(زمانہ گواہ ہے) لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم: توقعات وخدشات - محمد رفیق چودھری

9 /

اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنائیں تو ہمارے تمام معاشی ،

سیاسی ،اقتصادی ، زرعی، معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں :رضاء الحق

کارپوریٹ فارمنگ کاپروجیکٹ اگر بتائے گئے مقاصد کے تحت آگے نہ بڑھا اور صرف

ڈالرز کے حصول کو مقصد بنایا گیا تو ہم نہ صرف مشکل میں پھنس جائیں گے بلکہ

آئندہ تمام تر بیرونی امداد اور انوسٹمنٹ کے راستے بھی بند ہو جائیں گے :اشرف شریف

 

لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم: توقعات وخدشات کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میںمعروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: پاکستان کی سول حکومت اورملٹری قیادت نے مشترکہ طورپر لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس کی کیا تفصیلات ہیں ؟
رضاءالحق:بنیادی طور پر اس منصوبے کو گرین پاکستان منصوبے کا نام دیا جارہا ہے ۔ اگر ہم تاریخی حوالے سے جائزہ لیں تو پاکستان میں زراعت کاشعبہ بڑی اہمیت رکھتاہے کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 70سے 75 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے ۔ اس وقت بھی ہمارے GDP کا23فیصد زراعت سے آتا ہے اور ہمارے 38فیصد لوگوں کا روزگار زراعت کے شعبے سے منسلک ہے ۔ اچھی زراعت کے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیش بہازر خیز زمین عطافرمائی ہے جو نہ صرف food crops (چاول، گندم ، مکئی، گناوغیرہ)کے لیے بلکہ cash crops (کاٹن وغیرہ)کے لیے بھی بہترین ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب کاٹن کی پیداوار میں پاکستان کا ذکر سرفہرست ہوتا تھا ، اسی طرح دیگر زرعی پیداوار میں بھی پاکستان خود کفیل تھا لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ ہمارا زرعی نظام تباہ ہو کر رہ گیا۔ اصل میں قیام پاکستان کے ساتھ ہی جاگیرداری نظام آیا اور اس نے پاکستان کو ایک بہت بڑا سیٹ بیک دیااورجاگیرداری کے ساتھ کارپوریٹ سیکٹر اور دوسرے طاقتور طبقات مل کر زراعت کی ترقی میں رکاوٹ بن گئے۔ جبکہ بھارت میں شروع میں ہی جاگیرداری نظام کو ختم کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہاں زراعت نے تیزی سے ترقی کی ۔ ہمارے ہاں زرعی پیداوار میں کمی کی دوسری وجہ یہ بنی کہ ہم نے زمین کو زرخیز رکھنے کے لیے جدید ذرائع کا استعمال نہیں کیا۔ دوسری طرف ریسرچ کی بھی کمی رہی۔ ہمارے ہاں ایسے ادارے نہیں تھے جو زراعت میں معیاری تحقیق کو فروغ دے سکتے ۔ جو اکا دکا ادارے تھے ان کی ریسرچ کسان تک نہیں پہنچ سکی۔اسی طرح آبپاشی کے ذرائع کو بھی ہم نے اپ ڈیٹ نہیں کیا ۔ تربیلہ ڈیم اور منگلا ڈیم کے بعد اب تک کوئی بڑا ڈیم نہیں بن سکا جس کی وجہ سے ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا رہا اور دوسری طرف آبپاشی کے ذرائع محدود ہو گئے۔ کاشتکاروں کو اگر زرعی قرضے اور بنیادی سہولیات دی بھی گئیں تو وہ اس طرح دی گئیں کہ کاشت کی قیمت میں اضافہ کا باعث بنیں ۔ اس کے تین بنیادی نتائج برآمد ہوئے ۔
(1) ۔ فوڈ انسکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوا ۔ یعنی زراعت جو ہماری اکانومی کی بنیاد تھی اس میں بہتری نہیں لا سکے تو ہماری خوراک کی ضروریات پوری نہ ہو سکیں ۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس وقت 38 فیصد یعنی تقریباً 9 کروڑ پاکستانی غذائی قلت کا شکار ہیں ۔ ان میں سے 20 فیصد کو دو وقت کی روٹی کا میسر ہونا بھی مشکل ہورہا ہے ۔
(2)۔جدید ذرائع اور مشینری کے میدان میں پاکستان آگے نہیں بڑھا جس کی وجہ سے زرعی پیداور میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔
(3)۔زرعی پیداور نہ بڑھنے کی وجہ سے جو اجناس ہمیں ایکسپورٹ کرنا چاہیے تھے وہ امپورٹ کرنے پڑے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونا شروع ہوئے ۔
اس کے بعد بھی جو کچھ زرعی پیداوار ہوتی تھی اس کو خرید کر مختلف مافیاز نے سمگل کرنا شروع کر دیا ۔ اسی طرح مل مافیا نے بھی بھیانک کردار ادا کیا ۔ مثلاً جو زمینیں کپاس کی کاشت کے استعمال ہوتی تھیں اور وہ ہمارے زرمبادلہ کا ایک بڑا ذریعہ تھا وہاں شگر مافیا کی اجارہ داری کی وجہ سے گنا لگا دیا گیا ۔ ان سب وجوہات نے ہمارے زرعی شعبے کو تباہ کر دیا ۔
سوال: لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے نام سے ہماری سول اور ملٹری قیادت نے جو منصوبہ شروع کیا ہے آپ کے پاس اس کی کیا تفصیلات ہیں ؟
اشرف شریف: اصل میں یہ پروجیکٹ سی پیک کا ہی حصہ تھا لیکن اب ملٹری کی انوالومنٹ اس میں اس لیے ہوئی ہے کہ پاکستان میں food in security کا مسئلہ بڑھ گیا تھا ۔ گندم کی پیداوار کے باوجود لوگوں کو آٹا نہیں مل رہا تھا ۔ ایسی صورتحال میں جب ملک میں انتشار پیدا ہوتا ہے تو پھر نیشنل سکیورٹی کے لیے بھی خطرہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ سوویت یونین کے بکھرنے سے پہلے کے واقعات ہمارے سامنے ہیں ۔ اس لیے پاک فوج نے ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے کو حل کرنے کا سوچا اور تقریباً 45 ہزار ایکڑ رقبے پر اس منصوبے کا آغاز کیا ۔ اس میں پہلا رول پنجاب گورنمنٹ کا تھا کہ وہ identify کرے کہ محکمہ جنگلات اور دوسرے سرکاری اداروں کی وہ زمین کہاں کہاں ہے جو اب تک آباد نہیں ہوئی ۔ چنانچہ پنجاب گورنمنٹ نے ان زمینوں کی نشاندہی کی ۔ دوسرا رول پاک فوج کا ہو گا ۔ پاک فوج اس لیے بھی انوالو ہو رہی ہے کہ پاکستان میں زمینوں کے معاملات آسان نہیں ہوتے ،حکومتوں کے لیے بھی کئی دفعہ مسئلہ بن جاتا ہے کیونکہ کئی طاقتور گروہ قبضے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ پھر فوج کا دوسرا رول یہ ہوگا کہ وہ ان زمینوں کو باقاعدہ طور پر قابل کاشت بنائے گی ۔ اس کے بعد تھرڈ پارٹی کا رول شروع ہو گا جو کہ کارپوریشنز کی صورت میں ہیں وہ یہاں  کاشت وغیرہ کریں گی اسی لیے اسے کارپوریٹ فارمنگ کہا جارہا ہے ۔ کہا یہ جارہا ہے کہ یہ پروجیکٹ ان دوست ممالک کی ضروریات بھی پوری کرے گا جو اس میں  انوسٹمنٹ کر رہے ہیں۔ کوئی انڈرسٹینڈنگ ایسی ہے جو ابھی تک سامنے نہیں آرہی لیکن ایک خدشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ فوج کا اس میں کیا رول ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ اوکاڑہ میں جو زمینیں فوج نے لیز پر ڈیری فارمنگ کے لیے لی ہوئی تھیں ان کی مدت ختم ہو چکی ہے اور عوام مظاہرے کر رہے ہیں ۔ ان چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے فوج نے وضاحت کی ہے کہ یہ زمینیں فوج کے کنٹرول میں نہیں ہوں گی بلکہ یہ پنجاب حکومت کے کنٹرول میں ہی رہیں گی۔
