(گوشۂ تربیت) ہماری دعوت کا اوّلین میدان… ہمارا گھر - ادارہ

9 /

ہماری دعوت کا اوّلین میدان… ہمارا گھر

مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت ، تنظیم اسلامی

گھر انسانی معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ بہت سے گھر مل کر ایک محلہ بناتے ہیں۔ پھر بہت سے محلے مل کر گاؤں اور قصبہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اسی طرح شہر ،ملک اور خطے وجود میں آتے ہیں ۔ بہت سے گھر مل کر ایک معاشرہ کو جنم دیتے ہیں۔ اگر ہر ہر گھر درست ہوجائے تو معاشرہ درست ہوسکتا ہے۔
پھر دنیا میں انسان کے لیے سب سے زیادہ سکون کی جگہ گھر ہی ہوتا ہے۔ گھر میں ایک ساتھ رہنے والے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے لیے قُرب اور محبت رکھتے ہیں۔
اسی محبت اور قُرب کا نتیجہ ہے کہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد کا مستقبل سنور جائے۔ انہیں اپنی آئندہ زندگی میں کوئی تکلیف نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً تمام والدین ہی اپنی اپنی سمجھ اور اپنی ترجیحات کے مطابق اپنے گھر کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک سماجی رویے بہت اہم ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے نزدیک مال و دولت کی اہمیت ہوتی ہے ، وہ اپنی اولاد کو مال کمانے کے گُر سکھا تے ہیں۔ مقتدر طبقات کے لوگ اپنی اولاد کو حکمرانی کے طور طریق اور سیاست سکھاتے ہیں۔ تاہم عام لوگوں کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ان کی اولاد تعلیم حاصل کرے، پڑھ لکھ کر بہت اچھی نوکری کرے یا اعلیٰ کاروبار کرےاور مادی طور پر سبھی والدین اپنی اولاد کی تمام ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنی اولاد کو اچھا کھلائیں، اچھا پہنائیں اور اچھی جگہ ان کی شادی کریں۔
لیکن سربراہِ خاندان کی اس سے بڑھ کر بھی ایک بہت اہم ذمہ داری ہے جس کی طرف عموماً توجہ نہیں دی جاتی اور وہ ہے اپنے اہل و عیال کی آخرت کی کامیابی اور آخرت کی فوز وفلاح کی فکر کرنا تاکہ وہ جنت میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں اور جہنم کے ابدی عذاب سے بچ جائیں۔ سورۃ تحریم آیت نمبر 6 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اے اہل ایمان! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر ۔ اس پر بڑے تند خو‘ بہت سخت دل فرشتے مامور ہیں۔ اللہ ان کو جو حکم دے گا وہ فرشتے اس کی نافرمانی نہیں کریں گے اور وہ وہی کریں گے جس کا انہیں حکم دیا جائے گا۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں بانیٔ محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں اہل ِایمان کوا ن کے اہل وعیال کے بارے میں خبردار کیا جارہا ہے کہ بحیثیت شوہر اپنی بیویوں کو اور بحیثیت باپ اپنی اولاد کو دین کے راستے پر ڈالنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ یہ مت سمجھو کہ ان کے حوالہ سے تمہاری ذمہ داری صرف ضروریات زندگی فراہم کرنے کی حد تک ہے، بلکہ ایک مومن کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کے حوالہ سے تمہارا پہلا فرض یہ ہے کہ تم انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کرو۔ اس کے لیے ہر وہ طریقہ اختیار کر نے کی کوشش کرو جس سے ان کے قلوب و اذہان میں دین کی سمجھ بوجھ، اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور آخرت کی فکر پیدا ہوجائے تاکہ تمہارے ساتھ ساتھ وہ بھی اس جہنم کی آ گ سے بچ جائیں۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ جہنم پر مامور فرشتے مجرموں کو جہنم میں جلتا دیکھ کر ان پر رحم نہیں کھائیں گے اور نہ ہی ان کے نالہ و شیون سے متاثر ہوں گے۔ تو کیا ہم ناز ونعم میں پلے اپنے لاڈلوں کو جہنم کا ایندھن بننے کے لیے ان سخت دل فرشتوں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں؟ہم میں سے ہر ایک کو اس زاویہ سے اپنی ترجیحات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے اہل و عیال کو جنت کی طرف لے جارہے ہیں یا جہنم کا راستہ دکھا رہے ہیں؟
اپنے بہترین وسائل خرچ کر کے اپنی اولاد کو ہم جو تعلیم دلوارہے ہیں، کیا وہ ان کو دین کی طرف راغب کرنے والی ہے یا ان کے دلوں میں بغاوت کے بیج بونے والی ہے؟ اگر تو ہم اپنے اہل و عیال کو اچھے مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کر رہے اور ان کے لیے ایسی تعلیم و تربیت کا اہتمام نہیں کر رہے جو انہیں دین کی طرف راغب کرنے اور فکرِ آخرت سے آشنا کرنے کا باعث بنے تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم محبت کے نام پر ان سے عداوت کر رہے ہیں۔‘‘ ( بیان القرآن جلد ہفتم صفحہ 289)
