(الہدیٰ) حضرت سلیمان ؑ کا اپنے لشکر کا معائنہ اور ہُدہُد کی غیر حاضری - ادارہ

9 /

الہدیٰ

حضرت سلیمان ؑ کا اپنے لشکر کا معائنہ اور ہُدہُد کی غیر حاضری


آیت 20{وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَآ اَرَی الْہُدْہُدَ ز اَمْ کَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ(20)} ’’اور اُس نے پرندوں کے لشکر کا معائنہ کیا تو کہا کہ کیا بات ہے مجھے ہد ہد نظر نہیں آ رہا؟ کیا وہ غیر حاضر ہے؟‘‘
آیت 21{لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّہٗٓ } ’’میں اُسے بہت سخت سزا دوں گا ‘ یا اُسے ذبح کر ڈالوں گا‘‘
اس اجتماعی حاضری (parade)کے موقع سے غیر حاضر ہو کر اس نے بہت بڑا جرم کیا ہے اور اسے اس جرم کی سزا ضرور بھگتنا ہو گی۔
{اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ (21)} ’’یا وہ میرے پاس کوئی واضح دلیل لے کر آئے۔‘‘
ہاں اگر وہ کوئی ٹھوس عذر پیش کر کے اپنی اس غیر حاضری کا جواز ثابت کر دے تو سزا سے بچ سکتا ہے۔
آیت 22{فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ } ’’تو کچھ زیادہ دیر نہیں گزری (کہ ہدہد پہنچ گیا)‘‘
{فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍ م بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ(22)} ’’تواُس نے کہا کہ مَیں نے وہ کچھ معلوم کیا ہے جو آپؑ کو معلوم نہیں‘اور مَیں آپؑ کے پاس قومِ سبا سے متعلق یقینی معلومات لے کر آیا ہوں۔‘‘
قومِ سبا یمن کے علاقے میں آباد تھی اور اُس وقت بلقیس نامی ایک ملکہ اس قوم پر حکمران تھی۔

درس حدیث

عاشورا کے دن روزے کی فضیلت

عَنْ اَبِیْ قَتَادَہ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ ﷺ:((وَصِیَامُ یَوْمِ عَاشُوْرَاءَ اَحْتَسِبُ عَلَی اللہِ اَنْ یُّکَفِّرَ السَّنَۃَ الَّتِیْ قَبْلَہٗ))
حضرت ابو قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’مجھے امید ہے کہ عاشورا ٕ کے دن کا روزہ گزشتہ سال کے گنا ہوں کا کفارہ ہو جائےگا۔‘‘
تشریح:’’عاشوراء ‘‘ عشر سے ہے جس کا معنی ہے10 اور محرم کی دسویں تاریخ کو عاشورا کہا جاتا ہے۔یوم عاشورا بہت ہی عظمت و تقدس کا حامل ہے۔ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھر پور فیض اٹھانا چاہیے۔ احادیث طیبہ سے یوم عاشورا ٕمیں دو چیزیں خصو صیت سے ثابت ہیں ،اول۔روزہ،اس سلسلے میں روایات گزر چکی ہیں ،لیکن یہ بات یاد رکھنی چا ہیے کہ احادیث میں نبی اکرم ﷺ نے کفار و مشرکین کی مشابہت اور یہود و نصاریٰ کی بودوباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے،اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشورا ٕکا روزہ رکھنا یہود یوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا۔دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا،اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر ﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشورا ٕ کے ساتھ ایک دن کاروزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ رکھو۔اور اگر کسی وجہ سےنویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو،تاکہ یہود کی مخالفت ہو جائے۔