زراعت کے شعبے کو صرف چند فصلوں تک محدود نہیں کیا جاسکتا ۔ زراعت کے ساتھ لائیو سٹاک بھی آجاتا ہے ۔زراعت کے ساتھ مفید کیڑے بھی آجاتے ہیں اور آپ کو شایدمعلوم ہو کہ پاکستان میں ریشم کے کیڑے پالنے کی سب سے بڑی انڈسٹری چھانگامانگا میں تھی ۔ آج سے دس سال پہلے دس ہزاربھٹیاں تھیں لیکن اب ان کی تعداد 200 بھی نہیں رہ گئی ۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت نے سرپرستی نہیں کی اور درخت کاٹ دیے گئے ۔ اب اس کی بجائے افغانستان اور ازبکستان سے ریشم آتا ہے ۔ اسی طرح ہمارے ہاں پھلوں کی حفاظت کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے ، گلگت بلتستان میں ہزاروں ٹن پھل ضائع ہو جاتا ہےکیونکہ ایک تو راستے دشوار ہیں دوسرا ان کو محفوظ کرنے کے لیے processing plantsنہیں ہیں۔ اگر وہاں پر چھوٹے چھوٹے unit لگا دیے جائیں اور لوگوں کو بتایا جائے کہ اگر آپ کے پاس خوبانی کو باہر لے جانے کا انتظام نہیں ہے تو اسے process کر کے یہیں پہ پیک کر دیں اور اس کے بعد آسانی سے فروخت ہو جائے گی ۔ اسی طرح چند سال پہلے یہاں ٹماٹر اتنا سستا ہوگیا کہ لوگوں نے ضائع کرنا شروع کر دیا تھا اور کسانوںنے اپنی فصلوں کو آگ لگا دی کہ جتنی لاگت آتی ہے اس سے بھی کم انکم ہے ۔ اس دوران کسی حکومت نے کوشش نہیں کہ جو کاشتکار ٹماٹر لگاتے ہیں ان کو ایک چھوٹا سا کورس ہی کروا دیں کہ اگر آپ کے ٹماٹر فروخت نہیں ہور ہے تو آپ کیچپ بنا لیں اور بعد میں فروخت کردیں ۔ اس سے آپ کی محنت ضائع نہیں ہوگی بلکہ کچھ فائدہ بھی ہو جائے گا ۔
سوال: کارپوریٹ فارمنگ کا یہ پروجیکٹ کہیں عالمی ایجنڈے کا حصہ تو نہیں ہے؟
رضاءالحق: دیکھیے یہ جو کارپوریٹ فارمنگ ہے اس کو آپ دنیا میں ملٹی نیشنلز کے غلبے سے علیحدہ نہیں دیکھ سکتے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جب IMFاور ورلڈ بینک قائم ہوئے تو اس کے ساتھ ہی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن بھی قائم ہو گئی ۔ اس کے بعد ملٹی نیشنل آرگنائزیشنز کا ایک دور آیا۔ اصل میں جن کے پاس سرمایہ ہے وہ دنیا پر اپنی اجارہ داری بھی چاہتے ہیں ۔ اس اجارہ داری کا آغاز پہلے انہوں نے اپنے ممالک سے کیا پھر یورپ پر ان کا ہولڈ قائم ہوگیا ۔ کارپوریٹ فارمنگ میں ایک پوری چین ہوتی ہے جس میں بیج ، کھاد ، اجناس ، ادویات ، پانی ، مارکیٹ قیمت وغیرہ شامل ہوتی ہیں ۔یورپ میں ان تمام چیزوں کو چند بڑی کارپوریشنز کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے ۔ وہاں تمام food items اور بیج وغیرہ جی ایم اوز کے ذریعے بنتے ہیں جو Monsanto نام کی ایک کمپنی کے کنٹرول میں ہے ۔ یورپ کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے بعد ان کارپوریشنز نے دیگر ممالک میں اپنا کنٹرول حاصل کرنا شروع کیا۔ بھارت میں کچھ عرصہ قبل بھارتی سرمایہ داروں نے فارمنگ پر کنٹرول حاصل کرنا چاہا جس کے خلاف پنجاب کے سکھوں نے طویل مظاہرہ کیا ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ کارپوریٹ فارمنگ کے خلاف تھے کیونکہ کارپوریٹ فارمنگ چھوٹے کاشتکار وں کی موت ہے ۔
سوال:گویااس پروجیکٹ کو آپ کارپوریٹ فارمنگ کی طرف ایک step سمجھ رہے ہیں؟
رضاءالحق: اس میں جب ڈیجٹلائیزیشن کی جائے گی تو گویا یہ چھوٹے کاشتکاروں کا نادرا بن جائے گا ۔ یعنی ان کی ساری چیزیں ریکارڈ پر آجائیں گی ۔ فوڈ انسکیورٹی کا مسئلہ تو پوری دنیا میں موجود ہے ، روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے یہ خطرہ اور بڑھ گیا ہے ۔ لیکن جب آپ کارپوریٹ کلچر کی طرف جاتے ہیں تو چھوٹا کسان پس جاتا ہے ۔ پھر یہ کہ جو انوسٹمنٹ کرتاہے وہی زیادہ فائدہ اُٹھاتا ہے اور تمام پروجیکٹس اسی کے کنٹرول میں رہتے ہیں ، مقامی لوگوں یا عام لوگوں کو اس کا زیادہ فائدہ نہیں ہوتا ہے ۔ جیسا کہ سی پیک منصوبے میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان کی انجینئرنگ فرمز کی بجائے چین اپنی فرمز کو کام دیتا ہے ۔ اسی طرح ہم نے دیکھا ہے ایئرپورٹس کو بھی lease پہ دیا جا رہا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کارپوریٹ فارمنگ کا کنٹرول حکومت کے پاس نہ رہے ۔ ایک مشہور مقولہ ہے :
ـ" Power tcnds to corrupt and absolute power corrupts absolutely"ـــــ جب ایک ایسا ادارہ جس کے پاس بہت طاقت ہےوہ ہر چیز میں ملوث ہو جائے گا جیسا کہ سی پیک میں بھی وہی ہے ، نادرا میں بھی وہی ہے ، نیپرا میں بھی وہی ہے ، واپڈا میں بھی وہی ہے ، ہر جگہ وہی ہوگا تو پھر اس کے نقصانات بھی ظاہر ہو سکتے ہیں ۔
سوال: کارپوریٹ فارمنگ کی طرف جواس وقت دنیا کا ٹرینڈ ہے اور اسی کے تحت انڈیا میں مودی سرکار نے بھی کوشش کی جس کے خلاف سکھوںنے بہت بڑا اور طویل احتجاج کیااور وہ پروجیکٹ وہاں پر لاگو نہ ہو سکا ۔ کیا ایسے ناکام پروجیکٹ کا تجربہ پاکستان میں کامیاب ہو سکتاہے ؟
اشرف شریف: پاکستان میں اسی شکل میں ایک تجربہ پہلے کامیاب ہو چکا ہے ۔ جہانگیر ترین نے 40 ہزار ایکٹر زمین لے کر وہاں پھلوں کے باغات لگائے ، چارہ لگایا ، اسی طرح گندم اور گناوغیرہ بھی لگاتے ہیں ۔ یہ چیزیں وہ خلیجی ممالک کو ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔ اس پروجیکٹ میں انہوں نے امریکہ اور آسٹریلیا سے ماہرین بلا کر ان کی خدمات حاصل کر رکھیں ہیں ۔ مقامی کاشتکاروں کا فائدہ یہ تھا کہ وہ اپنی فصل ، پیداوار ، منافع وغیرہ خود کنٹرول کرتے ہیں اور پیسہ ملک میں رہتا ہے ۔ لیکن جب باہر کی ملٹی نیشنل کمپنیاں آجاتی ہیں تو وہ منافع بیرون ملک لے جاتی ہیں ۔اس پروجیکٹ میں اگرچہ یہ کہا جاتاہے کہ 40 پرسنٹ منافع پنجاب حکومت کو ملے گا ،20 پرسنٹ منافع ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر لگایا جائے گا ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب سارا کنٹرول ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں ہوگا تو ہم ان کے محتاج ہو جائیں گے کہ وہ ہمیں کچھ دیں یا نہ دیں ۔ جیسے بلوچستان میں کئی بیرونی کمپنیاں کام کر رہی ہیں وہی ہمیں بتاتی ہیں کہ اتنا سونا نکلا ہے ، اتنا چاندی نکلا ہے ، اتنا تانبا ہے وغیرہ ۔ اسی طرح اگر اس پروجیکٹ میں بھی جو انوسٹرز ہوں گے وہی تعین کریں گے تو ممکن ہے ہمیں اتنا زیادہ فائدہ نہ ہو کیونکہ حساب کتاب پر کنٹرول تو ان کا ہوگا ۔ یہ خدشات بہرحال موجود ہیں ۔ اس کے ساتھ ہمارے مقامی کاشتکار کی آزادی اور پیداوار پر اس کا جو کنٹرول ہے اس پر بھی کوئی سمجھوتہ تو نہیں ہو جائے گا اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر ہمارے ہاں کوئی مستقل پالیسی نہیں ہے اس کا بھی نقصان ہوتاہے ۔میرا ایک دوست روسی سرمایہ دار کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔ جب روس یوکرائن جنگ کے بعد روسی سرمایہ داروں کے اثاثے امریکہ میں فریز ہوگئے تو انہوںنے انوسٹمنٹ کے لیے نئی مارکیٹ کی تلاش شروع کی ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ پاکستان میں انوسٹمنٹ کریں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں غیر یقینی کی صورتحال ہے ۔ ایک گورنمنٹ کی پالیسی کچھ ہو گی وہ ہمیں ویلکم کرے گی ، تحفظ دے گی لیکن دوسری حکومت آئے گی تو اس کی پالیسی کچھ اور ہوگی اور ہمیں سابقہ حکومت کے اتحادی سمجھ کر نقصان دے گی ۔ پاکستان کی معاشی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے ۔
ایک بہت بڑا خطرہ اس کارپوریٹ فارمنگ کی صورت میں یہ بھی ہوگا کہ جو کارپوریشنز انوسٹمنٹ کریں گی ، ظاہر ہے ان کے پاس سرمایہ ، قوت ، عالمی طاقتوں کی سپورٹ ہر چیز ہوگی ۔ آپ ان کو زمین دیتے ہیں کل آپ کے ساتھ فلسطینیوں جیسا سلوک ہوتاہے تو آپ کیا کریں گے ؟ فلسطینیوں نے بھی اپنی زمینیں بیچ دی تھیں ، یہودیوں کے پاس سرمایہ تھا انہوںنے قبضہ کرکے اپنا ملک بنا لیا ۔ لہٰذا میرے خیال سے ان تمام جزیات پر باریک بینی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
سوال: اطلاعات کے مطابق اس پروجیکٹ میں سعودی عرب اور چائنہ کے علاوہ یو اے ای، قطر، بحرین سمیت اور بھی کئی خلیجی ممالک دلچسپی لے رہے ہیں۔ کیا ان کی یہ دلچسپی اس پروجیکٹ کی فنڈنگ اور اس کی ٹیکنیکل سپورٹ تک محدود ہے یا ہماری حکومت ان ممالک کو زمینیں لیز پہ دے رہی ہے؟اورکہیں خدانخواستہ ہمیں وہ دن نہ دیکھنا پڑ جائے کہ ہم بھی فلسطینیوں کی طرح مطالبہ کر رہے ہوں کہ ہماری زمینوں کو بیرونی تسلط سے آزاد کرایا جائے ۔ کہیں ہم بھی غلامی کی طرف تو نہیں بڑھ رہے ؟ 
رضاءالحق: اصل میں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کتنی گہرائی میں جاکر اپنی پالیسی کو دیکھتے ہیں اور اس کو ملکی مفاد سے ہم آہنگ بناتے ہیں ۔ ملکی مفاد کے لیے دو چیزیں  انتہائی اہم ہیں ۔ ایک یہ کہ جو نسلی ، لسانی ، صوبائی تعصبات ہیں ان کو ایک آئیڈیالوجی کے ذریعے ختم کرکے قوم میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کی جائے ۔خوش قسمتی سے ہمارے پاس اس کام کے لیے نظریۂ پاکستان یعنی اسلامی نظریہ موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمیں اپنے ملک کی زمینوں کو محفوظ بنانا ہے ۔ ان دوچیزوں پر جتنا آپ فوکس کریں گے اتنا ہی مستقبل میں آپ اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنائیں گے ۔ کارپوریٹ فارمنگ کے حوالے سے ہم یہی کہیں گے کہ اگر اس میں باہر سے سرمایہ کاری ہورہی ہے تو پھر یہ معاہدہ build operate transfer کی بنیاد پہ کیا جائے تاکہ کم ازکم ملکیت تو ہماری محفوظ رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے مقامی کاشتکاروں ، انجینئرنگ فرمز اور عوام کو بھی فائدہ پہنچے۔
اشرف شریف: کارپوریٹ فارمنگ کے ساتھ اگر ہم زرعی ماہرین پیدا کرنے کا کوئی ادارہ بنا سکیں تو میرا خیال ہے کہ یہ بڑا ضروری ہے کیونکہ ہمیں زرعی ماہرین کی ضرورت ہے ۔
سوال: پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود ہماری بدقسمتی ہے کہ شاید ہی کوئی زرعی جنس ہو جو ہمیں درآمد نہ کرنی پڑتی ہو ۔ آج ہمارا ملکfood crisis کا شکارہے ۔ ان حالات میں پاکستان ان ممالک کی توجہ کا مرکز کیوں بنا ہوا ہے جو کارپوریٹ فارمنگ پروجیکٹ میں انوسٹمنٹ کرنا چاہتے ہیں ؟
اشرف شریف:یہ میرا خیال ہے پاکستان کو چونکہ اس وقت ڈالرز کی ضرورت ہے اور اس کے لیے کوئی نہ کوئی پلاننگ تو پاکستان کو کرنی ہی تھی لہٰذا اسی وجہ سے یہ پروجیکٹ لانچ کیا گیا ہوگا اور بیرونی انوسٹرز کو بھی پاکستان نے خود دعوت دی ہوگی ۔ اس کے ساتھ اگر ہماری زراعت کا بھی بھلا ہو جائے تو یہ ہمارے لیے دہرا فائدہ ہے ۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ معاہدہ میں کچھ ایسی کنڈیشنز ہوں گی کہ انوسٹمنٹ کرنے والے ممالک کی کچھ غدائی ضروریات بھی پوری ہو جائیں ۔ اب تک خلیج میں جتنا پھل جاتاہے وہ یاتو یورپ سے آتا ہے یا پھر ایران ، عمان یا انڈیا سے آتاہے ، سبزیاں زیادہ تر انڈیا سے آتی ہیں ۔ پاکستان سے کوئی چیز نہیں جاتی ۔ وجہ پیکنگ ، گریڈنگ اور کوالٹی میں معیار کو مدنظر نہ رکھنا بتایا جاتاہے ۔ اب اگر اس پروجیکٹ کے ذریعے پاکستان غذائی اجناس ، پھل اور سبزیاں خلیجی ممالک کو ایکسپورٹ کرسکے گا تو اس کی معیشت کے لیے یہ بہت اچھا ہو گا ۔ اسی طرح لائیو سٹاک میں ممکن ہے گوشت بھی ایکسپورٹ کرنے کے ہم قابل ہو جائیں ۔ چین سالانہ 5 سو ارب ڈالر کا گوشت باہر سے منگواتا ہے ۔ اگر ایک ارب ڈالر کا ہی سہی پاکستان سے جائے گا تو پاکستانی معیشت پر کتنا اچھا اثر پڑ سکتا ہے ۔ پاکستان کے پاس ہزاروں مربع کلومیٹر کے علاقے ہیں جو چراگاہوں کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں اور وہاں لائیو سٹاک کا بڑے پیمانے پر کام ہو سکتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ کارپوریٹ فارمنگ سے پاکستان کو فائدہ ہوگا ۔ یہاں کے کسان کو جدید ٹیکنالوجی کی سہولت میسر ہو جائے گی ۔ ان کی معاشی حالت بہتر ہوگی ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس میں will کتنی ہوگی؟ اگر تو اس پروجیکٹ کا مقصد صرف یہ ہے کہ وقتی طور پر ہمیں ڈالرز کی جو ضرورت ہے وہ پوری ہو جائے تو وہ تو ہوجائے گی لیکن اگر یہ پروجیکٹ ان مقاصد کے تحت جو بتائے جارہے ہیں آگے نہ بڑھا تو نہ صرف ہم مشکل میں پھنس جائیں گے بلکہ دوست ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی خراب ہو جائیں گے اور آئندہ کے لیے کسی بھی بیرونی انوسٹمنٹ یا مدد کے راستے بند ہو جائیں گے ۔
سوال: جاگیرداری نظام کی موجودگی میں کیا پاکستان کا زرعی شعبہ ترقی کر سکتا ہے؟
رضاءالحق:چند روز قبل میں ایک انگلش اخبار میں یہ رپورٹ پڑھ رہا تھا کہ پاکستان میں عیدالاضحی کے موقع پر 2 بلین ڈالر ز کے لائیو سٹاک کی قربانی دی گئی ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان میں کتنا بڑا سکوپ ہے کہ اگر ہم لائیوسٹاک کے شعبہ کو ترقی دیں تو ایکسپورٹ کے ذریعے کتنا زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ اصل میں ہمارے ہاں جو جاگیردارانہ کلچر ہے اسی کی چھتری کے نیچے سرمایہ داری بھی ہے ، مختلف پارٹیوں کے سربراہان اور سیاستدان اور بینکر بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ، تمام قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اسی طبقے کی اجارہ داری ہے ، پھر اس کے ساتھ ملٹری اور سول بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ بھی شروع سے چلا آرہا ہے اور یہ ایک پوری اشرافیہ ہے جو پورے نظام پر سوار ہے اور تمام پالیسیاں اسی اشرافیہ کی مرضی سےبنتی ہیں ۔ یہ اشرافیہ ذاتی مفاد میں ملکی اور قومی مفاد کو پس پشت ڈال دیتی ہے اور پھر اشرافیہ کے اسی گٹھ جوڑ اور ارتکاز دولت کی وجہ سے کسان ، مزدور اور عام آدمی کا استحصال ہوتا ہے جس سے haves اور have nots کی صورتحال بن جاتی ہے ۔ لہٰذا ہماری ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اشرافیہ کا یہ گٹھ جوڑ کتنی جلدی ختم ہو تاہے ، اگر تو یہ ختم کیا جا سکے اور ایک اجتماعی نظام عدل کوکسی نہ کسی صورت میں نافذ کیا جا سکے تو پھر ممکن ہے کہ زراعت ، لائیوسٹاک اور انڈسٹری میں ہم ترقی کر سکیں گے اور معیاری برینڈنگ اور پیکنگ کرکے انٹرنیشنل مارکیٹ میں بیچ سکیں گے ۔ اگر اشرافیہ کا یہ گٹھ جوڑ ختم نہ ہو سکا تو پھر یہ کارپوریٹ فارمنگ کا منصوبہ بھی محض وقتی مفاد اور ڈالرز کے حصول کا ذریعہ تو بن جائے گا اس سے آگے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔
سوال: اس پروجیکٹ میں جی ایچ کیو کی براہ راست انوالومنٹ کیا معاشرے میں آرمی کی ساکھ کو متاثر نہیں کرےگی؟
اشرف شریف: اس میں دوباتیں ہیں ۔ ایک تو بیرونی انوسٹرز کو ایک مستحکم قسم کی یقین دہانی کی ضرورت تھی کیونکہ ہماری سول حکومتیں غیریقینی کی صورتحال میں رہتی ہیں ، ان کی کوئی مستقل پالیسی نہیں ہوتی اور دوسرا یہ کہ زمینوں کے معاملات ہمارے ہاں اتنے سادہ نہیں ہوتے ۔ ان دو وجوہات کی بناء پر فوج کی انوالومنٹ کو مثبت انداز سے ہی دیکھاجانا چاہیے ۔
سوال: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پاکستان میں land reforms کیسے کی جا سکتی ہیں؟
رضاءالحق: اس حوالے سے میں ایک تاریخی حوالہ دینا چاہوں گا۔ ایوب خان کے دور میں لینڈ ریفارمز کی ابتدا کی گئی تھی جس میں یہ تعین کر دیا گیا تھا کہ ایک شخص زیادہ سے زیادہ کتنی زمین رکھ سکتا ہے ۔ بارانی زمین کی حد ایک ہزار ایکڑ اور آبی زمین کی حد پانچ سو ایکڑ مقرر کی گئی ۔ آگے چل کر بھٹو حکومت میں تین سو اور ایک سو اور پھر سو اور پچاس ایکڑ کی حد مقرر ہوئی ۔ لیکن جب ضیاء الحق کے دور میں وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں آیا تو جاگیرداروں نے اس میں کیس دائر کیا کہ لینڈ ریفارمز کو ختم کیا جائے ۔ وفاقی شرعی عدالت نے 1980ء میں فیصلہ دیا جس میں دو چیزیں بیان ہوئیں ۔ ایک یہ کہ آئین میں ترمیم کرنا وفاقی شرعی عدالت کے اختیار میں نہیں ہے ۔ دوسرا یہ کہ لینڈریفارمز میں زمینوں کی ملکیت کی جو حد مقرر کی گئی ہے وہ شریعت کے خلاف نہیں ہے انہیں برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ جاگیرداروں نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور قزلباش وقف نامی ادارے نے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں اس کے خلاف اپیل دائر کردی۔ 9 سال تک یہ کیس چلا اور آخر کار سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے فیصلہ سنایا کہ زمینی ملکیت کی حد مقرر کرنا اسلام کے خلاف ہے ۔ اس کے بعد سے اب تک زرعی اصلاحات کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام جائیداد رکھنے پر کوئی قدغن نہیں لگاتا ۔ لیکن دوسری طرف اسلام دولت اور وسائل کے چند ہاتھوں میں جانے کے بھی سخت خلاف ہے ۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور حکومت میں ایک اجتہادی فیصلہ صادر کیا تھا کہ جو علاقے فتح ہوئے ہیں ان کی زمینوںسے مقامی کاشتکاروں کو بے دخل نہ کیا جائے اور ان زمینوں کو خراجی تصور کیا جائے گا۔ کیونکہ اگر سارے مفتوحہ علاقوں کی زمینوں پر مسلمان قابض ہو جائیں گے تو باقی سب لوگ غلام بن جائیں گے اور ان کا استحصال ہوگا ۔ اسی طرح کی ایک مثال حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒکے دور میں بھی ملتی ہے۔ ان سے پہلے اموی دور میں جاگیروں کو تحفہ کے طور پر دیے جانے کا رواج چل نکلا تھا ۔ آپؒ نےبیعت لینے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا ان زمینوں کے مالکانہ حقوق معطل کردیے۔ پھر یہ کہ اسلامی فقہ کا اصول ہے کہ زمین کے پیٹ سے حاصل دولت مثلاً معدنیات، تیل وغیرہ امت ِ مسلمہ کی مشترکہ ملکیت تصور ہو گی۔ ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر پاکستان میں لینڈ ریفارمز کی جائیں تو پاکستان پر مسلط جاگیرداری نظام ختم ہو سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر شرعی اصولوں کے مطابق زکوٰۃ اور عشر بھی حاصل کیا جائے تو پھر ارتکارز دولت کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور عوام کو فائدہ پہنچے گا ۔ یعنی اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بناتے ہیں تو ہمارے تمام معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، زرعی ، غذائی مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ پچھلے دنوں وزیراعظم صاحب فرما رہے تھے کہ ہم کب تک سودی قرضہ لیتے رہیں گے۔ یہ سوال کرنا ان کا کام نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ سود کے خلاف عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کروائیں ۔ جس طرح انہوں نے ملٹری کے ساتھ مل کر کارپوریٹ فارمنگ کا پروجیکٹ شروع کیا ہے اسی طرح وہ اس طرف بھی قدم اُٹھائیں اور خاص طور پر یہ ملک جس بنیاد پر بنا ہے انہی بنیادوں پر اس کا نظام بھی قائم و نافذ کریں ۔