(کارِ ترقیاتی) ظاہر میں تو آزادی ہے… - عامرہ احسان

7 /

ظاہر میں تو آزادی ہے…عامرہ احسان

پاکستان 76برس کا ہوگیا۔ دھوم دھام سے ناچ، گا، بجاکر قوم نے سالگرہ منائی۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کے مزاروں پر گارڈ کی تبدیلی عمل میں آئی۔ ان مزاروں پر گارڈ کی تعیناتی اور تبدیلی سالانہ عمل ہے۔ ہم نے کبھی سیانوں سے اس کی وجہ پوچھی تو نہیں، تاہم ملک وقوم کے اتارچڑھاؤ، بانیان کے تحریکِ پاکستان، حصولِ پاکستان کے مقاصد، نظریۂ پاکستان اور اس کا ولولہ اور اب گزشتہ 22 سالوں میں ابھرنے والا نیا پاکستان!گارڈ کی ضرورت تو بنتی ہے۔ یہی لگتا ہے کہ قوم ان بابوں سے ڈرتی ہے لاشعور میں۔ خیر قوم تو بے شعور ہے، اس کے بڑوں، ملک چلانے والوں کو یہ فکر ضرور ہوگی کہ ترقی ٔ معکوس،نظ(ریے سے، معاشرت معیشت تعلیم حکمرانی، ہر شعبۂ زندگی میں)اس پر یہ کہیں لٹھ لے کر نہ نکل آئیں۔
قائداعظم کی سوٹڈ بوٹڈ، روشن خیالی کا مظہر تصاویر (ان کے شیروانی، جناح کیپ والے لباس پورے جذبے سے اپنا لینے کے باوجود) جابجا لگاکر، ان کی 100 اسلامی ولولے اور ملک کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا عزمِ مسلسل کی آئینہ دار تقاریر چھپا دیں۔ 11 اگست کی (موضوع) تقریر کو ہر دم پاکستان کا مقصد ِوجود قرار دے کر، حقائق مسخ کرچکے ہیں۔ رہے علامہ اقبال تو ہم نے پورا کلامِ اقبال، ان کاایک شعر پڑھ کر نصابوں، نسلوں کی فکری آبیاری سے نکال باہر کیا ہے۔ (گانے بجانے والوں، قوالوں کو دے دیا ہے۔) انہوں نے کہا تھا ؎
اقبالؔ کی نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو!
سو گارڈ تو مزار پر رہنے چاہئیں۔ کہیں شاعرِ مشرق یہ شعر سمجھانے نہ نکل کھڑے ہوں۔ یوں بھی تین سال ملک پر آسیب کا سایہ رہا۔ جادو جنات نگری بنی رہی حکومت و ریاست۔ عوام بھی توہم پرست ہوگئے۔ عقیدۂ آخرت، برزخ وغیرہ سب گڈمڈ ہوگئے۔ (قائداعظم کی روح بلانے کا کام تو بچپن میں بھی ہم نے ہوتے دیکھا تھا۔ ) ملکی گارڈ کی تبدیلی تو اس مرتبہ سیاسی سطح پر بھی 14 اگست کے حصے میں آئی۔ اگرچہ یہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری!
بلاوجہ ہی کئی اطراف سے نئے گارڈ پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ آزاد فیصلے ہم کب کرسکتے ہیں! 2001 ء کے بعد پاکستان سر تا پا بدل چکا۔ 1947 ء والی آزادی کے بعد حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ سے لے کر پاکستان دولخت ہونے تک، اور پھر 2001 ء کی عالمی جنگ کا اتحادی بننے تک سبھی کچھ بدل چکا ہے۔ برطانیہ سے آزاد ہونے کے باوجود ہم مسلسل اسی کی ذہنی، تعلیمی، سیاسی، معاشی، قانونی غلامی میں مبتلا رہے۔ یہ ریموٹ کنٹرول غلامی تھی۔ برطانیہ کو گورا وائسرائے یہاں رکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ مقامی یہ ذمہ داری زیادہ بہتر، کم تنخواہ پر ادا کرلیتے ہیں۔
برطانیہ ہمارے سبھی حکمرانوں کا میکہ رہا۔ سستانے، تازہ دم ہوکر نئی ہدایات سے لیس لوٹ کر حکومتی مناصب سنبھالنے کی آمد ورفت لگی رہتی تھی۔ یوں بھی نزلہ زکام بخار پر دوادارو بھی تو برطانوی ہسپتالوں ہی کا راس آتا ہے۔ سینڈ ہرسٹ، لندن اسکول آف اکنامکس، آکسفورڈ کیمبرج، حکمرانی کے سبھی شعبوں کے مراجع تھے۔ 2001 ء تک اس پر نظریۂ پاکستان کا پچالا (عرفِ عام میں پوچا) پھیر لیا جاتا تھا۔ پھر یہ تکلف بھی برطرف ہوگیا جب ہم نے ترقی کرکے برطانیہ کے بڑے ابا امریکا کی غلامی کی حامی سینہ ٹھونک کر بھرلی۔ ہمیں ’’باعزت نام‘‘ نان نیٹو اتحادی، فرنٹ لائن اتحادی کا دے دیا گیا۔ فدویت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
پاکستان کو دو قومی نظریے، اسلامی شناخت کی بجائے قوم پرستی پر استوار کیا گیا۔ امت، ملت سے رشتہ کاٹ کر ’سب سے پہلے پاکستان‘ ہوگیا۔ ناچ، گا، بجاکر، قومی تہوار مناکر، مخلوط تماشوں، (ڈوبتی معیشت کے باوجود) ملک بھر میں آتش بازی میں (آئی ایم ایف کے سودی قرضے کے) نوٹوں کو گویا پٹاخوں، اناروں کی صورت جلاکر سیکولر یومِ آزادی میں ڈھال دیا گیا۔ سبز پرچم پر ہلال کو روتا اور ستارے کو بجھتا دیکھنے والی آنکھیں تو اب قبروں میں جا سوئیں۔ معترض کوئی نہ ہوا۔ بڑے بڑے نظریے کے داعی، قوم پرستی کے راگ الاپنے لگ گئے! اقبال تو تھے نہیں جو یاد دلاتے:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے!
انہوں نے وطنیت کا تجزیہ کرتے ہوئے (جاوید نامہ) میں لکھا۔ ترجمہ: ’مغربی سیاست دانوں اور مفکروں کی ساری کارروائیاں مکر وفن پر مبنی ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو وطن پرستی کا درس دیا، حالانکہ وہ خود مرکزیت اور اتحاد پرعمل پیراہیں۔ اس لیے اے مسلمان نفاق سے پہلو بچا، قوم پرستی سے دور رہ اور اگر تم میں نیکی بدی کی کوئی تمیز ہے تو مٹی گارے اور پتھر کی محبت میں الجھنے سے محفوظ رہ۔‘ ہر ملک، ملکِ ماست کہ ملکے خدائے ماست: مسلمان، اللہ کا خلیفہ، پوری دنیا اس کی جولان گاہ ہے۔ قومیت کی تنگنائے میں اسے قید کرکے کنویں کا مینڈک بنا دیا۔ مغرب عملاً خود نیٹو، یورپی یونین میں یک جان اور امریکا، کینیڈا سمیت سبھی مغربی ممالک یک زبان ہوتے ہیں۔ہمیں تقسیم کر رکھا ہے۔پاکستان امتِ مسلمہ کا گلِ سرسبد، آنکھ کا تارا تھا۔ اب آپادھاپی اور کشکول طرازی میں مقام کھو بیٹھا ہے۔
یادش بخیر بھٹو دور میں مسلم ممالک کی ’اسلامک سمٹ‘ کی میزبانی پاکستان نے کی تھی۔ امت کی اخوت اور پاکستان کی محبوبیت نے ملک ٹوٹنے کے بعد ایک نئی قوت پائی تھی۔ یہی بھٹو کا مقصد بھی تھا۔ اس وقت ملک کے طول وعرض میں اقبال کا یہ ترانہ گونجا کرتا تھا۔ (کیونکہ ابھی انتہاپسندی، دہشت گردی کے لیبل تیار نہیں ہوئے تھے۔)
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفویؐ خاک میں اس بت کو ملا دے
اور یہ باربار دہرایا جاتا۔ ’تو مصطفویؐ، مصطفویؐ، مصطفویؐ ہے۔ اور ہماری نسل نے یہی حق جانا تھا۔ اب نوجوان نسل کورین بینڈ بی ٹی ایس سے ہم آہنگ، ان کے راگ الاپ رہی ہے! اب عشق عاشقی سکہ رائج الوقت ہے، جو خلل ہے دماغ کا!
پاکستان سے محبت کا اظہار نہ تعلیمی میدان میں محنت سے ترقی کے جھنڈے گاڑنا ہے۔ نہ کفایت شعاری، امانت ودیانت، محنت سے ملک کا مستقبل سنوارنا ہے۔ ہر کچھ دن بعد ہلاگلا، کھیل تماشا، بینڈ باجا، اختلاطی موسیقی رقص، منہ پر جھنڈے پینٹ کرکے پٹاخے گولیاں چلاکر، ہر موقع پر چار چھ چھٹیاں کرکے دن منانے کا چلن ہے۔ جہلم میں 50 فٹ لمبا، 80 فٹ چوڑا جھنڈا لہراکر پاکستان کے استحکام کا سامان کیا گیا! غریب ننگے بدن، برہنہ پا یہ جھنڈا عوام کے تن ڈھانپنے سے قاصر! آدھی رات کو گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے شہر گونج اٹھا۔ افغانستان، امریکا اور بے شمار ایٹمی قوتوں کے آہنی شکنجے سے تاریخ ساز آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ ایک طالب نے خوشی میں آکر ہوائی فائرنگ کرلی۔ مقامی کمانڈر نے اس سے کلاشنکوف واپس لے لی۔ جن گولیوں نے کفر کے سینے چھید کر آزادی حاصل کی، اپنے پیاروں کی بے بہا قربانیاں دیں، وہ یوں ضائع نہیں کی جاسکتیں! ادھر ہمارے ہاں برانڈڈ کپڑوں کی سیل پر دو خواتین مابین ایک جوڑے پر جھگڑا ہوگیا۔ شوہر نے بیوی کو جوڑا دلانے کے لیے فائرنگ کر دی! امت کا حال یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں عالمی اسلامی کانفرنس ہو رہی ہے جس میں 85 ممالک سے علماء، مفتیان کرام کی شرکت ہے۔ ہم خوش ہوئے کہ امت کی سربلندی کا سامان ہوگا۔ قرآن کی بے حرمتی کے تسلسل کا سخت نوٹس لیا جائے گا۔ کمزور مسلم ممالک کی مدد پر علماء، امیر بھائیوں کو متوجہ کریں گے کہ ہندوؤں کی بھرتی روک کر مسلم نوجوانوں کو رزق کی خاطر مغرب کے سمندروں میں ڈوبنے سے بچائیں۔ بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم کا سدباب ہوگا۔ مگر وہاں تو رواداری اور برداشت کے موضوعات ہیں!
(قرآن جلانے پر) اور کتنی رواداری درکار ہے؟ خونِ مسلم کتنی مزید برداشت کا متقاضی ہے؟ انتہاپسندی اور دہشت گردی پر بھی بات ہوگی۔ مگر کس کی؟ اسرائیل، بھارت، برما، اسلاموفوبک ممالک کی انتہاپسندی، دہشت گردی پر بات ہونا مشکل ہے! انہیں بھی تو بلا ؤاور کچھ تعلیم دو!
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکرے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز