(زمانہ گواہ ہے) دہشت گردی کی نئی لہر ، وجوہات اور سدباب - محمد رفیق چودھری

9 /

جب افغان طالبان حکومت کے پاکستان کےساتھ تعلقات بگڑے تو اُن

کے لیے TTPپر اپنی گرفت کو قائم رکھنا آسان نہ رہا۔ اس کے بعد

دہشت گردی کی یہ نئی لہر شروع ہوئی : ایوب بیگ مرزا

2023ء میں دہشت گردی کے واقعات دوبارہ بڑھے ہیں اور اب اس عفریت

پر قابو پانے کے لیے سوچ سمجھ کر لائحہ عمل بنانا ہو گا: رضاء الحق

پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی پھیلائی جارہی ہے اس کے پیچھے بیرونی

قوتیں ملوث ہیں: کرنل (ر) سیف الدین قریشی

دہشت گردی کی نئی لہر ، وجوہات اور سدباب کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمدباجوہ

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: باجوڑکے خود کش دھماکہ میں بہت سا جانی اور مالی نقصان ہوا ۔ آپ کے خیال میں بلوچستان اور کے پی کے میں اُٹھنے والی دہشت گردی کی اس نئی لہر کے پیچھے اصل ماسٹر مائنڈ کون ہے؟
رضاء الحق:اس سال جنوری سے لے کر اب تک تقریباً 47حملے ہو چکے ہیں ۔ ان میں خود کش دھماکے بھی شامل ہیں ، بم دھماکے بھی شامل ہیں ۔ ان میں سے 11 واقعات تو بڑے اندوہناک ہوئے ہیں جن میں سے ایک آغاز میں ہی 31 جنوری 2023ء کو پشاور میں پولیس لائن میں ہوا ۔ اسی طرح اور کئی بڑے بڑے واقعات ہوئے اور اب باجوڑ میں JUIFکے ورکرز کنونشن میں جو واقعہ ہوا ہے اس میں اطلاعات کے مطابق 55 افراد شہید اور 250 کے قریب زخمی ہوئے ہیں ۔ اگر ہم ہلاکتوں کے اعداد وشمار کا جائزہ لیں تو 2005ء میں 300 تک تھیں پھر بڑھتے بڑھتے 2008ء میں 1000 سالانہ سے اوپر چلی گئیں۔ پھر 2013ء تک یہ تعداد 2400 سالانہ تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد جب فوجی آپریشن شروع ہوئے تو معاملات کنٹرول میں آنا شروع ہوئے اور 2020ء تک دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے 100 سالانہ تک رہ گئی ۔ لیکن 2021ء کے دوران یہ تعداد دوبارہ بڑھنا شروع ہوئی ۔ 2023ء میں دہشت گردی کے واقعات دوبارہ عروج کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیتےہیں۔ اس مرتبہ خاص طور پر سکیورٹی اداروں کے افراد کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ اگر جائزہ لیاجائے تواس کی ماسٹر مائنڈ TTP دکھائی دیتی ہے لیکن ابTTPکسی ایک قوت کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف گروہ شامل ہیں ۔ اس میں سمگلرز بھی ہیں ، جماعت احرار کے لوگ بھی شامل ہیں جن کے براہ راست انڈیا کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اسی طرح اس میں شدت پسندوں کے بہت سے گروہ شامل ہیں اور اب ان میں وہ لوگ بھی شامل ہو چکے ہیں جو کسی بھی وجہ سے پاکستان یا پاکستانی اداروں سے ناراض ہیں ۔ اب داعش کی مداخلت بھی یہاں نظر آنا شروع ہو چکی ہے ۔ القاعدہ کی باقیات بھی ہمیں دکھائی دیتی ہیں ۔ بلوچستان میں ملوث عناصر کی نوعیت ذرا مختلف ہے ۔ وہاں BLAبھی ہے ، BNAاور BNFبھی شامل ہیں اور کل ملا کر تقریباً 40 کے قریب گروہ وہاں متحرک ہیں ۔ ان تمام گروہوں کے پیچھے اصل طاقت امریکہ اور انڈیا ہیں جو ان کو چلا رہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت کلبھوشن یادیو ہے۔ تاریخی طور پہ ان ممالک نے جہاں جہاں بھی دہشت گردی کروائی ہے اور جہاں بھی علیحدگی پسند تحریکیں چلوائی ہیں  وہاں سی آئی اے ملوث رہی ہے اور بعض علاقوں میں انڈین ایجنسی را بھی ملوث رہی ہے ۔
سوال: UNOکے مطابق داعش اور TTPدونوں مل کر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں ، اب جو باجوڑ میں حادثہ ہوا ہے اس میں بھی ان دونوں گروہوں کے ملوث ہونے کی خبریں آرہی ہیں ۔ آپ کی کیا رپورٹس ہیں ؟
کرنل(ر)سیف الدین قریشی: پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی پھیلائی جارہی ہے اس کے پیچھے بیرونی قوتیں ملوث ہیں ، وہ پیسہ دیتی ہیں ، اسلحہ اور تربیت دیتی ہیں ، پلاننگ دیتی ہیں اور اندرون ملک ایسے عناصر جو بھوک افلاس اور مایوسی کا شکار ہوتے ہیں وہ اس میں استعمال ہو جاتے ہیں اور اس طرح بیرونی قوتیں جس ملک کو توڑنا چاہتی ہیں وہاں مختلف تحریکیں شروع کر وا دیتی ہیں ۔ بھارت ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے ، وہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے ، توڑنا چاہتا ہے اور اس کا پشت پناہ اور معاون امریکہ ہے ۔امریکہ مختلف مسلمان گروہوں کو آپس میں ہی لڑواتا ہے اور دوسری طرف ہم وہ قوم ہیں جو امریکہ کی جنگ اپنوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور دونوں طرف سے نعرہ تکبیر لگا کر ہم مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو مارتے ہیں اور مرواتا امریکہ ہے ۔ اس جنگ میں ہمارے جو لوگ استعمال ہوتے ہیں ان کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ اس دہشت گردی کی ایک وجہ ہمارے ٹریلین ڈالر کے معدنی وسائل ہیں ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سے یہ کام شروع ہوا اور اب تک عالمی قوتیں اس میں ملوث ہیں ۔ آپ دیکھیں کہ مغربی ممالک نے کس قدر سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی ہے حالانکہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے ۔ یہ سارے وسائل انہوں نے ہم جیسے ملکوں کو لوٹ کر حاصل کیے ہیں ۔ اسی طرح آگے کلائمیٹ چینج کا ایک مسئلہ سر اُٹھا رہا ہے ، فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ آرہا ہے ،زرخیز اور زرعی زمینوں کی کمی کا مسئلہ درپیش ہو گا کیونکہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ پینے کے صاف پانی کا مسئلہ دنیا کو درپیش ہونے والا ہے ، جوں جوں صاف پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں تو قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے ۔ لہٰذا چین سے لے کر امریکہ تک پورا زور لگا کر بڑے بڑے ذخیرے کے لیے گودام بنا رہے ہیں اور اپنے اناج کے ذرائع کو محفوظ بنا رہے ہیں ۔ لیکن ہم ان تمام باتوں سے بے خبر سو رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں علم کی بھی کمی ہے تو ظاہر ہے ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہے ، اپنے وسائل کو بچانے کی بھی کوئی فکر ہمیں لاحق نہیں ہے اور نہ ہی اس قابل ہیں ۔ ہم صرف ایک کام کرتے ہیں کہ MOUسائن کرنے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں کہ باہر کے لوگ ہمیں پیسہ بھی دیں ، وسائل بھی دیں لیکن اس میں بھی ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ ان سے بیٹھ کر یہ طےنہیں کر پاتے کہ ان معاہدوں میں ہمارا حصہ کیا ہوگا ، ہماری مین پاور کتنی ٹرین ہوگی ، ہمارا انجینئرنگ کا شعبہ کتنا ٹرین ہوگا ، کتنی ریفائنریز ہمارے ہاں لگیں  گی ، کتنی لیبارٹریز یہاں کھلیں گی ، کتنی ٹریننگ یونیورسٹیاں یہاں قائم ہوں گی ۔ مختصراً کوئی بھی ڈیل کرنے سے پہلے ہم ملکی مفاد کو مدنظر نہیں رکھتے ۔ ہم کچھ دیگر مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں جیسے ہم نے سینڈک کا معاہدہ کیا ہوا ہے ، ریکوڈک کا معاہدہ ہے ۔ سینڈک میں ہمارا حصہ نہیں ہے حالانکہ وسائل کے مالک ہم ہیں۔ 2003ء میں معاہدہ ختم ہو رہا تھا لیکن مشرف نے دوبارہ بحال کر دیا ۔ پھر زرداری حکومت نے اس میں توسیع کی ۔ 2017ء میں یہ معاہدہ ختم ہونا تھا تو ن لیگ کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 5 سال کے لیے مزید توسیع کر دی۔ پھر مارچ 2022ء میں عمران خان نے 15 سال کے لیے توسیع کر دی ۔ اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ ہم محب وطن ہیں ، پھر ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں۔
سوال: دہشت گردی کے حوالے سے اعداد و شمار کو سامنے رکھیں تو صوبہKPK سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ روک تھام کے لیے ہم نے بارڈر پر آہنی باڑ لگانے کا پلان بنایا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کئی اقدامات ہوئے، پھرافغانستان میں پاکستان کی دوست طالبان حکومت قائم ہو گئی، ان سارے اقدامات کے باوجود دہشت گردی نہیں رک رہی، آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے؟
ایوب بیگ مرزا:پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی جو تاریخ ہے وہ کبھی بھی خوشگوار نہیں رہی۔ آغاز سے ہی آپ دیکھیں کہ افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کی مخالفت کی تھی اور یہ مخالفت مسلسل رہی ۔ ملا عمر کا دور حکومت پہلا موقع تھا کہ پاکستان اور افغانستان کےتعلقات مثالی بن گئے۔ یہاں تک کہ پاکستان نے افغان بارڈر سے اپنی افواج بھی ہٹا دیں کیونکہ اس بارڈر سے اب پاکستان کو کوئی خطرہ نہ رہا تھا۔ پاک افغان تعلقات کے حوالے سے یہ مثالی دور تھا لیکن پھر امریکہ کی نیت میں فتور آیا تو نائن الیون کے بعد ایک اور جنگ کا آغاز کر دیا گیا اور اس جنگ میں پاکستان نے کھل کر امریکہ کا ساتھ دیا ۔ جس کے بعد افغانوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ پاکستان ہمارے دشمن کا سہولت کار ہے ۔ لہٰذا پاک افغان تعلقات جو پہلے ہی اچھے نہ تھے اب ان میں مزید بگاڑ پیدا ہوگیا ۔ 15 اگست 2021ء کو امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد جب وہاں افغان طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی تو شروع میں پاک افغان تعلقات کافی اچھے تھےاور ابتدا میں دہشت گردی کا کوئی ایسا بڑا واقعہ نہیں ہوا ۔ اگرچہ بارڈر پر کشیدگی کا کبھی کبھار کوئی واقعہ ہو جاتا تھا لیکن وہاں  بھی پاکستان کی شکایت پر افغان طالبان نے نوٹس لیا اور حالات نارمل ہوگئے ۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ پاکستان میں رجیم چینج ہوگئی اور پاکستان دوبارہ امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ۔ اس کے بعد پاک افغان تعلقات پھر بگڑنا شروع ہوگئے ۔ اسی دوران افغانستان میں ایمن الظواہری ڈرون حملے میں شہید ہوگئے تو افغانی وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نےپریس کانفرنس کر کے پاکستان پرالزامات لگائے ۔ پھر ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب نے بھی پاکستان پر الزامات لگائے ۔ بہرحال اس کے بعد تعلقات بگڑنا شروع ہوئے ۔ افغان عوام تو پہلے ہی پاکستان کے حق میں نہیں تھے اس کے بعد طالبان حکومت نے بھی پاؤں کھینچ لیے اور TTPکے لوگ جو افغانستان میں اپنا اثر رکھتےہیں وہ بھی اپنی پالیسی میں آزاد ہوگئے ۔ افغان طالبان کے لیے اب ان کو پابند کرنا آسان نہ رہا ۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ افغان طالبان نے موجودہ دہشت گردی کی لہر میں TTP کی مدد کی ہوگی لیکن میں سمجھتا ہوں جب پاکستان کے ساتھ افغان حکومت کے تعلقات بگڑے تو ان کے لیے TTP پر اپنی گرفت قائم رکھنا آسان نہ رہا اور اس کے بعد دہشت گردی کی یہ نئی لہر شروع ہوئی ۔
سوال: کیا آپ کے نزدیک افغان طالبان اور TTP میں فرق ہے؟
ایوب بیگ مرزا: افغان طالبان اور TTP میں مشابہت تو ہے کیونکہ دونوں کا تعلق ایک ہی بڑے علاقے سے ہےلیکن ان میں پالیسی کےلحاظ سے شدیداختلاف ہےجو اکثر سامنے بھی آتا ہے۔ افغان طالبان بالکل ایک علیحدہ قوت ہے ، ان کا TTPکے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ہاں ایک ہی بڑے علاقے کے ہونے کی وجہ سے ان کو ایک دوسرے کا لحاظ کرنا پڑتا ہے، لیکن دونوں کی تربیت ، اہداف و مقاصد الگ الگ ہیں ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مسلمان مسلمان کو ماررہے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ مسلمان کا قتل تو بڑا گناہ ہے ، بے گناہ انسان کو بھی نہیں مارنا چاہیے۔ لیکن یہی بات افغانی اس وقت کہتے تھے جب امریکہ پاکستان سے اڈے لے کرافغانیوں کا قتل عام کر رہا تھا۔ لیکن اس وقت تو ہم لوگ مشرف کی پالیسیوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ہمیں بھی افغانیوں کو مارنے کے لیے امریکہ کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا ۔ اسی طرح افغان طالبان کو بھی کسی کا ساتھ ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ وہ پاکستانیوں کو مارے ۔ یہ بات دونوں طرف سے نہیں ہونی چاہیے ۔ باقی رہی یہ بات کہ ٹیکنالوجی جتنی مرضی ہے ترقی کر جائے ، سیٹلائیٹ تو کیا چاند سے بھی کوئی آگے نکل جائے افغانستان کو تباہ و برباد تو کیا جاسکتاہے ، افغانستان کو راکھ بنایا جا سکتا ہے لیکن افغانستان پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا ۔ لہٰذا بلاول بھٹو صاحب نے جو بیان داغ دیا ہے کہ ہم افغانستان میں اندر جاکر ماریں گے تو انہیں مارگریٹ تھیچر کی وہ بات یاد رکھنی چاہیے جو اس نے افغان بارڈر پر جا کر کہی تھی ۔"we learnt our lesson and you will learn your lesson" اور وہی ہوا پھر وہی سبق جو سوویت یونین نے سیکھا تھا وہی سبق امریکہ نے بھی سیکھا ۔ بلاول بھٹو کو اس سے کچھ سیکھنا چاہیے۔
سوال: یہ باتیں ساری آپ کی درست ہیں لیکن یہ بات بھی تو بالکل درست ہے کہ اتنے عرصہ سے TTPان کی سرزمین کو استعمال کر رہی ہے وہ اس کو کنٹرول کیوں نہیں کررہے ؟
ایوب بیگ مرزا:آج کے دور میں ہر حکومت اپنے عوام کے ذہنی رجحان کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔ امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے افغان عوام پہلے ہی پاکستان کے خلاف ہیں ، افغان وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پاکستان پر الزام لگا چکے ہیں کہ امریکہ پاکستان کی مدد سے افغانستان کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔ ایسی صورتحال میں افغان حکومت کو اپنے عوام کے خلاف جاکر فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے ۔ یعنی ہم نے خود ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ اب افغان طالبان کے لیے TTPکو کنٹرول کرنا آسان نہیں رہا ۔
سوال: باجوڑ میں جو اندوہناک واقعہ ہوا ہے اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے، یو این او کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بھی جنوبی ایشیا میں داعش اور ٹی ٹی پی کا الحاق ہو سکتا ہے اس پر آپ کیاکہیں گے؟
رضاء الحق:داعش اور اس طرح کی دوسری کئی دہشت گرد تنظیمیں بنانا سی آئی اے کی لانگ ٹرم منصوبہ بندی کا حصہ تھا ۔ 2012ء میں اوبامہ نے جوPivot to Asia پالیسی دی تھی کہ اب کہ مستقبل میں امریکہ کی ساری جنگیں ایشیا میں ہوں گی اس کی منصوبہ بندی بھی کئی دہائیاں پہلے سے کی جارہی تھی۔ اس کے لیے وہ کئی دہائیاں پہلے ایران عراق جنگ کروا چکے تھے۔ پھر سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد بش سینئر نیوورلڈ آرڈرکا اعلان کر چکا تھا۔ اس کے بعد نیوامریکن سنچری پروجیکٹ ان کا تھنک ٹینک دے چکا تھا۔ اسی بنیاد پر سی آئی اے نے نائن الیون کا واقعہ کروایا اور اس سے پہلے وہ(پاکستان سمیت) مطلوبہ ممالک میں اپنے مہرے بٹھا چکے تھے ۔ اس کے بعد انہوں نے بعض  ممالک پر باقاعدے حملے کرکے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور بعض ممالک میں ایسی دہشت گرد تنظیمیں بنا کر اپنے مقاصد کو حاصل کیا گیا، ان میں ایک داعش بھی تھی ۔ اس سے قبل یہ النصرہ فرنٹ کے نام سے شام میں متحرک تھی اور اس سے بھی قبل یہ عراق میں متحرک تھی ۔ ایسی تنظیموں کے ذریعے سی آئی اے مختلف ادوار میں مختلف مقاصد حاصل کرتی رہی ہے ۔ جس وقت اس کو داعش کا نام دیا گیا تو اس وقت بھی تنظیم اسلامی کا یہی موقف تھا اور اب بھی یہی موقف ہے کہ ایسی تنظیموں کو جزیہ جہاد سے سرشار لیکن نادان مسلمانوں کو خلافت کے نام پر اکٹھا کرنا اور اُن کا صفایا کرنا ہے۔ان کے ذریعے نا پختہ ذہن کے حامل بنیادپرست مسلمانوں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر war of terrorکے نام پر بے گناہ مسلمانوں کا بھی قتل عام کیا گیا ۔ ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ تک کئی اہم امریکی عہدیداروں نے اعلانیہ کہا کہ داعش ہم نے بنائی ہے ، وہ کبھی گڈ القاعدہ اور بیڈالقاعدہ، کبھی گڈطالبان اور بیڈ طالبان کی اصطلاحیں بھی متعارف کرواتے رہے ۔ یہ سب آن ریکارڈ ہے ۔ اسی طرح اگر یو این او یہ رپورٹ کر رہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں داعش اور ٹی ٹی پی کا الحاق ہو سکتا ہے تو یہ امریکی پالیسی کا حصہ ہو گا جس میں وہ چاہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں جنگی ماحول پیدا ہو ۔
سوال:بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ باجوڑ کے سیاسی جلسے میں جوخودکش دھماکہ ہوا ہے یہ پاکستان میں عام انتخابات میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے۔ کیا اس رائے میں کوئی وزن ہے؟
ایوب بیگ مرزا: اگر کوئی ملک اپنے آپ کو جمہوری ملک کہتا ہےاور آئین اس ملک کے جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو پھر انتخابات میںتاخیر کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ چاہے بڑے سے بڑا سانحہ بھی کیوں نہ رونما ہو جائے، انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں ۔ 2008ء میں  آدھا امریکہ سونامی کی وجہ سے تباہ ہوگیا تھا ، مگر اس کے باوجود وہاں انتخابات وقت پر کرائے گئے ۔ ترکی کے حالیہ انتخابات سے پہلے ترکی میں کس قدر خوفناک زلزلہ آیا تھا لیکن اعلان کیا گیا کہ انتخابات وقت پر ہی ہوں گے ۔ اگر کسی کی نیت ہی الیکشن نہ کرانے کی ہو تو پھر سو عذر بہانے تراشے جا سکتے ہیں اس کا نتیجہ وہی ہوگا جو پاکستان پہلے بھی بھگت چکا ہے ۔
سوال: پاکستان میں جو اس وقت دہشت گردی کی لہرہے اس کے تدارک کے لیے ہمیں کیا کیا اقدامات کرنے چاہیے؟
رضاء الحق: تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جنگوں کے بعد بھی آخر مذاکرات کی ٹیبل پر ہی بیٹھنا پڑتا ہے تو پہلے اگر بیٹھ کر معاملات حل کرلیں تو زیادہ نقصان سے بچا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کو ہرممکن کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی سکیورٹی کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنائے تاکہ دہشت گردی کے واقعات کم سے کم ہوں ، چاہے اس کے لیے آئین کے دائرے میں رہتےہوئے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دیتے ہوئے نئی قانون سازی کرنا پڑے۔ پولیس سمیت سکیورٹی اداروں کی صلاحیت اور تربیت میں اضافہ کرے ۔ اس کے ساتھ جو intelligence based operations ہیں ان میں  یقینی بنایا جائے کہ انسانی حقوق پامال نہ ہوں ۔ لیکن آخر ایسا وقت آئے گا کہ آپ کو بات چیت بھی کرنا پڑے گی لہٰذا پنی پوزیشن کو مضبوط بنا کر بات چیت بھی کی جائے ۔
کرنل(ر)سیف الدین قریشی:امن اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ملک میں بھی امن اور انصاف قائم کریں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی امن قائم کریں ۔ چاہے امریکہ ہو یا کوئی بھی اس کی جنگ میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ نہ ہمیں مشرق کا ایجنٹ ہونا چاہیے اور نہ ہی مغرب کا ۔ صرف اپنے ملکی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔
ایوب بیگ مرزا:تنازعہ ممالک کے درمیان ہو یا گروہوں کے درمیان، اصل حل بات چیت ہی ہوتا ہے۔ اگر زور آزمائی کی ضرورت پڑے بھی تو وہ بات چیت کو سہل بنانے کے لیے ہونی چاہیے ۔ اس وقت مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس سے پہلے اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانا ہوگا ۔ اپنے دفاع پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے ۔ بدقسمتی سے ہماری جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ چائنہ اور امریکہ کے مابین کشیدگی کی وجہ سے battle field بنی ہوئی ہے اور یہ کوئی چھوٹا سا معاملہ نہیں ہے۔ ان دو بڑے ہاتھیوں کی لڑائی میں ہم چیونٹی کی طرح  پستے چلے آرہے ہیں ، امریکہ ہمارے بازو مروڑنے کے لیے ہمیں اقتصادی طور نیم مردہ کرچکا ہے ، ان حالات میں ہمیں پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہوں گے۔