(اداریہ) سرمایہ دارانہ نظام، جمہوریت اور اسلام - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاسرمایہ دارانہ نظام، جمہوریت اور اسلامکیپٹلزم یعنی سرمایہ دارانہ نظام قریباً اڑھائی صدیوں سے اپنے مقاصد کے حصول کے حوالے سے بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس کے ردِعمل میں کمیونزم اور سوشلزم وغیرہ آئے لیکن پون صدی میں ہی بُری طرح ناکام ہو کر پسپا ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ کیپٹلزم ایک استحصالی نظام ہونے کے باوجود کیوں ایک طویل عرصہ سے اپنے پنجے دنیا پر گاڑھے ہوئے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نظام نے انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک مراعات یافتہ سرمایہ دار طبقہ اور دوسرا اُن کا خدمت گزار اور اُن کے سرمائے میں اضافہ کرنے کے لیے جُت جانے والا طبقہ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے معماروں نے یہ عقل مندی کی کہ اپنے خدمت گزار طبقہ کو بھی اتنا کچھ دیا کہ اُس کا پیٹ بھرا رہے۔ اُسے زندگی کی انتہائی بنیادی ضروریات فراہم ہوتی رہیں اور اُس پر بھوک، ننگ اور مایوسی طاری نہ ہو اور سرمایہ داروں کی دولت میں روز بروز اضافہ کرنے کے لیے اُس کے جسم میں توانائی موجود رہے۔ حسن اتفاق ہی سمجھیں کہ جب سرمایہ دارانہ نظام کا جال بچھایا جا رہا تھا اُن ہی دنوں میں یورپ میں انسانی حقوق کا غلغلہ بلند ہونا شروع ہوا اور ظلم و جبر اور استبداد و استحصال کے خاتمے کی بھرپور جدوجہد بھی چل ر ہی تھی۔ یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے جو کسی نہ کسی درجہ میں درست ہوگی کہ اس جدوجہد کا نتیجہ انقلابِ فرانس کی صورت میں سامنے آیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے معماروں نے بھانپ لیا کہ اس عوامی رجحان اور اُس سے پیدا ہونے والے نتائج کو مکمل طور پر پابند سلاسل نہیں کیا جا سکتا گویا اقتدار کی راہداریوں میں عوام کو حصہ دینا ناگزیر ہوگیا ہے تو خود سرمایہ داروں نے اپنے زیرنگرانی جمہوریت کی نقاب کشائی کی اور یہ طے کر دیا گیا کہ نظام سرمایہ دارانہ ہوگا اور جمہوری طرزِ حکومت ہوگا گویا اس استحصالی، ظالمانہ اور بدنما نظام پر جمہوریت کا دیدہ زیب غلاف چڑھا دیا گیا۔ لیکن اُس کی طنابیں اپنی گرفت میں رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی غریب یا متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والا شخص جمہوریت کو سیڑھی بنا کر اقتدار کی منزل حاصل نہیں کر سکتا۔ اسی کا ردِعمل ہوا کہ کمیونزم بڑے قلیل عرصہ میں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر چھا گیا۔ لیکن حقیقت میں کمیونزم ریاستی کیپٹلزم کی بدترین شکل ثابت ہوا اور بمشکل پون صدی نکال سکا اور غتربود ہوگیا۔
بے لگام سرمایہ دارانہ نظام تو اسلام کی ضد ہے۔ اس نظام کی بنیاد انسانوں کے استحصال اور ظلم و جبر پر ہے جبکہ اسلام کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ عدل اسلام کا مرکز و محور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت نے بعض اصول اسلام سے مستعار لیے ہیں۔ مثلاً سیاسی نظام کے حوالے سے اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں جو بنیادی اصول دیتا ہے:{ وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ} اس اصول کو جمہوریت نے بڑی گہرائی اور گیرائی سے اپنایا۔ لہٰذا جمہوری اداروں میں مشاورت کا عمل بہت زیادہ ہوتا ہے۔
انسانوں نے جب انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف کا سفر شروع کیا تو پہلے قبیلے وجود میں آئے۔ بعد ازاں قبیلے مل کر سلطنتوں کی شکل اختیار کر گئے تو بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسلام کاجب آغاز ہوا تو ایران اور روم جیسی بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہو چکی تھیں اور حکمرانی کا سلسلہ نسل در نسل چلتا تھا۔
پہلی اسلامی ریاست کے فطری سربراہ حضور ﷺ تھے۔ اُنہوں نے کسی کو اپنا جانشین نامزد نہ کیا۔ البتہ آئندہ خلیفہ قرشی ہونے کی شرط عائد کر دی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ایک مشاورت کے بعد خلیفہ منتخب کر لیا گیا۔ آپؓ کے دورِ خلافت میں بہت سے فتنوں نے سر اٹھا لیا تھا۔ آپؓ اپنے سوا دو سال کے دورِ خلافت میں ان فتنوں کو فرو کرتے رہے اور اس دنیائے فانی سے کوچ کرنے سے پہلے حضرت عمر فاروق ؓ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ حضرت عمر فاروق ؓ اپنے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ حج کا فریضہ ادا کر رہے تھے کہ ان کے کان میں یہ بات پڑی کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمرؓ کے بعد فلاں شخص کو خلیفہ بنا لیں گے۔ آپؓ نے اس پر سخت ردِ عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ تو لوگوں کا حق ہے کہ وہ طے کریں کہ اُن کا خلیفہ کون ہوگا؟ اور جب بدبخت ابو لُولُو مجوسی نے اُن پر قاتلانہ حملہ کیا تو آپؓ نے زخمی حالت میں چھ افراد کی کمیٹی بنا دی جسے نئے خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا۔ چار دستبردار ہوگئے، حضرت عثمانh اور حضرت علیؓ رہ گئے تو حضرت عبدالرحمان بن عوفhکی ذمہ داری لگائی گئی کہ لوگوں کی رائے لی جائے۔ ان میں سے خلیفہ بننے کے لیے کس کو ترجیح دی جائے۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ نے مدینہ کے مردوں سے عورتوں سے یہاں تک کہ گلی میں کھیلتے ہوئے بچوں سے حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے بارے میں رائے دریافت کی اور پھر حضرت عثمان ؓ کے حق میں فیصلہ سنایا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی تخت نشینی کا باقاعدہ اعلان ہوگیا، لیکن اُنہوں نے اُس وقت تک خلافت قبول نہ کی جب تک ایک وسیع سطح پر مشاورت نہ ہوئی اور اُن کے خلیفہ بننے کی تائید اور توثیق نہ کی گئی۔ تاریخ اسلام سے اس طرح کے درجنوں واقعات تحریر کیے جا سکتے ہیں جس سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کے اوّلین دور میں خلیفہ کی تعیناتی کے لیے مختلف طریقوں سے عوام کی رائے حاصل کی گئی۔ اگرچہ اُس دور میں انتخابات یا ووٹنگ کا باقاعدہ طریقہ ہرگز طے نہیں تھا۔ لیکن جمہور کی رائے کو اوّلین فوقیت دی جاتی تھی تا آنکہ خلافت ملوکیت کا جزو لاینفک بن گئی اور عوامی رائے کا حصول یا اُس کا لحاظ قصہ ماضی بن گیا۔ لیکن ہم یہاںیہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آج جو جمہوریت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں عوام طے کرتے ہیں کہ حکمران کون ہوگا ،یہ بھی اولاً اور اصلاً اسلام کا بتایا ہوا راستہ ہے، جسے آج کے دور میں صرف institutionalizeکیا گیا ہے۔ پھر یہ کہ سرمایہ داروں نے اپنے سرمائے کو بروئے کار لا کر اس کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور سرمایہ دار ہی اس جمہوریت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
ہمارے مذہبی طبقہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے نقاب پوش دشمن سرمایہ دارانہ نظام تک پہنچ ہی نہیں پا رہا۔ اس صورت میں اُسے پہچانے گا کیسے اور اُس کی وارداتوں کا توڑ کیسے کرے گا۔ اس لیےکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جو سودی معیشت اور میڈیا کے ذریعے دنیا پر حکومت کر رہا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کو خاص طور پر ظلم و ستم کا ہدف بنائے ہوئے ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے پشتیبان جمہوریت کو اپنی ڈھال بنا کر اپنے قبضہ کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اپنے سامراجی پنجوں کو زیادہ سے زیادہ زور دار انداز میں دنیا پر گاڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارا مذہبی طبقہ صحیح صورتِ حال کو سمجھنے میں بُری طرح ناکام ہو رہا ہے، لہٰذا لٹھ لے کر جمہوریت کے پیچھے پڑ گیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں مکمل طور پر خاموش ہے۔ گویا وہ چور پر حملہ آور ہے چور کی ماں کو کچھ نہیں کہہ رہا حالانکہ جمہوریت میں سے وہ چیزیں نکال دی جائیں جو کافرانہ اور مشرکانہ ہیں تو باقی وہ جمہوریت بچے گی جو اسلام سے مستعار لی گئی ہے۔ اگر مسلمان اور اُن کے رہنما مل جل کر سرمایہ دارانہ نظام پربراہِ راست حملہ آور ہوں تو کامیابی کی صورت میں جمہوریت میں موجود وہ تمام کافرانہ اور مشرکانہ شِقات ہرگز نہیں ٹھہر سکیں گی اور خود بخود ایک ایسا نظام اور طرزِحکومت سامنے آئے گا جس میں حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العزت کی ہوگی کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوگی اور حکمران کی حیثیت اُس کے نائب اور خلیفہ کی ہوگی۔ پھر زمین پر بھی حکومت الٰہیہ اُسی طرح ہوگی جیسی آسمانوں میں ہے۔ آئیے! اپنے اصل دشمن (سرمایہ دارانہ نظام) کو پہچانیں اور اُس کا تیا پانچہ کریں طرزِ حکومت خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