آئیے! احادیث نبویہ ﷺ کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی کیا اہمیت ہے؟ اور اس کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس iسے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’اپنے بچوں کی زبان سے سب سے پہلے’’ لَا إلٰهَ إلَّا اللهُ ‘‘ کہلواؤ اور موت کے وقت ان کو اسی کلمہ ’’لَا إلٰهَ إلَّا اللهُ ‘‘ کی تلقین کرو ۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)
انسانی ذہن کی صلاحیتوں کے بارے میں جدید تجربات اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پیدائش ہی کے وقت سےبچنے کے ذہن میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جو آوازیں کان سےسنے اور آنکھوں سے جو کچھ دیکھے، اس سے اثرلے۔ یہی وجہ سے کہ حضور اکرم ﷺ نے بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے کی تلقین فرمائی۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’تمہارے بچے جب سات سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز کی تلقین کرو۔ اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز میں کوتاہی پر ان کو سزا دو اور ان کے بستر بھی الگ کردو۔‘‘
اصل میں بچے سات سال کی عمر میں سمجھد ار اور باشعور ہوجاتے ہیں ۔ اس عمر میں ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہیے اور اس کے لیے ان سے نماز کی پابندی کرانی چاہیے ۔ دس سال کی عمر میں ان کا شعورکافی ترقی کرجاتا ہے اور ان کے بلوغ کا زمانہ بھی قریب آجاتا ہے۔ اس وقت نماز کے بارے میں ان پر سختی کرنی چاہیے اور اگر وہ کوتاہی کریں تو مناسب طور پر ان کی سرزنش بھی کرنی چاہیے۔
انبیاء کرام ؑ نے بھی دعوت و تبلیغ کے لیے یہی طریقِ کار اختیار کیا ۔ سیدنا ابراہیم ؑ نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو دین کی دعوت دی۔ جس کا تذکرہ سورۃ مریم آیات 42 تا 45 میں موجود ہے:
’’یاد کیجئے جب ابراہیم نے اپنے والد سے کہا: ابا جان! آپ کیوں بندگی کرتے ہیں ایسی چیزوں کی جو نہ سن سکتی ہیں اور نہ دیکھ سکتی ہیں اور نہ ہی آپ کے کچھ کام آ سکتی ہیں۔ ابا جان! یقینا ًمیرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا پس آپ میری پیروی کیجیے‘ میں آپ کو دکھائوں گا سیدھاراستہ۔ ابا جان! آپ شیطان کی بندگی نہ کیجیے‘ شیطان یقیناً رحمٰن کا نا فرمان تھا۔ اباجان! مجھے اندیشہ ہے کہ رحمن کی طرف سے کوئی عذاب آپ کو آ پکڑ ے اور پھر آپ شیطان ہی کے ساتھی بن کر رہ جائیں۔‘‘
’’ يَا أَبَتِ ‘‘ کی تکرارسے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابراہیم ؑ انتہائی محبت اور دلسوزی کے ساتھ باپ کو سمجھا رہے ہیں کہ آپ شیطان کی بندگی مت کیجئے اور میری پیروی کیجئے۔ میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔ پھر آخرت کے برے انجام سے بھی خبردار کرتے ہیں۔ پھر اپنے والد اور اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے نماز کا عادی بنانے بالفاظ دیگر سیدھے راستہ پر چلانے کی دعا کرتے ہیں۔ اور اپنے والدین کے لیےاستغفار کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام باتیں ہماری رہنمائی کے لیے درج کی ہیں کہ اپنے اہل و عیال ، اپنے والدین سے محبت کا اولین تقاضا ہے کہ انہیں سیدھے راستے پر چلانےکی کوشش کی جائے اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کی جائے۔
نبی اکرم ﷺ کی دعوت میں بھی ہمیں یہی انداز نظر آتا ہے ۔ سب سے پہلے آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں میں آپ ﷺ کی اہلیہ حضرت خدیجہ ؓ ، غلام حضرت زید بن حارثہ ؓ ، چچازاد بھائی حضرت علی المرتضیٰ ؓ اور جگری دوست حضرت ابوبکر صدیق ؓ شامل ہیں۔
اہل ِخانہ کی تربیت بہت محبت اور دلسوزی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ تا ہم کبھی کبھی تا دیب کے لیے سختی بھی ضروری ہوتی ہے۔ مگر اس سختی کا استعمال بھی حکمت کے ساتھ ہونا چایئے ۔ حد سے زیادہ مارپیٹ کے نتائج الٹ نکلتے ہیں۔ بچے تعلیم ہی سے متنفر ہوجاتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ’’ کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے‘‘
