(اداریہ) آئی ایم ایف اور پاکستان (۱) - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاآئی ایم ایف اور پاکستان

اُنیسویں صدی کے اختتام اور بیسوی صدی کے آغاز میں ہی یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ سامراجی قوتیں اب تیسری دنیا پر اپنی عسکری گرفت مضبوطی سے قائم نہ رکھ سکیں گی۔ اس سے پہلے برطانیہ اگرچہ دوسری یورپی قوموں سمیت تمام مخالف قوتوں کو شکست دے کر ایک ایسی سلطنت قائم کر چکا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ انگریزوں کے راج میں یعنی اُن کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جو دنیا کے مختلف علاقوں میں آزادی کی سوچ پیدا ہوئی تو سامراجی قوتوں خاص طور پر انگریزوں نے یہ سمجھ لیا کہ آنے والے وقت میں براہِ راست اور عسکری حاکمیت قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا، لہٰذا اُنہوں نے اس منصوبہ پر کام کرنا شروع کر دیا کہ مقبوضہ علاقوں سے physical withdrawal کے بعد بھی ذہنی اور فکری تبدیلی لاکر عملاً ان قوموں پر قبضہ قائم رکھا جائے۔ بیسوی صدی کے وسط سے اس منصوبے پر بڑی تیزی سے عمل درآمد شروع ہوگیا اور عالمی سطح پر ایسے ادارے قائم کیے گئے جن کے ذریعے ان اقوام کو ظاہری طور پر آزادی دینے کے باوجود عملاً اپنے تحت رکھا جائے اور اُن کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کرائی جائے۔ لہٰذا سیاسی سطح پراقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل جیسے ادارے قائم کیے گئے اور اقتصادی سطح پر IMF اور ورلڈ بنک جیسے ادارے وجود میں لائے گئے۔ اگرچہ یہ معاملہ یکطرفہ نہ تھا۔ تیسری دنیا کے جن ممالک کو مخلص قیادت مل گئی وہاں سامراجی کامیاب نہ ہو سکے۔ جیسے چین وغیرہ اور کچھ ممالک کچھ عرصہ کے لیے اُن کے ٹریپ میں آنے کے بعد اس سازش کو سمجھ گئے اور الگ ہوگئے جیسے ملائیشیا، بھارت وغیرہ۔ بدقسمتی سے پاکستان کی مفاد پرست قیادت نے قوم کو اس اقتصادی جال میں اس طرح پھنسا دیا ہے کہ نکلنے کی کوئی راہ نہیں مل رہی۔ پاکستان ایک ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے کہ اگر اسی نظام میں رہ کر ہاتھ پاؤں مارے گا تو مزید پھنستا چلا جائے گا۔ پاکستان کو ایک مخلص انقلابی قیادت کی ضرورت ہے۔
ہماری داستان کچھ یوں ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے 9 ماہ کے سٹینڈ بائی معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے 3ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دے دی ہے۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے منظوری کے بعد 1.2 ارب ڈالر فوری طور پر جاری کردیے گئے ہیں۔ بقیہ دواقساط سہ ماہی بنیادوں پر دو جائزوں کے بعد نومبر 2023ء اور فروری 2024ء میں جاری کی جائیں گی۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے تعلق کی تاریخ کا مختصر جائزہ لے لیتے ہیں۔ صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے تین پروگرام ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے چار پروگرام ہوئے۔ صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شرکت کی۔پی پی پی کی دوسری حکومت میں بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شامل ہوا۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی حکومت میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان نے شمولیت اختیار کی۔بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے تین پروگراموں میں شامل ہوا۔ نواز شریف کی دوسری وزارت عظمیٰ میں پاکستان نے دو آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت اختیار کی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں دو آئی ایم ایف پروگرام ہوئے۔ پی پی پی کی 2008 ءسے 2013 ءمیں بننے والی حکومت میں ایک پروگرام، پاکستان مسلم لیگ نواز کی 2013ء سے 2018 ءکی حکومت میں ایک پروگرام اور پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان شامل ہوا جو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نواز لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت نے جاری رکھا۔
حقیقت یہ ہے کہ 1988ء کے بعد تو پاکستان میں جو بھی حکومت آئی اس کے آتے ہی یہی نعرہ لگا کہ ’چلو چلو آئی ایم ایف چلو۔‘ پھر یہ کہ پاکستان کو ’پل اور پش‘ فیکٹر کے ذریعے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل کیا گیا اور یہ معاملہ آج تک جاری ہے۔ آئی ایم ایف امریکہ کے زیر اثر ہے۔ اس لیے وہاں سے ’پل‘ کیا گیا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام میں لاؤ اور یہاں سے ہماری حکومتوں نے ملک کو اس آئی ایم ایف کی جانب ’پش‘ کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر جانے والی حکومت نے آنے والی حکومت کے لیے معاشی حالات اتنے خراب چھوڑے کہ ملک کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں بچا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے لیے ٔجانے والے قرضوں کی بات کی جائے تو ایک دلچسپ صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو ملنے والے قرضے طویل اور بڑے ہوتے ہیں۔ طویل سے مراد قرضوں کی واپسی کا عمل ہے۔ مثلاً سال 1958ء سے 1977 ءکے درمیان اس کی مدت ایک سال تھی۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران لیے گئے تمام قرضے بیل آئوٹ پیکجز یا اسٹینڈ بائے معاہدے تھے۔ سال 1980 ءسے سال 1995 ءکے درمیان پاکستان آئی ایم ایف کے 7 پروگرامز سے منسلک رہا، جن میں سے ایک کے سوا سارے قرضوں کی واپسی کی معیاد ایک سے دو سال رہی۔ سال 1997 ء سے سال 2013 ءتک آئی ایم ایف سے 6.4 ملین کا قرضہ لیا گیا، جو آئی ایم ایف کے 6 مختلف پروگرامز کے تحت حاصل کیا گیا، ان میں ایک کے سوا سارے پروگرامز کی میعاد تین سال تھی۔
آئی ایم ایف سے حاصل کیے گئے قرضے کی 2019ء تک تفصیلات یہ ہیں کہ پاکستان نے 1958ء میں 0.03ارب ڈالر، 1965ء میں 0.04ارب ڈالر، 1968ء میں 0.1ارب ڈالر، 1972ء میں 0.1 ارب ڈالر، 1973ءمیں 0.1ارب ڈالر، 1974ء میں 0.1 ارب ڈالر، 1977ء 0.1 ارب ڈالر، 1980ء میں 1.3 ارب ڈالر، 1981ء میں 1 ارب ڈالر، 1988ء میں 0.7 ارب ڈالر، 1993ء میں 0.3 ارب ڈالر، 1994ء میں 1.2 ارب ڈالر، 1995ء میں 0.6ارب ڈالر، 1997ء میں 1.1 ارب ڈالر، 2000ء میں 0.5 ارب ڈالر، 2001ء میں 1 ارب ڈالر، 2008ء میں 7.2ارب ڈالر، 2013ء میں 4.4 ارب ڈالر، 2019ء میں 6 ارب ڈالر۔ اب پاکستان آئی ایم ایف کا 23 واں پروگرام حاصل کر چکا ہے۔ گزشتہ چند برس کے دوران آئی ایم ایف کے پروگرام کی خاطر پاکستان درجنوں شرائط پوری کر چکا ہے۔ جن میں درج ذیل قابلِ ذکر ہیں: سٹیٹ بنک آف پاکستان کی خود مختاری میں اضافہ۔ ڈیزل، پیٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ۔ اپریل 2022ء میں پیٹرول 149 روپے فی لیٹر تھا اور گھریلو صارفین جو 200 یونٹ سے کم استعمال کرتے تھے اُن کے لیے فی یونٹ بجلی کی قیمت 18 روپے تھی۔ جولائی 2023ء میں پیٹرول 262 روپے فی لیٹر اور انہیں صارفین کے لیے بجلی 35 روپے فی یونٹ تک جاپہنچی ہے۔ پھر اِسی دوران قدرتی گیس کی قیمت میں 80 تا 180 فیصد اضافہ ہوا۔ ہر قسم کی سبسڈی کا بتدریج خاتمہ ہوا، جس سے غریب اور متوسط طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ اور عوام الناس کا کچومرنکل گیا ہے۔
(جاری ہے…)