(کارِ ترقیاتی) فکر بے نور… - عامرہ احسان

9 /

فکر بے نور…عامرہ احسان

نئی صدی کے آغاز سے مغرب میں ایک تسلسل سے پہلے توہینِ رسالتؐ اور پھر قرآن جلانے کے واقعات کا آغاز ہوا۔ اس دور کے مغرب پرست مسلمانوں نے (جو اپنی تاریخ اور حق وباطل کی آویزش سے لاعلم، انہیں مہذب سمجھے بیٹھے تھے) اسے حیرت سے دیکھا۔ توہینِ قرآن میں جن بدترین جہالتوں کا مظاہرہ انہوں نے کیا، قرآن جلانا (نعوذباللہ) اس میں نسبتاً ہلکا تھا۔ ورنہ کتوں کے منہ میں دینے اور ورق ورق فلش میں (گوانتامو میں) بہانے جیسے ہولناک واقعات ان اعلیٰ ترین تعلیمی اسناد کے حامل اور دنیا بھر کو تہذیب سکھانے کے مزعومہ دعویداروں کے نامۂ سیاہ میں درج ہیں۔ 2ارب مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے والے یہ وحشی درندے، مسلم دنیا کے شدید ردعمل پر چند دن کا توقف کرتے ہیں، ان کی حکومتیں مسلمانوں کو پچکارتی ہیں، (اپنی معیشت کی دم پر پاؤں آنے کے خوف سے) اور پھر ایک نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ سویڈن، ڈنمارک، ناروے خصوصیت سے بوجہلی، بولہبی خوبو کے حامل ہیں۔ ڈنمارک میں پاکستانی پرچم بھی قرآن کی بے حرمتی کے ہمراہ ہمیں للکارنے کو روندا، پاکستانی سفارت خانے کے باہر۔ قبل ازیں عراقی، ترک سفارت خانوں پر یہی سب کیا گیا۔ ڈنمارک اپنا سائز اپنی اوقات دیکھے۔ بھینسیں چرائے، دودھ دہی بنائے۔ یہ گوالا ممالک میں سے ایک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دو دہائیوں سے مسلمانوں کو رواداری، برداشت، ڈائیلاگ، امن پسندی کے پہاڑے پڑھانے والے اب اپنے گریبان میں جھانکیں۔ اب انہیں ’پیغامِ ڈنمارک‘، پیغامِ سویڈن اور ناروے پڑھا کر دستخط لے کر چوراہوں پر آویزاں کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری نام نہاد مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کا فریبی پروپیگنڈا اب سنبھال رکھو۔ اسرائیل، بھارت، برما، یورپ، امریکا سبھی مغربی ممالک میں روزافزوں اسلاموفوبیا مظاہر، بدترین اجڈ گنوار رویے۔ قتل وغارت گری (نیوزی لینڈ کی مسجد خون میں نہائی یاد کیجیے۔) مساجد میں خنزیر کے سر پھینکنے، اسکارف نقاب نوچنے، حیا اور حجاب پر جرمانے عائد کرنے، (ہم نے تو ان کی شرمناک برہنگیوں کے مظاہر پر جرمانے عائد نہ کیے۔) جرمن عدالت میں باپردہ مروہ شربینی کو چاقو مار مار کر شہید کرنے اور بے گناہ ڈاکٹر عافیہ پر قیامتیں ڈھانے کے باوجودہم فدوی، بھکاری بنے گونگے کا گڑ کھائے بیٹھے رہتے ہیں۔ خونچکاں مقبوضہ فلسطین، مقبوضہ کشمیر، دربدر روہنگیا! سفاکی کی کوئی حد تو ہو۔ بہت ہوچکی۔ اب جو دنیا بھر میں مسلمانوں پر عائد انتہاپسندی دور کرنے کے پروگرام(Deradicalization) لادے چلے جا رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ پروگرام اب ان کی کفریہ انتہاپسندی کی مرمت کا کام کرے۔ انہیں تہذیب سکھائے۔ اپنے ہاتھ، منہ قابو میں رکھیں۔ قرآن کھول کر اپنی تصویر اس میں دیکھ لیں: ’ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا ’کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔‘ (الفرقان۔ 27) جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں گے اس وقت یہ کہیں گے کہ ’کاش ہم نے اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی ہوتی‘۔ اور کہیں گے ’اے رب ہمارے، ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہ راست سے بے راہ کردیا۔ اے رب ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر۔‘ (الاحزاب۔ 66-68)
نت نئی اصطلاحات کے ساتھ اسلام پر یلغار ہے۔ ڈی ریڈی کلائزیشن کے عنوان سے مارچ 2010 ء میں نارویجن وزارت خارجہ (یہی توہین کے مرتکبین کا مرکز ناروے) انٹرنیشنل پیس انسٹیٹیوٹ اور عرب تھاٹ فورم (نضر بن حارث والی ’تھاٹ‘/ فکر ونظر جو اسلام سے برگشتگی کی راہ دکھائے۔) نے دو روزہ کانفرنس عمان (اردن) میں کی۔ موضوع یہ تھا: ’مسلم اکثریتی ممالک کے ڈی ریڈی کلائزیشن پروگرام کے اسباق‘۔ یعنی 2010 ء تک 8مسلم ممالک: الجزائر، بنگلادیش، مصر، انڈونیشیا، اردن، مراکش، سعودی عرب اور سنگاپور (کے مسلمان) تختۂ مشق بنے۔ ان کے راسخ العقیدہ، باعمل مسلمانوں کو روشن خیالی کے جرعے پلا پلاکر ڈھب پر لانا۔(اختلاط، موسیقی، فلمیں، دانشورانہ کھچڑیاں مدرسہ ڈسکورس، غامدی نوعیت کی کھلاکر سافٹ امیج پر راضی رکھنا۔) ’اسلام اور امن‘، ’اسلام اور پلولرازم‘ جیسے موضوعات پر سیمینار، ورکشاپ کرکے باور کروانا کہ ہر مذہب اچھا ہے۔ ’صرف اسلام‘، والی تنگ نظری چھوڑ دو۔ گاجر چھڑی ہمراہ رہتی ہے باور کروانے میں! (ایسی ہی کانفرنس 2008 ء میں نیویارک میں ہوئی تھی۔ تاہم نتائج 31 اگست 2021 ء میں افغانستان سے امریکی انخلاء پر نکل آئے!)
اب کمال تو یہ ہے کہ مسلسل توہین ِقرآن پر عراقی وزارت خارجہ نے شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے (رواداری اسباق بھلاکر) تنبیہ کی کہ ’مسلمان قرآن کے کلام اللہ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں لہٰذا دیدہ دانستہ ایسا عمل، معاشروں کے پرامن بقائے باہمی کے خلاف ہے! ‘ سو اب مسلمانوں کو انتہاپسندی سے بچانے کے پروگراموں میں مبتلا کرنے کی بجائے وہ اپنے گھروں کی خبر لیں۔ ہمارے نوجوانوں کو (قائداعظم یونیورسٹی)ہولی کے رقص و ہیجان میں مبتلاکر کے، ’امنِ عالم‘ قائم کرنے، اسلامیہ یونیورسٹیبہاولپور میں (انتظامیہ کی سطح سے) نوجوان نسل کی بے راہ روی سے ’انتہاپسندی‘ کا علاج کرنا، والدین کی نیندیں اڑا رہا ہے۔ یہ سب ہماری نسلوں کو اسلام سے تہی دامن کرکے عیش وعشرت، رنگ رلیوں کا رسیا بنانا ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق وہاں اساتذہ کا ایک گروہ منشیات کی فروخت اور طالبات وخواتین اساتذہ کے جنسی استحصال میں ملوث ہے۔ پکڑے جانے والے ٹریژر کا انکشاف ہے کہ وہ چند اساتذہ کے ساتھ منشیات، رقص وسرود، جنسی پارٹیوں کے اہتمام کرنے والوں کا حصہ ہے۔ لڑکیوںکو الجھاکر انہیں (آئس شراب چرس نما) منشیات میں ملوث کرتا رہا ہے۔ سیکورٹی انچارج کی مدد بھی حاصل تھی۔ موبائل فونوں سے بھی تفاصیل حاصل ہوئی ہیں۔ اب اگرچہ خبریں نشر ہونے پر یونیورسٹی کو بدنامی سے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے جا رہے ہیں کہ یہ سب غلط ہے! حالانکہ یہ سب تعلیمی نظام میں جابجا اسلام سے بچاکر نسلوں کی تربیت کے اہتمام کے ضمن میں قصداً کیا جا
رہا ہے۔ اسی کا نام ’ڈی ریڈیکلائزیشن‘ ہے۔ یہ بھلے عشق عاشقی (سارہ انعام، نورمقدم)انتہاپسند، رقص وسرود، منشیاتی انتہاپسند ہو جائیں کم ازکم ملائیت کی جانب تو نہ جائیں گے۔ اسی ضمن میں تین روزہ وائس چانسلروں کی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی ہے۔ ساٹھ معززین شریک تھے۔ امن، رواداری کا فروغ! (مثال قائداعظم یونیورسٹی اور اب بہاولپور والی موجود ہے) بین الثقافتی قابلیت (ہولی، دیوالی، کرسمس) کو فروغ دینے، محفوظ ’دوستانہ جگہیں‘ بنانے اور مکالمے کو یقینی بنانے کا مشورہ نما حکم، رہنمائی سید علی موسیٰ گیلانی نے دی۔ (روشن خیال شخصیت، ینگ پارلیمنٹرین فورم کے صدر!، دی نیوز: 24جولائی) اب ضرورت ہم (امنِ عالم کی خاطر) یہ واضح کرنے چلے ہیں کہ ناروے، ڈنمارک، سویڈن کی ایسی ہی تربیت کے لیے ہماری تجاویز نوٹ فرما لیں۔ ان کی انتہاپسندی کے روگ کو دور کرنے کے لیے انہیں مساجد میں بھیجا جائے۔ ذکر کی مجالس، تلاوتِ قرآن، نعت وحمد، نومسلموں کے دروس، ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطابات انہیں سنوائے جائیں۔ مہذب لباس پہنایا جائے۔ ہمیں انگریزی پڑھاتے ہیں انہیں عربی پڑھائیں، تاکہ ان ممالک کا ماحول درست ہو اور امنِ عالم بحال ہو۔ ورنہ ناروے میں قرآن جلانے کے ردعمل میں ایک مسلمان خاتون نے برہم ہوکر اپنی گاڑی لارس ملعون کی گاڑی سے ٹکراکر اسے الٹ دیا تھا اور ناروے کا امن درہم برہم ہوا تھا۔ اگر انہیں ’ڈی ریڈیکلائز‘ نہ کیا گیا تو ہمارے ہاں پڑھائی گئی رواداری اور بین الثقافتی قابلیت ان کا کچھ نہ سنوارے سدھارے گی! سلمان رشدی والے حشر بپا ہوں گے۔
والدین ضرور متوجہ ہوں۔ اعلیٰ تعلیم کے شوق میں پسِ پردہ آپ کی اولاد اجاڑی جا رہی ہے۔ کم عمر بچے بچیوں کو اسی ضمن میں تعلیمی صلاحیتوں کے نکھار کے نام پر مغربی ممالک بھیجا جا رہا ہے۔ یہ چھوٹی عمروں میں ان کی ثقافتی کثافتوں سے چرچگ کر آئیں گے۔ ضرورت ان کے انتہاپسندوں کو ہمارے مدارس کی ہوا لگانے کی ہے۔ سوذرا اہلِ دانش توجہ فرمائیں! ہمارے شاہین بچوں کو صحبتِ زاغ وکرگس دینے کی بجائے، ان کے کرگسوں کو شاہینوں میں لا بٹھائیں تو امنِ عالم بحال ہوگا! ؎
فکر بے نور ترا جذبِ عمل بے بنیاد
سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شبِ تارِ حیات