(منبرو محراب) مسائل سے نجات کاراستہ:سچی توبہ - ابو ابراہیم

9 /

مسائل سے نجات کاراستہ:سچی توبہ

(قرآن و حدیث کی روشنی میں )

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ کے06جنوری2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
آج جمعہ کی نشست کے لیے جوعنوان معین کیا گیا ہے ،وہ ہے :مسائل کے حل کاراستہ :سچی توبہ۔ اس حوالے سے کچھ بنیادی باتیں ہیں جوہماری یاددہانی کے لیے ہیں۔ اس کے علاوہ مسائل و مشکلات کی وجوہات کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں گے تاکہ ان کا حل واضح ہو کر ہمارے سامنے آ جائے ۔
پہلی بنیادی بات
یہ زندگی جواللہ نے ہمیں عطا فرمائی ہے یہ ایک ہی مرتبہ دی گئی ہے۔دنیا میں ہمارے بچوں کے امتحانات ہوتے ہیں۔اگر ایککوشش میں فیل ہوگئے تودوسری کوشش میںپیپردے دیں گے ۔ لیکن اللہ نے ہمیں جس امتحان میں ڈالا ہے وہ صرف ایک مرتبہ ہونا ہے ۔ جیسے انگلش میں کہتے ہیں : Now Or Never۔ یعنی یہ جو مہلت عمر ہمارے پاس ہے اسی کو اختیار کرکے آخرت کی تیار ی ہم نے کرنی ہے۔ قرآن حکیم بتاتاہے:
’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘ (الملک:2)
اس آیت میں ایک نکتہ ہے ۔ یہاں صرف عملاً نہیں کہاگیا بلکہ احسن عملاًکہاگیا۔ یعنی مطلق اعمال نہیں بلکہ کوالٹی والے اعمال کی ضرورت ہے ۔ اخلاص کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق،للہیت کے ساتھ ،آخرت میں اجرکی نیت سے جو اعمال کیے جائیں گے وہی کسوٹی پر پورے اُتریں گے۔ زندگی کے اس امتحان میں مختلف نشیب وفراز آتے ہیں ۔کبھی صبر کے مراحل ہیں اور کبھی شکرکے مراحل آتے ہیں۔ گو کہ انسان صبروالے مراحل کاتاثر زیادہ لیتاہے حالانکہ شکروالے مراحل اور پہلو نسبتاًز یادہ ہوا کرتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص بیماری میں مبتلا ہے ۔ اس میں شکرکاپہلو یہ ہے کہ میں زندہ ہوںاورمیری بیماری زیادہ شدید نوعیت کی نہیں ہے۔ یعنی یہ بھی آزمائش ہے لیکن اس کے اندر بھی شکرکاایک پہلو آ جاتاہے۔اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں انبیاء ورسل کے واقعات ہمارے سامنے رکھتا ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی کہ یارب ! مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو نہ ملے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت کچھ عطا کیا لیکن وہ فرماتے تھے :
{لِیَبْلُوَنِیْٓ ئَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُط} ’’تا کہ وہ مجھے آزمائے کہ کیا میں شکر ادا کرتا ہوں یا نا شکری کرتاہوں۔‘‘(النمل :40)
یعنی میرااللہ امتحان لے رہاہے کہ میں شکرادا کرتا ہوںیا نہیں۔ ایوب علیہ السلام کے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑ 18برس تک جلد کی بیماری میں مبتلا رہے لیکن صبر اور شکر کا دامن نہیں چھوڑا ۔ اللہ نے شکراور صبر کے پہلو بھی اپنے انبیاء کے ذریعے ہمارے سامنے رکھ دیے۔بی بی فاطمہ الزہرۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب مصائب تمہیں پریشان کریں تومیرے اباجان(نبی مکرم ﷺ) کو یاد کیاکرو۔اللہ کے رسولﷺ نے خود یہ ارشاد فرمایاکہ جتنا مجھے اللہ کی راہ میں ستایا گیا،جتنے مصائب مجھ پرآئے ہیں وہ کسی پر نہیں آئے ہیں۔ سبق یہ ہے کہ دنیا کی یہ مختصر زندگی ایک امتحان ہے ۔ جس نے اس امتحان میں شکر اور صبر کا دامن نہ چھوڑا وہ آخرت کی دائمی زندگی میں کامیاب ہو جائے گا ۔ یہ دنیا کی زندگی تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ آنکھ بند مہلت عمر ختم ۔ وہ مہلت کسی وقت بھی ختم ہوسکتی ہے۔ لیکن بہت بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم مرنے کو تیار ہیں ؟ یہ سوال بار بار اپنے آپ سے بھی کرنا چاہیے تاکہ ہم امتحان کی تیاری کی فکر کریں اور اس امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے اللہ اپنی کتاب اور رسول ﷺ کے اسوہ کوہمارے سامنے رکھتاہے ۔
دوسری بنیادی بات
اس زندگی کے دوران بدلتے حالات میں مشقتیںبھی آتی ہیں ۔یہ مشقتیں کچھ فطری ہیں لیکن کچھ میں آزمائش کے پہلو بھی ہوتے ہیں ۔ کبھی اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے کہتاہے کہ تمہیں امتحانات سے گزارا جائے گا۔ سورۃ البقرۃ میں فرمایا:
’’اورہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے اور (اے نبیؐ) بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوںکو۔‘‘ (آیت: 155)
آزمائشیں بیماری ،کاروباری نقصان،اولاد کے انتقال یاکسی اور مصیبت کی شکل میں آتی ہیں اور آزمائشیں اللہ کی خدا میں، اللہ کے دین کے لیے محنت کے راستے کے دوران میں بھی آیا کرتی ہیں ۔قرآن حکیم جس صبر کا ذکر ہمارے سامنے رکھتاہے اس کا ایک بہت ہی مختصر پہلو عام طورپر ہمارے ذہنوں میں رہتاہے ۔ پیرمیں کانٹاچبھ جائے تو یہ بھی صبر کا مرحلہ ہے ، حدیث میں ذکر ہے کہ ثواب ملتاہے ۔چراغ بجھ جائے تواللہ کے رسول ﷺ نے پڑھا: اناللہ واناالیہ راجعون!بالکل صبرکاموقع ہے۔ انتقال ہوجائے توپڑھ لیں :اناللہ واناالیہ راجعون!آنسو بھی بہا سکتے ہیںکیونکہ جناب ابراہیم کے انتقال پر حضورﷺ نے بھی آنسو بہائے تھے مگر آپﷺ کے الفاظ تھے :آنکھ آنسو بہاتی ہے،دل بھی غمگین ہے مگر زبان پروہی ہوگا جس سے اللہ راضی ہو۔یہ ہے توازن جوسنت ہمیں عطا کرتی ہے۔ بہرحال انفرادی معاملات میں اس طرح کی جو آزمائشیںہم پر آتی ہیں ان پر صبرکرنا اس صبر کا 10فیصد بھی نہیں ہے جس کا تصور قرآن دیتا ہے۔ صبرکابڑا حصہ و تواصوبالحق وتواصوبالصبر والاہے ۔ یعنی حق بیان کرنا،حق کا پرچار کرنا،حق کاعلم بلند کرنا،اس کے لیے محنت اور جدوجہدکرنا ، اللہ کی اطاعت کے لیے، دین کے غلبہ کی جدوجہد میں مشقتوں سے گزرتے ہوئے صبر کرنا، گناہوں میں جو کشش ہوتی ہے اس کے ہوتے ہوئے بھی گناہوں سے خود کو روکنا بھی صبر ہے ۔ دنیا کی لذتوں اور خواہشات سے بندہ اس لیے دور رہے کہ آخرت برباد نہ ہو جائے یہ بھی صبر ہے ۔ پھر حق بیان کرنے کے نتیجے میں باطل کی طرف سے جو ردعمل آئے ، باطل قوتیں اس کے نتیجہ میں آپ کا جینا مشکل بنا دیں تو اس صورت میں اللہ کی رضا کے لیے صبر کرنا اور استقامت کا مظاہرہ کرنا بھی صبر ہے ۔
’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘(الاحزاب:21)
حضورﷺ کی پوری زندگی دیکھ لیں۔ خواہ وہ طائف کی گلیوں میں بہتا لہو ہو ، سفر ہجرت کی تکالیف ہوں ، بدر کا موقع ہو،جنگ خندق کے دوران پیٹ پر پتھر باندھنے کا معاملہ ہو ، پھر اُحد میں اپنے پیارے صحابہ ؓ کی لاشوں کو دیکھنے کا مرحلہ ہو ، سب صبر کے مراحل تھے ۔ اللہ کی راہ میں ان سب آزمائشوں، مشقتوں اور مشکلات کو برداشت کرنا صبر کا وہ بڑا حصہ ہے جس کو قرآن نمایاں کرتا ہے اور اس پر اجر و ثواب بھی بیان کرتاہے ۔
بدلتے حالات میںمشقتوںاورمصائب کا آنا فطری امرہے اوریہ زندگی کے اس امتحان کاتقاضا ہے لیکن اس دوران یہ سوچنا کہ اللہ مجھے آزما رہا ہے یا مجھے کوئی سزا تو نہیں دی جارہی یا یہ آزمائش میرے لیے کسی رحمت کا باعث بنے گی ، یہ وہ حساس نکتہ ہے جس کی اسلاف نے وضاحت فرمائی۔ اگر وہ سامنے رہے تومعاملہ بڑ ا واضح ہو جاتاہے ۔ مصائب کبھی اس لیے بھی آتے ہیں کہ بندوں کی تربیت مقصود ہوتی ہے ۔اللہ بندے کوایک امتحان میں ڈالتا ہے ، اس کے رویے کو دیکھتاہے اگراس کا رویہ مثبت اور اللہ کی رضا والا ہے تو یہ مصائب اس کے لیے اجروثواب کا باعث بن جاتے ہیں۔ حدیث میں آتاہے کہ ایک شخص کے بچے کاانتقال ہوگیا،فرشتے نے روح قبض کرلی۔ اللہ نے فرشتے سے پوچھا: تم نے میرے بندے کو کس حال میں پایا؟فرشتہ عرض کرتاہے :اے اللہ! تیرے بندے نے اس موقع پربھی تیری رضا پر راضی رہنے کاثبوت پیش کیا اور تیرا شکر ادا کیا۔ اللہ فرماتاہے :اس بندے کے لیے جنت میں محل تعمیر کرواوراس کا نام رکھو:بیت الحمد۔ یہ گھراللہ بندے کواس شکرگزاری پرعطا فرمائے گا۔اسی طرح ایک حدیث میں آتاہے کہ اللہ ایک بندے کو بلندمقام اور درجہ عطا فرماناچاہتاہے مگربندے کے اعمال ایسے نہیں کہ وہ وہاں تک پہنچ سکے ۔ چنانچہ اللہ اس بندے کو امتحان اور آزمائش میں ڈالتاہے اوربندے کو صبر کی توفیق بھی دے دیتا ہے۔یہ بندہ صبرکرتاہے اور اللہ یہ بلند درجہ اس کو عطا فرماتاہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیسے پتہ چلے گاکہ جو مصیبت یا مشکل آئی ہے یہ آزمائش ہے یا سزا ہے ؟اس کا حل یہ بتایا گیا کہ آزمائش کے وقت بندے کے قلب کی کیفیت کیسی ہے ؟ قرآن کہتاہے : {مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط}(التغابن :11) ’’نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اذن سے۔‘‘
اگر آزمائش کے وقت بندہ اناللہ واناالیہ راجعون کے الفاظ بھی اداکرتاہے، اللہ کے فیصلے پرراضی رہتاہے اور شکوہ شکایت نہیں کرتا تو اس قلبی کیفیت کے ساتھ بندے کو یقین رکھنا چاہیے کہ یہ آزمائش اس کے لیے مثبت ہے ۔ یعنی یہ اس کے لیے اجروثواب ، کئی گناہوں کی معافی اور کئی درجات کی بلندی کا باعث بنے گی۔ لیکن اگر بندے کے قلب کی کیفیت شکوہ شکایت والی ہے کہ میرے ساتھ ہی یہ ہونا تھا ، میرا ہی گھر اللہ کوملا تھا ، مجھ پر ہی یہ مصیبت ٹوٹنی تھی تو اس کا مطلب ہے کہ بندہ رب کے فیصلے پر راضی نہیں ہے ، یہ خطرناک معاملہ ہے کیونکہ یہ معاملہ بندے کے لیے سزا کاباعث بن سکتاہے اور اس صورت میں بندے پر مصیبت اس کے کرتوتوں کی وجہ سے ہی آتی ہے۔
آزمائش میں ایک پہلویہ بھی ہے کہ کبھی اللہ بندے کو آزمائش میں مبتلا کرتاہے توبندے کا دل نرم ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات ہمارے مشاہدے میں آتے رہتے ہیں ۔ہمارے ہاں قرآن اکیڈمی میں لوگ کورسز کرنے کے لیے آتے ہیں توہم ان سے پوچھتے ہیں کہ زندگی میں یہ تبدیلی کس طرح آئی کہ آپ دین کی طرف آگئے ۔ ایک صاحب نے کہاکہ شادی کے پندرہ ماہ بعد ہی بیوی کاانتقال ہوگیا ۔ بڑی نیک بیوی تھی ۔اس کے بعد میں بہت مشکلات میں گھر گیا ۔ لیکن پھرمیرادل نرم ہوا۔میںنے اللہ کی طرف رجوع کیااور اللہ تعالیٰ نے میری زندگی بدل دی۔ایک صاحب نے اپنے بارے میں بتایا کہ اللہ نے مجھے بہت ہی خوبصورت دو بچوں سے نوازا تھا، دونوں اللہ نے واپس لے لیے تو میں بڑا ٹینشن اور فرسٹریشن کاشکار ہوگیا۔ لیکن دل میں نرمی آئی تومیں اللہ کے سامنے رویا۔اللہ نے میری زندگی کوبدل دیا۔بہرحال کبھی یہ بھی ہوتاہے کہ مشکل وقت آتا ہے ، کوئی تلخ حقیقت سامنے آتی ہے اور بندے کا دل نرم ہو جاتاہے تو پھر اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے جیسے فرمایا :
{فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(5)} (النشرح:5) ’’تو یقینا مشکل ہی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
مشکل کے بعد آسانی ہوجائے گی ۔ بندے کو رجوع الی اللہ کی توفیق مل جائے گی ۔وہ اللہ کی طرف پلٹ آئے گا،وہ اللہ کے سامنے رونے لگے گا، گڑگڑانے لگے گاتو اللہ حالات بھی سنوار دے گا۔ روحانی ترقی بھی ہوجائے گی اورآخرت جواصل مسئلہ ہے اس کی تیار ی میں وہ لگ جائے گا۔بہرحال یہ تین نکتے ہیں ۔ ان کوسامنے رکھیں تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب تاکہ وہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا‘‘ (الروم:41)
یہ اللہ کی شان کریمی ہے کہ وہ ہرگناہ پر انسان کو نہیں پکڑتا، ہرکرتوت پرسزا نہیں دیتا بلکہ بعض پرسزا دے رہاہے لیکن اس میں بھی مثبت پہلویہ ہے کہ :
{لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَo}(الروم:41)’’تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘
آنے والی سختیاں اللہ کی سنت رہی ہیں۔ مکی سورتوں میں ذکر آتا ہے کہ:
’’اور ہم نے نہیں بھیجا کسی بھی بستی میں کسی بھی نبی کو مگر یہ کہ ہم نے پکڑا اُس کے بسنے والوںکو سختیوں سے اور تکلیفوں سے تا کہ وہ گڑ گڑائیں ( اور ان میں عاجزی پیدا ہو جائے)۔‘‘ (الاعراف:94)
تاکہ ان میں عاجزی پیدا ہو جائے اور یہاں فرمایا :
{لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَo}(الروم:41)’’تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ موقع دیتاہے کہ بندے کا دل ذرا نرم ہو جائے اور وہ اللہ کی طرف پلٹ آئے ۔ اللہ معاف کرے کہ اگراس کے باوجود بھی دل نرم نہیں ہوتے تو پھر اللہ انہیں سخت بھی کر دیتا ہے ۔ جیسے قرآ ن میںیہود کے بارے میں فرمایا :
’’پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اس سب کے بعد‘پس اب تو وہ پتھروں کی مانند ہیں‘ بلکہ سختی میں ان سے بھی زیادہ شدید ہیں۔‘‘(البقرۃ:74)
اور اللہ کبھی ہمیں دوسرے اندازسے پوچھتاہے :
’’کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے اہل ایمان کے لیے کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد کے لیے اور اُس (قرآن) کے آگے کہ جو حق میں سے نازل ہو چکا ہے؟‘‘(الحدید:16)
بہرحال ہر آزمائش کا مثبت پہلویہ ہوتا ہے کہ لوگ اللہ کی طرف لوٹیں ۔ اگراس سہولت سے فائدہ اٹھایاجائے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ بندے کے لیے آسانی فرما دیتا ہے اور اسے عزت و تکریم عطا فرماتاہے ۔
اجتماعی مسائل اوران کاحل
اگلامرحلہ افراد سے نکل کراقوام کاہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں پچھلی قوموں کے حالات ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ ان قوموں کو بھی اللہ نے آزمائشوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ لوٹ آئیں لیکن جو قومیں اس کے باوجود بھی اپنی اصلاح کے لیے تیار نہ ہوئیں انہیں اللہ نے تباہ کرکے بعد والوں کے لیے عبرت کا سامان بنا دیا ۔ یہ عام اقوام کے لیے ہے جو شرک اورکفر کریں۔یعنی کافر اقوام کی سزا ۔
امت مسلمہ کے لیے اللہ کاقانون
بنی اسرائیل کے بعد نبی اکرمﷺ کی امت کو امت مسلمہ قرار دے دیاگیا۔یادرکھناچاہیے کہ اللہ کو اور رسولوں کونہ ماننے والوں کے معاملات الگ ہیں۔ ماننے والوں کے لیے اللہ کے معاملات اور قوانین الگ ہیں ۔ سابقہ اُمت (بنی اسرائیل) نے کتاب پس پشت ڈالی، حالانکہ اسی قوم کواللہ نے کہاتھا:
’’اے یعقوب کی اولاد! یاد کرو میرے اُس انعام کو جو میں نے تم پرکیااور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت عطا کی تمام جہانوں پر۔‘‘(البقرہ:47)
صدیوں تک بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ جاری رہا ، تورات ،زبور،انجیل ان کوعطا ہوئیں۔ اللہ نے ان کو بڑی بڑی بادشاہتیں بھی عطا کیں اوران کا دعویٰ بھی تھاکہ ہم اللہ کے بڑے چنیدہ بندے ہیں مگر انہوں نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا :
تو اہل ِکتاب میں سے ایک جماعت نے اللہ کی کتاب کو پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا‘‘ (البقرۃ:101)
اور وقت کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کاساتھ نہ دیا۔ پکارلگی کہ آئو یہ فلسطین کاعلاقہ ملنے والا ہے اس کوفتح کریں گے اور یہاں اللہ کی شریعت نافذ ہوگی لیکن قوم نے صاف انکار کر دیا ۔ پھران کے علماء نے کتابوں کے اندر تحریف کی، دنیا کی محبت میں ڈوبے ،دین کے ساتھ بے وفائی کامعاملہ کیا، پیغمبر کے مشن میں شریک نہ ہوئے تواللہ فرماتاہے :
’’اور ان پر ذلت ّو خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی‘گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔‘‘ (البقرہ:61)
ان کے بعد محمدرسول اللہﷺ کوآخری رسول بنا کر بھیجا گیا اورآپﷺ کی امت کو آخری امت قرار دیاگیا ۔ اللہ کا اصول وہی چل رہاہے ۔تمہیں کتاب دی ہے، پیغمبرﷺ کا مشن دیاہے ،دین کامل کرکے دیاہے اورتمہیں ہم نے چنا بھی ہے ۔
{ہُوَ اجْتَبٰـٹکُمْ}(الحج:78)’’اُس نے تمہیں ُچن لیا ہے‘‘
تمہیں خیرامت بھی قرار دیا:
’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘‘ (آل عمران:110)
اس لیے کہ تمہیں ایک عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے :
’’تم حکم کرتے ہو نیکی کااور تم روکتے ہو بدی سے‘‘ (آل عمران:110)
تمہیں ہم نے یہ بھی کہا:
’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ ‘تم پر گواہ ہو۔‘‘ (البقرۃ:143)
لیکن آج اس امت کی صورت حال کیاہے۔ کشمیر، فلسطین، بوسنیا، افغانستان،چیچینیا،برما میں کیاحالات ہیں۔ پچھلے سو برس میں سب سے سستاخون ہمارا بہا۔ 57مسلم ممالک ہیں مگر آج ہماری کوئی عزت نہیں، کوئی حیثیت نہیں۔ ذلت و رسوائی آج ہمارے مقدر میں ہے۔اسرائیل کا صہیونی وزیر جس طرح مسجد اقصیٰ میں وارد ہواہے ، پھرمسلمانوں کے گھروں کومسمار کرنے کی باتیںاور روزانہ کی بنیاد پر مسلمانوں کوشہید کرنے کی باتیں اور عربوں کاخیال ہے کہ ہمارا حصہ محفوظ رہے باقی جاتا ہے جاتا رہے ۔اناللہ و انا الیہ راجعون!یہ اس وقت ہماری صورت حال ہے ۔ ہم اپنے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ استاد محترم بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ اس شعر ؎
اپنی امت پرقیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ
کے ذیل میں فرماتے تھے کہ ہم آج اس لیے ذلیل و رسوا ہیں کہ اللہ نے جس مشن کے لیے ہمیں کھڑا کیا تھا ہم نے اس کو ترک کر دیا ۔ ہمیں الکتاب عطا کی گئی تھی کہ اس کے مطابق ہم دنیا میں نظام عدل قائم کریں لیکن ہم نے اس کتاب سے منہ موڑ لیا ۔ 57مسلم ممالک میں کوئی ایک علاقہ ایسا نہیں جو ہم دنیا کے سامنے پیش کرسکیں کہ آئو دیکھو یہ اللہ کادین ہے ۔ یہ ساری امت کاعظیم جرم ہے۔ ہمارے اس بڑے جرم کے نتیجے میں سزا کے طور پر ہم پر یہ سب مصائب آرہے ہیں۔ اجتماعی فیصلے اللہ اجتماعی اعمال کی بنیاد پرکرتاہے۔ ڈاکٹر اسراراحمد ؒ فرماتے تھے اس حوالے سے مجرم نمبر ایک عرب ممالک ہیں کیونکہ ان کی زبان میں الکتاب عطا کی گئی لیکن ان کی کسی ریاست میں آج شریعت نافذ نہیں ہے ۔ بلکہ اسرائیل اوریہودیوں کے لیے سعودیہ اوریواے ای نے سارے دروازے کھول دیے ۔ ان کے لیے پورے پورے شہرآباد کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔عرب حکمران اقتدار کی خاطر امریکہ کی غلامی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
عربوں کے بعد ایک اعتبار سے مجرم نمبرایک ہم ہیں ۔57مسلم ممالک میں سے باقی کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ اے اللہ !تیرے دین کے لیے ہمیںخطہ چاہیے۔ اگر تو ہمیں ملک عطا کر دے تو ہم وہاں تیرے دین کوقائم کریں گے ۔ اسی وعدے کی بنیاد پر مسلمانوں نے یہاں جانیں قربان کی تھیں ، اپنے گھر بار چھوڑے تھے ۔ یہ نعرہ لگایا کہ پاکستان کامطلب کیا:لاالٰہ الا اللہ ۔
جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ دھڑلے کے ساتھ غیر اسلامی قوانین بنائے جاتے ہیں اور ساری سیاسی جماعتیں ان خلاف شریعت قوانین کی حمایت میں کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ جیسے ٹرانسجینڈر قانون تھا ۔ اسی طرح سود کے خاتمے کے لیے بھی قومی سطح پر ہم سنجیدہ نہیں ہیں۔ 28اپیلیں اس وقت بھی سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں موجود ہیں۔ہمارے تمام مقتدر اداروں سمیت کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے حالانکہ گزشتہ پانچ مہینوںمیں تقریباً 17سو ارب روپے سودی قرضوں کی مد میں ہم دے چکے ہیں۔ بچاکیاہے ملک میں لگانے کو۔ اللہ اور رسولﷺ سے جنگ کا یہ نتیجہ ہے ۔ ہمارے تمام مصائب کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم اللہ سے کیے ہوئے وعدے سے پھرگئے۔
واحد حل:سچی توبہ
ان تمام مصائب کاایک حل سچی توبہ ہے لیکن یاد رکھیں صرف توبہ توبہ کہنے سے توبہ نہیں ہوگی بلکہ اصل توبہ پلٹنے کانام ہے ۔ انفرادی سطح پر توبہ یہ ہے کہ انسان گناہوںکو چھوڑ کر فرمانبرداری کی طرف پلٹ آئے ۔ اللہ کے ساتھ اورپھربندوں کے ساتھ معاملات کو ٹھیک کریں۔ انفرادی سطح پر یہ توبہ ہوگی تو پھر اجتماعی سطح پر بھی توبہ کا راستہ کھلے گا ۔ یہ ساڑھے پانچ چھ فٹ کے وجود پر شریعت کانفا ذ ہوگاتوپھر۲۲،۲۳ کروڑ پرشریعت کے نفاذ کی بات کرنے کا ہمارا منہ ہوگا ۔ لیکن اجتماعی فیصلے ہمارے اجتماعی اعمال کی بنیادپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیںاور اجتماعی توبہ یہی ہے کہ شریعت کے نام پرہم نے ملک کوحاصل کیاتو یہاں شریعت کے نفاذ کی جدوجہد شروع کی جائے ۔نوٹ کیجیے گاکہ کوئی کافر ہوتوفرعون بنے، شداد بنے ،نمرود بنے ، اللہ تعالیٰ ان کو دے گا اوراللہ نے ان کو دیاہے لیکن ہمیں اللہ کی طرف سے ایسے نہیں ملے گا۔ہم ماننے والوں کامعاملہ یہ ہے کہ اگر مانوگے تمہیں ملے گا۔ ارشاد ہوتاہے :
’’اور اگر انہوں نے قائم کیا ہوتا تورات کو اور انجیل کو اور اس کو جو کچھ نازل کیا گیا تھا ان پر اِن کے رب کی طرف سے تو یہ کھاتے اپنے اوپر سے بھی اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔‘‘(المائدہ:66)
اسی طرح خاص طور پر اس پاکستان کامسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے دین کے ساتھ غداری کی اوراس کے رسولﷺ کے ساتھ بے وفائی کی ہے ۔ اس لیے ہمارے مسائل ختم نہیںہورہے۔ اندرونی انتشار ، بیرونی پریشرز ، سب خرابیاں بڑھ رہی ہیں ۔ ہم نے سب کچھ کرکے دیکھ لیا ہے۔اسلام کاسافٹ امیج ، عورتوں کی میراتھن کرا کر دکھا دیا۔ ہم نے غداریاں کرکے دکھادیا،ہم نے امریکہ بہادر کو پہلے بھی اپنے اڈے دے دیے تھے اوراپنے ستر اسی ہزار بھائیوںکو شہید کروا ڈالا اوراب پھرہم امریکہ کے ساتھ پینگیں بڑھارہے ہیں ۔75برس میں امریکہ کے ساتھ رہ کرکون سے معاملات سدھرگئے ؟ یہ سارے کافرانہ طرزعمل اختیا ر کرکے کون سی ہمارے ملک میں دودھ کی نہریں بہہ گئیں؟ معاملات نہیں سدھریں گے جب تک ہم اللہ کی طرف پلٹیں گے نہیں ، بقول شاعر:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
میں اپنی ذات پرتواللہ کی شریعت کونافذ کروں۔میرے گھر میں تونفاذ ہو اورپھربھی میں بیٹھ نہ جائوں کہ میں نے دین کے تقاضے پورے کرلیے ۔ اب اجتماعی زندگی اختیار کرنا اور اجتماعی محنت کے لیے کھڑا ہونااورانقلابی جدوجہد کے لیے کھڑا ہونابھی بحیثیت اُمتی میرا فرض ہے تاکہ اللہ کی زمین پراللہ کی شریعت نافذ ہواوراگر اس کیفیت میں میری موت آجائے تومیں اللہ کے سامنے ہاتھ جوڑ کراپنی معذرت تورکھوںکہ مالک جہاں میرے بس میں تھا میںنے جان لگائی ہے اورجونظام میرے بس میں نہیںتھا وہاں میںنے جدوجہد کی ہے۔ یہ جدوجہد کرنافرض ہے اور یہ کفارہ ہوگااس بات کاکہ آج اس پورے دین پرعمل کرنے کی پوزیشن میںہم نہیں ہیں۔ کیاعجب کہ جدوجہد ہو اور اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اورہمیں توبہ کی توفیق دے دے۔ اللہ نے یونس علیہ السلام کی پوری قوم کو معاف فرما دیا تھاجب اس نے عذاب کے آثار دیکھے ، ان کے دل نرم ہوئے اور وہ اللہ کے سامنے جھک گئے ، اللہ نے عذاب کو ٹال دیا ۔ حقیقی توبہ یہ ہے کہ پہلے اپنے وجود پراور پھرملکی سطح پر معیشت،معاشرت،سیاست کے میدان میں اللہ کے دین کانفاذ ہو۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ اصل توبہ اور جب یہ ہوگی توپھراللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہمارے لیے اجتماعی فیصلے رحمت کی صورت لیے ہوئے آئیں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !