(کارِ ترقیاتی) کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون - عامرہ احسان

9 /

کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکونعامرہ احسان

ہم جس دور میں جی رہے ہیں اس میں چہار جانب سائنس اور ٹیکنالوجی کی مبہوت کن، برق رفتار کار فرمائی کی چکاچوند ہے۔ نبیﷺ کی نبوت نے جس دور کا افتتاح کیا، وہ علم کا دور تھا۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ ہمہ نوع علوم وسعت پذیر ہوتے چلے گئے۔ پہلی وحی سے ہمیں علم کے آداب سکھائے گئے۔ آسمان وزمین، خالق ومخلوق مابین رابطے، ہم کلامی کا شرف ’اقرا‘ سے شروع ہوا۔ پڑھو! رب کے نام کے ساتھ پڑھو!)’رب!‘جس نے پیدا کیا۔(صرف تخلیق نہیں۔ ربوبیت: یعنی پرورش تعلیم، تربیت، باریک بینی سے تہذیب سکھانے والا!)عین وہی جو ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی کہانی میں سلام کرنا سکھاتے، چھینک آنے پر کلمات، علم الاسماء، علم الاشیاء اور پھر تکمیلی علم ِحقیقی، نبوت سکھاتے دیکھا۔ جسم وروح دونوں کا جامع کامل علم۔ ہمارے باپ آدم اور اماں حوا، علم کی روشنی سے منور، الٰہی مدرسے سے، جنت کی پاکیزہ پُرفضا لگژری میں تعلیم سے فیض یاب ہوکر اس سیارے پر لاآباد کیے گئے۔ زمین کو ان کی تمام ضروریاتِ زندگی کے مطابق ہموار کیا گیا۔ ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں۔ یہ گنبدِ افلاک یہ خاموش فضائیں۔ یہ کوہ یہ صحرا، یہ سمندر یہ ہوائیں!
ہم خاتم النبیینؐ کے امتی،آخری پیغام سے نوازے گئے۔ ظاہری علوم اب اس دور میں غیرمعمولی حدوں کو چھونے تھے، باطنی علوم بھی مکمل حفاظت کے ساتھ اس پتلا خاکی کے جوہرِ اصلی کے تحفظ اور ارتقاء کے لیے عطا ہوئے۔ خودی شناس اقبال نے فرشتوں کی زبان سے آدمؑ کو زمین پر اترتے ہوئے الوداعیہ کلمات میں کہلوایا تھا:
گراں بہا ہے ترا گریۂ سحر گاہی
اسی سے ہے ترے نخل کہن کی شادابی!
قیمتی ترین متاع؟ گریۂ سحر گاہی!مسلمان بیک وقت گنبدِ افلاک میں تحقیق وتجزیہ اور گریۂ سحر گاہی لیے ہوئے دنیا پر حکمران تھا۔ یورپ چھٹی صدی عیسوی کے تاریک دور سے 14ویں صدی تک علم وفضل سے دور بلکہ(چرچ کے ہاتھوں)اسے گردن زدنی قرار دیتا رہا۔تین براعظموں تک مسلم حکمرانی پھیلی ہوئی تھی۔ 800ء تک ایران عراق علومِ فلکیات اوررصدگاہوں کے مراکز بن چکے تھے۔ دیگر شعبوں کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔ مگر دورانِ خون کا نظام بھی مسلم سائنس دان ابنِ نفیس نے ولیم ہاروے سے 300 سال پہلے دریافت کرلیا تھا لیکن مشہور ولیم ہاروے ہوا۔(مشہوری کا فن ان کے پاس رہا!)پھر یہ سب یورپ والے ہمارے علم کے موتی، کتابیں’ہمارے‘آباء کی لے گئے، اپنے ہاں انہوں نے علوم کی آبیاری کی۔ آج بھی چاند پر 24گڑھے (Crater)مسلم سائنس دانوں اور 200ستارے مسلمانوں کے نام پر ہیں جو ان علوم پر اعلیٰ دسترس کے حامل تھے۔پھر دنیا پرستی نے ہمیں کند ذہن، کسل مند کردیا۔ اب وہی ہم ہیں کہ:
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے
آج اللہ کی پہچان سے عاری، انبیاء کی تعلیمات جھٹلاکر اپنا ناطہ ڈاروینی بندر سے جوڑکر بے خدا سیکولر مغرب ان علوم بحرِ بے کنار کا شناور ہے۔
قرآن جابجا انسان کو عظیم وبرتر رب کی شاندار نشانیوں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ مبہوت کن حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ اللہ سورۃ الواقعہ میں اپنی نشانیوں پر متوجہ کرنے کے بعد فرماتا ہے۔’’پس اے نبیؐ اپنے ربِ عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔ پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں تاروں کے مواقع کی، اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے کہ یہ ایک بلندپا یہ قرآن ہے، ایک محفوظ کتاب میں ثبت، جسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا۔ یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے‘۔ (80-74)چلیے اللہ کی کائنات میں جھانک کر کچھ مناظر دیکھتے ہیں۔ یہی بلیک ہول کا عکس دیکھیے جو ملکی وے کہکشاں میں محفوظ کیا گیا ہے۔ ملکی وے کہکشاں، خلاء میںہمارا گھر ہے۔ (یعنی جس میں ہماری زمین واقع ہے) یہ کہکشاں کم ازکم 100 ارب ستاروں پر مشتمل ہے۔ ہماری کہکشاں کے درمیان میں ایک جسیم خلائی وجود،M-87جو ہمارے سورج سے 4ملین (40 لاکھ)نا بڑا ہے کی خبر کئی دہائیوں سے تھی۔ بلیک ہول خلاء کے وہ حصے ہیں جہاں کشش ثقل اتنی بے پناہ ہوتی ہے کہ وہ سبھی کچھ نگل جاتے ہیں۔ ستارے، سیارے، گیس، ہر قسم کی برقی مقناطیسی ریڈی ایشن نگل جاتا ہے۔ M-87 ہماری زمین سے 54ملین نوری سال کے فاصلے پر ہے۔(روشنی ایک سال میں 5.9 کھرب کلومیٹر طے کرتی ہے جو ایک نوری سال کہلاتا ہے۔)
تاروں کے مواقع کی قسم جسے رب تعالیٰ نے بہت بڑی قسم کہا، کی ایک جہت ناساکی جیمز ویب خلائی ٹیلی سکوپ سے سامنے آتی تصاویر بھی ہیں۔ سالماتی بادل (Molecular Cloud) کی تصویر ہے جہاں ستارے اور سیارے پیدا ہوتے ہیں۔ ایک طرف زمین پر ننھے منے بلیوں، خرگوش کے بچے خوبصورت جیتے جاگتے ہمکتے نرم ملائم وجود، دوسری جانب مہیب سیاروں ستاروں کی پیدائش اور ان کے مقامات!{ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ خَالِقُ کُلِّ شَیْ ئٍ م لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ز فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ(62)} } (المؤمن) اللہ آیاتِ کائنات دکھا کر ہم سے یہ پوچھتا ہے ’’وہ ہے اللہ تمہارا رب جو ہر چیز کا خالق ہے۔اُس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ تو کہاں سے تم پھرائے جارہے ہو!‘‘
سو اطاعت، فرمانبرداری، ہر شعبۂ زندگی پر اقتدار وحکمرانی، ’الدین‘ اسی کا حق ہے۔ قرآن کی آیات پکارپکارکر رب تعالیٰ کی جو عظمت بیان کرتی ہیں اب ان کی تصدیق ہر آن سائنس ہمہ جہت کر رہی ہے۔ آج کے انسان کے پاس ’الحق‘ جھٹلانے کی گنجائش نہیں ہے۔ کجا یہ کہ مسلمان کے پاس؟ پلولر ازم کا جاہلی نظریہ آج کفرکی ضرورت ہے۔ یعنی یہ کہ ’میرا مذہب (بالخصوص اسلام) ہی سچائی کا مصدر نہیں ہے۔ دیگر مذاہب میں بھی حق ہوسکتا ہے۔ مختلف مذاہب عالمگیر سچائی کی الگ الگ تعبیرات ہیں۔ اسلام کو کوئی امتیاز حاصل نہیں۔‘ (ساری جہالتوں کی یکجائی لیے مغرب اور گئوموترا، بت پرستی میں ڈوبا بھارت؟) رہی جہنم کی شدت اور کھولاؤ… تو سورج کو دیکھ لیجیے۔ زمین جیسی 10 لاکھ زمینیں اس میں فٹ ہوسکتی ہیں۔ سورج کی سطح 10 ہزار فیرن ہاٹ درجے گرم ہے۔ مرکز میں یہ 27 ملین درجہ Fگرم ہے۔ جو نیوکلیر ری ایکشن کی بنا پرہوتا ہے۔ سورج ملکی وے میں 100 ارب ستاروں میں سے ایک ہے۔ سورج فی نفسہٖ آگ اگلتی ایک جہنم ہے۔ اللھم اجرنا من النار یا مجیر یا مجیر یا مجیر۔ ایمان لانے کو مزید کیا درکار ہے؟
اس سب کے باوجود ہم کائنات کے 95فیصد سے لاعلم ہی ہیں۔ یعنی جو بہت کچھ کیا، جانا جا چکا وہ صرف کائناتی علوم کا 5 فیصد ہے! (Euclid خلا ئی مشن کے سربراہ کے مطابق:AFPرپورٹ۔ 2 جولائی) اس 5فیصد پر ہمارے سیکولر پھولے نہیں سماتے اور اتنے محدود علم پر الحاد پر مصر ہیں۔ بغیر علم ولاھدی ولاکتب منیر… بلاعلم، ہدایت اور روشنی عطا کرنے والی کسی کتاب کے!ن پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے… سائنس، قرآنی ایمان کو یقین کی قوت عطا کرتی ہے۔ الحاد، نفس پرستی اور نفسانیت کا کریہہ مرض ہے۔ بے جڑ، بے بنیاد!
مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر شب کی سحر کر