حج مبرور کالٹمس ٹیسٹ یہی ہے کہ حج کرنے کے بعد کی زندگی
ایمانی لحاظ سے پہلے سے بہتر ہو۔
جہاد جُہد سے ہے اور جُہد کوشش کو کہا جاتا ہے۔ وہ کوشش جس
میں اللہ کے کلمے کی سربلند ی مقصود ہو جہاد فی سبیل اللہ کہلائے گا۔
آبادی کا ایک بڑا حصہ جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے زیر تسلط ہے لہٰذا
صاف و شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات یہاں ممکن ہی نہیں ۔
ہم دیانتداری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ انتخابی سیاست سے نظام کو
چلایا جاسکتا ہے لیکن نظام کو تبدیل ہرگز نہیںکیا جا سکتا ،نظام کی
تبدیلی کے لیے واحد راستہ انقلابی تحریک ہے ۔
اللہ کا شکر ہے کہ اب بھی دین کے لیے کام کرنے کے جتنے مواقع
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہیں شایدپوری دنیا بلکہ عالم اسلام میں کہیں نہیں۔
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات
میز بان :آصف حمید
سوال: حج کے تقاضے کیاہیں؟اس دفعہ سفر حج کے حوالے سے آپ کے کیا تاثرات ہیں ، نیز مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی پرکیا تبصرہ کریں گے ؟
امیر تنظیم اسلامی:کرونا کی وباء کی وجہ سے جو پابندیاں عائد تھیں وہ اس سال اُٹھا لی گئی تھیں اور اندازہ کے مطابق تقریباً 25 لاکھ حاجیوں کی آمد متوقع تھی لیکن اس کے باوجود باوثوق ذرائع کے مطابق تقریباً پونے 19 لاکھ حجاج کرام تھے جن میں 2 لاکھ مقامی تھے اور ساڑھے سولہ لاکھ کے قریب دنیا بھر سے آئے تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخراجات بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں ، وہاں جاکر اندازہ ہوا کہ وہاں بھی مہنگائی بہت زیادہ بڑھی ہے ۔اس وجہ سے پاکستان کے لیے جو کوٹہ مقرر تھا اس سے بھی کم لوگوں نے درخواستیں جمع کروائیں اور پاکستان کوکچھ کوٹہ واپس کرنا پڑا۔اس سال سب سے زیادہ حجاج بنگلہ دیش سے آئے تھے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جو توقع تھی اس سے کم تعداد میں حجاج آئے ۔
حج کی برکات اپنی جگہ ہیں ، اجتماعی سطح پر بھی اس کے کئی اثرات ہیں اور انفرادی سطح پر بھی جو برکات حاصل کرنا چاہے کرسکتاہے اورحج کرنے کے بعد کی زندگی میں بھی کچھ اثرات دکھائی دیتے ہیں ۔ ایک صاحب آسٹریلیا سے آئے تھے ، ان کا وہاں ایئرکنڈیشنر کی مرمت وغیرہ کا کام تھا جس میں کچھ انشورنس کمپنیوں کی involvement کا معاملہ بھی تھا، اس حوالے سے ان کے ذہن میں شکوک پہلے سے موجود تھے لیکن حج کے دوران سیکھنے کا موقع ملا اور یہ ارادہ لے کر گئے کہ وہ انشورنس میں ملوث نہیں ہوں گے ۔ وہ چہرے پر سنت رسول بھی سجا کر گئے ، بعد میں بھی ان سے رابطہ رہا اور اندازہ ہوا کہ ان میں کافی تبدیلی آئی ہے ۔ اسی طرح اور بھی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ انفرادی سطح پر حج کی برکات اپنی جگہ ہیں ۔ جو فائدہ اُٹھانا چاہیے وہ اُٹھا سکتا ہے لیکن اگر صرف رسم پوری کرنے جائیں تو پھر وہ فوائد حاصل نہیں ہوتے ۔ حج مبرور کا لٹمس ٹیسٹ یہی ہے کہ بعد کی زندگی ایمانی لحاظ سے پہلے سے بہتر ہو ۔ رسول اللہ ﷺ نے حج مبرور کی شرائط بیان فرمائی ہیں کہ نہ بے حیائی کا کام کرے، نہ کوئی لڑائی جھگڑا کرے، نہ گالم گلوچ کرے۔ لیکن بدقسمتی سے اکثر 8 ذو الحجہ کو کھانے پر جھگڑا ہوتے دیکھا ہے ، عرفات میں اکثر یہ جھگڑے چل رہے ہوتے ہیں کہ ظہر کی دو رکعت پڑھنی ہیں یا چار پڑھنی ہیں اور عصر ملا کر پڑھنی ہے ۔ اس بحث میں پڑ کر لوگ ’’الحج العرفہ‘‘ کی برکات سے محروم رہتے ہیں ، یہ بھی دیکھا گیا کہ مرد اور عورت منیٰ میں بیٹھ کر ٹھٹے ماررہے ہیں ، عرفات میں گپ شپ ہورہی ہے ۔ اسی طرح آب زم زم کی 5 لٹر کی بوتل لانے کی اجازت ہے لیکن دیکھا گیا کہ واپسی پر بعض پاکستانی پوسٹل سروس والوں کو سو ، پچاس ریال تھما دیتے ہیں کہ دو چار بوتلیں اضافی ڈال دو ۔ اللہ معاف کرے ۔ جس طرح روزے کا حاصل تقویٰ ہے ، اسی طرح ہر عبادت کا ایک حاصل ہے اگر وہ ہی حاصل نہ ہواتو کیا فائدہ ۔ کسی بھی عبادت کی قبولیت کی علامت علماء بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد بندے میں کوئی تبدیلی پیدا ہو۔ تبدیلی تو بعد کی بات ہے قابل توجہ بات یہ ہے کہ ؎
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہےآب زم زم لے کر آ گئے ،چائنہ کی ٹوپی، تسبیح لے کر آ گئے، ترکی کی جائے نمازلے کر آ گئے، فلسطین سے آئی ہوئی کھجور لے کر آ گئے، اللہ کی رضا و محبت بھی لے کر آئے ہو یا نہیں ؟ ازروئے الفاظ قرآنی:{اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(162)}(الانعام)’’ میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
کیا میرا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ؟ حج کے دوران اکثر لوگ اپنے گھروالوں سے رابطہ کرتے ہیں ، یہاں گھر والے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ حاجی صاحب خانہ کعبہ کے پاس ہیں ، روضہ رسول ﷺکے پاس موجود ہیں تو فرط جذبات سے بعض کے آنسو آجاتے ہیں اور بعض رو رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے لیے بھی دعا کرو ۔ لیکن خود حاجی صاحب کی اگر اپنی کیفیت نہیں بدلتی تو گویا اس نے حج سے کچھ حاصل نہیں کیا ۔ اگر عبادت سے انفرادی سطح پر تبدیلی نہیں آئے گی تو اجتماعی تبدیلی کہاں سے آئے گی ۔ حدیث میں ہے کہ بندہ حج سے ایسے لوٹتا ہے جیسے آج ہی اپنی ماں کے بطن سے اس کی ولادت ہوئی بشرطیکہ شرائط پوری ہوں اللہ توفیق دے ۔اگر اس کی توفیق مل گئی تو اب اس نعمت کی قدر بھی کرنی چاہیے اور بقیہ زندگی میں تبدیلی آنی چاہیے ۔
سوال: ڈاکٹراسرار احمدؒ کی ویڈیوز دیکھ کر انقلابی تحریک کا جذبہ میرے دل میں بیٹھ گیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح جہادکا حق ادا کر سکتے ہیں اور اگر کوئی بندہ انقلاب سے پہلے انتقال کر جائے تو کیا وہ مجاہد کہلائے گا، رہنمائی فرمائیں ؟( سمیر احمد)
امیر تنظیم اسلامی:پہلے تو اللہ تعالیٰ ان کے جذبے کو مزید تقویت عطا فرمائے۔ بانیٔ تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی ایک بہت جامع کتاب’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے ، یہ اب آڈیو اور ویڈیو میں بھی دستیاب ہے ۔ میری پہلی گزارش تو یہ ہے کہ آپ اس کا مطالعہ ضرور کرلیں تاکہ جہاد کا وسیع تر مفہوم سامنے آ جائے۔ جہاد جُہد سے ہے اور جُہد کوشش کو کہا جاتا ہے اور وہ کوشش جس میں اللہ کے کلمے کی سربلندی مقصود ہو وہ جہاد فی سبیل اللہ قرار پائے گی ۔ جہاد کی شروعات اپنے نفس کے خلاف ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے اپنے نفس کا مجاہدہ کرو ۔ یہ نفس کبھی خدا بن جاتاہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰىہُ ط} (الفرقان:43) ’’کیا تم نے دیکھا اُس شخص کو جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟‘‘
نفس چاہتا ہے کہ ہم اللہ کی نافرمانی کی طرف جائیںلیکن ہم نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی کوشش کرنی ہے ۔ خود کو گناہوں سے بچانے کی کوشش کرنی ہے ۔ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لانے کے بعد امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دینے کے لیے کوشش کرنی ہے تاآ نکہ نظام کی تبدیلی کے لیے اجتماعی جدوجہد کا حصہ بننا ہے ۔ پھر جاکر کہیں قتال کا مرحلہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں آیا ۔ لیکن ہمارے سامنے مسلمان ہیں۔ لہٰذا یہاں یکطرفہ طور پر جان دینے کا معاملہ ہوگا جان لینے کا معاملہ نہیں ہوگا ۔ یہ وضاحت بھی اس کتابچے کے اندر موجود ہے۔جہاد ایک مستقل معاملہ ہے جو ساری زندگی جاری رہتا ہے ۔ قرآن کہتا ہے :{وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ(99)} (الحجر)’’اور اپنے رب کی بندگی میں لگے رہیں یہاں تک کہ یقینی شے وقوع پذیر ہو جائے۔‘‘
اللہ کی خوشنودی کے لیے ساری زندگی جہاد کرنا پڑتا ہے ۔ لہٰذا جو شخص اس راستے میں انقلاب سے پہلے مر گیا تو وہ مجاہد ہے ، البتہ مقتول فی سبیل اللہ وہ ہوتاہے جو میدان جنگ میں کفار کے ساتھ جنگ میں شہید ہو جائے۔ وہ باتمام و کمال شہید بھی ہے اور مجاہد بھی ہے لیکن دین کے لیے مستقل محنت اور جدوجہد کرنے والا بھی ایک درجہ میں مجاہد کہلائے گا ۔
سوال: حضرت علی ؓ کا فرمان ہے کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا۔ اس کی وضاحت کر دیں؟ (محمد عبداللہ ، سیالکوٹ)
امیر تنظیم اسلامی:قرآن حکیم میں سورہ التکویر کے آخر میں بہت مشہور آیت ہے:
{وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(29)} ’’اور تمہارے چاہے بھی کچھ نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔‘‘
ترغیب کے لیے ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کرتا ہوں۔ ایک مشہور اینکر بتا رہے تھے کہ ان کے ایک دوست کا جوان بیٹا انتقال کر گیا ۔ اس نے کہا ہم نے بڑا پیسہ خرچ کیا ،ہسپتال بھی اچھا تھا، ڈاکٹر بھی اچھے تھے ، سب کچھ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے بچے کو واپس بلا لیا ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ کے مطابق کوشش کرتا ہے مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے ۔
سوال:سیاست میں حصہ لے کر اقتدار میں آنا اور پھر شریعت نافذ کرنا تنظیم اسلامی کے نزدیک صحیح طریقہ نہیں ہے۔لیکن اگر کوئی اس نیت سے سیاست میں آتاہے کہ میں اقتدار میں جاکر لوگوں کو نظام شریعت اور نفاذ شریعت کے حوالے سے تبلیغ کروں گا تو کیا یہ طریقہ صحیح ہوگا یا غلط؟ (شعیب جبار)
امیر تنظیم اسلامی:سب سے پہلے توہمیں سیاست کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کے بنیادی طور پر دو حصے ہیں :
(1)۔ نظری سیاست : بعض لوگ الیکشن میں حصہ نہیں لیتے لیکن وہ سیاست پر گفتگو کرتے ہیں ، سیاسی رائے رکھتے ہیں اور سیاسی مشورے دیتے ہیں ، یہ نظری سیاست ہے ۔ اسی طرح جس بندے کے سامنے دین کا جامع تصور ہو وہ بھی لازماً سیاست پر گفتگو کرے گا کیونکہ دین پورے نظام حیات کا نام ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص}(المائدہ:2) ’’اور تم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو ‘اور گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو‘‘
ایک داعی دین ،ایک مبلغ دین صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط لازماً کہے گا۔ غلط کی مذمت کرے گااور صحیح کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ اس تناظرمیں وہ ذہن سازی کی بھی کوشش کرے گا۔تنظیم اسلامی نظریاتی سیاست میں بھرپور حصہ لیتی ہے ۔ ہم حکمرانوں کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کرتے ہیں ، غلط پالیسیوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور مشورے بھی دیتے ہیں ۔
(2)۔ عملی سیاست : اس کے دو پہلو ہیں ۔ ایک انتخابی سیاست ہے ۔ یعنی اقتدار میں آنے کے لیے الیکشن میں حصہ لینا ۔ بعض لوگ نیک نیتی سے سمجھتے ہیں کہ ہم اس راستے سے اسلام کو غالب کریں گے۔ کسی کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا ۔ بعض دینی سیاسی جماعتیں اسی منہج پر کام کر رہی ہیں لیکن ہم دیانتداری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ انتخابی سیاست سے نظام کو چلایا جاسکتا ہے لیکن نظام کو تبدیل ہرگز نہیں کیا جاسکتا اور پاکستان کی 75 سالہ تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری نظام بھی ہے ، آبادی کا بہت بڑا حصہ ان کے زیر اثر ہے اور باقی آبادی کی اکثریت کا معیار تعلیم بھی زیادہ بہتر نہیں ہے ۔ اس وجہ سے یہاں صاف ، شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن ممکن ہی نہیں ہیں اور نہ ہی انتخابی راستے سے تبدیلی آسکتی ہے۔ البتہ عملی سیاست کا دوسرا پہلو انقلابی سیاست ہے جس پر تنظیم اسلامی یقین رکھتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجود نظام کرپٹ ہے اور اس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں ۔ آئین میں لکھا ہوا ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی ہے ۔ لیکن سرے عام اس کی خلاف ورزی بھی ہورہی ہے ۔ اسی طرح سودکا نظام ہے اور ہر طرح کی برائیاں ہیں لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اس نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس تبدیلی کے لیے ایک منظم جماعت کی ضرورت ہے جو دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے ، جو لوگ اس دعوت کو قبول کریں ، ان کی قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تعلیم و تربیت کا اہتمام ہو ، جب اس جماعت میں شامل افراد کی تعداد اتنی ہو جائے کہ وہ سمجھیں کہ اب ہم نظام کو چیلنج کر سکتے ہیں تو پھر منہج رسول ﷺ کی روشنی میں باطل نظام کے خلاف نکل کھڑے ہوں ۔ حضورﷺ کے دور میں تصادم کفار کے ساتھ ہوا تھا لہٰذا وہاں قتال کی گنجائش تھی مگر یہاں کلمہ گو مسلمانوں سے سامنا ہوگا لہٰذا یہاں ہم جان دینے کی بات کریں گے جان لینے کی بات ہرگز نہیں کریں گے اور ہم نفاذ دین کا مطالبہ منوانے کے لیے تحریک کا راستہ اختیار کریں گے ۔ دنیا بھر میں لوگ اپنے مطالبات منوانے کے لیے تحریک کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی کئی تحریکیں کامیاب ہو چکی ہیں جیسا کہ ختم نبوت کی تحریک کامیاب ہوئی تھی ۔ لہٰذا تنظیم اسلامی انتخابی سیاست میں نہیں بلکہ انقلابی سیاست میں اور نظری سیاست میں یقین رکھتی ہے ۔ نظری سیاست میں ہم ملکی سیاست پر تبصرے بھی کرتے ہیں اور اس سطح پر دعوت و تبلیغ کا کام بھی کرتے ہیں۔ اس سطح پر دعوت و تبلیغ کے کام سے مراد صرف چند عبادات کی دعوت نہیں ، چند رسومات کی اصلاح کی دعوت نہیں بلکہ اللہ کے پورے دین کے قیام کی دعوت مراد ہے۔ بھائی کا سوال تھا کہ اس دعوت کو پہنچانے کے لیے الیکشن میں حصہ لیں ۔ مگر اس کرپٹ نظام کا حصہ بن کر آپ کیسے اس کے خلاف دعوت دے سکتے ہیں ، اس کے لیے پہلے آپ کو اس نظام کو خود چھوڑنا ہوگا ، جو لوگ دین کے داعی ہیں ، مبلغ ہیں وہ سیاستدانوں کو بھی دعوت دیں ، بیوروکریٹس کو بھی دعوت دیں ، سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو بھی دعوت دیں ، عوام الناس کو بھی دعوت دیں۔ اگر دعوت کے حوالے سے ہم سارے طبقات کو address کریں تو ہو سکتا کہ کسی سیاستدان کے دل میںاللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو جائے ، رسول اللہﷺ کے مشن کےساتھ محبت پیدا ہوجائے تو اس کی پوزیشن اور صلاحیت دین کے لیے استعمال ہو گی۔ اسی طرح مقتدرطبقات میں سے کسی کا دل اللہ پھیر دے ۔ ایک داعی فقط زبان استعمال کر سکتا ہے، ہو سکتاہے مقتدر طبقات میں سے کوئی اپنی طاقت کو بھی استعمال کر لے۔ لہٰذا تبدیلی کے لیے پہلا کام دعوت ہے ۔
سوال: میںاکاؤنٹس اور فنانس کا طالب علم ہوں اور مستقبل میں سی اے کرنا چاہتا ہوں تاہم دو تین ماہ قبل مجھے یہ حدیث ملی جس میں کہا گیا کہ سود لکھنا بھی حرام ہے اور لکھنے والا بھی اور شاید گواہی دینے والاسود کھانے والے کے برابر ہیں ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس audit کرتاہے جنہوں نے سود پر مبنی قرض لیا ہے تواس کے بارے میںشریعت کاکیا حکم ہے ؟ (عبدالرافع صاحب)
امیر تنظیم اسلامی:پہلی بات تو یہ ہےکہ اکاؤنٹنٹس سے متعلق بہت ساری فیلڈز ہوتی ہیں ، بہت سارے اکاونٹنٹس انڈسٹری میں کام کر رہے ہیں، بہت سارے تعلیم کی فیلڈ میں ہیں،بہت سارے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کنسلٹنسی کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کسی بینک میں ہی کام کرے گا یا کسی ایسی فنانشل انسٹیٹیوشن میں ہی کام کرے گا کہ جس کا لین دین سود پر مبنی ہو ۔ان بھائی کا سوال تھا کہ اگر کوئی ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس audit کرتاہے جن کا سودی لین دین ہو تو کیا یہ جائز ہو گا؟ انہوں نے حدیث کا بھی ذکر کیا جو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے سود لینے والے پر، سود دینے والے پر، سود کا معاملہ لکھنے والے پر اور اس پر گواہ بننے والے پر ۔ یہ چاروں برابر ہیں ۔ اس تناظر میں مفتیان کرام کی ایک رائے یہ ہے کہ وہ سٹوڈنٹس جو اپنی آڈٹ ٹریننگ کے دوران کسی انسٹیٹیوشن کا آڈٹ کرنےجاتے ہیں ان کا معاملہ الگ ہے کیونکہ وہ ان کا ٹریننگ سیشن ہے نہ کہ وہ اس سے کچھ کما رہے ہیں لیکن تب بھی آپ کسی ٹرانزیکشن کا آڈٹ کر رہے ہیں نہ کہ آپ نے اس کو لکھا ہے اور نہ ہی آپ اس پر گواہ بنے ہیں۔ آپ نے صرف چیک کیا ہے لیکن یہاں بھی ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ چیک کرنے کے بعد آپ نے آڈٹ کمپنی کا ٹھپہ تو لگا دیا ۔ پھر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن جانے کے بعد جب آپ یا آپ کی آڈٹ فرم کسی کمپنی کا آڈٹ کرکے اپنی سٹمپ لگاتے ہیں تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا میری آمدن حلال ہے یا حرام ہے ۔ اس حوالے سے دو فتاویٰ ہیں ۔ ایک یہ ہے کہ اگر اس کمپنی ( جس کا آڈٹ کر رہے ہیں ) کی آمدن کا غالب حصہ حلال پر مشتمل ہے تو پھر ٹھیک ہے لیکن علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی آمدن کا چند فیصد بھی اگر ایسا ہے کہ جس میں شکوک ہیں تو اس چند فیصد سے بھی جان چھڑائیں ۔ ان بھائی کو میں کہوں گا کہ اگر چاہیں تو یہ تفصیلی سوال لکھ مفتیان کرام سے بھی اپنا جواب لے لیں لیکن چونکہ میں خود بھی ان معاملات سے گزرا اور اس نوعیت کے سوالات ہمارے سامنے آتے رہے ہیں لہٰذا اس حوالے سے جو فتاویٰ ہیں وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ زد بہرحال پڑتی ہے۔ البتہ سسٹم کو بدلنے کے لیے سسٹم کو سمجھنا بھی ضروری ہے مگر احتیاط ضروری ہے ۔
سوال: قرآن کی تفسیر ہم خود نہیں پڑھ سکتے اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن صرف مفتی یا عالم کی نگرانی میں سیکھا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے بتائیں کہ اپنے طور پر قرآن پڑھنا اورسیکھنا کتنا درست ہے؟ ( مریزہ کریم صاحبہ، بھارت)
امیر تنظیم اسلامی: اس حوالے سے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے ایک بڑا خوبصورت جواب دیا ہےکہ ایک ہے قرآن کا تذکر کا پہلو اور ایک تدبر کا پہلو ہے۔سورہ ص ٓمیں ہے :{کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰـتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(29)} ’’(اے نبیﷺ!) یہ کتاب جو ہم نے آپؐ پر نازل کی ہے بہت بابرکت ہے‘تا کہ وہ اس کی آیات پر تدبر کریںاور ہوش مند لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔‘‘
تذکر قرآن حکیم کا آسان اور سادہ پیغام ہے جو ہر ایک سمجھ سکتا ہے اور اس پر عمل کر سکتا ہے ۔ ایک بدونے آکر رسول اللہ ﷺسے عرض کیا :یارسول اللہ ﷺ! میں زیادہ باتیں یاد نہیں رکھ سکتا ، کوئی سادہ سی بات بتا دیں جس پر عمل کر کے میں کامیاب ہو جاؤں ۔ حضورﷺ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی : {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ(7) وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ(8)}(الزلزال) ’’توجس کسی نے ذرّہ کے ہم وزن بھی کوئی نیکی کی ہو گی وہ اُسے دیکھ لے گا ۔اور جس کسی نے ذرّہ کے ہم وزن کوئی بدی کی ہو گی وہ بھی اُسے دیکھ لے گا۔‘‘
اس بدو نے کہا بس میرے لیے اتنا ہی کافی ہے ، ان دو آیات کو میں پلے باندھ کر رکھوں گا اور ان پر عمل کروں گا ۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے جنتی کو دیکھنا ہے اس کو دیکھ لیں۔ یہ قرآن کا تذکر کا پہلو ہے جو ہر ایک کی سمجھ میں آسکتا ہے اور اس پر عمل بھی کر سکتا ہے ۔ جیسے ایک آیت ہے : {کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ط} (آل عمران:185)’’ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘موت تو ایک دن آکر رہنی ہے۔اتنی بڑی حقیقت ہے کہ ہر ایک کی سمجھ میں آنے والی ہے۔تھوڑی بہت عربی آتی ہو تو رحمان کی زبان میں ہی قرآن کے پیغام کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ لیکن نہیں آتی تو ترجمہ پڑھنے سے بھی قرآن کا سادہ پیغام سمجھ میں آجاتاہے ۔ محافل قرآن میں بیٹھنے سے کئی باتیں سمجھ میں آسکتی ہیں ، لیکن بندہ اس کا آغاز تو کرے تاکہ زندگی کا مقصد سمجھ میں آسکے کہ اللہ چاہتا کیا ہے؟ اس کے بعد قرآن کا دوسرا پہلو تدبر ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں: ((لاتنقضی عجائبہ)) اس پاک قرآن کے عجائبات ، اس میں موجود علم کے موتی کبھی قیامت تک ختم نہیں ہوں گے ۔ جتنا بندہ گہرائی میں جاکر تحقیق کرے گا ، جدید دور کے فلسفیانہ سوالات کے جوابات تلاش کرے گا ، نئے مسائل پیش آجائیں تو اجتہادی بصیرت رکھنے والا قرآن کریم میں غوطہ زنی کرے گا تو اتنے ہی علم و حکمت کے موتی اس کتاب سے برآمد ہوں گے ۔ قرآن کے ان دونوں پہلوؤں میں فرق کرلیں توکوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔ لیکن ہمارے ہاں لوگ دوانتہاؤں پر چلے جاتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ ایک انتہا یہ کہ کہا جاتاہے کہ قرآن کا ترجمہ نہ پڑھو گمراہ ہو جاؤ گے ۔ اس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ جتنے بڑے بڑے علماء نے قرآن کے ترجمے کیے ہیں، کیا انہوں نے گمراہ کرنے کے لیے کیے ہیں ؟جن کو عربی نہیں آتی انہیں ترجمہ پڑھ کے کچھ نہ کچھ تو فہم حاصل کرنا چاہیے۔ البتہ دوسری انتہا بھی غلط ہے کہ دو ترجمے پڑھنے کے بعد کوئی اپنے آپ کو علامہ ،مفسر، مجتہد اور فقیہ سمجھنا شروع کر دے ۔ یہ دونوں انتہائیں غلط ہیں ۔ اعتدال ضروری ہے ۔ یعنی یہ قدغن بھی نہ لگائیں کہ کوئی ترجمہ ہی نہ پڑھے ۔ اگر کوئی قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھ رہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں کہ شاید وہ ہدایت کے حصول کے لیے پڑھ رہا ہو ۔ ترجمے علماء نے عوام کے لیے ہی کیے ہیں ۔ البتہ یہ بھی غلط ہے کہ کوئی ترجمہ پڑھ کرخود کو علامہ ہی سمجھ بیٹھے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے :{فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(43)}(النحل)’’تو تم لوگ اہل ِذکر سے پوچھ لو ‘ اگر تم خود نہیں جانتے ہو۔‘‘
بانی محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ سے کسی نے کہا کہ آپ کا بیان القرآن سننے پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ احتیاط کرنی چاہیے تو آپ نے برملا کہا تھا کہ بیان القرآن سننے کے ساتھ ساتھ کوئی تفسیر بھی پڑھ لیں ۔ انہوں نے کھلے دل سے علماء کی تفاسیر پڑھنے کی ترغیب دلائی ۔ علماء سے مسائل پوچھے جائیں لیکن ترجمہ اور تفاسیر بھی علماء نے عوام کے لیے ہی کی ہیں ۔ اس کے پڑھنے پر پابندی کیوں لگائی جائے ۔
سوال: میں نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھی ہے جس میں ڈاکٹر اسرار احمدؒنے ایسے طلبہ کا ذکر کیا ہے جو بیرون ملک تعلیم حاصل کررہے ہیں اور اقامت دین کی جدوجہد میں بھی حصہ ڈال رہے ہیں۔ ڈاکٹراسرار احمدؒ کی گول میز کانفرنس میں شمالی امریکہ سے تنظیم اسلامی کا ایک رکن بھی موجود تھا۔ میں فارغ التحصیل انجینئر ہوں، اب میں بھی بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں تاکہ میں نئی چیزیںسیکھ سکوں ، ساتھ اسلام کا مطالعہ بھی کروں اور واپس آکر اقامت دین کی جدوجہد میں حصہ لوں یا بیرون ملک رہ کر ہی اسلام کی خدمت کروں جیسا کہ بہت سے اسرائیلی ہارورڈاور کیمرج میں پڑھتے ہیںاور میڈیا اورسیاست کے ذریعے اثر انداز ہوتے ہیں۔ کیا مجھے اس غرض سے باہر جانا چاہیے یا اسی ملک میں رہ کر اقامت دین کی جدوجہد میں تنظیم اسلامی کا ساتھ دینا چاہیے ۔ ( محمد ابراہیم)
امیر تنظیم اسلامی: جہاں تک انہوں نے کہا کہ کسی خاص شعبہ میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں ، اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔لیکن باہر کے حالات بھی مدنظر رکھیں ۔ ابھی حال ہی میں چند اہل علم کی ویڈیوز دیکھنے میں آئی ہیں جن میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہیں بچ بچ کر چلنا پڑتا ہے اور compromising attitude کے ساتھ دین کی ہلکی سی بات کرنے کی اجازت مل رہی ہے ۔لہٰذا ہمارا خیال تو یہ ہے کہ انسان جہاں پیدا ہوتاہے وہاں کی زبان اور ماحول معاشرے کو سمجھتا ہے وہاں رہ کر لوگوںکو دعوت دینا زیادہ آسان ہو تاہے ۔ سب سے پہلے تو اپنے گھر والوں کو اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت دینا ضروری ہے ۔ اسی طرح ہم انبیاء و رُسل کی زندگیوں کو دیکھیں تو وہ اپنے اپنے وطن میں ہی رہ کر دعوت دین کا کام کرتے رہے ہیں جب تک کہ ہجرت کا حکم نہیں آیا ۔ لہٰذا ہمارے بھائی کے لیے میری تجویز تو یہ ہے کہ آپ پاکستان کو ہی فوکس کریں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب بھی دین کے لیے کام کرنے کے جتنے مواقع اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہیں پوری دنیا بلکہ عالم اسلام میں بھی کہیں نہیں ۔ کسی شعبے میں مہارت حاصل کرنا الگ بات ہے جو کل دعوت دین اور نفاذ دین کی جدوجہد میں کام آئے لیکن اس سے قبل اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ، کتاب و سنت سے جڑنا ،تربیت حاصل کرنا ضروری ہے ۔
سوال: وہ لوگ جو ڈاکٹر صاحب کو سن کر ، امیر سے ملاقات سن کر ، آپ کا خطاب جمعہ سن کر سمجھتے ہیں کہ تنظیم کچھ ا چھا کام کررہی ہے اور وہ اقامت دین کی جدوجہد میں شامل ہونے کی ہمت کرتے ہیں اور ای میل کرتے ہیں کہ ہم تنظیم میں شامل ہو ناچاہتے ہیں ان کے لیے آپ کیا رہنمائی کریں گے ؟
امیر تنظیم اسلامی:ہم نےاوپن ممبرشپ کا concept نہیں رکھا ہوا کیونکہ ہم نے صرف تعداد نہیں بڑھانی بلکہ ہم کوشش کرتے ہیں جو رفقاء تنظیم میں شامل ہوں وہ سوچ سمجھ کر اور غوروفکر کرنے کے بعد پورے وثوق کے ساتھ شامل ہوں ۔ میں نے خود 1991ء سے ڈاکٹر اسرار احمد ؒکو سننا شروع کیا تھا۔ 1998ء میں کراچی میں تنظیم کا اجتماع تھا جس میں ایک موضوع Why Tanzeem e Islamiکے عنوان سے تھا جسے سننے کے بعد مجھے سمجھ آگئی اور اس طرح میں سات سال غوروفکر کرنے کے بعد تنظیم میں شامل ہوگیا ۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی تنظیم میں شامل ہو وہ پہلے تنظیم کے فکر کا تھوڑا بہت مطالعہ کرلے۔اس حوالے سے ڈاکٹر صاحبؒ کی ایک کتاب فرائض دینی کا جامع تصور کے عنوان سے تنظیم کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے ، اسی طرح ڈاکٹر صاحب کا ایک خطاب تنظیم اسلامی کی دعوت کے عنوان سے موجود ہے اس کو بھی سنا جا سکتا ہے ۔ ان میںپوری تفصیل موجود ہے کہ تنظیم کی دعوت کیا ہے ، دین کا جامع تصور کیا ہے ، دینی فرائض کیا ہیں ، اسی طرح ڈاکٹر صاحب کا ایک خطاب رسول انقلابﷺ کا طریقہ انقلاب کے عنوان سے ہے ، اس سے معلوم ہوگا کہ حضورﷺ کا منہج کیا تھااور آج کے دور میں ہم اس کی روشنی میں کس طرح انقلاب کے لیے جدوجہد کر سکتے ہیں ۔ اگر ہمارے ساتھی ان کتب اور خطابات سے استفادہ کر لیتے ہیں تو ان پر تنظیم کی فکر واضح ہو جائے گی ۔ جو ہمارے ساتھی یوٹیوب پر ہمارا کوئی پروگرام دیکھ کر وہاں کمنٹس کرتے ہیں یا سوالات کرتے ہیں ہم باقاعدہ ان کے جوابات دیتے ہیں اور جو نئے ساتھی رابطہ کرنا چاہیں وہ وہاں کمنٹس کر سکتے ہیں ، ای میل کر سکتے ہیں ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان کو مطمئن کریں اور وہ ہمارے ساتھ رابطے میں رہیں ۔ تنظیم میں شامل ہونے کے بعد سب سے پہلا کام اپنی ذات پر اسلام کا نفاذ ہے۔ ڈاکٹرصاحبؒ کا بڑا پیارا جملہ ہے کہ دین کا اصل مخاطب فرد ہے۔ لہٰذا جہاد اپنی ذات سے شروع ہوگا ، یہاں سے اللہ کا کلمہ سربلند ہونا ہے ، اپنی ذات پر ہمارا اختیار ہے ، یہاں اسلام کا نفاذ ہوگا تو اس کے بعد بات آگے بڑھے گی ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024