مغربی دانشور بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر ایک عمر فاروق(ؓ) اورہوتے تو
دنیا میں صرف اسلام ہوتا: ایوب بیگ مرزا
حضرت عمرؓ کے دور میں انقلاب نبوی ﷺ اپنے عروج کو پہنچا
اوردنیا میں پھیلتا چلا گیا: خورشید انجم
حضرت عمر ؓاور حضرت حسین ؓ کی شہادت کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میںمعروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: حضرت عمر بن خطاب اور حضرت حسینi تاریخ اسلام کی عظیم شخصیات ہیں ، دونوں کی شہادت کی کیا تاریخی اہمیت اور فضیلت ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:میں حضرت عمر بن خطابؓ سے بات کا آغاز کروں گا اورکتاب The 100 کا حوالہ دوں گا۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود اس کتاب کے مصنف نے تاریخ انسانی کی 100عظیم ترین شخصیات (جنہوں نے تاریخ پر سب سے زیادہ اثر چھوڑا )میں نبی اکرم ﷺ کو سرفہرست رکھا۔ اسی کتاب میں مصنف نے حضرت عمر ؓ کو 52نمبر پر رکھا ۔ یہ اس کی رائے ہے ،ہمارے نزدیک یقیناً صحابہ کرام j کی جماعت میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا رتبہ سب سے بلند ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کا دورِ خلافت فتنوں کو فروع کرنے میں صرف ہو گیا۔ تاہم میرے خیال میں اگر پیغمبروںؑ کے بعد کسی شخصیت کا تاریخ انسانی کے رُخ کو تبدیل کرنے میں مقام ہے تو وہ حضرت عمرؓ ہیں کیونکہ پیغمبروں کے بعد جتنا حضرت عمر ؓ نے دنیا کو بدلہ ہے اتنا کسی غیر نبی میں سے کسی سیاستدان ، مذہبی پیشوا اور کسی حکمران نے نہیں بدلا ۔ تاریخ انسانی میں حضرت عمر بن خطابؓ کی ایک خاص اہمیت ہے، نہ صرف ایک مسلمان کی حیثیت سے بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے بھی ۔سب سے پہلے تو آپ ؓ کے اسلام لانے سے اسلام کو تقویت ملی ۔ آپؓ کے اسلام لانے کا واقعہ یہ ہے کہ آپ گھر سے ننگی تلوار لے کر نکلے ، راستے میں ایک صحابی نے پوچھا عمرؓ ! کہاں کے ارادے ہیں۔ کہا (معاذاللہ ) محمد (ﷺ) کو قتل کرنے جارہا ہوں ۔ صحابی نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر تو لے لو ، تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں ۔ وہ غصے میں سیدھے بہن کے گھر گئے جہاں حضرت خباب بن الارت ؓ دونوں میاں بیوی کو قرآن پاک پڑھا رہے تھے۔ آپؓ نے آئو دیکھا نہ تائو، اپنی بہن اور بہنوئی کو بے دردی سے مارنا شروع کر دیا لیکن اس دوران آپؓ کی بہن نے کہا عمر ؓ! چاہے ہمیں قتل کردو لیکن ہم حق کو نہیں چھوڑیں گے ۔ آپؓ پر اس بات کا اثر ہوا اور کہا لاؤ جو کچھ تم پڑھ رہے تھے مجھے بھی سناؤ ۔ بہرحال جب قرآن سنا تو کایا پلٹ گئی اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے ۔ یہ ان کی شخصیت کا بڑا پن تھا۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ حضور ﷺ نے جو دعا مانگی تھی کہ عمر بن الخطابؓ اور عمرو بن ہشام(ابوجہل) میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو تقویت عطا فرما ۔ اللہ نے عمر بن خطابؓ کو قبول کیا اور وہ کہا کرتے تھے کہ ہماری شان شوکت ہمارا سب کچھ اسلام کی وجہ سے ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کی وجہ سے بھی اسلام کی شان و شوکت میں اضافہ ہوا۔ آپؓ کی جُرأت، بہادری اور کسی چیز کو حق سمجھ کر پھر ڈٹ جانا یہ وہ خصوصیات تھیں جنہوں نے اسلام کو بہت فائدہ پہنچایا۔اسی طرح کا معاملہ حضرت حسین ؓ کا ہے۔ وہ بھی اسی طرح جُرأت اور بہادری کے ساتھ اُس وقت ڈٹ کر کھڑے ہوگئے جب انہیں اسلام کے سیاسی نظام پر آنچ آتی دکھائی دی ۔ وہ نظام خلافت کو بچانے کے لیے ملکوکیت کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے ۔ حتیٰ کہ اپنی اور اپنےخاندان کی قربانی پیش کر دی مگر یزید کی بیعت نہ کی ۔یہ اُن کی جُرأت اور بہادری تھی ۔
سوال: کیا یہ دونوں شہادتیں ایک ہی فتنہ اور سازش کا شاخسانہ ہیں یا ان دونوں شہادتوں کے پیچھے جو پس پردہ مقاصد تھے وہ مختلف تھے ؟
خورشید انجم: بنیادی بات تو یہ ہے کہ اسلام کی پوری تاریخ شہادتوں سے بھری ہوئی ہے۔قربانیوں کے بغیر کوئی انقلاب نہیں آتا ۔ نبی کریم ﷺ جو انقلاب لے کر آئے اس کے لیے انہوں نے بے انتہا قربانیاں پیش کیں تب جاکر دین قائم ، غالب اور نافذ ہوا اور ایک مکمل دین اس اُمت کے لیے آپؐ چھوڑ گئے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْـنَـکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَـکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْـنًاط}(المائدہ:3) ’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیاہے‘اور تم پر اِتمام فرمادیا ہے اپنی نعمت کا ‘اور تمہارے لیے میں نے پسند کر لیا ہے اسلام کو بحیثیت دین‘کے۔ ‘‘
دین کامل ہو گیااور غالب و نافذ ہو گیا تو اس وقت جو مخالف قوتیں تھیں وہ وقتی طور پر دب گئیں تھیں ، ان میں یہود بھی تھے جن کو حضور ﷺ نے مدینہ سےنکال دیا تھا ۔ اسی طرح بعض دوسری قوتیں بھی تھیں جو وقتی طور پر دب گئی تھیں لیکن ان کے عزائم تو نہیںد بے تھے ، وہ موقع کی تلاش میں تھیں ۔ چنانچہ حضورﷺکے وصال کے ساتھ ہی وہ قوتیں اُٹھ کھڑی ہوئیں ۔ ان میں مسیلمہ کذاب اور دوسرے جھوٹے مدعیان نبوت بھی تھے ، مانعین زکوٰۃ کا فتنہ بھی تھا ۔ اس مشکل وقت میں حضرت ابوبکر صدیقؓ ایک آہنی شخصیت ثابت ہوئے شاید اسی وقت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کو منتخب کیا ہوا تھا ۔ وہ دین کو بچانے کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اور اس دوران صرف مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ میں 1200صحابہؓ شہید ہوئے ۔آپ اندازہ کیجئے کہ کتنی قربانیاں صحابہؓ نے دی ہیں تو دین ہم تک پہنچا ہے ۔پھر حضرت عمر ؓ کے دور میں انقلاب نبوی ﷺ اپنے عروج کو پہنچاہے اور دنیا میں پھیلتا چلا گیا ۔ یہاں تک کہ ؎
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا
سلطنت روم اور فارس جیسی سپر پاورز بھی اس سیل رواں کےسامنے نہ ٹھہر سکیں ۔ جب میدان میں مقابلہ نہ کیا جا سکا تو پھر سازشیں شروع ہوئیں اور ابولولو فیروز جو ایک ایرانی غلام تھا اس نے صبح فجر کی نماز کے دوران جب حضرت عمرؓ امامت کرارہے تھے تو زہر آلود خنجر کے وار آپؓ پر کیے جن کی وجہ سے یکم محرم الحرام کو آپؓ کی شہادت ہوئی ۔ حضرت عمر ؓ کے بعد اتنی بڑی سلطنت کو کنٹرول کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ، مخالفین کا خیال تھا کہ حضرت عمرؓ نہ رہے تو سلطنت اسلامیہ بھی نہیں رہے گی لیکن حضرت عثمانؓ نے بڑے تدبر کے ساتھ نظام سنبھالا ۔ مخالفین نے پھر سازشیں شروع کردیں اور ان میں منافقین پیش پیش تھے جنہوںنے بظاہر اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اندر سے ان کے دل خلافت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ انہی میں ایک یہودی عبداللہ ابن سبا بھی تھا جس نے منافقین کو تلاش کرکے منظم کرنا شروع کیا لیکن مکہ اور مدینہ کے لوگ چونکہ حضورﷺکے تربیت یافتہ تھے ،پھر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کےتربیت یافتہ تھے اس لیے حجاز میں اس کی سازش کامیاب نہ ہوئی تو اس نے دیگر علاقوں میں جاکر سازشوں کے جال پھیلانا شروع کردیےاور یہ پروپیگنڈا پھیلانا شروع کر دیا کہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہورہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ان سازشوں کے نتیجہ میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کی شہادت ہوئی ۔ اس کے بعد حضرت حسن ؓ نے امیر معاویہؓ کے ساتھ صلح کرلی۔ جس کے بارے میں حضور ﷺ نے خود پیش گوئی فرمائی تھی کہ آپؓ اُمت کے دو گرہوں کے درمیان صلح کروائیں گے ۔ چنانچہ اس کے بعد اُموی دور حکومت شروع ہوا جس میں ایک یہ معاملہ ہوا کہ امیر معاویہؓ نے حکومت اپنے بیٹے یزید کے سپرد کر دی جس پر بعض صحابہ کرام ؓ نے اعتراض کیا جن میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، حضرت عبداللہ ابن عمرؓ، حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ، حضرت عبدالرحمن ابن ابی بکرؓ اور حضرت حسین ؓ شامل تھے ۔ جب یزید برسراقتدار آیا تو اس وقت تک حضرت عبدالرحمن ابن ابی بکر ؓ وفات پا چکے تھے ۔ جبکہ حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عبداللہ ابن عمر کی رائے تھی کہ کام تو غلط ہوا ہے لیکن خون ریزی نہیں ہونی چاہیے ۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ اور حضرت حسینؓ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔حضرت ابن زبیرؓ کی رائے یہ تھی کہ ہمیں حجاز کو اپنا مرکز بناناچاہیے لیکن کوفہ والوں کی طرف سے حضرت حسین ؓ کے لیے ڈھیروں خطوط آگئے کہ آپؓ یہاں تشریف لائیے ہم آپؓ کا ساتھ دیں گے ۔ حضرت حسین ؓ نے پہلے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو بھیجا اور پھر اس کے بعد خود گئے۔ اس وقت حضرت عبداللہ ابن عباسؓ جو حضور ﷺ کے چچازاد بھائی تھے۔ اس لحاظ سے حضرت حسین ؓ کے نانا اور دادا کی مثل بھی تھے ، وہ حضرت حسین ؓ کے ساتھ ساتھ دوڑتے چلے جارہے تھے کہ آپ نہ جائیں،کم از کم بچوں اور خواتین کو لے کر نہ جائیں۔ حضرت حسینؓ نے کوفہ پہنچ کر ایک ایک کا نام لے کر کہا کہ تم نے یہ خطوط لکھے تھے ۔ کوفیوں کو محسوس ہوا کہ ہمارے سارے راز فاش ہورہے تو انہوں نے جنگ کرکے آپؓ کو شہید کردیا ۔
سوال: عالم اسلام کی ان دونوں عظیم شخصیات کی شہادت کے پیچھے ایک ہی سازش کارفرما تھی یا الگ وجوہات تھیں ؟
