(منبرو محراب) آرمی چیف کاقرآنی آیات سے مزین خطاب - ابو ابراہیم

9 /

آرمی چیف کاقرآنی آیات سے مزین خطاب

 

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ،کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ کے14جولائی 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
گزشتہ دنوںکنونشن سنٹر اسلام آباد میں سرسبز پاکستان کے عنوان سے ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں وزیراعظم پاکستان اورآرمی چیف نے بھی خطاب کیا۔آرمی چیف نے اپنے خطاب میں تین آیات قرآنی کاحوالہ دیا۔یہ قابل تحسین بات ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کا سپہ سالار حافظ قرآن ہوجس کے سینے میں قرآن کانور محفوظ ہواوروہ اپنی تقریر میں قرآن کریم کاحوالہ دے ۔ اسی کی ہمیں ضرورت ہے ۔ ہمارے حکمران ، سپہ سالار اورتمام ذمہ داران بھی اللہ کے بندے اور محمدرسول اللہ ﷺ کے امتی ہیں۔ آج میرا ارادہ ہے کہ انہی آیات کے حوالے سے یہاںبھی کچھ باتیں رکھی جائیں جن کا حوالہ آرمی چیف نے دیا اور اللہ کرے کہ جنرل صاحب تک یہ باتیں کسی طرح پہنچ جائیں ۔ کچھ درد دل بھی ہے جوہم رکھناچاہیںگے ۔ ان شاء اللہ!
جنرل صاحب نے ایک حوالہ سورۃ الزمر کی آیت 53 کا دیا ۔ اکثر مفسرین کاکہنا ہے کہ قرآن حکیم کی سب سے زیادہ امید افزا آیت یہ ہے ۔ ارشاد ہوتاہے:
{قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ ط اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(53)}(الزمر) ’’(اے نبیﷺ!)آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے!اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ یقیناً وہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اسی کے ساتھ انہوں نے یہ آیت تلاوت کی :
{ لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ ط اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ (87)}(یوسف) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔یقیناً اللہ کی رحمت سے مایوس تو بس کافر ہی ہوتے ہیں۔‘‘
ان دوآیات کاحوالہ دے کر آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتااوربڑا انقلاب برپا ہوجائے گا۔زراعت کے میدان میںہم بہت کوشش کررہے ہیں، جدیدٹیکنالوجی بھی اس کے لیے استعمال کر رہے ہیں، باہر سے ہمیں بہت ساری سرمایہ کاری آ رہی ہے ،عرب ممالک بھی سرمایہ کاری کریں گے اور ہم سرسبز انقلاب برپا کریںگے ۔
یہ بہت اچھی بات ہے۔ گو کہ ہماری افواج کااصل کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہےلیکن بہرحال ہنگامی حالات میں ہماری افواج آگے بڑھ کرملک وملت کی خدمت کرتی ہیں ۔اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے ، اگر ہمارے آرمی چیف آگے بڑھ کر تعاون کر رہے ہیں اور قرآنی آیات کا حوالہ دے کر قوم کو motivate کر رہے ہیں تو ہم انہیں خراج تحسین پیش کریں گے کیونکہ یہ منبررسولﷺ ہمارے پاس امانت ہے ۔ اس کاتقاضا ہے کہ اگر کہیں سے اچھی بات آتی ہے تواس کی تحسین کرواگر شر کی بات ہے تومذمت کرو۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
{وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص}(المائدہ:2) ’’اور تم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو ‘اور گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو‘‘
اس اصول کے ساتھ ہم انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ د رد دل بھی سامنے رکھیں گے ۔ اپنے خطاب میں جنرل صاحب نے تیسری آیت یہ تلاوت کی : 
{وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)} (آل عمران) ’’اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کھائو‘اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔‘‘
جنگ اُحد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی توان کی تسلی کے لیے یہ آیت نازل ہوئی تھی ، آخر یہ ثابت بھی ہوگیا کہ حتمی فتح انہی کو نصیب ہوئی جو مومن تھے ، لیکن ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا کہ کیا ہمارے کام مومنین والے ہیں ؟ اس میں شک نہیں کہ نادرا کے ریکارڈ میں لکھا ہوا ہے کہ ہم مسلمان ہیں ۔یہ زبانی اقرار والاایمان تومنافقین کے پاس بھی تھا۔ اللہ فرماتاہے:{لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ ج }(المائدہ:41) ’’ان کے دل ایمان نہیں لائے ہیں۔‘‘
لہٰذا محض ایمان کے زبانی دعو ے کام نہیں کریں گے بلکہ وہ ایمان مطلوب ہے جو عمل میں بھی نظر آئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط}(النساء:136) ’’اے ایمان والو! ایمان لائو اللہ پر‘ اُس کے رسولؐ پر اور اُس کتاب پر جو اُس نے نازل فرمائی اپنے رسولؐ پر اور اُس کتاب پر جو اُس نے پہلے نازل فرمائی۔‘‘
جب ایمان دل میں اترتاہے توعمل ثبوت پیش کرتاہے ۔ آج اُمت نمازیں ضائع کرے،حرام خوری کرے، سود کی بنیاد پر پورا معاشی نظام چل رہا ہو ، 75برس میں کوئی بھی حکمران (فوجی یا سول ) سود جیسے بڑے گناہ کو روک نہیں پایا ۔ ہم جنرل عاصم منیر صاحب سے کہیں گے کہ آپ کو اللہ نے طاقت بھی دی ہے اور اختیار بھی ،آپ بزنس کمیونٹی اور سیاستدانوں کوجمع کرلیتے ہیں ، آپ تو باہر کے ممالک سے ڈیل بھی کر لیتے ہیں ، آپ پاکستان سے سود کی لعنت کو ختم کردیں ۔ اس سود کی وجہ سے ہمارا ہر بچہ 3لاکھ کامقروض پیدا ہوتاہے ۔بجائے اس کے آج آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے پرخوشیاں منائی جارہی ہیں ۔ حالانکہ وہ ہمیں اتنادے رہے ہیں کہ جیسے گھوڑے کوچنے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ چلتا رہے ۔وہ ہمیں چلاتے رہیں گے، مقروض در مقروض بناتے رہیں گے ،لوٹ مارکرتے رہیں گے ، یہ قوم سسکتی رہے گی ،پستی رہے گی ۔اگلے آٹھ دس مہینوں کے لیے تھوڑا ساریلیف مل گیااس کے بعد ہم کہاںکھڑے ہوںگے؟کیا اس طرح ہم غالب ہو سکیں گے ؟ 
غالب ہونے کے لیے وہ ایمان چاہیے جو دل میں اُترے اور عمل میں بھی دکھائی دے۔ آج نمازیںہم ضائع کریں ،فحاشی وعریانی کاسیلاب یہاں آئے ،دجالی تہذیب یہاں پوری طرح مسلط ہو ، سود کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ جاری ہو تو کیا اللہ کی رحمت ہمارے لیے نازل ہوگی ؟ 
ٹھیک ہے جنرل صاحب نے جو پہلی آیت تلاوت کی اس کا مفہوم یہی ہے کہ : جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، بے شک اللہ سب گناہ بخش دے گا، بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے۔۔۔ لیکن اللہ کی رحمت کا مستحق بننے کے بھی کچھ تقاضے ہیں جو کہ اگلی آیات میں بیان ہورہے ہیں ۔ فرمایا : 
{وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(54)} ’’اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو‘ اور اُس کے فرمانبردار بن جائو‘اس سے پہلے کہ تم پر عذاب مسلط ہوجائے ‘پھر تمہاری کہیں سے مدد نہیں کی جائے گی۔‘‘
محض تقریروں سے یا تمناؤں سے اللہ کی رحمت نہیں ملے گی بلکہ اس کے لیے اللہ سے رجوع کرنا ہوگا ،توبہ کرنا ہوگی، اللہ کے اور اس کے رسول ﷺ سے بے وفائی اور سرکشی کا راستہ ترک کرنا ہوگا ۔ اسی لیے آگے فرمایا:
{وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(55)} ’’اور پیروی کرو اس کے بہترین پہلو کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے‘اس سے پہلے کہ تم پر عذاب اچانک آ دھمکے اور تمہیں اس کا گمان تک نہ ہو۔‘‘
اسلام صرف زبانی دعوے اوراقرار کانام نہیں ہے بلکہ یقین قلبی بھی ہواوراس کا اظہار عمل میں بھی ہو۔اسلام صرف مراسم عبودیت(چندعبادات) کانام بھی نہیں بلکہ یہ مکمل پیکج ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص}(البقرۃ:208) ’’اے اہل ِایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
چندلوگوں کی نمازیں کفایت نہیں کریں گی،چندلوگوں کی داڑھیاں کفایت نہیں کریں گی۔ چند لوگوں کاتہجد گزار ہوناکفایت نہیںکرے گا۔ اجتماعی مسئلہ ہے لہٰذا قوم کو اجتماعی توبہ کرنا ہوگی اوراجتماعی توبہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر جو ملک ہم نے حاصل کیا تھا ، 75 برس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے غداری اور سرکشی کا راستہ ہم نے چن رکھا ہے اس راستے کو ترک کرکے اللہ کے نظام کو اس ملک میں نافذ کریں ۔ یہ اجتماعی توبہ ہوگی اور اس کے بعد اللہ کی رحمت آئے گی ۔ بجائے اس کےہم سود کے خاتمے اور شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ بن رہے ہیں ، ہمیں دوسرے مسائل پررونا آتاہے لیکن شریعت کے حکم کے ٹوٹنے پررونا نہیں آتا، دوسرے معاملات پرہمارے چہرے بگڑتے ہیں، ہماری ریڈلائن کراس ہوتو کراس کرنے والے کو ہم نشان عبرت بنانے پر تُل جاتے ہیں ، کیا کوئی اللہ کی بھی ریڈلائنز ہیں ؟سورۃ نوح میں فرمایا : 
{مَا لَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلہِ وَقَارًا(13)}’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت کے امیدوار نہیںہو؟‘‘
تمہارا اصول ٹوٹے توتمہارا چہرہ سرخ ہوجائےلیکن اللہ کے اصول اورضابطے ٹوٹیںاورتمہارے چہرے کا رنگ تبدیل نہ ہو تو پھر کیسا ایمان ہے اور اللہ کی رحمت کیسے آئے گی ؟ لہٰذا اللہ کی رحمت چاہیے تو انفرادی اور اجتماعی سطح پر توبہ کرنا ہوگی ، اللہ کے دین کے نفاذکے لیے مخلصانہ کوشش کرنا ہوگی ۔ شریعت کو پامال کر کے رحمت نہیں ملتی،رحمت چاہیے تو پلٹو اللہ کی طرف اس سے پہلے کہ اللہ کا عذاب آ جائے پھر تمہیں کہیں سے بھی مدد نہیں ملے گی ۔ فرمایا:
{وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(55)}
یہ قرآن صرف تلاوت کے لیے نہیں آیا ہے، صرف حفظ کرنے کے لیے نہیں آیا ہے۔یہ سب بھی مطلوب ہے، تلاوت میں ایک حرف پر دس نیکیاں ملیں گی لیکن قرآن کی ایک آیت کو سمجھوں گا تو اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیںکہ یہ سو رکعت نفل سے زیادہ افضل ہے۔ (ابن ماجہ) پھر یہ قران صرف سمجھے کے لیے نہیں آیا بلکہ یہ اپنی اقامت چاہتا ہے، یہ اپنے احکام کا نفاذ چاہتا ہے ورنہ اللہ کے فتوے موجود ہیں :
{وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَ نْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(44)} ’’اور جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَ نْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ(45)}’’ اور جو فیصلے نہیں کرتے اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق وہی تو ظالم ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَ نْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(47)}(المائدہ)’’اور جو لوگ نہیں فیصلے کرتے اللہ کے اُتارے ہوئے احکامات و قوانین کے مطابق‘ وہی تو فاسق ہیں۔‘‘
