(زمانہ گواہ ہے) عمران خان کی گرفتاری اور پاکستانی سیاست کا مستقبل - محمد رفیق چودھری

7 /

پاکستان کا قیام ایک ویژن کے مطابق عمل میں آیا تھا لیکن اب ہم اپنا ویژن کھو

چکے ہیں ، ہمارے پاس نشانِ راہ باقی ہے اور نہ ہی زادِ راہ بچا ہے : رضاء الحق

یہ نظام عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتا بلکہ ان کے منہ کا نوالہ بھی چھین رہا

ہے اور صرف وی آئی پی کلچر کو نواز رہا ہے: قیوم نظامی

عمران خان کی گرفتاری اور پاکستانی سیاست کا مستقبل کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمدباجوہ

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو تین سال قید کی سزا اورپانچ سال کے لیے نااہلی کا سامنا ہے۔ کہا یہ جا رہا کہ یہ کیس میرٹ کی بجائے سیاسی انتقام کا شاخسانہ ہے اور اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کی صورت میں انہیں ریلیف بھی مل جائے گا۔اس حوالے سے آپ کی کیا رائےہے ؟
قیوم نظامی: جب سے پاکستان بنا ہے توشہ خانہ موجودہے اور اس کے بارے میں مختلف ادوار میں مختلف سکینڈل سامنے آتے رہے ہیں ۔ عمران خان صاحب نے الیکشن سے پہلے قوم سے وعدہ یہ کیا تھا کہ میں ایک با مقصد اور با معنی تبدیلی لاؤں گا اور میں ایک نیا پاکستان تشکیل دوں گا لہٰذا لوگوں نے ان کے اس نعرے سے متاثر ہو کر ان کوووٹ دیا اور وہ وزیر اعظم بن گئے ۔ لوگوں کو توقعات تھیں کہ وہ گورننس کا کوئی بہترماڈل پیش کریں گے ۔ توشہ خانہ کو ہمیشہ سے لوگ لوٹتے چلے آئے تھے۔عمران خان سے توقع یہ تھی کہ وہ کوئی ایسی قانون سازی کریں گے کہ یہ لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ ختم ہو جائے ۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے ۔ ہمارے ہمسایہ ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے میڈیا پر آکر چیلنج کیا ہے کہ مجھے جو سوارب روپے کے تحائف ملے تھے، میں نے ان کی شفاف نیلامی کروائی ہے اور نیلامی کرانے کے بعد وہ 100 ارب روپے میں نے خواتین کی تعلیم کے لیے وقف کر دیے ہیں ۔عمران خان کو بھی اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے تھی ۔ توشہ خانہ قوم کی امانت ہے ، یہ کسی فرد کی ملکیت نہیں ہے ۔ ہمارے دین کی بھی یہی سپرٹ ہے کہ حکمرانوں کو جو تحفے تحائف ملتے ہیں وہ ان کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتے بلکہ وہ قوم کی ملکیت ہوتے ہیں۔ عمران خان نے اس حوالے سے عوام کی توقعات کو پورا نہیں کیا بلکہ انہوں نے توشہ خانہ سے تحفے لیے اورآگے بیچ دیے۔ لہٰذا ان پر مقدمہ یہ ہے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن میں جو اپنے اثاثے ڈکلیئر کیے ان میں اس رقم کو شامل نہیں کیا جوتوشہ خانہ کے تحائف بیچ کر انہوں نے حاصل کی ۔ بہرحال میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس مقدمہ میں انتقام کا پہلو زیادہ ہے کیونکہ اتحادی جماعتوں کو لگتا ہے کہ تحریک انصاف جیت جائے گی لہٰذا اس کا راستہ روکنے کے لیے مختلف مقدمات بنائے جارہے ہیں ۔ میں سمجھتاہوں کہ اس فیصلے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے کہ جو ڈیفنس کا right تھا پہلے تو التوا کا شکار ہوتا رہا لیکن جب موقع آیا تو عمران خان کو دفاع کا موقع دیئے بغیر فیصلہ دے دیا گیا ۔
شاید جج نے چھٹیوں پر برطانیہ جانا تھا اس لیے اس نے جلد ی میں فیصلہ سنا دیا ۔ اس بنیاد پر اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ عمران خان کو اس کیس میں کوئی ریلیف اس لیے مل جائے گا کہ عدالت نے قانون کے تقاضوں کو تکمیل تک نہیں پہنچایا جو پہنچانا چاہیے تھا۔
سوال:توشہ خانہ کیس کے علاوہ بھی القادر ٹرسٹ کیس ، فارن فنڈنگ کیس ، نو مئی واقعات کا کیس اور درجنوں دیگر کیسز بھی عمران خان کے خلاف ہیں جن کے فیصلے آنا ابھی باقی ہیں ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ کیسز عمران خان کے سیاسی کردار کے خاتمے کا سبب بن سکتے ہیں ؟
رضاء الحق :اگر ہم اپنی سیاسی تاریخ کے اُتار چڑھاؤ دیکھیں تو چند چیزیں بڑی کھل کے سامنے آتی ہیں۔ نمبر ایک اسٹیبلشمنٹ کا رول شروع دن سے بہت اہم رہا ہےاور طاقت کا بنیادی مرکز بھی اسی کے پاس رہا ہے ۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا جو بھی سیاستدان جیل میں جاتاہے تو وہ ہیرو بن کر نکلتا ہے شاید ہمارے ہاں سیاسی کلچر ایسا ہی ہے ۔ پچھلے تیس سالوں کے دوران کوٹکنا کاکیس آیا ، حدیبیہ پیپر مل، سوس اکاؤنٹس، سرائے محل ، ایون فیلڈ، پانامہ، منی لانڈرنگ جیسے کئی کیسز آئے اور اب توشہ خانہ ، فارن فنڈنگ ، القادر ٹرسٹ ، نو مئی واقعات ، جیسے کیسز ہیں لیکن ان کیسز کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کون سیاست میں رہے گا کون باہر ہوگا کیونکہ یہاں این آر او بھی ملتے ہیں ، ملک سے باہر بھی لوگ رہتے ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ واپس نہ آ سکیں لیکن پھر وہ واپس بھی آجاتے ہیں اور سیاست میں بھی آجاتے ہیں ۔ کیونکہ یہاں وقت کے تقاضے بدل جاتے ہیں ۔جب طاقتور اداروں کو ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ کسی کو لے آتے ہیں اور کسی کو باہر کر دیتے ہیں ۔ چاہے کتنے ہی مقدمات کیوں نہ ہوں وہ ختم ہو جاتے ہیں ۔اب آپ دیکھیں کہ توشہ خانہ کو 1990ء سے اب تک تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے لوٹا لیکن ان پر کوئی قانونی گرفت نہیں ہورہی ہے ۔ اس ساری صورتحال میں ہماری عدلیہ کا کردار وہ نہیں ہے جو ہونا چاہیے ۔ عدلیہ آزاد انہ طور پر فیصلے کرے اور جو مجرم ہے اس کو سزا دے اور جو مجرم نہیں ہے اس کو قید وبند سے نجات دلائے ۔
سوال: نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت یا تو جیل میں ہے یا روپوش ہو چکی ہے یا پھر اپنا الگ سے ایک سیاسی سفر شروع کر چکی ہے۔ اس ساری صورتحال میں آپ پی ٹی آئی کے مستقبل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
قیوم نظامی:میراخیال ہے کہ تحریک انصاف کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ بہت ہی افسوس ناک واقعات ہیں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھرپور موقع دیا ہے کہ وہ اس کو ہائی لائٹ کریں ۔ بے شک عمران خان کا بائیس سال کا تجربہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک جال میں پھنس گئے ۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی ایک سوچ تو تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کے اوپر عوامی پریشر بڑھایا جائے ۔ ا س کے لیے انہوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا کہ ان کی گرفتاری کو ریڈ لائن بنا دیا جائے یہ ان کی غلطی تھی کیونکہ گرفتاری کبھی بھی کسی سیاستدان کی ریڈلائن نہیں ہوتی ۔ سیاستدان تو خوشی سے گرفتار ہوتے ہیں اور جیلوں میں جاتے ہیں ، پھر ہیرو بن کر باہر آتے ہیں ۔اس غلط فیصلے کی وجہ سے تحریک انصاف کو بہت گہرا دھچکا لگا ہے جس سے نکلنا میرا خیال ہے کہ بڑا مشکل ہوجائے گا کیونکہ اس کے بعد آپ دیکھیں کہ ان کا تنظیمی ڈھانچہ ٹوٹ گیا ہے۔ان کی صوبائی باڈیز میں جو مرکزی لوگ تھے وہ بھی یا تو چھوڑ گئے ہیں ، یا مفرور ہیں ، یا پھر جیلوں میں ہیں اور عمران خان خود بھی جیل چلے گئے ہیں ۔ جو پاپولر سیاستدان ہوتے ہیں وہ پارٹی میں تنظیم سازی نہیں کراتے۔ ہمارے لیڈر تو اس حد تک محتاط ہوتے ہیں کہ اپنی پارٹیوں میں الیکشن نہیں کرتے۔ اس صورت میں جب پارٹی ایک ہی شخص کےگرد گھوم رہی ہوتی ہے اگر وہ شخص ادھر ادھر ہو جائے تو پارٹی ختم ہو جاتی ہے ۔ ضیاء الحق کو ایجنسیوں نے پوری رپورٹ دی کہ اگر آپ بھٹو کو راستے سے ہٹا دیں گے تو پیپلز پارٹی ختم ہو جائے گی ۔ میں عینی شاہد ہوں کہ بھٹو کے بعد سوائے ایک دو کے باقی سب لیڈرز پیپلز پارٹی کو چھوڑ گئے تھے ۔ لیکن بے نظیر نے دوبارہ پارٹی کو سنبھالا دیا نہیں تو وہ ختم ہو چکی تھی۔ کسی شخصیت کے ساتھ جڑی ہوئی سیاسی پارٹیاں  جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں چلتیں تو وہ ختم ہو جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے لوگ کہتے رہے کہ پارٹی میں الیکشن کروائیں  لیکن عمران خان ٹالتے رہے۔ انہوںنے تحریک انصاف کو ایک ہجوم کی شکل میں رکھا ۔ عمران خان کا ایک فین کلب تھا جب کال دیتے تھے لوگ آجاتے تھے ۔ لیکن گرفتاری کے بعد چونکہ پیچھے کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہے اس لیے عمران خان کے لیے بہت مشکلات ہیں ۔ حالیہ گرفتاری سے پہلے انہوں  نے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ سڑکوں پر نکلنا ہے ، گھر میں نہیں بیٹھنا لیکن کوئی نہیں نکلا ۔ صوابی میں جو لوگ پُر امن انداز میں نکلے تھے انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کے لیے survive کرنا بڑا مشکل ہو گا ۔ البتہ اگر اسٹیبلشمنٹ کی سوچ بدل جائے اور وہ سمجھیں کہ عمران خان کو واپس لانا ہے تو بات دوسری ہے ۔
سوال: پاکستان کی 75سالہ سیاسی تاریخ پر اگر ہم نظر ڈالیں تو سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہمیں نااتفاقی اور ٹکراؤ کی سی صورتحال ہی نظر آتی ہے۔ اس مسئلے کا مستقل حل کیا ہے؟
رضاء الحق :ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا کچھ نہ کچھ کردار ہوتا ہے ۔ البتہ پاکستان چونکہ ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے اس لیے یہاں اسٹیبلشمنٹ کا رول زیادہ ہے کیونکہ ہماری جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ یہاں عالمی قوتوں کی خصوصی نظر ہے ۔ اس خطہ میں امریکہ اور چائنا کے مفادات کا ٹکراؤ بھی ہے ۔ بھارت امریکہ کا اتحادی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی لیڈرشپ اتنی مضبوط نہیں ہے اور نہ ہی قانون کی عمل داری ہے ۔ جبکہ جن ممالک نے ترقی کی ہے وہاں آئین سب سے بالاتر ہو تا ہے اور ہر ادارے کو پتا ہوتا ہے کہ اس کا دائرہ کا رکیا ہے اور وہ اسی کے اندر رہ کر کام کرتا ہے۔جبکہ ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہے۔ جیسا کہ ہمارے وزیر خارجہ نے 16 ماہ سسٹم کا حصہ رہنے کے بعد قومی اسمبلی کے الوداعی اجلاس میں بیان دیا کہ ہم اداروں کو ان کے آئینی دائرہ کار کے اندر کام کرنے پر مجبور نہیں کرسکے ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں اداروں میں اپنے آئینی دائرہ کار سے تجاوز کا رجحان ہے ۔ دوسری طرف روایتی سیاست کی بجائے موروثی سیاست نے جگہ لے لی ہے اس وجہ سے بھی اداروں کو مداخلت کا موقع ملتا ہے ۔ جب تک ہماری سیاستدان اور مقتدر حلقے اپنی حدود کے مطابق کام نہیں کریں گے تب تک اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں رول ختم نہیں کیا جا سکتا ۔
سوال: مشترکہ مفادات کونسل نے نئی مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے مطابق اب نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور پھر اس کےاعتبار سے نیا الیکشن ہوگا۔ اس صورتحال میں انتخابات وقت پر ہوتے نظر نہیں آرہے ۔ کیا آپ کے خیال میں 2023ء میں انتخابات کا انعقاد ممکن ہو پائے گا ؟
قیوم نظامی:یہ جوفیصلہ انہوں نے کیا ہے اس میں دونگران وزیر اعلیٰ شامل تھے ۔ اب نگران وزائے اعلیٰ تو صوبوں کی نمائندگی کے قانوناً مجاز نہیں ہیں کیونکہ وہ منتخب ہو کر نہیں آئے ۔ اس وجہ سے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے تحریک انصاف عدالت میں جارہی ہے ۔ ان کا موقف ہے کہ اس فیصلے میں دو صوبوں کی نمائندگی نہیں تھی لہٰذا اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے ۔ اب تحریک انصاف کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ انہوں نے دو صوبوں میں اپنی حکومت گرا کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے ۔ انہیں قومی اسمبلی کا بائیکاٹ ہی نہیں کرنا چاہیے۔ 140 ایم این ایز کو لے کر اسمبلی سے باہر آجانا اورپھر دو بڑی صوبائی اسمبلیوں کو توڑنا غیردانشمندانہ فیصلہ تھا ۔ اسد عمرنے کہا بھی کہ ایسا نہ کریں بلکہ اس کی بجائے آپ لوکل باڈیز کے انتخابات کا اعلان کردیں ۔ اگر ایسا کرتے تو صورتحال تحریک انصاف کے کنٹرول میں ہوتی۔ مرد م شماری کےنتائج کی منظوری کا ایک سیاسی پس منظر بھی ہے کہ میاں نواز شریف چاہتے ہیں کہ واپس آکر وہ الیکشن کو lead کریں ۔وہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ الیکشن اگلے سال مارچ تک چلے جائیں تاکہ ان کو اتنا موقع مل جائے کہ وہ اپنے کیسز ختم کرواسکیں اور اس قابل ہو جائیں کہ آکر انتخابی مہم چلا سکیں ۔ ان کا خیال ہے اتنی دیر میں عمران خان کی مقبولیت کا گراف بھی مقدمات کی وجہ سے کافی نیچے آجائے گا ۔
سوال:سیاسی حالات وواقعات پر نظر دوڑائیں تو اگلے الیکشن میں کوئی بھی سیاسی پارٹی واضح اکثریت حاصل کرتی دکھائی نہیں دے رہی کہ اپنی حکومت بنا سکے ۔ ان حالات میں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایک نئےچارٹر آف ڈیموکریسی کی ضرورت ہے؟
رضاء الحق :جو بلیو پرنٹ بنا ہوا ہے تو اس میں divide and ruleکی پالیسی کے تحت کسی ایک جماعت کو اکثریت دینا مقصود بھی نہیں ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت استحکام پاکستان یا کسی دوسرے نام سے الیکٹیبلز بھی ایک جگہ اکٹھے ہو رہے ہیں اور بے شمار دوسرے طریقےبھی ہیں جن کے ذریعے مینڈیٹ کو تقسیم کیا جائے گا ۔ پی ٹی آئی نے ایک نیا نعرہ دیا تھا کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے ۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو عوام نے آزما لیا تھا۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ یہ دونوں جماعتیں کرپٹ ہیں ، ان کے لیڈر چور بھی ہیں ڈاکو بھی ہیں ، سب کچھ ہیں ، ہم کرپشن فری پاکستان بنائیں گے وغیرہ ۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد پی ٹی آئی خاطر خواہ تبدیلی نہ لا سکی۔گویا چارٹر آف ڈیموکریسی کا معاملہ یہاں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ ہمیں تین چیزوں کی ضرورت ہے ۔ (1) پہلے چارٹرآف موریلٹی طے کریں،یعنی رولز آف دی گیم طے کریں۔ (2)چارٹرآف جسٹس اینڈ فیئرپلے طے کریں۔ (3) چارٹر آف اکاؤنٹیبلیٹی اور ریسپانسبیلیٹی بنائیں ۔ اگر آپ کے پاس اختیار ہےیا آپ کوئی عہدہ چاہتے ہیں تو اس کی جواب دہی بھی ہوگی ۔ یہ کرنے کے بعد پھر آپ چارٹر آف ڈیموکریسی کی طرف جائیں۔ سیاسی جماعتیں سیاسی بنیاد پہ بات چیت بھی کریں،مگر اپنے اصولوں پر اور آئین پر سمجھوتہ نہ کریں۔  اس کے بعد ان کی پوزیشن بنے گی ۔ اس کے بعد وہ طاقتور کے سامنے کھڑے بھی ہو سکیں گی ۔ اس کے بغیر چارٹر آف ڈیموکریسی کام نہیں کرے گا ۔
سوال:شہباز حکومت نے رخصتی سے پہلے آخری چند دنوں میں قومی اسمبلی اور سینٹ میںعجلت میں درجنوں  بل پاس کیے ہیں ۔ اس تھوک کے حساب سے کی گئی قانون سازی کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں ؟ 
قیوم نظامی:ایک تو یہ چیز بالکل سامنے آگئی ہے کہ ہماری اسمبلیاں پانچ سال تو کام ہی نہیں کرتیں اور آخری دنوں میں بیرونی پریشر کی وجہ سے یا پھر پارٹی سپورٹز اور سرمایہ داروں کی خوشنودی کے لیے تھوک کے حساب سے قانون سازی کی جاتی ہے جس کا عوام کے مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ حالیہ قانون سازی میں بھی آپ دیکھیں کہ یا تو آپس میں اقتدار کی بندر بانٹ کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے یا پھر پارٹیوں کے سپورٹر ز کے مفاد میں ۔ ان میں دس بارہ پرائیویٹ یونیورسٹیز کے بل بھی شامل ہیں ۔
ایک آدھ بل ان میں سے درست بھی ہو سکتا ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ عام طور پر انہوں نے جو بل پاس کیے ہیں وہ مغربی ایجنڈے اور مغربی ذہنیت کے لوگوںکے پریشر میں کیے ہیں ۔ کسی نے کوئی یونیورسٹی بنوانی ہے ، کسی کا کچھ اور ایجنڈا ہے ۔ سابق چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی کہتے ہیں کہ میں نے ملتان کے ایک بڑے جاگیردار کو نوٹس بھیجا کہ تمہاری اتنی زیادہ انکم ہے اور تم نے کبھی ٹیکس نہیں دیا تو شاہ محمو دقریشی کوئی 40 کے قریب ایم این ایز لے کر میرے دفتر میں آگئے اور پریشر ڈالا کہ نوٹس واپس لیا جائے ۔ یعنی ہمارے سیاستدان قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر چلتےہیں اور جو درجنوںکے حساب سے بل پاس ہوئے ہیں وہ بھی انتخابی مہم کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اپنے پارٹی سپورٹرز کو نواز ا گیا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ان میں سے زیادہ تر بل چیلنج ہو جائیں گے ۔ یہ نظام عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتا بلکہ ان کے منہ کا نوالہ بھی چھین رہا ہے اور یہ نظام صرف وی آئی پی کلچر کو نوازنے کے لیے ہے۔ جس قدر مہنگائی ہو چکی ہے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، لوگ کھانا کھائیں یا بجلی کے بل دیں ۔ نوجوان یہ سارا کچھ دیکھ رہے ہیں اور ان کے اندر انقلاب کی چنگاری بھڑک رہی ہے ۔ نوجوان اب اس نظام سے بے زار ہو چکے ہیں ، وہ سمجھ گئے ہیں کہ چند خاندانوں نے 75 سال سے عوام کو ایک شیطانی گھن چکر میں پھنسایا ہوا ہے ، جس میں عوام سسک سسک کر مر رہے ہیں اور ان کے خون پسینے کی کمائی سے چند خاندان عیاشیاں کر رہے ہیں ۔
سوال: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ سینٹ میں اور قومی اسمبلی میں جو تھوک کے حساب سے بل پاس کیے گئے ہیں یہ لانگ ٹرم میں جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوں گے ؟ 
رضاء الحق : پی ڈی ایم حکومت نے آخری دنوں میں 54 بل پاس کیے ۔ یہ قوانین جو پاس ہوئے ہیں وہ عوامی فائدے کے لیے نہیں بلکہ خود سیاستدانوں، سیاسی پارٹیوںاور طاقتور حلقوں کے فائدے کے لیے ہیں ۔ کچھ بیرونی پریشر کے تحت پاس ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بل چیئرمین سینٹ ، ڈپٹی چیئرمین اور سینیٹرز کی مراعات بڑھانے کے حوالے سے ہے۔ ان میں آرمی اصلاحات بل، آفیشل سیکرٹ ایکٹ، کنٹونمنٹس کے حوالے بل، ڈی ایچ اے کےحوالے سے بلز ہیں ۔ مجموعی طور پر طاقتور حلقوں کی طاقت اور اختیارات کو مزید بڑھانے کے لیے یہ ساری قانون سازی کی گئی ہے جس کا عوامی مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں کے ایجنڈے کی جھلک بھی آپ کو نظر آئے گی ۔ اس میں پی آئی اے کی نجکاری بھی شامل ہے ، ایک این ایل سی کے معاملے کا بل ہے یعنی قومی اثاثہ جات کو فروخت کرنے کے معاملات بھی شامل ہیں ۔ اسی طرح  الیکشن ایکٹ میں ترامیم کی گئی ہیں۔ جس میں ٹرانسجینڈرز کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ حالانکہ ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت فیصلہ بھی دے چکی ہے ۔ پی ڈی ایم حکومت کے وزیرقانون نے کہا تھا کہ کوئی ایک اپیل سپریم کورٹ میں چلی جائے گی تو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ غیر موثر ہو جائے گا ۔ لہٰذا صاف ظاہر ہورہا ہے کہ اس قانون سازی کے ذریعے مفادات کسی اور کے پورے ہو رہے ہیں ۔ حالانکہ ہمارے آئین میں واضح طور پر ریاست کو اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کہا گیا ہے ، یہ کہ یہاں حاکمیت اعلی اللہ تعالیٰ کی ہے اور قرآن و سنت کی بالا دستی ہوگی ، عوام کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق دیا گیا ہے۔ قانونی اور اخلاقی جواز مضبوط ہو گا تو پھر constitution پر عمل درآمدبھی ہو گا۔ پھر یہ کہ عدالتیں بھی اسیspirit میں کام کرتی ہیں اور پوری قوم بحیثیت مجموعی ایکdirection کی طرف چلتی ہے۔ آج دنیا میں جو بھی قوم آگے بڑھ رہی ہیں ان کا باقاعدہ ایک vision آپ کو دکھائی دیتا ہے، امریکہ ہے، چین ہے ، بھارت ہے ، ترکی ہے یہ سب ایک ویژن کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں ۔ پاکستان کا قیام بھی ایک ویژن کے مطابق عمل میں آیا تھا لیکن اب ہم اپنا ویثرن کھو چکے ہیں ، ہمارے پاس نشانِ راہ باقی ہے اور نہ ہی زادِ رہ بچا ہے ، ہم اپنی منزل کھو چکے ہیں ۔ لہٰذا جب تک ہم دوبارہ اپنے راستے اور منزل کی طرف نہیں لوٹیں گے تب تک ہم یوں ہی بھٹکتےاور ٹھوکریں کھاتے پھریں گے ۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹیں اور پھر اس کے مطابق جب فیصلے ہوں گے تو ان پر عمل درآمد بھی یقینی ہوگا اور پھر ملک کا نظام چل سکے گا ۔