسجود ہونا ہے۔ یہ فوری تبدیلی نمازی کے ذہن کو ریفریش کرتی ہے۔
بہرحال اصل بات یہ ہے کہ رب کے سکھائے ہوئے سبق ’’ہم نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت کے لیے‘‘کو واضح کر دیتی ہے۔ اگرچہ عبادت کا مفہوم بہت وسیع ہے لیکن یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ نماز عبادت کا جوہر ہے۔ نماز میں جب مسلمان ہاتھ کانوں کی طرف لے جا کر تکبیر کہتا ہے تو گویا کہہ رہا ہوتا ہے Oh Almighty God I surrender " "یہ تو بات ہے انفرادی نماز کی لیکن مسلمانوں کو حکم نما ترغیب یہ ہے کہ نماز مسجد میں باجماعت ادا کرو۔ یاد رہے مساجد یعنی اللہ کے گھر ایئر کنڈیشن اور اعلیٰ درجہ کے قالین بچھانے سے نہیں نمازیوں کی وجہ سے آباد ہوتے ہیں۔ پنج وقتہ نماز سے اہل محلہ میں میل جول بڑھتا ہے جو باہمی محبت کا باعث بنتا ہے۔ ایک دوسرے کے مسائل و مصائب سے آگاہی ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ بیمار نمازی کی عیادت کی جاتی ہے اور اہم ترین بات یہ کہ نماز باجماعت ڈسپلن کی اعلیٰ ترین مثال ہوتی ہے۔ جب نمازی کندھے سے کندھا جوڑ کر ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں تو محمود و ایاز میں فرق ختم ہوجاتا ہے، برتری یا کمتری کا احساس پاش پاش ہو جاتا ہے۔ نماز کا امام دنیوی تعلیم رکھتا ہے یا نہیں، غریب ہے یا امیر ،افسر ہے یا کلرک، زمیندار ہے یا کمّی، کالا ہے یا گورا، دورانِ نماز ہر حال میں اُس کا اتباع ہوگا۔ اُسے غلطی پر لقمہ دیا جا سکتا ہے، اصرار نہیں کیا جا سکتا۔ اُس کی صدا پر لبیک نہ کہنا نماز فاسد کر سکتا ہے۔ اس سے بڑا سماجی انصاف اور اس سے کڑا ڈسپلن دنیا میں کہاں نظر آئے گا۔
رمضان المبارک کا روزہ رکھنا بھی اسلام کا اہم رکن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روزہ اسلام کے باقی ارکان سے کچھ منفرد نظر آتا ہے۔ روزہ میں انفرادیت کا پہلو زیادہ عیاں ہے یہ خالصتاً فرد اور رب کا معاملہ ہے۔ اس حوالہ سے ایک حدیث کا یہ جز بڑا معنی خیز ہے: ((الصَّوْمُ لِي وَأَ نَا أَجْزِي بِهِ)) اس کے عام طور پر دو تراجم کیے جاتے ہیں۔ (1) روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (2) روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر ہوں۔ جہاں تک پہلے ترجمہ کا تعلق ہے، اُس پر ایک سوال اٹھتا ہے، باقی تمام نیک اعمال کا اجر بھی تو رب ہی دیتا ہے پھر روزہ کے بارے میں خاص بات کیا ہوئی۔ اس لیے دوسرا ترجمہ منطقی معلوم ہوتا ہے گویا جس نے روزہ رکھا اُسے رب مل گیا واللہ اعلم۔ بعض حضرات روزہ سے اجتماعیت کا تعلق یوں بناتے ہیں کہ معاشرے میں کھاتے پیتے لوگوں کو بھی غربت اور افلاس کے شکار اپنے بھائیوں کے مسائل کا احساس ہوتا ہے۔
بہرحال دورانِ روزہ جب کھانے پینے کی حیوانی خواہش کا دباؤ ختم ہوتا ہے تو روح کے اُبھرنے، توانا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور روح کا چونکہ ایک براہِ راست تعلق رب العالمین سے ہوتا ہے، جس سے نیک کاموں کے لیے داعیہ مضبوط ہوتا ہے۔ اس سے غریبوں کی مدد، دینی امور کی انجام دہی اور کلام ربانی کی زیادہ سے زیادہ تلاوت دیکھنے میں آتی ہے خاص طور پر رات کو جب قرآن تراویح میں ترتیب کے ساتھ اور منظم انداز میں پڑھا اور سنایا جا رہا ہوتا ہے تو گویا اللہ کی رحمت برسات بن کر برس رہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ مبارک میں نیک کاموں کا اجر بھی بڑھا دیتا ہے، نفل کا ثواب فرض جیسا ہو جاتا ہے اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ حضورﷺ کی ایک حدیث کا جز ہے کہ: (ترجمہ) ’’وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