قائد اعظم سے پوچھا گیا تھا پاکستان کا آئین کیا ہوگا؟ فرمایا ہمارا آئین قرآن ہے۔ یہ سمت متعین تھی۔لیکن اس کے بعد ہم نے کھرچ کھرچ کر قرآن کو نصاب سے ہی نکال دیا ۔ جنرل مشرف کے دور میں سورۃتوبہ نکال دی گئی۔ سورہ احزاب، سورہ ممتحنہ نویں دسویں کے سلیبس میں ہوتی تھیں سب نکال دیں ۔
قرآن کو نصاب میں شامل کرنے کی ایک نئی کوشش میں تمام مکاتب فکر کا متفقہ قرآنی نصاب تیار ہوچکا ہے ۔ پنجاب اور کے پی کے نے قانون سازی کرکے اس کو نصاب میں شامل کر لیا ہے ۔ اس سال نویں اور گیارہویں میںپچاس نمبر کا ترجمہ قرآن کاپیپر ہوگا ۔ الحمد للہ ۔بلوچستان کی عدالت نے فیصلہ دے دیا ، حکومت ٹیک اپ کر رہی ہے ، اللہ کرے وہاں بھی نافذ ہو جائے ، لیکن سندھ والے مان کر نہیں دیتے ۔ میں جنرل صاحب سے گزارش کرتا ہوں خدارا آپ اپنے اختیار کو استعمال کریں اور اس کے نفاذ کو یقینی بنا دیں ۔اللہ کرے گلگت بلتستان میں بھی ہو جائے ، وفاق میں بھی ہو جائے ،وفاقی بورڈ میں نافذ ہوگا تو پاکستان آرمی کے سکولوں میں بھی بچے پڑھیں گے ، پاکستان ایئر فورس اور نیوی کے سکولوں میں بچے پڑھیں  گے ۔ بیرون ملک پاکستان کے سفارتخانوں  کے سکولز میں بچے پڑھیں گے ۔ ان سب کے سینوں میں  قرآن کا نور ہوگا تو دل میں اللہ ایمان بھی دے گا اور ایمان دل میں ہوگا تو وہ عمل میں بھی نظر آئے گا اور اللہ کی رحمت بھی آئے گی ۔
ٹھیک ہے مایوسی کفر ہے ، اللہ کی رحمت کی امید رکھنی چاہیے مگر خود قرآن یہ بھی بتارہا ہےکہ صرف رحمت کی اُمید رکھنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ اس کے لیے کچھ محنت کرنا پڑے گی ۔ فرمایا: 
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ لا اُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللہِ ط وَاللّٰـہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(218)}(البقرۃ)’’(اس کے برعکس) جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں تو یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کے امیدوارہیں۔اور اللہ تعالیٰ غفور ہے ‘رحیم ہے۔‘‘
یہ دو کام کرو گے تو اللہ کی رحمت آئے گی ۔ ایک ہجرت روزانہ کی ہے ۔ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا : یا رسول اللہ ﷺ! کون سی ہجرت افضل ہے؟ فرمایا : ((أَنْ تَھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ)) ’’یہ کہ ہر وہ بات جو تمہارے رب کو نا پسند ہے چھوڑ دو۔‘‘
یہ افضل ہجرت ہے اور یہ روزانہ مطلوب ہے ۔ نافرمانوں ، ظالموں ، سرکشوں کے لیے اللہ کی رحمت نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا} (النحل:128) ’’یقیناً اللہ اہل ِتقویٰ کے ساتھ ہے۔‘‘
اللہ اور اس کی مدد اور رحمت اس کے ساتھ ہوگی جو اللہ سے ڈرنے والا ہوگا ، گناہوں سے دوری اختیار کرے گا ، اللہ کے احکاما ت پر عمل کرنے والا ہوگا ۔ دوسری شرط قرآن میں جہاد بیان ہوئی۔ جہاد جہد سےہے۔ جس کا مفہوم ہے اللہ کے دین کی خاطر جدوجہد کرنا ، باطل کے خلاف کھڑا ہونا ۔ اللہ نےہمارے ملک کی افواج کو بہترین صلاحیت دی ہے ، ایٹم بم عطا کیا ہے ۔
ایک دل کی بات عرض کر دیتاہوں ، ممکن ہے دیوانوں والی بات قرار دیا جائے مگر اللہ کرے کوئی ایسا ہی دیوانہ پاکستان میں پیدا ہوجائے ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں انڈیا جنگ کے لیے پر تول رہا تھا جنرل ضیاء الحق نے ایک پیغام دیا کہ ہم نے ایٹم بم سجانے کے لیے نہیں بنایا ، پاکستان مٹ بھی گیا تو اسلام نہیں مٹے گا لیکن بھارت مٹ گیا تو دنیا میں ہندو مت کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ بھارت کے قدم جہاں تھے وہیں رُک گئے ۔ آج ایک بار پھر ملک کی بقا اور سلامتی کا سوال ہے ۔ امریکہ اور مغرب نے IMF کو ٹول کے طور پر استعمال کرکے ہمیں اس حال کو پہنچا دیا ہے ، اس سے پہلے سوشل انجینئرنگ کرکے ہماری معاشرت کا بیڑا غرق کر دیا ۔ آج ہماری یونیورسٹیز اور کالجز کے اندر ہماری نوجوان نسل کو تباہ کیا جارہا ہے ۔ میڈیا کے ذریعے فحاشی اور عریانی کا سیلاب ہے ۔ یہ سب ہماری معاشی محتاجی کی وجہ سے دباؤ ڈال کر کروایا گیا ۔ اب اور مقروض بنایا جارہا ہے ۔ آخر میں ان کی نظر ہمارے ایٹمی اثاثوں پر ہوگی ۔ ایسی دلدل میں پھنسے ہیں کہ نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ ان حالات میں اسی طرح کے سخت فیصلے لینے پڑیں گے ۔ ضیاء الحق کی زبان میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ کرےکوئی دیوانہ ہو، کوئی صاحب ایمان ہو، کسی کے سینے میں قرآن کا نور ہو اور وہ کہے کہ تم ہماری معیشت کا بیڑا غرق کرنے پر تُلے بیٹھے ہو ، بالآخر ہمارے پاس یہی حل ہے کہ ہم ایٹمی حملہ کرکے انڈیا میں تمہاری بڑی مارکیٹ کو تباہ کردیں گے ، اگرسسک سسک کرہی مرنا ہے تو بہادری سے مریں گے ۔مگر یہ کہنے کی جرأت وہی شخص کر سکتا ہے جس کے دل میں ایمان ہوگا، سینے میں نورِ قرآن ہوگا، جو ان ground realities سے بالاتر ہو کر ایمان کی روشنی میں غور و فکر کرتا ہو گا ۔
جنرل حافظ عاصم منیر صاحب نےقرآن کی درج بالا تین آیات تلاوت کیں ، تحسین پیش کرتا ہوں ، اللہ ان کو جزائے خیر دے ۔ ہم اُمید بھی کرتے ہیں اور دعا بھی کرتے ہیں کہ ان کے سینے میں قرآن کا جو نور ہے اس کی برکت کا ظہور ہو ۔ آج ملک ہنگامی صورتحال سے دوچار ہے ، اس کو جنرل صاحب ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ہم اُن سے عرض کریں گے کہ سب سے بڑا ہنگامی مسئلہ اللہ کی ناراضگی ہے ، ہم نے سود کی لعنت کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے ۔ آپ اس جنگ کے خاتمے کی طرف پہلا قدم اُٹھوا دیجئے ۔ پھر ہم نے 75 برس سے اللہ سے وعدہ خلافی اور بے وفائی کی روش اختیار کر رکھی ہے ،ا س کا ازالہ کروانے کی طرف قدم بڑھوا دیجئے ، پھر ان شاء اللہ ، اللہ کی رحمت بھی آئے گی ، بشارت بھی آئے گی ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} (محمد)’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
سب کچھ کر کے دیکھ لیا ،اب آئیں اللہ کی طرف لوٹیں، اپنی نافرمانیوں سےتوبہ کریں ، اللہ کو راضی کریں اوراللہ کی شریعت کے نفاذ کی طرف پیش قدمی کریں۔ اس کے سوا اس مملکت کا کوئی حل نہیںکیونکہ باقی 56 ممالک نے دعویٰ نہیں کیا تھا ، ہم نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم یہاں اسلام کو غالب کریں گے لیکن پھر ہم نے غداری کی ۔ اس غداری پر اللہ سے معافی مانگیں اور سچے دل کے ساتھ وعدہ کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔ اللہ کرے ہمارے دلوں کو اس طرف پھیر دے ۔ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا: اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان اللہ کے بندوں کے دل ہیں ، اللہ تعالیٰ جب چاہے پھیردے، اسٹیبلشمنٹ ہو ، حکمران ہوں ، سیاستدان ہوں ، عوام ہوں ، ہم سب پر اختیار تو اللہ تعالیٰ کا ہی ہے ، وہ جب چاہیے ہمارے دلوں کو پھیر دے مگر اس کے لیے ہمارے دلوں میں ہدایت کی طلب تو ہو ۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے :
{وَیَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ(13)} (الشوریٰ)’’اور وہ اپنی طرف ہدایت اُسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اس بات کی سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!