(اداریہ) ہوسِ زر و جاہ - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ

ایوب بیگ مرزا

ہوسِ زر و جاہ

اللہ رب العزت نے انسانوں کی اصلاح اور اُنہیں صراط مستقیم پر گامزن کرنے کے لئے وقفہ وقفہ سے انبیاء اور رسول بھیجے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ضابطے اور قوانین یعنی شریعت بھی لاتے رہے، جن سے اُس دور کے لوگ جاہلانہ عقائد اور دنیوی دولت و اقتدار کی خاطر اور اپنی برتری کو قائم رکھنے کی خواہش میں الجھتے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمدﷺ کو اپنی آخری کتاب قرآن مجید دے کر اپنی ہدایت کو آخری اور حتمی انداز میں انسان تک پہنچا دیا۔ اس کتاب کا خلاصہ اور نچوڑ یہ ہے کہ اے انسان! اللہ واحد ہی تمہارا خالق ، مالک اور رازق ہے اور اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضورﷺ کو حکم دیا کہ ان کے درمیان عدل قائم کریں اور انہیں بتا دیں کہ ان سب کو ایک روز اُسی کی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اور یہ وہ دن ہو گا جب کہ چھوٹا بڑا سب حساب چکا دیا جائے گا۔ پھر یہ کہ انسانی کمزوریوں کی خاص طور پر نشان دہی کر دی گئی۔ سورۃ الانفال کی آیت28 میںاللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے’’اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے اور یہ کہ اللہ کے پاس(نیکیوں کا) بڑا اجر ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی بنیادی کمزوری کی نشاندہی کر دی۔
ہم اپنی بات کو مسلمانوں تک محدود کرتے ہوئے امت مسلمہ کا عمومی اور مسلمانان پاکستان کا خصوصی جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن یہ جائزہ لیتے ہوئے ہمیں حضورﷺ کی اس حدیث مبارکہ کو ذہن میں رکھنا ہو گا جو سید نا کعب ؓبن عیاض سے مروی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’بے شک ہر امت کے لئے ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔‘‘ ندائے خلافت کے قارئین یہ تو جانتے ہی ہیں کہ عربی میں ’’فتنہ‘‘ آزمائش کو کہتے ہیں۔ گویا فرمان مبارک یہ ہے کہ میری امت کے لئے مال و دولت بہت بڑی آزمائش ہے۔ آزمائش میں انسان پورا بھی اتر سکتا ہے اور ہلاک بھی ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج امت اس آزمائش میں بُری طرح نا کام ہوتی نظر آتی ہے۔ عرب جو اسلام کی جائے پیدائش ہے، وہاں کی سرزمین نے جب سیال سونا اگلا اور دولت کی ریل پیل ہوئی تو وہ نظری طور پر اور عقیدہ کی سطح پر نہ سہی عملی طور پر اسلام سے دور بلکہ بہت دور ہو گئے۔ زندگی میں رنگینی آگئی۔ وہ عیش و عشرت میں پڑ گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود وہ ظاہری طور پر آزاد اور حقیقت میں غلام ہیں۔ وہ اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتے۔ امریکہ اور عالمی طاقتوں کے محتاج ہیں اور چھوٹا سا اسرائیل جس کی آبادی ایک کروڑ سے بھی کم یہودیوں پر مشتمل ہے، عربوں پر بُری طرح حاوی ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کے دعویدار عرب آج اپنی بقا اورسلامتی کے لئے اسرائیل اور یہودیوں کی منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اُن کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے فلسطینی بھائیوں کے خون سے اپنا ہاتھ رنگ رہے ہیں اور اُنہیں معاشی طور پر تباہ کرنے کے لئے اُن کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔
وطن عزیز پاکستان کا حال کسی طرح عربوں سے بہتر نہیں۔ عرب اپنے وسائل کو عیش و عشرت میں جھونک رہے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم مے بھی قرض کی پیتے ہیں۔ہم دنیا بھر میں کشکول لئے پھرتے ہیں اور بھکاری کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ دنیا ہمیں یہ قرض سود پر دیتی ہے۔ ہمارے حکمران ان قرضوں کو اپنے ٹھاٹھ باٹھ میں اُڑا رہے ہیں یا بڑی بڑی عمارتیں اور پل تعمیر کر کے غیرترقیاتی کاموں میں صرف کر رہے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ تین لاکھ روپے کے لگ بھگ مقروض ہوتا ہے اور یہ سودی قرض اُسے بالآخر ادا کرنا ہے۔ وگرنہ ہمارے قرض خواہ اتنے بھولے ، سیدھے اور مجبور نہیں ہیں۔ وہ قرض نہ لوٹانے والوں کا جینا حرام کر دیںگے۔ اُن کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات قرض خور نہ کرنا چاہیں گے اور نہ کر سکیں گے۔ اُنہیں جرأت رندانہ سے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ سود کے لین دین کی ہماری شریعت اجازت نہیں دیتی، یہ کسی صورت ادا نہیں کیا جائے گا۔ رہ گئی بات اصل زر کی تو وہ جب اور جیسے ممکن ہوا ادا کر دیا جائے گا۔
اب آئیے، اس طرف کہ جس شے کو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسولﷺ نے فتنہ (یعنی آزمائش) قرار دیا ہے پاکستانی معاشرہ نے اس حوالہ سے کس سطح کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم آخری درجہ تک اس میں ناکام ہوئے ہیں۔ ہماری یہ نا کامی نا قابل بیان اور نا قابل تحریر ہے۔ گزشتہ پون صدی کی تاریخ میں اپنی نا کامیوں کا سرسری جائزہ لینے کے لئے ایک ضخیم کتاب درکار ہو گی۔ دیگ سے چاول کا دانہ چیک کرنے کے لئے صرف حالات حاضرہ پر نگاہ ڈالیں۔
ملکی معیشت تاریخ کی بدترین سطح پر ہے۔ سابق اور موجودہ حکمران سب نے معیشت کی تباہ حالی میں حصہ مطابق جُسہ ڈالا۔ ایک طرف سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ سخت ترین شرائط پر قرض کا معاہدہ کیا۔ سٹیٹ بنک کو ریاست سے بالاتر ریاستی ادارے کا درجہ دیا۔ ایسا معلوم ہوا کہ ملکی معیشت کو اناڑیوں نے گویا تختۂ مشق بنا رکھا ہے۔ پھر یکایک ہر طرف نجات دہندہ، نجات دہندہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ ایک دوسرے کے خون کی پیاسی سیاسی جماعتیں خاکی لڑی میں پرو دی گئیں اور ایک نئی سب رنگی حکومت وجود میں آگئی۔ جس کا دعویٰ تھا کہ وہ ملکی معیشت کو سنبھالنے کا عزم لے کر آئی ہے۔ نئی حکومت کے آتے ہی نیب کے اربوں، کھربوں کے کرپشن کیسز معاف کیے جانے لگے۔ پیٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ آٹا، گھی، چینی عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئے۔ آج حال یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر گر رہے ہیں اور بین الاقوامی خیرات کے باعث وقتی طور پر بڑھ بھی جاتے ہیں تو چند ہی ہفتوں میں پھر ڈوبنے لگتے ہیں۔ قومی خزانے اور ملکی بجٹ کا ایک عظیم حصہ سودی قرضوں کی واپسی پر صرف کر دیا جاتا ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں برآمدات کی گنجائش ہی نہیں رہی اور ضروری درآمدات کے لیے رقم نہیں۔ آئی ایم ایف مزید ٹیکس اکٹھا کرنے اور بجلی، گیس، تیل کی قیمتیں مزید بڑھانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔دو وقت کی روٹی والا محاورہ بھی ملکی معیشت کی طرح اب کساد بازاری کا ایسا شکار ہو چکا ہے کہ ’ایک وقت کی روٹی‘ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ لیکن حکومت پاکستان کا حال یہ ہے کہ وہ 165 لگژری گاڑیاں وزرا کی فوج ظفر موج کے لیے منگوا رہی ہے پھر یہ کہ وزیراعظم کی زیر قیادت 46 افراد پر مشتمل ایک بڑا قافلہ جنیوا میں کشکول لیے گھومتا رہا۔ اس قافلہ کے طمطراق نے مملکتِ خداداد کی خود داری کو نمودونمائش کی بھینٹ چڑھا دیا۔ حقیقت میں دنیوی مال و متاع ہمارے پاس ایک امانت ہے جونہی ہمارے سانس ختم ہوں گے اس سے تعلق بھی ختم ہو جائے گا۔ 28 اپریل 2022ء کو وفاقی شرعی عدالت اپنے فیصلہ میں ہر قسم کے مروجہ سود (بشمول بنک انٹرسٹ) کو ربا اور حرام قرار دے چکی ہے۔ اس فیصلہ کو آئے قریباً آٹھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن حکومتی سطح پر اس پر عمل درآمد میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ بلکہ سٹیٹ بنک آف پاکستان اور نیشنل بنک سمیت دو درجن کے قریب اداروں اور افراد کی جانب سے اپیلیں سپریم کورٹ کی شریعت ایبلٹ بنچ میں دائر کر دی گئیں کہ اس فیصلہ کو کالعدم قرار دیا جائے۔ گویا ہم اللہ اور رسول ﷺ سے جاری جنگ ختم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔شنید ہے کہ سٹیٹ بنک کی جانب سے اب اپیل واپس لینے کی درخواست کی گئی ہے البتہ یقین تو تب آئے گا جب حکومت وقت جس میں ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت اہم رکن کی حیثیت رکھتی ہے سودی نظام کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرے گی۔
بہر حال ہم مسلمانانِ پاکستان مادی خواہشات کی تکمیل میں دیوانے ہو چکے ہیں اور مجنوں کی طرح اپنی اس لیلیٰ کی تلاش میں ملک و قوم ہی نہیں دین و مذہب کو بھی داؤ پر لگا چکے ہیں۔ کیا ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی۔ سکندر اعظم جیسا آدمی دنیا کا فاتح بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اُس کے ہاتھ کفن سے باہر رکھیں جائیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ اتنی فتوحات کے بعد بھی میں دنیا سے خالی ہاتھ جا رہا ہوں۔ بھائی بند بھی قبر پر مٹی ڈال کر واپس آ جاتے ہیں۔ ساتھ صرف اعمال جائیں گے اور اُنہی پر دار ومدار ہے ہمیشہ ہمیشہ کی جنت یا ہمیشہ ہمیشہ کی آگ کا۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے۔ ہماری دعا ہے کہ اس آزمائش میں وہ ہم سب کو سرخرو کرے۔ آمین یا ربّ العالمین!