اہل و عیال کی تربیت کے ضمن میں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ ان کی محبت حدِّ اعتدال سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ سورۃ التغابن آیت 14 میں ارشاد ربّانی ہے:
’’اے ایمان کے دعوے دارو! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ‘سو ان سے بچ کر رہو۔ اور اگر تم معاف کر دیا کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور بخش دیا کرو تو اللہ بہت بخشنے والا ‘نہایت مہربان ہے۔‘‘
آج ہمارےمعاشرے کے روایتی مسلمانوں کو تو بیوی ، بچوں کی دشمنی والی بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ لیکن اگر کوئی بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کسی انقلابی تحریک کے کارکن کی حیثیت سے اقامتِ دین کی جدوجہد میں مصروف ہو تو اس پر یہ حقیقت بہت جلد واضح ہوجاتی ہے کہ اس راستے میں بیوی بچوں کی محبت کس طرح پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ بیوی کی بے جا فرمائشیں، بچوں کی حد سے بڑھی ہوئی ضروریات، ان کی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے اخراجات اگر حلال کی کمائی سے پوری نہیں ہوں گی تو انسان کیا کرے گا۔ یا تو حرام میں منہ مارے گا یا ڈالرکمانے ملک سے باہر جائے گا۔ دونوں صورتوں میں بچوں کی اسلامی خطوط پر تربیت نہ ہو سکے گی اور ان کی آخرت بر باد ہو کر رہ جائے گی۔
یہ معاملہ چونکہ بہت نازک اور حساس ہے۔ اس لیئے اگلے جملے میں اہل و عیال کے ضمن میں نرمی اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے کہ اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے اپنے اہل و عیال کے معاملات کو نرمی اور حکمت سے نمٹاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارا گھر صبح و شام میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘(متفق علیہ)
اس حدیث مبارکہ کے مطابق ہم اپنے اہل خانہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہیں کہ ان کے ضمن میں ہم نے اپنی ذمہ داری نبھائی یا نہیں ۔اسی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے تنظیم اسلامی کے ملتزم ررفقاء کے لیے یہ لازمی کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال اور اپنے زیر ِ کفالت افراد کی تربیت کے لیے ایک ’’گھریلو اُسرہ‘‘ کا قیام عمل میں لائیں۔ مبتدی رفقاء اور احباب کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے اہل خانہ کی تربیت کے لیے ’’گھریلواُسرہ‘‘ ضرور قائم کریں۔ سربراہِ خاندان خود اس اسرہ کا منتظم ہو اور خاتون خانہ اس کام میں شوہر کی معاونت کریں۔ بہتر ہوگا کہ یہ مجلس ہفتہ وار منعقد کی جائے اور اس کا دورانیہ کم از کم ایک گھنٹہ ہو۔
اسرہ کا نصاب درج ذیل تجویز کیا جارہا ہے جس کی ذمہ داری گھرانہ کے مختلف افراد مل جل کر نبھائیں۔
1) تلاوت اور ترجمہ قرآن
2) آداب زندگی ( محمد یوسف اصلاحی) سے بنیادی اخلاقیا ت کا مطالعہ
3) سیرۃ النبی ﷺ ( ترجیحا ًالرحیق المختوم) کا سلسلہ وار مطالعہ
4) سیرتِ صحابہ ؓ / صحابیات ؓ کا مطالعہ
5) مشہور دینی شخصیات کے دل پر اثر کرنے والے واقعات
عمر کے مختلف ادوار میں بھی تعلیم و تربیت کا مختلف انداز بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔10 سال کی عمر تک پیار محبت سے ، اس کے بعد ہلکی پھلکی سختی اور پھر جوانی کے دور میں صرف دلائل اور محبت کے ساتھ بات سمجھانی چاہیے۔
دورِ حاضرمیں سکول ، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم نہ صرف سیکولر ہے بلکہ دین سے دور کرنے والی بھی ہے۔ ایمان میں شکوک پیدا کرتی ہے۔ اس کائنات کے علم کو ہی اصل علم قرار دیتی ہے۔طبیعیا ت کے قوانین کو حتمی قرار دیتی ہے۔ تعلیم کا پورا زور جسم، کائنات اور حیات دنیوی کی طرف ہے۔ اللہ ، روح اور حیات اُخروی کی طرف بالکل توجہ نہیں۔ ان حالات میں تو اب ہماری ذمہ داری اور زیادہ بڑھ گئی ہے کہ گھر پر ان کی دینی تعلیم کا بندوبست کریں اور مروّجہ تعلیمی اداروں کی پھیلائی ہوئی گمراہی اور مغالطوں کو دور کرنے کی فکر کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ خود بھی دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں حصہ لیں اور اس جدوجہد میں اپنے اہل و عیال کو بھی شریک کریں۔ تاکہ غلبہ ٔ دین کی راہ ہموار ہو سکے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اہل و عیال کی تربیت کے ضمن میں ہماری مدد فرمائے۔ ہمارے والدین اورہمارے اہل وعیال سمیت تمام مومنین کی مغفرت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین!