(دعوت و تحریک) اسلامی نظام کی نظریاتی اساس: ایمان(5) - ڈاکٹر اسرار احمد

9 /

اسلامی نظام کی نظریاتی اساس: ایمان(5)

(بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے 1988ء کے ایک خطاب کی تلخیص)

انسانی زندگی کی حقیقت
تیسری چیز جو قرآن مجید کے ہر صفحے پر نمایاں کی گئی ہے‘ وہ انسانی زندگی کی حقیقت سے متعلق ہے۔وہ لوگ جو صرف حواس کے دائرے تک اپنے آپ کو محدود رکھیں وہ تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیدائش سے پہلے بھی ہمارا کوئی وجود تھا اور نہ یہ مان سکتے ہیں کہ موت کے بعد بھی ہمارے وجود کا تسلسل برقرار رہے گا۔ ان لوگوں کے نزدیک لا محالہ زندگی پیدائش اور موت کا درمیانی وقفہ قرار پائے گی۔ یہی چالیس‘ پچاس‘ ساٹھ سالہ عرصہ کل زندگی شمار ہوگا۔ بہادر شاہ ظفر سے منسوب یہ شعر اسی زندگی سے متعلق ہے ؎
عمر ِدراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں!
لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی صرف پیدائش سے موت تک کے وقفے کا نام نہیں ہے۔ بقولِ اقبال: ؎
تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں‘ پیہم دواں‘ہر دم جواں ہے زندگی!
انسان جو تخلیق کا نقطۂ عروج ہے ‘اس کی کل زندگی یہی نہیں ہے‘ بلکہ اس کی زندگی بہت طویل ہے۔ موت معدوم ہوجانے کا نام نہیں‘بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہونے کی کیفیت ہے۔ گویا بقولِ میر ؔ : ؎
مرگ اِک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر!
موت تو زندگی کا تسلسل ہے ۔انسان کی آنکھ یہاں بند ہوتی ہے تو کسی اور عالم میں کُھل جاتی ہے ؎
جہا ںمیں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے!
دُنیوی زندگی انسان کی طویل زندگی کا ایک مختصر سا حصّہ ہے۔ موت کا وقفہ ڈال کر درحقیقت زندگی کے اس چھوٹے سے حصے کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ یہ وقفہ کیوں ڈالا گیا ہے‘ اس کا جواب انبیاء کرامf نے دیا ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ انسان کی آزمائش کرنا چاہتا ہے۔ یہ زندگی ایک امتحان اور ایک ٹیسٹ ہے۔ قرآن عزیز کہتا ہے:
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّـکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:۲)
’’اُس (اللہ) نے موت اور زندگی (کے سلسلہ) کو اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھے اعمال کرتا ہے۔‘‘
اسی مضمون کو علّامہ اقبال نے شعری پیرا یہ میں یوں بیان کیا ہے : ؎
قلزمِ ہستی سے تُو اُبھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی!
اس امتحان کا نتیجہ موت کے بعد نکلے گا‘ جب انسان کو دوبارہ اُٹھایا جائے گا اوراس کا حساب کتاب ہوگا۔ اس امتحانی وقفے میں اُس نے جو کمایا ‘ جو کھایا ‘ جو زبان سے کہا‘ جو آنکھ سے دیکھا‘ہر شے کا پورا پورا حساب ہوگا۔ انسان کا ہر ایک چھوٹا بڑا عمل اُس کے سامنے آجائے گا۔ کوئی بہت بڑا (giant)کمپیوٹر ہو گا کہ ایک بٹن دبے گا اور آپ کی پوری زندگی کی رِیل آپ کے سامنے آجائے گی‘ جسے دیکھ کر مجرمین حیران و سرگرداں ہوجائیں گے۔ قرآن کہتا ہے:
’’اور (اعمال کی) کتاب کھول کر رکھی جائے گی‘ تو تم گناہ گاروں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا) ہوگا اس سے ڈر رہے ہوں گے‘ اور کہیں گے: ہائے ہماری شامت‘ یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی کو (کوئی بات بھی نہیں) مگر اسے لکھ رکھا ہے۔ اور جو عمل انہوں نے کیے ہوں گے سب کو حاضر پائیں گے۔ اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔‘‘(الکہف:49)
اور کہا جائے گا:
{اِقْرَاْ کِتٰـبَکَ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْـبًا(14)} (بنی اسرائیل)
’’ اپنی کتاب پڑھ لے۔ تُو آج اپنا آپ ہی محاسب کافی ہے۔‘‘
کوئی بھی اپنے اس اعمال نامے کو جھٹلا نہ سکے گا۔ اس حساب کتاب کے نتیجے پر ہی انسان کی ابدی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا دارو مدار ہے۔ یا تو انسان کو دائمی جنّت ملے گی یا پھر اُسے آتش ِجہنّم کا ایندھن بنادیا جائے گا ۔
اسلامی انقلاب کی فکری اساس
زندگی کے متعلق ان حقائق پر گہرا یقین ہونا ضروری ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اس زندگی کو محض عارضی سفر سمجھے‘ اور حدیث کے مطابق اس حقیقت کو دل میں جاگزیں کرلے کہ مَیں تو یہاں راہ چلتا مسافر ہوں۔ یہ دنیا میرا گھر نہیں ہے‘ نہ یہ دل لگانے کی جگہ ہے‘ بلکہ یہ امتحان گاہ ہے۔ یہاں تو مجھے جانچا جارہا ہے۔ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور کامیابی و ناکامی اور فیصلے کا دن تو قیامت کا دن ہے۔ یہاں کی ہار معمولی اور یہاں کی جیت عارضی ہے‘ جب کہ وہاں کی ہار جیت مستقل ہے۔ یہ زندگی تو گویا تین گھنٹے کا ایک ڈراما ہے‘ جس میں کسی کو فقیر کا کردار مل گیا‘لہٰذا اس کے بدن پر چیتھڑے ہیں اور کسی کو بادشاہ کا کردار ملا ہے اور وہ بڑا اعلیٰ لباس زیب تن کیے ہوئے ہے۔ تین گھنٹے کے بعد نہ وہ بادشاہ بادشاہ ہے‘ نہ فقیر فقیر ہے۔ دنیا کی کیفیات ‘ غربت و امارت‘ عہدے اور مناصب کا یہی حال ہے۔ یہ سب دھوکے کا سامان ہے۔ اسی لیے قرآن مجید کہتا ہے:
{وَما الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَــآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(185)}(آل عمران)’’دنیا کی زندگی تو سوائے دھوکے کے سامان کے اور کچھ نہیں۔‘‘
یہ یقین گویا اس نظامِ حیات کی فکری اساس ہے جس کو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک یہ حقیقت ہمارے رگ و پے میں سرایت نہ کرجائے‘ جب تک یہ ایک زندہ یقین کی صورت اختیار نہ کرلے‘ تب تک وہ قوت پیدا ہو ہی نہیں سکتی جو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے لازمی ہے اور نہ کبھی انقلاب آسکے گا۔ البتہ یہ بات بھی ذہن میں ضرور رکھیے‘ ورنہ مغالطہ ہو جائے گا ‘کہ یقین کی یہ گہرائی اور گیرائی تمام کے تمام لوگوں میں نہ تو پہلے کبھی ہوئی ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگی۔ تمام انسانوں میں یہ یقین تو صرف قیامت کے دن ہی پیدا ہوگا‘ جب سب حقائق آنکھوں کے سامنے آجائیں گے۔ لیکن اسلامی نظام کے بالفعل نفاذ کے لیے ضروری ہوگا کہ کسی معاشرے میں ایک مؤثر اقلیت اس یقین سے سرشار ہوجائے اور اپنے یقین کی گہرائی کی بنا پر اسلام کی خاطر ہر قسم کی قربانی اور ایثار کے لیے تیار ہوجائے۔ (واضح رہے کہ مَیں ’’اکثریت‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کر رہا‘ اس لیے کہ میرا دعویٰ ہے کہ اکثریت کی کیفیت کبھی یہ نہیں ہوسکتی ۔) جب تک اس قسم کی مؤثر اقلیت پیدا نہ ہوجائے جو {اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(162) } (الانعام) ’’بے شک میری نماز ‘میری عبادت ‘میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے‘‘ کو اپنی زندگی کا مقصد نہ بنالے ‘اور جب تک یہ فکری اساس ان کے دلوںمیں پختہ نہ ہوجائے عملی طور پر اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اسلامی تحریک کی جدّوجُہد نتیجہ خیز اور کامیاب ہوجائے ۔ ہم تمنّا تو کرتے رہیں گے کہ اسلام آجائے‘ اسلام کا نظامِ حیات قائم ہوجائے‘ لیکن تمنّاسے اسلام نہیں آئے گا۔ ہم مقالے پڑھتے رہیں گے‘ تقریریں کرتے رہیں گے کہ یہ اسلام ہے اور یہ اسلام نہیں ہے‘ لیکن اس سے بالفعل اسلامی نظام کی عمارت کی تعمیر ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔
محاسبہ ٔ اُخروی کی بنیاد: پانچ چیزیں
اگلی بات بہت اہم ہے۔ اگر ہماری دنیا کی زندگی امتحان ہے تو امتحان تو کچھ سکھا کر لیا جاتا ہے یا کچھ دے کر آدمی کو جانچا جاتا ہے۔ آپ کو اپنے بچے کے رجحان کا اندازہ کرنا ہو توآپ اُسے دس روپے دیں گے اور پھر دیکھیں گے کہ وہ کیا کرتا ہے ۔ آیا وہ یہ رقم لے کر باہر جاکر چاٹ کھالیتا ہے یا کوئی کتاب خریدتا ہے یا پھر کوئی کھلونا خریدلاتا ہے۔ گویا آپ اسے کچھ دے کر جانچیں گے۔آپ کسی کو کچھ اختیار دیجئے‘ پھر پتاچلے گا کہ اس کا رجحان کیا ہے‘ خیر کی طرف ہے یا شر کی طرف! آپ کچھ نہ کچھ چوائس دیں گے تو پھر ہی کسی کی آزمائش کرسکیں گے۔ ہمیں جو یہاں امتحان گاہ میں ڈالا گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا سکھا یا گیا اورکیا دیا گیا‘ جس کی بنیاد پر ہماری آزمائش کی جارہی ہے؟ ایمان بالآخرۃ کے ایک اہم نکتے کو سمجھنے کے لیے یہ بہت اہم سوال ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس امتحان گاہ میں کئی چیزیں دے کر بھیجا ہے۔
سب سے پہلی شے جو اللہ نے ہمیں دی‘ وہ سماعت و بصارت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے مختلف آیات میں اس کا تذکرہ فرمایا:
{قُلْ ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَـکُمُ السَّمْعَ وَالْاَ بْصَارَوَالْاَفْـــــئِدَۃَ ط}(الملک:23)
’’کہہ دیجیے اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے تم کو پیدا کیا اور تمہارے لیے کان‘ آنکھ اور دل بنائے۔ ‘‘
{وَھُوَ الَّذِیْ اَنْشَاَ لَـکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــــئِـدَۃَ ط} (المؤمنون:78)
’’اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے کان‘ آنکھیں اور دل بنائے ہیں۔‘‘
سماعت اور بصارت ہمارا پہلا اثاثہ ہے۔یہ اللہ کی دی ہوئی وہ faculties ہیں جن کی بنیاد پر ہم مسئول اور ذمہ دار ہیں۔ سورئہ بنی اسرائیل میں یہی بات بایں الفاظ کہی گئی ہے:
{وَلَا تَقْفُ مَالَـیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْـبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا(36)} ’’اور (اے بندے!) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ۔یقیناً کان‘ آنکھ اور دل ان سب (جوارح) کے بارے میں ضرور باز پُرس ہو گی۔‘‘
دو سری شے جو اللہ نے ہمیں دی وہ عقل ہے۔ اللہ نے ہم میں سے ہر شخص کے دماغ میں ایک کمپیوٹر نصب کیا ہے۔ اس میں جو بھیsense data فیڈ کیا جارہا ہے اُس کو آپ process کرکے اُس سے نتائج اخذ کرتے ہیں۔ علم کے ذرائع میں تجربہ اور عقل یہ دو چیزیں تو وہ ہیں جو ہر شخص کو معلوم ہیں اور ہر انسان کے پاس ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی کے پاس کم اور کسی کے پاس زیادہ ہیں۔
تیسری چیز جو اللہ نے ہمیں عطا فرمائی‘ وہ نیکی اور بدی کا شعور ہے۔ اس کے لیے انسان کو محنت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ہر انسان اپنی فطرت کی بنیاد پر یہ جانتا ہے کہ کیا خیر ہے اور کیاشر ہے‘ کیا بھلائی ہے اور کیا برائی‘ کیا نیکی ہے اور کیا بدی! اس کو پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خداداد صلاحیت ہے‘ جو ہر ایک میں موجود ہے ۔ چنانچہ سورۃ الشمس میں فرمایا :
{وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىھَا(7) فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىھَا(8)}(الشمس)
’’اورقسم ہے نفس ِانسانی کی اور جیسا کہ اُس کے اعضاء کو برابر کیا۔ پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیز گاری (اختیار کرنے) کی سمجھ دی۔‘‘
یعنی نفس ِانسانی جو اللہ نے بنایا اور تیار کیا ‘اللہ نے اس کے اندر نیکی اور بدی کا شعور بھی پیدا کردیا ۔ یہ شعور آپ کو حیوانات میں نہیں ملے گا۔اسی شعور کا ایک مظہر انسان میں اخلاقی حس ہے‘ جو برائی پر روک ٹوک کرتی ہے۔ یہ تین چیزیں (یعنی ہمارے sense organs جن سے ہم معلومات اخذ کرتے ہیں‘ ہمارے دماغ کا کمپیوٹر جس سے ہم اس تمام sense data کو process کرتے ہیں‘ اور خیر و شر کا امتیاز اور اس کا شعور) ہمارے نفس میں ودیعت شدہ ہیں۔ یہ ہمارے حیوانی وجود کے عناصر ہیں۔
ان کے علاوہ جو شے ہمیں دی گئی ہے وہ روح ہے‘ جو ہمارے اندر پھونکی گئی ہے اور جس کی نسبت ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ ازروئے الفاظِ قرآنی: {ثُمَّ سَوّٰىہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ …} (السجدۃ:9)
’’پھر اللہ نے اس (انسان) کی نوک پلک درست کی اور اس میں اپنی روح میں سے پھونکا …‘‘
اس میں دو چیزیں موجود ہیں‘ ایک اپنے رب کی معرفت اور دوسرے اپنے رب کی انتہائی گہری محبّت۔تومجموعی طور پر یہ پانچ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے دے کر ہمیں دنیا میں بھیجاہے۔
اس سے جو نتیجہ نکلتا ہے‘ وہ نہایت اہم ہے۔ یعنی اگر کوئی نبی اور رسول نہ آتا‘ کوئی کتاب بھی نازل نہ ہوتی‘ کوئی وحی بھی نہ اُترتی‘ تب بھی ان چیزوں کی بنیاد پر انسان مکلّف اور جواب دہ تھا‘ اس لیے کہ ان پانچ چیزوں کی مددسے اسے ہر سوال کا جواب مل سکتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے رہے ہیں جن تک کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی اور ہوسکتا ہے کہ آج بھی سائبیریا کے دور دراز گوشوں میں کہیں ایسے لوگ موجود ہوں جو یہ جانتے بھی نہ ہوں کہ نبی آخر الزماںﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے‘ حضرت محمدﷺ نامی جلیل القدر‘ رفیع الشان شخصیت دنیامیں گزری ہے‘ پھر بھی یہ لوگ اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے اور ان کا حساب کتاب ہوگا۔ اچھی طرح جان لیجیے ‘ جواب دہی کی اصل بنیاد متذکرہ بالا پانچ چیزیں ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ہر بندے پر اصل حُجّت ہیں۔ البتہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظہر ہے کہ اس نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر دور میں اپنے نبی اور رسول بھیجے اور اُن پر اپنا کلام نازل فرمایا۔ اللہ کے یہ منتخب بندے سیرت و کردار کے نہایت اعلیٰ نمونے تھے۔ اُن کا دامنِ کردار بے داغ اور اُن کی زندگیاں کھلی کتاب کی مانند تھیں۔یہ عالی مرتبت ہستیاں اعلانِ نبوت سے پہلے ہی اپنے معاشرے کے اندر چمکتی دمکتی مشعلیں تھیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی مدد سے ایمانی حقائق کو لوگوں پر منکشف کردیا۔(جاری ہے)