اداریہ
ایوب بیگ مرزاہم سب مجرم ہیں
ایک ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ نے اپنی گھریلو ملازمہ پر جو بہیمانہ ظلم کیا اور جس درندگی کا مظاہرہ کیا ہے، ہمیں تو لغت میں ایسے الفاظ نہیں مل سکے کہ ہم دعویٰ کر سکیں کہ ہم نےمذمت کا حق ادا کر دیا ہے اور اصل صورتِ حال کی صحیح صحیح عکاسی کر سکیں ۔ یہ انتہا درجہ کا ظلم ہے جو قابلِ بیان نہیں ، لیکن کیا معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والا یہ انوکھا اور ورطہ حیرت میں ڈال دینے والا واقعہ ہے اور کیا معاشرے کی مجموعی تصویر کچھ اوریعنی مختلف ہے اور کیا یہ واقعہ معاشرے کے رحجانات اور اس کی عمومی ذہنیت کا جائزہ پیش نہیں کر رہی۔ ان تمام سوالوں کا جواب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ کُل معاشرہ ہی ظلم اور لاقانونیت کی بنیادوں پر اُستوار ہوچکا ہے تو پھر اُس ظالم خاتون کو الگ کرکے اکیلے کیسےواحد ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر جرم میں کسی نہ کسی فرد کا مرکزی اور اہم رول ہوتا ہے۔ جو ظالم معاشرے کی ایک اکائی کی حیثیت سے نامزد مجرم ادا کرتا ہے۔اِس ظلم کے ارتکاب میں جج کی اہلیہ مرکزی مجرم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر سرزد ہونے والے جرم کا کوئی پس منظر، کوئی ماحول ہوتا ہے۔ مجرم کی محرومیاں یا اُس کی بے پناہ طاقت ہوتی ہے جو جرم کے سرزد ہونے کا باعث بنتی ہے۔ ظلم اور عدل مکمل طور پر ایک دوسرے کی ضد اور متضاد ہیں۔ ظلم کا مداواصرف اورصرف عدل سے ممکن ہے، لیکن عدل ایک مکمل پیکج ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اجتماعی زندگی کے ایک گوشے میں عدل ہو اور دوسرے میں ظلم روا رکھا جائے۔ معاشی سطح پر اگر ظلم ہوگا تو سیاست کو ظلم سے پاک نہیں کیا جا سکے گا اور اگر سیاست میں ظلم ہوگا تو کُلی طور پر بگاڑ پیدا ہو جائے گا، کیونکہ سارے معاشرے کو سیاست Govern کرتی ہے۔
جرائم کا انسانی زندگی کے تینوں اجتماعی گوشوں معیشت، معاشرت اور سیاست سے گہرا تعلق ہے۔ معاشی حوالے سے سرمایہ دارانہ نظام استحصالی ہونے کے باوجود سکہ رائج الوقت ہے۔ امریکہ اور یورپ اپنی ضرورت کے مطابق اُس میں کچھ اصلاح کرکے اپنا کام چلا رہے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں بدقسمتی سے اس استحصالی نظام میں مزید بگاڑ پیدا کرکے ایک مخصوص طبقہ کو اندھا دھند طاقتور بنا دیا ہے اور کمزور اور غریب طبقہ کو زمین میںگاڑ دینے پر تُلے ہوئے ہیں۔ صنعتکاروں کو دنیا بھر میں خصوصی توجہ دی جاتی ہے لیکن ہم نے اُنہیں خدابنا رکھا ہے کہیں ٹیکس ایمنسٹی، بجلی اور گیس وغیرہ کی قیمتوں میں خصوصی رعائت وغیرہ لیکن indirect tax سے غریب عوام پر سارا بوجھ لاد دیا ہے۔ تنخواہوں میں تفاوت کا معاملہ انتہائی خوفناک ہے۔ وہ بھی ہیں جو 12 لاکھ روپیہ ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں یوٹیلٹی بلز کی سرکاری ادائیگی اور فری پیٹرول کی سہولت حاصل ہے اور عام ملازم کی تنخواہ اب حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر بتیس ہزار کی گئی ہے۔ اور چونکہ پاکستان میں قانون کی کوئی حیثیت نہیں لہٰذا اب بھی پرائیویٹ ادارے 15، 20 ہزارروپے پر ملاز م رکھ رہے ہیں۔ چھوٹے اور بڑے ملازمین کے درمیان اتنی بڑی اور گہری خلیج دو طرفہ مسائل کو جنم دے رہی ہے ایک طرف بچی رضوانہ ہے وہ آغاز ہی میں ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتی اگر اُسے یہ خیال نہ ہوتا کہ ملازمت چھوڑ دی تو گھر والے کھائیں گے کہاں سے اور دوسری طرف جج کی محترمہ کے دماغ میں یہ خناس پیدا نہ ہوتا کہ میں اس کی رازق ہوں (معاذ اللہ) اور وہ ظلم پر یوں دلیر نہ ہوتی۔
سیاسی سطح پر یوں تو ہم آغاز ہی سے دنیا کے لیے تماشا بنے ہوئے ہیں۔ پون صدی میں چار اعلانیہ مارشل لا بھگتا چکے ہیں مگر گزشتہ 16 ماہ سے ہم جس غیر یقینی سیاسی صورتِ حال سے دو چار ہیں اُس کی نظیر تو اب عالمی سطح پر ڈھونڈنی مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتی ہے۔ سیاسی افراتفری اور ہلچل کو تو ایک طرف رکھیں قانون اور آئین کے حوالے سے جو کچھ وطن عزیز میں ہوا اُس کی مثال کسی بناناری پبلک میں بھی شاید نہ ڈھونڈی جا سکے۔
دنیا بھر میں جمہوریت اور انتخابات کا چولی دامن کا ساتھ ہے انتخابات کے بغیر تو جمہوریت بیوہ ہو جاتی ہے۔ 1973ء کا آئین بنانے والے اتنے سمجھ دار تو تھے کہ اُنہوں نے انتخابات کے انعقاد کے لیے جو شق رکھی اُسے time bound کرکے اُس کی انفرادیت اور اہمیت کو واضح کیا۔ امریکہ کے آئین میں انتخابات کا سال ہی نہیںماہ اور دن بھی معین کر دیا گیا تاکہ آگے پیچھے کرنے کی گنجائش ہی ختم ہو جائے۔ دنیا کے کئی ممالک میں بدترین آفات اور جنگوں کے درمیان انتخابات ہوئے لیکن پاکستان میں جمہوریت کے علمبردار انتہائی مضحکہ خیز عذرات پر انتخابات ملتوی کیے جا رہے ہیں۔ ایک عذر ختم ہوتا ہے تو دوسرا تراش لیا جاتا ہے۔ دو صوبائی اسمبلیاں جب توڑی گئیں تو حکومت نہ صرف 90 دن میں انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری نہ کرکے آئین شکنی کی مرتکب ہوئی بلکہ جمہوری دنیا کا منفرد اور واحد واقعہ ہے کہ کسی حکومت نے فیصلے سے پہلے اعلان کر دیا کہ ہم سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم نہیں کریں گے۔ اصولی اور حقیقی طور پر تو یہ حکومت کا اعلان بغاوت تھا۔ پھر بقول چیف جسٹس اُن کا گھر جلانے کی دھمکی دی گئی اور یہاں تک کہ ایسا ناقابل بیان دباؤ ڈالا گیا جس کا ذکر کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں۔بہرحال دونوں اسمبلیوں کے انتخابات نہ ہو سکے۔ ہماری پھر بھی رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چیف جسٹس عطا بندیال کو انصاف کی کرسی پر اگر بٹھایا تھا تو وہ اُن کی جان، مال اور اہل خانہ کی عزت کی حفاظت کیوں نہ کرتا۔ اُنہیں جسٹس منیرنہیں بننا چاہیے تھا۔ بہرحال اصل بات یہ ہے کہ آئین پاش پاش ہوگیا۔ سپریم کورٹ کے پاس کہنے کو کچھ نہ رہا۔ قانون سرنگوں ہوگیا، حکومت جیت گئی۔ اندازہ کریں قانون بیچارے کی کیاحیثیت ہے کہ ہائی کورٹ کے ایک جج نے سیاسی شخصیت کی ضمانت قبول کرتے ہوئے کہا کہ میںتو تمہاری ضمانت قبول کرکے تمہیں رہائی کرنے کا حکم جاری کر رہا ہوں لیکن یہ ’’ لوگ‘‘ تمہیں اُس وقت تک نہیں چھوڑ یں گے جب تک تم پریس کانفرنس نہیں کرو گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد عدالتوں کے دروازے بند نہیں ہوجانے چاہیے تھے۔ہم سوچتے ہیں کہ کل کلاں یہ ظالم عورت مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی ہوگی اور اس پر سوالات کی بوچھاڑ ہو رہی ہوگی تو وہ عدالت میں کھڑی ہوکر جوابی مقدمہ نہ کردےگی کہ مجھ سےایک جرم ہوا میںاس کی سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔ لیکن اس نظام کے کارپردازوں ، ٹھیکیداروں اور بڑوں نے تو قوم کے سر سے آئین کی چادرہی کھینچ ڈالی۔ حکومتی لوگوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی پرِ کاہ توقیر نہ کی اورآئین اور قانون کوبدترین طریقہ سے روند ڈالاکہ آج بھی دو صوبوں میں ایسی حکومتیں بنائے بیٹھے ہوئے ہیں جو مطلقاًناجائزہیں۔ جن کا سرےسے کوئی قانونی جواز ہی نہیں۔نگران حکومتوں کی مدت تو زیادہ سے زیادہ تین ماہ ہوتی ہے اُس کے بعد تو آئین اور قانون کی کتابوں میںاُس کاکہیں سراغ ہی نہیں ملتا ۔مجھےسزا دو ضرور دو، لیکن جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے اوران کی بنیادپر قانون سازیاں کیں ، جنہوں نے قانون اور آئین کے پرخچے اڑادیئے،ان کے لیے بھی تو کچھ بولو کچھ تو بولو۔اب تمہاری زبانیں گنگ کیوں ہوگئی ہیں۔اب قبرستان جیسی خاموشی کیوں چھا گئی اگر تم قانون و آئین سے بالا تر ہو تو میں کیوں نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدل ایسی شےنہیں کہ جہاں چاہا اس کا ٹھپہ لگا دیا اورجہاں چاہا صرَفِ نظر کر لیا۔کبھی عدل کی کرسی پر جلوہ افروز ہوگئےاور کبھی ظالم کے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوگئے۔اگر نظام ایسا ہی رہا تو رضوانہ روزانہ ظلم کا شکار ہوتی رہے گی۔اورہرواردات پر میڈیا اور سیاستدان دو چار دن ماتم کریں گے۔ پھر وہی نظام چلے گا،پھرایسی ہی واردات کا ارتکاب ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ عدل اور ظلم دو ایسے کنارے ہیںجن کا ملاپ ممکن نہیں جبکہ عدل اور اسلام ایک ایسا مرکب ہے جسےکبھی جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کا نظام ہی عدل کا مکمل پیکج دے سکتا ہے۔اس لیے کہ عدل کے بغیر اسلام کا کوئی تصور نہیں۔ مظلوم رضوانہ کا تصور ذہن میں رکھ کر اپنے گریبان میں جھانکیں کیا ہم سب مجرم نہیں ہیں؟
tanzeemdigitallibrary.com © 2024