(دعوت و تحریک) اسلامی نظام کی نظریاتی اساس: ایمان(4) - ڈاکٹر اسرار احمد

9 /

اسلامی نظام کی نظریاتی اساس: ایمان(4)

(بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے 1988ء کے ایک خطاب کی تلخیص)

(گزشتہ سے پیوستہ)
اسلام کا تصوّر ِکا ئنات و انسان
اب مَیں آ پ کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کیا حقائق ہیں جن کا انکشاف وحی کے ذریعے انبیاءکرامf پر ہوا ہے۔ ان حقائق کو اگر ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو واضح ہو گا کہ یہ دراصل اسلام کا تصوّرِ کائنات و انسان ہے‘ اسلامی نظامِ حیات کی نظریاتی اساس ہے‘ ایک فکر و فلسفہ ہے۔ اسلامی نظامِ حیات بالفعل وجود میں آنے کا احساس تب ہی ہوگا جب یہ فکری اساس تعمیر ہوگی۔ اگر یہ اساس ہی تعمیر نہیں ہوتی تو اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اسلام کا نظامِ حیات اپنی حقیقی صورت میں دنیا میں دوبارہ قائم ہوسکے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ان حقائق کے ضمن میں جو چیزیں مَیں آپ کے سامنے بیان کروں گا‘ وہ اگرچہ سب کے سب قرآن مجید کے حقائق ہیں‘ تاہم ان میں سے بعض حقائق کو قرآن نے جلی انداز میں بیان کیا ہے اور بعض حقائق قرآن میں اشارات کی شکل میں آئے ہیں۔ ان میں جو صریح وجلی حقائق ہیں انہی کے مجموعے کا نام ایمان ہے۔ ان حقائق کی ضرورت ہر عام و خاص کو ہے۔ ایک ذہین شخص بھی اس کی احتیاج رکھتا ہے اور ایک عام انسان بھی۔ لہٰذا یہ حقائق جو ایمان کے بنیادی اجزاء ہیں‘عام انسانی فہم کے قریب تر ہیں اور ان کو تکرار کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اسلام کا تصوّرِ کائنات و انسان پوری طرح تب ہی واضح ہوگا جب ان صریح اور جلی حقائق کے ساتھ مخفی حقائق کو بھی جمع کرلیاجائے۔ پس ان جلی اور خفی حقائق کو مَیںایک ترتیب کے ساتھ آپ کے سامنے بیان کررہاہوں۔
کائنات اور خالق ِ کائنات کا تعلق
پہلی بات یہ ہے کہ یہ کل کائنات‘ یہ سلسلہ ٔکو ن و مکان‘ یہ سلسلۂ موجودات جو تاحدّ ِ نگاہ ہمارے سامنے ہے‘حادث اور فانی ہے۔ یہ ہمیشہ سے نہیں ہے اور نہ ہی ہمیشہ رہے گا۔ ایک اللہ ہی کی ہستی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اس ہستی کے ساتھ کائنات کی نسبت خالق اور مخلوق کی ہے۔ اللہ نے اسے بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کا خالق ہے بلکہ وہی اس کی صورت گری کرنے والا اور وہی منتظم ہے ۔
اللہ کی یہ تخلیق بالحق اور بامقصد ہے۔ یہ کوئی رام کی لیلا نہیں ہے‘ نہ دیوتائوں کی تماش گاہ یا تھیٹر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے کہ اگر ہمارا ارادہ ہوتا کہ کوئی کھیل تماشا کریں تو ہم اپنے پاس سے کوئی بندوبست کرلیتے ۔ سورۃ الانبیاء میں دو ٹوک انداز میں فرمادیا گیا: {وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ(16)} ’’ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے درمیان ہے ‘کھیل تماشے کے لیے نہیں بنایا‘‘۔ اسی طرح سورئہ آلِ عمران میں فرمایا: {رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۵ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(191)}’’اے ہمارے رب! تُو نے یہ (کارخانۂ قدرت) بے مقصد نہیں پیدا کیا۔تُو پاک ہے‘ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘
یہ کائنات ایک خاص وقت تک کے لیے ہے‘ جب اس کا وقت پورا ہو جائے گا تو فنا ہوجائے گی‘ جبکہ اللہ کی ہستی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اللہ کا کوئی مدّ ِمقابل‘ کوئی ہم سر اور ہم پلہ نہیں۔ انسان خیر و بھلائی اور اعلیٰ سے اعلیٰ خوبی کا جو تصوّر کرسکتا ہے وہ اللہ کی ذات میں بتمام و کمال موجود ہے۔ مثلاً قدرت ایک قدر ہے‘ تو اللہ تعالیٰ ’’عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْــرٌ‘‘ہے۔ علم ایک اعلیٰ قدر ہے تو اللہ تعالیٰ ’’بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ‘‘ ہے۔ زندگی ایک اعلیٰ شے ہے‘ تو وہ ’’اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ‘‘ ہے‘ اور اس کی حیات اتنی مکمل ہے کہ ’’لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ‘‘ (نہ تو اُسے نیند آتی ہے اور نہ اُونگھ)۔
کائنات اور خالق ِکائنات کے تعلق سے ان حقائق کو تسلیم کرنے کا نام ایمان باللہ ہے اور یہی ایمان سارے ایمانیات کی اصل اساس اور جڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایمانِ مجمل کا ذکر آتا ہے تو اس میں سوائے ایمان باللہ کے اور کسی شے کا ذکر نہیں ہوتا‘ صرف اللہ اور اُس کی صفات کا ذکر ہوتا ہے۔ ایمانِ مجمل میں ہم میں سے ہر شخص یہ اقرار و تصدیق کرتا ہے کہ:
((آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ)) ’’مَیں ایمان لایا اللہ پر جیسے کہ وہ ظاہر ہے اپنے اسماء وصفات سے۔ اورمَیں نے اُس کے تمام احکام قبول کیے۔مَیں اس کا زبانی اقرار کررہا ہوں اور اس پر دل سے یقین رکھتا ہوں۔ ‘‘
اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان ایک حقیقت ِکلی بن کر آپ کے دل میں جاگزیں ہوگیا ہے‘ اللہ کی ہستی‘ اُس کے حاضر و ناظر ہونے‘ اُس کے ’’عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْـر‘‘ اور ’’بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْم‘‘ ہونے اور اُس کے ہمیشہ ساتھ ہونے کا یقین اگر دل میں موجود ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان باللہ حقیقتاً موجود ہے۔ اور اگر یہ یقین نہیں تو پھر یہ محض ایک عقیدہ ہے‘ ایکdogmaہے‘ ایک موروثی خیال ہے ‘ جو آپ کو وراثتاً منتقل ہوگیا ہے۔
انسان کی تخلیق کے دومراحل
دوسری بات یہ ہے کہ کائنات کی تخلیق کا نقطۂ کمال انسان ہے۔ یوںتو یہ آسمان‘ زمین‘ ستارے‘ سیّارے ‘ فضائیں‘ پہاڑ سب اللہ کی تخلیق ہیںاور یہ مخلوقات اس کی نشانیاں اور اس کی عظمت کے مظاہر ہیں‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے تین وجود ایسے پیدا کیے ہیں جو مکلّف ہیں۔ ایک فرشتے ہیں جو نورئ الاصل ہیں‘ دوسرے جنات ہیں جن کا مادئہ تخلیق آگ ہے‘ اور تیسری مخلوق انسان ہے جو سلسلۂ ارضی کی مخلوقات (نباتاتی و حیواناتی سلسلۂ حیات) کی چوٹی پر فائز ہے۔ انسان کے شرف و امتیاز اور بلند مقام کاسبب کیا ہے؟ درحقیقت انسان کا وجود دو چیزوں سے مرکب ہے۔ ایک اس کا جسد ِحیوانی یا جسد ِمادّی ہے جو خاکی ٔ الاصل ہے۔ یہ اسی زمین سے بنا ہے۔ نظریۂ ارتقا ء سے قطع نظر ‘قرآن اور سائنس دونوں اس نکتہ پر متفق ہیں کہ انسان کی ابتدا قشر ِارض (crust of the earth) سے ہوئی ہے۔دوسرا انسان کا روحانی وجود ہے جو خاکی ٔ الاصل نہیں‘ بلکہ نوریٔ الاصل ہے اور فرشتوں سے بھی بلند تر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق ِآدم کے وقت فرشتوں سے فرمایا: {فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَـہٗ سٰجِدِیْنَ(72)}(صٓ) ’’تو جب میں اس کی نوک پلک سنوار لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں‘ تو اس کے سامنے سجدے میں گرپڑنا‘‘۔ معلوم ہوا کہ انسان اور حیوانات میں فرق صرف کمیت کا نہیں بلکہ اصل فرق نوعیت کا ہے۔ حیوانات صرف اس خاکی اور زمینی وجود پر مشتمل ہیں اور ان کا کل وجودیہی ہے‘ جبکہ انسان جسد ِحیوانی کے ساتھ روحانی وجود بھی رکھتا ہے۔شیخ سعدیؒ کہتے ہیں ؎
آدمی زادہ طرفہ معجون است
از فرشتہ سرشتہ وز حیوان
یعنی یہ آدمی زادہ عجیب معجونِ مرکب ہے۔ اس میں فرشتہ بھی ہے اور حیوان بھی ۔ فرشتہ اس معنی میں کہ جس طرح فرشتے نوری ٔالاصل ہیں، ہماری ارواح بھی نوریٔ الاصل ہیں‘ اور حیوان اس اعتبار سے کہ جانوروں کی طرح ہمارا وجودِ حیوانی بھی اسی خاک سے بنا ہے۔ انسان میں یہ دونوں چیزیں آکر جمع ہوگئی ہیں۔ یہی اس کے شرف و امتیاز کا سبب ہے اور اسی بنا پر اس کو خلافت سے سرفراز فرمایاگیا۔ سورئہ صٓ میں فرمایا گیا: {خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ط} (آیت :75) ’’جسے مَیں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔‘‘
انسان کی تخلیق میں عالم ِامر اور عالم ِخلق دونوں جمع ہوگئے۔ اسی لیے صوفیائے کرام انسان کو ’’عالمِ اصغر‘‘ کہتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر انسان کی تخلیق دو مراحل میں ہوئی۔ پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں ارواحِ انسانیہ کو پیدا کیا گیا اوریہ ارواح ’’جُنُوْدٌ مُّجَنَّدَۃٌ‘‘ کی شکل میں تھیں۔ اُن میں باپ بیٹے اور پوتے پڑپوتے کی کوئی نسبت نہیں تھی۔ یہ تمام ارواح بیک وقت وجود میں آئیں۔اسی عالم ِ امر میں اللہ تعالیٰ نے تمام ارواحِ انسانیہ سے اپنی بندگی کا عہد لیا۔ اللہ نے پوچھا :{اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط} ’’کیا مَیں تمہارا ربّ نہیں ہوں‘‘ {قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَاج} (الاعراف:172) ’’سب نے کہا:کیوں نہیں‘ ہم گواہی دیتے ہیں (کہ اے اللہ تُو ہی ہمارا رب ہے)۔‘‘ انسان کی تخلیق کا دوسرا مرحلہ عالم ِخلق میں اس کے جسد ِحیوانی کی تخلیق ہے۔ اس مرحلے میں تمام انسان یکبار گی پیدا نہیں کیے گئے‘ بلکہ اُن کی پیدائش میں زمانی فصل چلا آرہا ہے۔ ہمارے جدّ ِامجد حضرت آدم ؑ شاید آج سے دس ہزار سال پہلے دنیا میں آگئے تھے۔ اس کے بعد اب تک اربوں انسان پیدا ہوئے اور مر گئے ۔ آج ہم اس دنیا میں ہیں‘ کل کوئی اور ہوگا۔
انسان کی تخلیق ِاوّل کے بارے میں اشارہ اس آیت میں ملتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ روزِ محشر اپنے دربار میں کھڑے تمام لوگوں سے یہ فرمائے گا: {لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا کَمَا خَلَقْنٰـکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍز بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَـکُمْ مَّوْعِدًا(48)} (الکہف) ’’جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح آج) تم ہمارے سامنے آئے ہو‘ لیکن تم نے تو یہ خیال کر رکھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے (قیامت کا) کوئی وقت مقرر ہی نہیں کیا‘‘۔پہلی تخلیق کے مرحلے پر اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو بیک وقت پیدا کیا اورمیدانِ حشر میں بھی اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو اپنے سامنے حاضر کردے گا۔ بہر حال یہ چیزیں وہ ہیں جو مخفی حقائق ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے ضمن میں صرف اشارات آئے ہیں۔ (جاری ہے)