خورشید انجم: بنیادی طور پراس سازش کے تانے بانے جا کر مجوس اور یہودکے ساتھ ملتے ہیں۔کیونکہ اسلامی انقلاب جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھااور اپنی جڑیں مختلف علاقوں میں مضبوط کر رہا تھا وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں تھا لہٰذا جس طرح پال نے عیسائیت کا حلیہ بگاڑا تھا اسی طرح عبداللہ ابن سبا یہودی نے ایک طرف عقائد اور افکار کے لحاظ سے مسلمانوں میں انتشار اور تقسیم پیدا کر دی اور دوسری طرف سیاسی سطح پر تقسیم پیدا کی جس کے نتیجہ میں حضرت عثمانؓ اورحضرت علیؓ کی شہادت ہوئی اورپھر حضرت حسینؓ کی بھی شہادت ہوئی ۔
سوال: ایک مغربی دانشور کا قول ہےکہ اگر مسلمانوں کے پاس ایک اور عمر فاروق (ؓ) ہوتے تو آج دنیا میں صرف اسلام ہوتا۔ آپ اس حوالے سے کیا فرمائیں گے؟
ایوب بیگ مرزا:اس حوالے سے اور بھی اقوال ہیں۔ ایک مغربی دانشور کا قول ہے کہ جس شخص نے حضرت عمر بن خطاب( ؓ) کو زہر سے بجھا ہوا خنجر مارا تھا، اصل میں اس نے حضرت عمر فاروقؓ کو خنجر نہیں مارا بلکہ اس نے کائنات کے قلب میںخنجر مارا۔ حضور ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو تو زیادہ موقع نہیں ملا کیونکہ بہت سے فتنے کھڑے ہوگئے تھے جن کی سرکوبی میں آپؓ کا عرصہ خلافت گزر گیا لیکن آپؓ کے بعد جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے ہیں تو آپؓ نےاسلامی فلاحی ریاست کو مزید نکھارا اور مختلف شعبہ جات قائم کیے جن کا وجود پہلے دنیا میں نہیں تھا ۔ جیسا کہ آپؓ نے پولیس کا محکمہ قائم کیا ، ڈاک کا محکمہ قائم کیا ، بازار وں میں نگران مقرر کیے، مردم شماری کا سلسلہ شروع کیا ، قمری کیلنڈر کا آغاز کیا ، کفالت عامہ کاشعبہ قائم کیا ۔ بچوں کے وظیفے مقرر کیے ۔ عدلیہ کاخود مختار نظام بھی سب سے پہلے آپؓ نے قائم کیا ، اس سے قبل حکمران ہی فیصلے کرتے تھے ۔ آپؓ نے ہی سب سے پہلے باقاعدہ فوج قائم کی ۔اس سے پہلے ایک اعلان جہاد ہوتا تھا اور سب چل پڑتے تھے لیکن آپؓ نے باقاعدہ تنخواہوں پر فوجی بھرتی شروع کی ۔ صحابہ کرامj کے لیے وظائف مقرر کیے ، شہداء کے بچوں کی تعلیم اور کفالت کا انتظام کیا ۔اس طرح اور بہت سے ایسے اقدامات کیے جن کو آج کی جدید ریاست نے قبول کیا یا نقل کیا ہے ۔ آج بھی سکینڈے نیوین ممالک میں عمر لاء کے نام سے بعض قوانین نافذ ہیں جوانسانی فلاح و بہود سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ایک صحابیؓ روایت کرتے ہیں کہ شدید گرمیوں کی ایک دوپہر گھر سے باہر کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی ، نکل کر دیکھا تو حضرت عمر ؓ تھے ۔ پوچھا آپؓ اس وقت کہاں جارہے ہیں ؟ فرمایا بیت المال کے اونٹ گم ہو گئے ہیں ان کو ہی ڈھونڈنے جارہا ہوں ۔ صحابی ؓنے کہا : کسی غلام کو کہہ دیا ہوتا ۔ فرمایا روزقیامت پوچھ مجھ سے ہو گی۔ آپؓ کی شان دیکھئے ۔ بیت المقدس کی فتح کے وقت اسلامی لشکر نے جتنے بھی حملے کیے سب ناکام ہوئے ۔ آخر پادری نے سپہ سالار کو پیغام بھیجا کہ ہماری کتابوں میں ایک شخص کا حلیہ لکھا ہوا ہے صرف وہی بیت المقدس کو فتح کر سکتا ہے ۔ اگر وہ تمہارے خلیفہ ہیں تو انہیں بلایا جائے تاکہ بغیر خون خرابے کے بیت المقدس کو ان کے حوالے کیا جائے ۔ چنانچہ جب حضرت عمرؓ تشریف لائے تو ان کو دیکھتے ہی دروازے کھول دیے گئے اور چابیاں ان کے حوالے کر دی گئیں۔ آپؓ عدل کے اس قدر قائل تھے کہ جب نماز کا وقت ہوا تو پادری نے کہا چرچ میں ہی نماز پڑھ لیجئے ۔ آپؓ نے کہا اگر میں نے چرچ میں نماز پڑھی تو مسلمانوں کےلیے مثال قائم ہو جائے گی ۔ چنانچہ آپؓ نے الگ جگہ پر نماز پڑھی اور اس جگہ کو مسجد کے لیے مخصوص کیا۔ یعنی آپ ؓکا عدل غیر مسلموں کے لیے بھی تھا ۔ جب آپ کی شہادت ہوئی تو اس وقت تک اسلامی ریاست 25 لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھی ۔ اسی لیے مغربی دانشور یہ کہتے ہیں کہ اگر ایک عمر فاروقؓ اور ہوتا تو دنیا میں صرف اسلام ہوتا ۔ آپؓ کے عدل کا معاملہ یہ تھا کہ سلطنت روم کا ایک سفیر آپؓ کے پاس آیا تو آپؓ پتھر کو تکیہ بنا کر زمین پر سو رہے تھے، سفیر حیران ہوا کہ اتنی بڑی سلطنت کا حکمران اور بغیر کسی سکیورٹی کے سکون سے سو رہا ہے ۔اس نے اعتراف کیا یہ صرف عدل کی وجہ سے ہی ممکن ہے ۔ پھر آپؓ کی برداشت کا معاملہ دیکھئے کہ جمعہ کے دن ایک صحابیؓ مسجد کے دروازے پر روک لیتے ہیں اور غصے میں کہتے ہیں کہ اے عمر ! کیا ہم تمہارے غلام ہیں کہ تمہارا انتظار کرتے رہیں ۔ آپؓ نے کوئی جواب نہیں دیا اور ممبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : میرے پاس ایک ہی قمیض تھی جو میری اہلیہ نے دھوئی ہوئی تھی ، میں نے سوکھنے کا انتظار کیا مگر نہیں سوکھی تو میں اسی طرح پہن کر آگیا ہوں ، اس وجہ سے تاخیر ہوگئی ۔ یہ حضرت عمرؓ کا ایک مثالی رویہ تھا ۔ اس قدر عمدہ مثالیں انبیاء کے بعد کسی انسان میں شاید ہی مل سکیں ۔
سوال: آج عالم اسلام میں اسلامی طرز حکومت کا فقدان ہے ، ہر طرف جبر و استبداد اور ظلم و استحصال کا دور دورہ ہے ، ان حالات میں اگر مسلمان حضرت حسین ؓ کے نقش قدم پر چلیں تو کیا یہ موزوں ہوگا۔
خورشید انجم: مسلمانوں کے لیے اُسوہ حسنہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی ہے۔اس کے بعد صحابہؓ کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی پوری زندگی کی جدوجہد کے بعد اس اُمت کے لیے جو نظام چھوڑ ا تھا وہ خلافت کا نظام تھا ۔ جب اس نظام کی جگہ ملوکیت نے لی تو حضرت حسینؓ نے اس کے خلاف جدوجہد کی ایک مثال قائم کی اور نظام خلافت کے لیے اپنی اور اپنے پورے خاندان کی زندگیاں قربان کردیں ۔ آج ہمارے دور میں تو نظام اسلام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ۔ ہمارا تو پورا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام ہی خلاف ِاسلام ہے ۔ ان حالات میں بحیثیت مسلمان ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم حضرت حسینؓ سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن کیا آپؓ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں؟حالانکہ اسلامی نظام کے لیے کھڑا ہونا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔
سوال: قرآن پاک کا اگر ہم مطالعہ کریں تو کئی ایسے واقعات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کی رائے اوران کی فکر کی توثیق کی ہے ۔ ان کی اس موافقت کی چند مثالیں پیش فرمائیں ۔
ایوب بیگ مرزا:حضرت عمر ؓ کا حلیہ دیکھ کر جس طرح عیسائی پادریوں نے بیت المقدس آپؓ کے حوالے کر دیا ۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ آپ ؓکے متعلق پیشین گوئیاں پہلی کتابوں میں بھی موجود تھیں ۔لیکن قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے کئی مرتبہ حضرت عمرؓ کی رائے کی تائید فرمائی ہے ۔ ان میں سے چار واقعات اس وقت میرے ذہن میں ہیں۔ جنگ بدر کے قیدیوں کے حوالے سے حضور ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓنے رائے دی کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے ۔ جبکہ حضرت عمر ؓکی رائے تھی کہ ان کو واپس نہ کیا جائے بلکہ ان میں جو میرا رشتہ دار ہے اس کو میرے حوالے کر دیا جائے تاکہ میں خود اس کی گردن اُڑا دوں اور جس جس مسلمان کا کوئی قریبی رشتہ دار قیدی ہے وہ خود اس کی گردن اُڑا دےتاکہ حق تعالیٰ کو پتہ چل جائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکوں کے بارے میں کسی قسم کی نرمی نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے اپنی رحم دلی کے باعث حضرت عمرؓ کی رائے کو نہیں مانا اور حضرت ابوبکرؓ کی رائے کے مطابق فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا ۔ اگلے دن آپؓ حضور اکرم ﷺاور حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں گئے تو وہ دونوں رو رہے تھے، عرض کیا: حضور! آپؓ مجھے بتائیں کہ آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ حضور اکرم ﷺنے فرمایا: میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ تمہارے ساتھیوں نے ان قیدیوں سے جو فدیہ لیا ہے، اس کی وجہ سے خدا کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب آ گیا تھا اور حق تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ہے: (ترجمہ) ’’نبی کی شان کے لائق نہیں ان کے قیدی باقی رہیں (بلکہ قتل کر دئیے جائیں) جب تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خون ریزی نہ کر لیں۔ تم تو دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ آخرت (کی مصلحت) کو چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑے زبردست بڑی حکمت والے ہیں۔‘‘گویا اس آیت قرآنی نے حضرت عمرؓ کی رائے کی تائید کردی۔اسی طرح پردے کے حوالے سے ، مقام ابراہیمؑ کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کی رائے کی تائید فرمائی ۔ اس کے علاوہ حضرت عمرؓ کی خواہش تھی کہ حضور منافقین کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں ۔ اس رائے کی بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تائید نازل فرمائی۔اس لحاظ سے میں نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی غیر نبی کو وہ اعزاز بخشا ہو جو حضرت عمرؓکو بخشا گیا ۔
خورشید انجم:علامہ سیوطیؒ نے تقریبا 21ایسے واقعات کا ذکر کیا ہےجن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کی رائے کی موافقت میں آیات نازل کیں۔ جیسے سورۃا لتحریم کی آیت ہے:
{عَسٰی رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ} ’’بعید نہیں کہ اگر وہ تم سب کو طلاق دے دیں تو ان کا رب انہیں تم سے کہیں بہتر بیویاں عطا کردے۔‘‘
اس وقت بھی حضرت عمرؓکی ایک رائے تھی۔ اس کے علاوہ شراب اور جوئے کے حوالے سے بھی آپؓ کی رائے کی موافقت میں احکام نازل ہوئے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی فطرت اور آپؓ کی سوچ اسلام سے کس قدر مطابقت رکھتی تھی ۔
ایوب بیگ مرزا: حضور ﷺ نے فرما یاکہ اگر میرے بعدکوئی نبی ہوتا تو وہ حضرت عمرؓ ہوتے ۔ اسی طرح یہ بھی فرمان ہے کہ ہر اُمت کا کوئی نہ کوئی محدث ہے اور میری اُمت کا محدث عمر ؓہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اور اللہ کے رسولؓ کی طرف سے بھی حضرت عمرؓ کو کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ عالم اسلام کے لیے نہیں بلکہ عالم انسانیت کے لیے بھی حضرت عمرؓ ایک آئیڈیل شخصیت ہیں۔ مغرب نے فلاحی ریاست کا تصور حضرت عمر فاروقؓکے دور خلافت سے ہی لیا ہے ۔ ایک بوڑھا یہودی مدینہ کی گلیوں میں مانگ رہا تھا ۔ آپؓ نے پوچھا کیوں مانگ رہے ہو ، وہ بولا میں نابینا اور ضعیف ہوں ، کام کاج نہیں کر سکتا ۔ آپؓ نے اس کا وظیفہ مقرر کرکے اُسے گھر بھیج دیا کہ جب تک تم کما سکتے تھے ریاست تم سے جزیہ لیتی رہی ہے اب تم معذور ہو تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تمہاری کفالت کرے ۔ اس طرح آپؓ نے بہت سے اجتہاد کیے جن کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت عطا فرمائی ۔
خورشید انجم: اسلام کا کیچ ورڈ عدل ہے اور عدل فاروقی دنیا میں ایک مثال ہے ۔ جو بھی اس وقت دنیا میں انسانی حریت ، اخوت اور مساوات کے نعرے بلند ہورہے ہیں اور پورپین اس کے چیمپئین بنے ہوئے ہیں ، یہ سارا کچھ ان کے پاس بغداد اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں سے ہی پہنچا ہے ۔ وہاں سے یورپ کے نوجوان پڑھ کر گئے اور پھریورپ میں ریفارمیشن اوررینائسننس کی تحریکیں چلی ہیں۔جس کے نتیجے میں مغرب میں فلاحی ریاست کا تصور اُبھرا ہے لیکن بنیادی طور پر یہ نور محمدیﷺ سے مستعار لیا گیا ہے ۔ یہ اسی نور کا اثر تھا کہ حضرت عمر ؓ فرماتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے ایک بھی بھوک سے مرگیا تو عمرؓ سے باز پرس ہوگی ۔کتنی بڑی سعادت کی بات ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ کے ہمراہ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ کھڑے تھے ، اتنے میں زلزلہ آیا تو حضور ﷺ نے فرمایا رُک جاؤ تمہارےاوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں۔
سوال:واقعہ کربلا میں دورحاضر کے سیاست دانوں کے لیے کیا سبق ہے؟
خورشید انجم: بنیادی چیز حق اورسچ کے لیےڈٹ جانا اور ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہے ۔ حضرت حسینؓ کی زندگی سے یہی درس ملتا ہے ۔ آج تو آوے کاآواہی بگڑا ہوا ہے ، پورا نظام ہی ظلم اور استحصال پر مبنی ہے ۔ لہٰذا آج اس کے خلاف کھڑے ہونا ہر مسلمان کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح حضرت حسینؓ نے لازم سمجھا ۔ پھر اس کرپٹ نظام کو ختم کرکے اس کی جگہ عدل فاروقی والا نظام قائم کرنا بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ۔ اس وقت جتنی دنیا اسلام لائی وہ اسی عدل کو ہی دیکھ کر اسلام میں داخل ہوئی ۔ آج بھی لوگ ہماری نماز ، روزہ ، حج کو دیکھ کر نہیں آئیں گے بلکہ ہمارے ہاں عدل کا نظام ہو گا تو اس سے متاثر ہو کر وہ اسلام میں داخل ہوں گے ۔ جیسا کہ افغانستان میں جب امارت اسلامیہ قائم ہوئی تھی تو کئی مغربی صحافی اور دیگر شعبوں کے لوگ متاثر ہو کر اسلام لائے ۔ جسٹس جاوید اقبال نے افغانستان کا دورہ کیا اور کہا کہ ایسا نظام اگر ایک اور ملک میں بھی آگیاتو دنیا خود بخود اسلام کی طرف دوڑتی ہوئی آئے گی ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024