(خصوصی مہم) بقائے پاکستان نفاذِ عدلِ اسلام - ادارہ

9 /

بقائے پاکستان
نفاذِ عدلِ اسلام

 

آج سے پون صدی قبل مسلمانانِ برِّعظیم پاک و ہند نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اے اللہ! اگر تو ہمیں آزادی عطا فرما دے تو ہم تیرے عطا کردہ دین اسلام کو اپنی ذاتی زندگیوں اور اجتماعی نظام میں بھی نافذ کریں گے۔ خیبر سے کراچی اور پشاور سے راس کماری تک ایک ہی نعرے کی گونج سنائی دیتی تھی کہ ”پاکستان کا مطلب کیا! لا الٰہ الا اللہ“۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں سن لیں اور ہندو اور انگریز کی دوہری غلامی سے نجات عطا فرمائی اور انتہائی ناسازگار حالات کے باوجود دو قومی نظریہ کی بِنا پر دورِ نبوی ﷺ میں قائم ہونے والی ریاست کے بعد دنیا کی دوسری عظیم ترین اسلامی ریاست وجود میں آئی۔
قیامِ پاکستان ایک معجزہ: اس اعتبار سے بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا بن جانا دورِ حاضر کا ایک بہت بڑا معجزہ تھا کیونکہ کسی ریاست کے قیام کے جتنے بھی ممکنہ دنیاوی اسباب ہو سکتے ہیں ان میں سے کوئی ایک سبب بھی پاکستان کی پشت پر موجود نہیں تھا۔
ملکوں اور قوموں کی بقا کے لیے بنیادیں: ملکوں اور قوموں کی بقا کے لیے جو چیزیں بنیاد بن سکتی ہیں وہ مختصراً درج ذیل ہیں:
تاریخی تقدس:تاریخی تقدس (Historical Sanctity) کسی ملک کے نام کو حاصل ہو جائے تو اس ملک کے عوام اس تقدس کے نام پر متحد ہو جاتے ہیں اور اس کا نام نہیں بدلا کرتا۔ جیسے چین کا بہت بڑا رقبہ جاپان کے زیرِ تسلط رہا لیکن چین چین رہا اور جاپان جاپان۔ جبکہ یہ تقدس ہمیں حاصل نہیں کیونکہ پون صدی قبل پاکستان کے نام سے دنیا میں کوئی ملک موجود ہی نہیں تھا۔
جغرافیائی عامل: کسی ملک کی بقا کے لیے دوسری اہم بنیاد جغرافیائی سرحدوں کی قدرتی تقسیم ہے۔ بعض ممالک بڑے دریاؤں اور پہاڑوں کی صورت میں قدرتی سرحدوں کے حامل ہوتے ہیں جو انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ لیکن نہ تاریخ ہماری پشت پر ہے نہ جغرافیہ!!
قومی جذبہ: تیسری چیز جو کسی ملک کی بقا کی بنیاد ہو سکتی ہے وہ ہے قومی عصبیت اور قومی جذبہ۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر کوئی مضبوط قوم پرستانہ جذبہ بیدار ہو جائے تو وہ تاریخ سے بھی لڑ جاتا ہے اور جغرافیہ کو بھی شکست دے دیتا ہے۔
قومیت کے لیے جو چیز بنیاد بن سکتی ہے وہ نسل بھی ہو سکتی ہے، زبان اور وطن بھی۔ نسلی قومیت کا جذبہ آج بھی بڑا مؤثر جذبہ ہے جیسے جرمن قوم کہتی ہے کہ ”ہم ایک اعلیٰ نسل ہیں“۔ اسی طرح یہودی کہتے ہیں کہ ”ہم اللہ کے بڑے چہیتے اور لاڈلے ہیں“ اور درحقیقت اسرائیل اسی نسل کی بنیاد پر بننے والا ملک ہے نہ کہ مذہب کی بنیاد پر۔ کیونکہ مذہبی یہودی تو اس کی پشت پر تھے ہی نہیں۔
اس کے برعکس اہل پاکستان کے پاس ان میں سے کوئی بھی ایک مشترک عصبیت یا قومیت موجود نہیں بلکہ پاکستان تو نسلوں، زبانوں اور علاقائی لحاظ سے ایک ”ملغوبہ“ ہے۔ کیونکہ ہم نے وطنی اور علاقائی قومیت کی کامل نفی کی بنیاد پر ہی تو یہ ملک حاصل کیا تھا کہ ”پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ“ اور اسی بنیاد پر ہی تو پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا جس کا مقصد تھا کہ دین اسلام پر انفرادی و اجتماعی زندگی میں عمل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے زمین پر اس کے عطا کردہ عادلانہ نظام کو نافذ کیا جائے۔
اللہ سے کیا ہوا نفاذِ اسلام کا عہد نہ نبھانے کی سزا:
قیامِ پاکستان کے بعد نفاذِ عدلِ اسلام کے عہد کو نبھانے کی بجائے ہم نے طاغوت کی غلامی شروع کردی، جس کے نتیجہ میں:
• ہم پر عذاب الٰہی کا پہلا کوڑا 1971 میں برسا اور مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا اور کم و بیش 93ہزار پاکستانی ہندوستان کی قید میں چلے گئے۔
• مذہبی، علاقائی، لسانی اور سیاسی سطح پر ہم آپس میں دست وگریبان ہیں۔
• عزت و غیرت اور اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔
• معیشت کی تنگی اور ملکی سالمیت کو لاحق خطرات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
• آئی ایم ایف سے معاہدوں کی مسلسل بھیک مانگنا ہم نے اپنا مقدر سمجھ لیا ہے۔
• ایک طرف عوام بھوک اور مہنگائی سے بِلک رہے ہیں اور جرائم میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف اشرافیہ کے جانور تک ائیرکنڈیشنڈ ماحول میں کھاتے پیتے اور علاج معالجہ کی سہولیات حاصل کرتے ہیں۔ معاشرے میں یہ اتنی بڑی تقسیم اس لیے پیدا ہوئی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی غلامی کرنے کی بجائے اپنے نفس، باطل نظام، امریکہ، آئی ایم ایف، سیکولر قوتوں اور دیگر انسانوں کی غلامی کو قبول کر لیا ہے۔
• ہماری بد اعمالیوں اور قومی جرائم کے باعث اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مظاہر دن بدن سامنے آ رہے ہیں۔ کبھی سیلاب، طوفانی بارشیں، زلزلوں کے جھٹکے اور کبھی دیگر قدرتی آفات کے باوجود ہم ہوش میں آنے اور توبہ کرنے کو تیار نہیں ہو رہے۔
انفرادی و اجتماعی توبہ وقت کی اہم ترین ضرورت : بحیثیت امت مسلمہ ہمارا سب سے پہلا فرض اور ضرورت یہ ہے کہ ہم دوبارہ اللہ کے ساتھ تجدید عہد کریں اور اپنی غلطیوں کی معافی مانگ کر انفرادی اور اجتماعی سطح پر توبہ کریں۔ تاکہ ہم تمام تر غلامیوں سے آزاد ہو کر ایک اللہ سُبحانہ وتعالیٰ کی غلامی اختیار کر سکیں۔ بقولِ اقبالؒ
یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!
پاکستان کے مسائل کا اصل حلـ- نفاذِ عدلِ اسلام
• پاکستان کے مسائل کا اصل حل اسلام اور ”نفاذِ اسلام“ کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہی اسلامی اور دینی جذبہ پاکستان کو وجود میں لایا تھا اور یہی اس کی بقا کی واحد بنیاد ہے۔
• پاکستان کو اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ اور مستحکم کرنے کے لیے قرآن و سنت کی بالا دستی لازم ہے جس کا اقرار اور اظہار ہم ریاستی سطح پر 1973 ء کے آئین میں بھی کئے بیٹھے ہیں۔
• انسانی استحصال پر مبنی ”سودی نظامِ معیشت“ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے نہ صرف اللہ تعالیٰ سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو گا بلکہ ملک بھی خوشحالی کی طرف گامزن ہو گا۔
• عوام کی عزتوں کو محفوظ بنانے کے لیے مخلوط معاشرت کے شیطانی نظام کو یکسر خیر باد کہہ کر اسلامی معاشرتی نظام اور اقدار کو اپنانا ہو گا۔
• آج یہ دینی جذبہ پہلے سے کہیں بڑھ کر درکار ہے اور اس کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر عملی طور پر اسلام کو اپنانا ہو گا۔ اور اگر یہ عملی اسلامی جذبہ جلدازجلد بھرپور انداز میں بروئے کار نہ آیا تو باقی تمام چیزوں کی اصلاح کے باوجود پاکستان یا تو خدانخواستہ اپنی سالمیت ہی کو کھو بیٹھے گا یا اگر باقی رہے گا بھی تو کسی دوسری بڑی طاقت کا طفیلی یا زیردست ہو کر۔
نفاذِ اسلام کا مطلب اور اس کا طریقہ کار
نفاذِ اسلام کا مطلب محض چور کے ہاتھ کاٹنا، زانی کا سنگسار کرنا یا قاتلوں سے قصاص لینا وغیرہ ہی نہیں بلکہ اسلام کے عادلانہ نظام کا مکمل نفاذ ہے جس میں تمام مسلمان حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ایک باعزت شہری کی حیثیت سے کر سکیں۔ نیز ہر شہری کی جان و مال اورعزت محفوظ ہو، اور عوام الناس کی بنیادی کفالت کی ذمہ داری اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہو۔
حقیقت یہ ہے نفاذِ اسلام کا اصل حاصل پاکیزہ، فلاحی اور عادلانہ نظام کا قیام ہے جس کے لیے
رسولِ انقلاب محمد رسول اللہ ﷺ کے انقلاب سے راہنمائی لیتے ہوئے رائج الوقت ظالمانہ نظام کو تبدیل کرنے لیے ایک پُر امن اور منظم انقلابی تحریک برپا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
آئیے!
بقائے پاکستان اور نفاذِ عدلِ اسلام کی اجتماعی جدوجہد میں شریک ہو کر اس عظیم فریضہ کی ادائیگی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ مسلمانانِ پاکستان کو اپنا بھولا ہوا سبق اور عہد یاد آجائے اور وہ ہماری جدوجہد کو کامیاب بنائے، تاکہ پاکستان کو بقا اور دوام حاصل ہو اور پاکستان کے عوام دنیا میں امن اور آخرت کی اصل کامیابی پاسکیں۔