زکوٰۃ کا لغوی مطلب پاک کر دینا، صاف کر دینا، قرآن پاک میں نماز اور زکوٰۃ کا ذکر اکثر اکٹھا آیا ہے۔ نماز اگر بدنی عبادت ہے تو زکوٰۃ مالی عبادت ہے۔ یہ ایک مسلمان کے مال کو پاک صاف کر دیتی ہے۔ اور معاشرے میں جو لوگ اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پا رہے ہوتے اُنہیں جان اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے میں تعاون مل جاتا ہے۔ صاحبِ نصاب کے لیے زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے وگرنہ وہ گناہ گار ہوگا۔ گویا زکوٰۃ کا انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر رول ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے۔ زکوٰۃ کے معاملے میں ہمارے معاشرہ کی سوچ دین کی ہرگز ترجمان نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک تاثر ہے کہ زکوٰۃ دینے والا زکوٰۃ لینے والے پر شاید احسان کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زکوٰۃ لینے والوں کو دینے والوں کے در پر ایڑیاں رگڑتے دیکھتے ہیں۔ حالانکہ دینی نقطۂ نظر سے یہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ پہلی بات جب زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے تو لینے والے نے زکوٰۃ لے کر اُسے (یعنی زکوٰۃ دینے والے کو) اس فریضہ کی ادائیگی میں مدد کی۔ گویا ایک لحاظ سے محسن زکوٰۃ لینے والا ہے۔ اصولی طور پر زکوٰۃ ادا کرنے والے کو مستحق کے پاس جا کر اپنا یہ فرض ادا کرنا چاہیے۔ کسی قسم کی فضیلت، بڑائی، فخر کرنا یا دوسرے فریق پر حقارت کی نگاہ ڈالنا سارے عمل کو تباہ کر دے گا بلکہ الٹا خسارے کا معاملہ ہو سکتا ہے۔ زکوٰۃ معاشرے کے عدم توازن اور عدم مساوات کے خلاف ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ زکوٰۃ ارتکاز دولت کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ اصولی طور پر ایک اسلامی ریاست میں یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ زکوٰۃ جمع کرے اور مستحقین میں فقہی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے تقسیم کرے۔
جہاں زکوٰۃ کا نظام دینی سپرٹ کے عین مطابق قائم اور نافذ ہو وہ جگہ سرمایہ دارانہ نظام اور سودی معیشت کے لیے No go area بن جاتی ہے۔ انسانیت آج haves اور have nots میں کشمکش کو دور کرنے میں بُری طرح ناکام ہے۔ جب تک دنیا میں man made معاشی نظام موجود اور نافذ ہے، جس میں سود کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، رہے گا امارت اور غربت دونوں انسانی زندگی کو جہنم بنائے رکھیں گے۔ رب کائنات جو انسانی فطرت کا خالق بھی ہے وہی ایسا نظام عطا کرتا ہے جو آخرت کو تو سنوارے گا ہی، دنیا کو بھی جنت نظیر بنا دے گا۔
حج اسلام کا ایسا رکن ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں مالی بدنی عبادات جمع کر دی گئی ہیں۔ حج عاقل و بالغ صاحبِ حیثیت مسلمان پر فرض ہے۔ حضور ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص استعداد کے باوجود حج ادا نہیں کرتا اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ یہودی کی موت مرا یا نصرانی کی۔ حج میں امتِ مسلمہ کو ایک جگہ اکٹھے ہونے کا موقع ملتا ہے مختلف نسلوں، رنگوں، زبانوں اور علاقوں کے لوگ صرف ہم مذہب ہونے کی بنا پر جمع ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے نہیں، لیکن ایک مخصوص وقت تک مل جل کر اُٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے ہیں، دلوں میں دوریاں ختم ہوجاتی ہیں۔ عمرہ جسے حجِ اصغر بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں سب، بڑے چھوٹے، حکمران اور عوام ایک لباس میں ہوتے ہیں جو سفید رنگ کا ہوتا ہے سِلا بھی نہیں ہوتا۔ پھر یہ کہ حج میں ایک دوسرے کے علاقائی مسائل کا علم ہوتا ہے جس سے انجانے ہونے کے باوجود باہم محبت اور مودت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی فرض کی ادائی میں اُنہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ شیطان تمہارا ازلی دشمن ہے، وہ دھوکا باز ہے۔ لہٰذا سب جدا جدا بھی اور باہم اکٹھے ہو کر بھی اُس پر سنگ باری کرتے ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ اُس سے خواہی نخواہی گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔ حج وہ فعل ہے اگر اللہ تعالیٰ قبول فرما لے جسے حجِ مبرور کہتے ہیں تو گناہ گار انسان بھی اس طرح ہو جاتا ہے جسے نوزائیدہ معصوم بچہ ہوتا ہے۔ حج مسلمان کو صبر سکھاتا ہے، دوسروں کو خود پر ترجیح دینے کی ترغیب دیتا ہے، ڈسپلن کا پابند کرتا ہے۔ حج بھی اطاعت ِامیر کا درس دیتا ہے۔ حج میں جتنا زیادہ مالی ایثار اور جتنی زیادہ جسمانی مشقت ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام بھی بڑھ چڑھ کر ہوتا ہے، جس کا آج ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ فرض ادا کرنے کی سعادت بخشے۔ آمین یا رب العالمین!