(الہدیٰ) حضرت سلیمان ؑ کاملکہ ٔسبا کے نام خط - ادارہ

9 /

الہدیٰ

حضرت سلیمان ؑ کاملکہ ٔسبا کے نام خط

آیت 27{قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ(27)} ’’سلیمانؑ نے کہا: ہم عنقریب دیکھیں گے کہ تم نے سچ کہا ہے یا تم جھوٹے ہو۔‘‘
ہم معلوم کر لیں گے کہ واقعی تم ایک سچی خبر لے کر آئے ہو یا اپنی غیر حاضری کی سزا سے بچنے کے لیے جھوٹا بہانہ بنا رہے ہو۔
آیت 28{اِذْہَبْ بِّکِتٰبِیْ ہٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَیْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانْظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَ(28)} ’’میرا یہ خط لے جائو‘ اسے ان کے پاس جا کر ڈال آئو‘ پھر ان سے الگ ہو کر دیکھتے رہو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔‘‘
چنانچہ وہ ہد ہد حضرت سلیمان ؑ کا خط لے گیا اور جا کر ملکہ کے آس پاس یا شاید اس کی خواب گاہ میں پھینک دیا۔ ملکہ نے یہ غیر معمولی خط پڑھا تو فوری طور پر قوم کے بڑے بڑے سرداروں کو مشورے کے لیے دربار میں طلب کر لیا۔
آیت 29{قَالَتْ یٰٓــاَیُّہَا الْمَلَؤُا اِنِّیْٓ اُلْقِیَ اِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیْمٌ(29)}’’اُس نے کہا کہ اے (میری قوم کے) سردارو! میری طرف ایک بہت عزّت والا خط ڈالا گیا ہے۔‘‘
آیت 30 {اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(30)} ’’یہ (خط) سلیمان کی طرف سے ہے اور اس کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ہواہے۔‘‘
یہ قرآن کا واحد مقام ہے جہاں ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ سورت کے اندر اس کے متن میں شامل ہے۔ باقی ہر جگہ یہ سورتوں کے آغاز میں لکھی گئی ہے۔ اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ سورتوں کے آغاز میں جہاں جہاں بھی بسم اللہ لکھی گئی ہے کیا اسے ایک آیت مانا جائے گا یا جتنی مرتبہ لکھی گئی ہے اتنی آیات شمار ہوں گی۔

درس حدیث

فخر سے پرہیز کرے

عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَار رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی اَوْحٰی اِلَیَّ اَنْ تَوَاضَعُوْا حَتّٰی لَایَبْغِیْ اَحَدٌ عَلٰی اَحَدٍ وَلَا یَفْخَرَ اَحَدٌ عَلٰی اَحَدٍ))(رواہ مسلم)
حضرت عیاض بن حمار ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے مطلع فرمایا ہے کہ تواضع و خاکساری اختیار کرو تاکہ نہ ایک دوسرے پر کوئی ظلم کرے، اور نہ باہم ایک دوسرے پر فخر و مباہات کا اظہار کرے۔ ‘‘
-----------------------
کبریائی اور بڑائی دراصل صرف اس ذات پاک کا حق ہے جس کے ہاتھ میں سب کی موت و حیات اور عزت اور ذلت ہے۔ اب انسان اگر کبریائی اور بڑائی کا دعوے دار ہو اور اللہ کے بندوں کے ساتھ غرور و تکبر اس کا رویہ ہو وہ گویا اپنی حقیقت بھول کر اللہ تعالیٰ کے مد ِ مقابل آتاہے، اس لیے وہ بہت بڑا مجرم ہے اور اس کا جرم نہایت سنگین ہے۔