(منبرو محراب) معاشرے میں بڑھتے ہوئے شرمناک واقعات - ابو ابراہیم

9 /

معاشرے میں بڑھتے ہوئے شرمناک واقعاتاسباب اورسدباب


مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ،لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ کے4اگست 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اورتلاوت آیات کے بعد!
قرآن حکیم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہماری اجتماعی اورانفرادی دونوں طرح کی زندگی کے متعلق رہنمائی عطا فرمائی ہے اور اسی ذیل میں معاشرت کے حوالے سے بھی قرآن میں رہنمائی اور ہدایت ہے۔ خاص طور پر انسانی شرف ، عزت و آبرو ، شرو حیا کی حفاظت کے لیے کبھی دین ہمیں نکاح کی ترغیب دیتاہے اور کبھی زنا سے بچنے کا حکم دیتاہے اور کبھی زنا تک لے جانے والے تمام ذرائع اور راستوں سے بچنے کا حکم دیتا ہے ۔
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کے تعلیمی اداروں (سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز)میںجس طرح کے شرمناک واقعات ہمارے سامنے آرہے ہیںیہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے ۔ اس پر بہت سے اطراف سے کلام ہوا اور ہونا بھی چاہیے ۔ وہ قومی ادارے جہاں ہماری نسلوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہوتا ہےاگر وہ فحاشی و عریانی کی آماجگاہیں بن جائیں ، وہاں اگر عزتوں کے جنازے نکل رہے ہیں ، نکاح کے انکار کی باتیں سرعام ہونا شروع ہو جائیں ، خاندانی نظام دائو پر لگ جائے، آزادی کے پرفریب نعروں کی زد میں مرد وزن کا آزادانہ اختلاط عام ہو جائے تو پھر قوم کو فکرمند ضرور ہونا چاہیے ،کیونکہ اسی کے اگلے مرحلے میں پھر ریپ کے کیسز اور شرمناک ویڈیوز کا معاملہ سامنے آتاہے ۔ ہماری نسلوں کی یہ تباہی جو ہمارے سامنے کھڑی ہے اس پر پوری قوم کو فکر مند ہونا چاہیے اور اس کی جڑ اور بنیاد کو دیکھنا چاہیے ۔ آج اسی حوالے سے ہم قرآن مجید کی چند آیات کا مطالعہ کریں گے جس میں ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں ہمیں کیا احکامات دیتاہے ۔ سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا : 
{وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃًط وَسَآئَ سَبِیْلًا(32)}’’اور زنا کے قریب بھی مت جائو‘یقیناً یہ بہت بے حیائی کا کام ہے ‘اور بہت ہی بُرا راستہ ہے۔‘‘
یہ سورۃ بنی اسرائیل کاوہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے معاشرتی ہدایات عطافرمائیں۔سیدناعبداللہ بن عباس ؓ کی ایک رائے کے مطابق معاشرتی سطح کے دس بڑے بڑے احکام جو تورات میں عطا ہوئےان کا قرآنک ورژن اس مقام پرہمارے سامنے آتاہے ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ۔ یعنی وہ حرکتیں ،ذرائع اوراعمال جو بندے کوبالفعل اس عمل تک لے جاسکتے ہیں ان پربھی پابندی لگادی گئی ۔اس کوفقہاء کی زبان میں سد ذرائع کہتے ہیں۔یعنی زنا کے تمام ذرائع بند کر دیے جائیں ۔ انسانوں  کی عقل اورقانون، جرم کے سرزد ہوجانے کے بعد حرکت میں آتاہے لیکن اللہ کا قانون پہلے جرم کا سدباب کرتاہے کہ ایساماحول فراہم کیا جائے اور ایسی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے کہ جرائم کی بیخ کنی ہوجائے لوگ سوچیں ہی نہ۔اس کے بعد بھی اگر کوئی ناہنجار باز نہ آئے تو پھر لوگوں کی جان ،مال اورآبرو کی حفاظت کے لیےسزاؤں کا نفاذ ہو گا ۔ یہ خالق کے کلام اوراس کی عطا کردہ شریعت کی خوبصورتی ہے ۔
شرعی سزائوں کا نفاذ
بعض لوگ شرعی سزائوں پراعتراض کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے دونکتے سمجھ لیں ۔جب ہم شریعت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تواس سے مراد فقط سزائوں کا نفاذ ہی نہیں ہوتابلکہ سزاؤں کے علاوہ بھی شریعت نے کچھ احکامات دیے ہیں ۔ مثلاً شریعت نے کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جن میں سود ،جوا،بے حیائی وغیرہ شامل ہیں۔ شریعت کے احکام لوگوں کی بھلائی کے لیے ہوتے ہیں ۔ بیٹا اپنے والدین کو زکوٰۃ نہیں دے سکتابلکہ ان کی کفالت کرے گا۔ اسی طرح شوہراپنی بیوی کو زکوٰۃنہیں دے سکتابلکہ کفالت کرے گا۔ باپ اپنی اولاد کو زکوٰۃ نہیں دے سکتابلکہ کفالت کرے گا۔شریعت نے ذمہ داری ڈالی ہے ۔اتنے لوگوں کی کفالت میں خرچ کرنا بندے پرفرض ہے ۔ پھرشریعت نے کفالت عامہ کاتصور دیا ہے یعنی وہ لوگ جومعاشی لحاظ سے کمزور ہوں یامعذور ہوں اوران کوکوئی سپورٹ نہ ملے توریاست ان کی کفالت کرے گی۔ سیدنا عمر فاروق ؓ کامشہور جملہ ہے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتابھی بھوکامرگیاتو روزقیامت عمرسے پوچھ گچھ ہوگی۔یعنی شریعت صرف سزائیں مقرر نہیں کرتی بلکہ یہ ہر لحاظ سے ایک مکمل پیکج ہے ،پہلے جرائم کے اسباب اور وجوہات کا ازالہ کرتی ہے اور اس کے بعد سزائیں نافذ کرتی ہے ۔ البتہ جب سزائوں کی بات آئے گی توان سے پریشانی مجرموں (چور،ڈاکو،زانی وغیرہ)کو ہوگی۔بہرحال ان سزائوں کاایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کی جان ،مال اورآبرو کی حفاظت ہوتی ہے ۔
’’زنا کے قریب بھی نہ جائو‘‘

اس حوالے سے صحیح مسلم کی ایک حدیث بندے کو ہلادیتی ہے۔اس میں نبی اکرمﷺ نے جسم کے چھ اعضاء کاذکر کیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے روایت کیا کہ آپؐ نے فرمایا: ’’ابن آدم کے متعلق زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا گیا ہے۔ وہ لا محالہ اس کو حاصل کرنے والا ہے، پس دونوں آنکھیں، ان کا زنا دیکھنا ہے اور دونوں کان، ان کا زنا سننا ہے اور زبان، اس کا زنا بات کرنا ہے اور ہاتھ، اس کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں، اس کا زنا چل کر جانا ہے اور دل تمنا رکھتا ہے اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ ان تمام باتوں کی تصدیق کرتی ہے (اسے عملا سچ کر دکھاتی ہے اور حرام کا ارتکاب ہو جاتا ہے) یا اس کی تکذیب کرتی ہے (حقیقی زنا سے بچاؤ ہو جاتا ہے۔‘‘)
آنکھ کا زنا
آپﷺ نے فرمایاکہ آنکھ بھی زنا کرتی ہے ، نامحرم کو شہوت سے دیکھنا اورپھرپلاننگ کرنا یہ آنکھ کا زنا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ جس نے وہاں سے آنکھ کو ہٹایا اوربچایااللہ اس کو ایمان کی حلاوت عطا کرے گا۔اسی طرح آپﷺ نے فرمایا: یہ بری نگاہ شیطان کے زہر میں بجھے ہوئے تیروں میں سے ایک تیر ہے ۔یہاں سے آغاز ہوتاہے اور پھر بات برائی اور بے حیائی تک پہنچتی ہے ۔ آج کبھی بوڑھے کہتے ہیں کہ نوجوان بگڑ گئے ہیں ۔ بوڑھوں نے نوجوانوں کے لیے کونسا معاشرہ تشکیل دیا ہے ۔ آج ہر جگہ بے پردگی کا معاملہ کہاں تک پہنچا ہوا ہے ؟ کیا بوڑھوں کے بگڑنے کے امکانات کم ہیں ؟ بس اللہ ہی حفاظت فرمائے توفرمائے ۔رسول اللہﷺ کی دعا ہے :
((اَللّٰھُمَّ طَہِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِفَاقِ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّیَآءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکِذْبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَہِ فَاِنَّکَ تَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ))
’’ا ے اللہ !میرے دل کو نفاق سے پاک کردے،میری زبان کوجھوٹ سے پاک کردے،میرے عمل کو دکھاوے سے پاک کردے اور نگاہ کوخیانت سے پاک کردے۔ بے شک تونگاہ کی خیانت کرنے والے کواورجوکچھ سینوں میں پوشیدہ رکھتے ہیں ان کو جانتاہے ۔‘‘
علماء نے لکھاہے کہ بدنگاہی اور اس کا استعمال انسان کو عبادت کی لذت سے محروم کردیتاہے۔ اس کاعملی مظاہرہ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ کتنی تیزی کے ساتھ نماز اورنوافل ادا کرکے بھاگ جاتے ہیں۔ کیا عبادت میں دل لگتاہے ؟یہ بدنگاہی کی نقد سزاہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔
زبان کازنا
اسی طرح زبان بھی زنا کرتی ہے ۔ فحش کلامی زبان پرلانا۔شوبزنس ، فلم ، ڈراما ، ٹی وی ، ریڈیو میں جس طرح کی زبان استعمال کی جاتی ہے اس سے ہماری نسلوں کے ذہنوں پر کیسا اثر پڑتا ہوگا ۔ اور تو اور سکولوں میں جب تقریبات ہوتی ہیں تو بچوں اور بچیوں سے رقص کروایا جاتاہے اور والدین بیٹھ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں ، اور خوش ہو رہے ہوتے ہیں اور بعض والدین کہہ رہتے ہوتے ہیں کہ میری بیٹی کے moves زیادہ زبردست تھے۔اللہ کی پناہ ۔ یہ باتیں کیا جذبات پیدا کریں گی۔ ہمارے اندر کوئی خوف خدا ، تقویٰ ،تعلق مع اللہ،رغبت الی الجنہ والی بات باقی رہ گئی ہے ؟ پھراسکول والےکلپس بنا کےدکھاتے ہیں کہ تمہاری بیٹی نےقابل تعریف dance کر کے دکھایا ۔یہ آج کی نہیں بلکہ 10 سال پہلے کی باتیں بتا رہا ہوں ، آج معاشرہ کہاں پہنچ گیا ہے کسی نے سوچا ؟
کان کا زنا
فحش باتوں کا سننا کان کا زنا ہے ۔ شوبزنس کے شعبے میں جو آج ڈائیلاگ بازی ہوتی ہے ، پھر گانے اور ایسے ایسے بے ہودہ اور بے شرمی پر مبنی کلپس سن کر نوجوان نسل کے جذبات جب بھڑکتے ہیں تو پھر وہ کہیں غلط جگہ جاکے نکلیں گے اور بالآخر وہ زنا کا عمل ہو گا۔
دل کا زنا
نامحرم کا تصور دل میں لایا جائے تو یہ بھی زنا ہے ۔ اگر شیطان کی طرف سے آگیاتو اللہ کی پناہ مانگیں ، اس خیال کو بڑھاوا نہیں دینا ہے۔وگرنہ خیالوں میں اداؤں پر غور ہو گا تو سوچ کے یہ دھارے کہاں تک جائیں گے ۔ اسی لیے اللہ کے نبیﷺ نے یہ دعا سکھائی کہ جب ایسا خیال آجائے تو یہ دعا کرنی چاہیے :
((اعوذباللہ من الشیطان الرجیم، ربِّ اعوذبک من ھمزات الشیاطین واعوذبک رب اَن یحضرون اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم،قل اعوذبرب الناس،ملک الناس۔۔۔ الی آخرسورۃ))
ہاتھ کا زنا
نامحرم کو چھوناہاتھ کا زنا ہے ۔ آج یہ عام سی بات ہے کہ یہ توکزن ہے، گلے بھی مل لیتے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون! اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: کوئی تمہارے سر میں کیل ٹھونک دے یہ توگوارا کر لینالیکن تم نامحرم کو یا نامحرم تمہیں چھوئے اس کو گوارا نہ کرنا۔ہمارے سابقہ امیر تنظیم محترم حافظ عاکف سعید صاحب اللہ ان کو صحت عطا فرمائے، بڑی خوبصورت بات فرماتے تھے کہ کبھی کبھی ہماری عقلیں موٹی ہو جاتی ہیںاورہمیں کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی ہوتی تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ قرآن کریم میں یا رسول اللہ ﷺ احادیث مبارکہ میںایسے انداز بیان اختیار کرتے ہیں کہ بندہ ہل کر رہ جائے ۔ مثلاً غیبت ہمارے ہاں ایک عام سی بات ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں سمجھاجاتا؟ مگر اللہ کے نزدیک غیبت اتنی بڑی برائی ہے کہ ازروئے الفاظ قرآنی:
{اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط}(الحجرات:12)’’کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے؟یہ تو تمہیں بہت ناگوار لگا!‘‘
اللہ نے یہ انداز ہمیں غیبت کے معاملے میں جھنجوڑنے کے لیے اختیار کیا ۔ اسی طرح سود کاگناہ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺجھنجوڑنے کےلیے فرمارہے ہیں کہ سود کے گناہ کے ستر حصے ہیں ،کم ترین یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کرے۔ (ابن ماجہ )اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ سود چھوڑنے کا حکم دیتا ہے اور پھر یہ وارننگ بھی جاری کرتا ہے: ’’پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خبردار ہو جائو کہ اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔‘‘ (البقرہ:279)
یہ سب ہلا دینے والے انداز قرآن اور حدیث میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے اس وقت اختیار کیے جب کسی برائی کے حوالے سے انتہائی الرٹ کرنا مقصود تھا ۔ اسی طرح نامحرم کو چھونے سے اس قدر سختی کے ساتھ روکا گیا کہ فرمایا اس بات کو گوارا کر لینا کہ کوئی تمہارے سر میں کیل ٹھونک دے لیکن اس کو گوارا نہ کرنا کہ نامحرم کو چھوو۔ آج کے معاشرے میں ان باتوں کو backward اور outdated سمجھا جاتاہے ، لیکن جب ان نافرمانیوں کے نتائج سامنے آتے ہیں تو پھر سب چیختے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کہاں پہنچ گیا ۔
پیر کا زنا
ایسےمواقع اور مقامات پر جانا کہ جو بالآخر زنا تک لے جا ئیںیہ پیر کا زنا ہے۔آج ہمارے معاشرے میں ایسے مواقع اور مقامات خود پیدا کر لیے گئے ہیں ۔ شادی بیاہ کی تقریبات ہوں ، سکول ، کالجز ، یونیورسٹیز کا آزادانہ اختلاط کا ماحول ہو اور ہمارے پارکس اور تفریحی مقامات کا ماحول ہو ، ہر جگہ شرعی احکامات کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں ۔
قرآن کہہ رہا ہے کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ ، پھر ستر اور حجاب کے احکامات ، نگاہوں کی حفاظت کے احکامات ، نگاہیں نیچی رکھنے کے احکامات ان سب خرابیوںاور سانحات سے بچنے کے لیے نازل کیے گئے تھے مگر آج ان سب احکامات کو پس پشت ڈال کر جب ہم من مرضی کرتے ہیں تو پھر اس کے نتائج بھی بھگتے ہیں ۔ اسلام تو یہ سکھا تا ہے کہ مرد اور عورت دونوں نگاہوں کی حفاظت کریں ، عورت ستر و حجاب کو لازم پکڑے ۔ بیٹی باپ کے سامنے ہو ، ماں اپنے بیٹے کے سامنے ہو تو تب بھی باوقار انداز ہونا چاہیے ۔ لباس مناسب ہو ، سر پر دوپٹہ ہو ۔ لیکن جب گھر سے باہر جائے تو اب پہلے سے بڑھ کر پردے کا اہتمام ہونا چاہیے کیونکہ باہر تو نامحرم بھی ہیں ۔ آج تو باہر درندے بیٹھے ہیں جو ہوس کے پچاری بنے ہوئے ہیں ۔ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل ہوگا تو ایک طرح کی پروٹیکشن مل جائے گی ۔ لیکن اگر اس کے برعکس معاملہ ہوگا ، بے پردگی اور بے حیائی کا مظاہرہ ہوگا تو پھر درندگی اور ہوس کو معاشرے میں فروغ ملے گا اور اس کے انتہائی بھیانک نتائج سامنے آئیں گے ۔
دین اسلام نے عورت کا اصل مقام اس کا گھر قرار دیا ۔ باہر کے امور کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ۔ با مر مجبوری باہر جانا ہو تو شرعی احکام پر عمل کرے ۔ پھر کوئی حرج نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کا دائرہ کار الگ الگ معین کر دیا ۔ بے وقوف ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں مرد اور عورت برابر ہیں ۔ حالانکہ اللہ نے فرق رکھا ہے ، طاقت ، قوت ، نفسیات ، جذبات ، ساخت ہر لحاظ سے مرد اور عورت میں  فرق ہے ۔ عورت کی فطرت ، جذبات اور جسمانی خصوصیات کے مطابق اس کا دائرہ کار الگ معین کیا گیا ہے ، مرد کا الگ معین کیا گیا ہے ۔ اگر مرد اور عورت اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے دائرہ کار کے اندر رہیں گے تو مسائل پیدا نہیں ہوں گے، فتنہ اور برائی پیدا نہیں ہوگی لیکن اگر جس طرح آج ان حدود کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں اور پھر اوپر سے فحش لٹریچر ، فلمیں ، ڈرامے ، نیٹ فحاشی اور بے حیائی پر مبنی جو کچھ پیش کر رہا ہے تو ان حالات میں پھر جو برائیاں جنم لیں گی اور جو نتائج سامنے آئیں گے وہ دہلا دینے والے ہوں گے جیسا کہ بحیثیت قوم آج ہم بھگت رہے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا رول ہمارےمیڈیا کا ہے جو ایسی چیزیں دکھا دکھا کر لوگوں کے جذبات بھڑکاتاہے اور پھر جب یہ outcome ظاہر ہوتاہے تو پھریہی میڈیا سب سے زیادہ شور مچاتاہے اور بار بار دکھاتا ہے ۔ سب سے پہلے میڈیا کی سمت کو درست کرنا ہوگا ۔ اس کے بعد ہم سب اپنی اپنی ذات میں ، اپنے گھروں میں ، اپنے متعلقین میں جہاں جہاں ہمارا اختیار ہے وہاں شرعی احکام کو نافذ کریں ۔ شرعی احکام کو فراموش کیا تو آج یہ تباہی ہمارے سروں پر آن پڑی ہے کہ لڑکیاں گھروں سے بھاگ رہی ہیں ، نکاح کا تصور ختم ہو تا جارہا ہے ۔
پھر یہی میڈیا اور ہمارا لبرل طبقہ ہے جو اُس وقت ڈٹ کر مخالفت میں کھڑا ہو جاتاہے جب کالجز اور یونیورسٹیز میں پردے یا علیحدگی کی بات کی جاتی ہے ۔ کچھ عرصہ قبل HECنے ایک یونیورسٹی کے مسئلے کے بعد کچھ ہدایات جاری کیں تو پورا میڈیا اور لبرل طبقہ مخالفت میں کھڑا ہوگیا جن میں بعض حکومتی اراکین بھی شامل تھے ۔ نتیجتاً وہ ہدایات واپس لینا پڑیں ۔ گزشتہ دور حکومت میں عمران خان نے خواتین کے لباس کے حوالے سے بات کہہ دی تو پورا سیکولر اور لبرل طبقہ مخالفت میں کھڑا ہوگیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ ان میڈیا والوں کا مسئلہ بھی ہے اور اندرکی بات جو بہت سے حضرات کی طرف سے آتی ہے کہ جب ہماری کوئی بہن بیٹی فاطمۃ الزہراk کی چادر کو اختیارکرتی ہے تووہ سرمایہ دار کی بلینز آف ڈالرز کی انڈسٹری پر لات مارتی ہے ۔ وہ فیشن کی انڈسٹری ، شوبز کی انڈسٹری جس کی بنیاد پر ساری دنیا میں شیطانی کاموں کو پھیلایا جا رہا ہے۔ لہٰذا سرمایہ دار نہیں چاہتا کہ اس کی بلینز آف ڈالرز کی انڈسٹری پر کوئی لات مارے لہٰذا جب بھی پردے کی بات آتی ہے ، حجاب کی بات آتی ہے تو یہ طبقہ مخالفت میں کھڑا ہو جاتاہے اور میڈیا اس کی زبان بولنے لگ جاتا ہے ۔
خدارا ہم غور کریں ۔ اگر ہم اپنی ذات میں ، اپنے گھروں میں ، اپنے رشتہ داروں میں جہاں ہمارا اختیار چلتاہے وہاں شرعی احکامات کی پابندی کرواتے ہیں تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے ، ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کا فائدہ ہے ۔ ورنہ نسلیں تباہ ہو جائیں گی ۔ حیا صرف عورت کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مرد کے لیے اتنا ہی ضروری ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بڑا گہرا اور کڑوا جملہ ہے کہ زنا ایک قرض ہے تم کرو گے تولوٹانا بھی پڑے گا، تمہارے اپنے گھر کے اندر مسئلہ پیدا ہوگا اورحدیث میں الفاظ یہ ہیں کہ تم پاکیزگی اختیار کرو، اللہ تمہارےگھر والوں کو پاکیزگی کی توفیق عطا فرمائے گا۔لہٰذا حیا کا مسئلہ صرف مرد اور عورت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہماری نسلوں کے مستقبل اور ان کی بقاء کا مسئلہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !