نبی اکرم ﷺ نے صرف عدل کی دعوت ہی نہیں دی بلکہ عادلانہ نظام کو
بالفعل قائم کرکے دکھایا۔ہمیں پُر امن ، منظم اور غیر مسلح تحریک کے ذریعہ
پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔ (شجاع الدین شیخ)
اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے اور ظلم سے روکتا ہے۔ (مولانا فضل سبحان)
عدل اسلام کا کیچ ورڈ ہے، اگر اسلام سے عدل نکال دیا جائے تو کچھ نہیں
بچتا۔ (ایوب بیگ مرزا)
اگر ہم اپنے ملک کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو اس میں شریعت اسلامی کو نافذ
کرنا ہو گا۔ (مفتی منیب الرحمان)
قرار داد ِ مقاصدکا پاس ہو جانا ایک بڑی سعادت کی بات تھی لیکن بدقسمتی سے
اس قرار داد پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ (محمد حسین محنتی)
حضرت عمر ؓ کا دورِ خلافت سنہری دور اِسی لیے کہلاتا ہے کہ اُنہوں نے اسلام
کے عادلانہ نظام کو بدرجہ اَتم قائم کیا۔(شیخ ضیاء الرحمٰن المدنی)
رپورٹ سیمینار ’’بقائے پاکستان ---نفاذِ عدلِ اسلام‘‘ زیر اہتمام تنظیم اسلامی پاکستان
14 اگست 2023ء بروز پیر شہر کراچی کے عین وسط میں واقع The Venue Banquet میں تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام’’بقائے پاکستان ---نفاذِ عدلِ اسلام‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا آغاز صبح 00:10بجے کیا گیا ۔اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ڈاکٹر انوار علی (نائب امیر حلقہ کراچی وسطی) نے ادا کیے۔ڈاکٹر انوار علی صاحب نے سب سےپہلے امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ صاحب، معزز مقررین اور دیگر شرکاء کو خوش آمدید کہا ۔ بعد ازاں سیمینار کی غرض وغایت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ بقائے پاکستان کے لیےعدلِ اسلام کا نفاذ ناگزیر ہے۔ مملکت ِخداداد پاکستان کے عوام و خواص کی توجہ اس اہم ذمہ داری کی طرف مبذول کروانے کے لیے تنظیم اسلامی 11اگست تا 03ستمبر2023ء، پاکستان بھر میں ’’بقائے پاکستان: نفاذِ عدلِ اسلام‘‘مہم کا آغازکر چکی ہے ۔ یہ سیمینار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔تلاوت قرآن حکیم کے لیے حافظ حذیفہ عبد الرحمان کو دعوت دی گئی جنہوں نے سورۃ الانفال کی آیات 24 تا 28 کی تلاوت اور ترجمہ سے حاضرین کو روحانی غذا فراہم کی۔اس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ پیش کرنے کے لیے کورنگی شرقی تنظیم کےملتزم رفیق حافظ ریان بن نعمان کو دعوت دی گئی جنہوںنے قاری محمد طیب صاحب کا خوبصورت کلام’ نبی اکرم ﷺ شفیع اعظم دکھے دلوں کا پیام لے لو‘ پیش کیا اور اپنی دلسوز اور روح پرور آواز کے ذریعہ سامعین کے دلوں کو گرمایا۔اس کے بعد سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
شجاع الدین شیخ: (امیر تنظیم اسلامی): پاکستان کی بقاء اور سلامتی اسلام کے عطا کردہ نظامِ عدلِ اجتماعی کے نفاذ و قیام سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے صرف عدل کی دعوت ہی نہیں دی بلکہ عادلانہ نظام کو بالفعل قائم کرکے دکھایا۔ پاکستان ایسا منفرد ملک ہے جہاں کے رہنے والوں کی زبانیں ، رنگ اوررہن سہن سب مختلف ہونے کے باوجود کلمہ کی بنیاد پر ہم ایک ہو گئے۔ مسلمانانِ ہند کی زبان پر کلمہ چلا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں الگ خطۂ زمین سے نواز دیا لیکن آج صرف زبان پر کلمہ ہونے سے اللہ کی نصرت نہیں آئے گی۔ بلکہ ہم غالب تب ہی رہیں گے جب حقیقی ایمان والے ہوں گے۔آج قلبی ایمان کی ضرورت ہے ۔ پڑوسی ملک افغانستان میں اللہ والوں نے اللہ پر توکل کیا تو اللہ نے ان کی نصرت فرمائی۔ آج ہماری قوم کو بھی ایسے ہی ایمانی جذبے کی ضرورت ہے۔ پارلیمان سے کتنے بل پاس ہو رہے ہیں لیکن نفاذ شریعت کے لیے کوئی بل پاس نہیں ہوا۔ قوت رکھنے والوں نے ہر جگہ اپنے مفاد کے لیے قوت استعمال کی لیکن شریعت کے لیے نہیں کی۔ انہوں نے پاکستان میں نظام کی تبدیلی کے لیے انقلاب نبوی ﷺ کی وضاحت فرمائی اور بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے پیش کردہ منہج انقلاب نبوی ﷺ کا مختصر خاکہ سامنے رکھا۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں پر امن، منظم اور غیر مسلح تحریک کے ذریعہ پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔ انتخابی سیاست کے راستے نظام چل تو سکتا ہے لیکن بدل نہیں سکتا۔ اُنھوں نے کہا کہ ہم مختلف قسم کے نظام اور طرزِ ہائے حکومت اپنا کر 76 سال سے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پاکستان میں نفاذِعدلِ اسلام ہمارے ایمان کا تقاضا ہے پھر یہ کہ موجودہ حالات کا منطقی اور عقلی تقاضا بھی اِس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں موجود ظلم و زیادتی کی فضا اور سیاسی و طبقاتی کشمکش کو ختم کیا جائے اور بقائے پاکستان کے لیے اسلام کے نظامِ عدل اجتماعی کو مملکتِ خداداد پاکستان میں نافذ کرنے میں مزید تاخیر نہ کریں ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور اسلام کے عطا کردہ عادلانہ نظام ہی میں پاکستان کی بقاء مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو مہلت دی ہے اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں ۔ ہمارا کامل ایمان ہے کہ اللہ ہی ہمارا حقیقی سہارا ہے اُس کے سوا تمام سہارے دَجل و فریب ہیں جو ہماری ہلاکت کا باعث بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فیصلہ کرنے اور پھر اُس پر استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
مولانا فضل سبحان:( ڈائریکٹر العصر فاؤنڈیشن ) : اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے اور ظلم سے روکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارضِ پاکستان ہمیں رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو عطا کی جو نزول قرآن کی بھی با برکت گھڑیاں ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامِ پاکستان عالمِ اسلام کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ ہمارے لیے سب سے ضروری قرآن پاک کے ساتھ وابستگی قائم کرنا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس قرآن کی وجہ سے قوموں کو عروج وزوال عطا فرمائے گا۔علامہ اقبال کے نزدیک بھی ہماری ذلت و رسوائی کی وجہ تارکِ قرآن ہونا تھی۔ پاکستان کے دشمن ہماری نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیم سے نوجوان نسل کا شعوربیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
شیخ ضیاء الرحمن المدنی:(رئیس و مدیر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ): حضرت عمرhکا دورِ خلافت سنہری دور اِسی لیے کہلاتا ہے کہ اُنہوں نے اسلام کے عادلانہ نظام کو بدرجہ اَتم قائم کیا۔ عدل صرف سیاسی سطح پر ہی نہیں بلکہ معاملات میں بھی درکار ہے۔اپنی ذات ، گھر، محلے،مدارس، تناظیم ہر ہر سطح پر عدل کی ضرورت ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ پچھلی قومیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ اگر کوئی عام فرد ظلم کرتا تو اسے سزا دی جاتی اور کوئی بااثر ظلم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا ۔ ہمیں ہر صورت میں عدل کی گواہی دینی ہے چاہے وہ گواہی ہمارے خلاف ہی کیوں نہ جاتی ہو۔اگر ہمیں روزِ محشر کی پکڑ کا پختہ یقین ہو گا تو ہم ہر سطح پر عدل کریں گے۔ اللہ ہمیں آخرت کا خوف عطا فرمائے۔ آمین!
ایوب بیگ مرزا:( مرکزی ناظم نشر و اشاعت تنظیم اسلامی ): قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی اُس تقریر جس کا ہمارے ملک کا سیکولر/لبرل دانشور زور و شور سے حوالہ دیتا ہے اُس کا ریکارڈ نہ ریڈیو پاکستان کے پاس موجود ہے اور نہ ہی بھارت کے ریڈیو کے پاس اُس کی کوئی کاپی موجود ہے۔ اس تقریر کا مبینہ متن نظریۂ ضرورت کے بانی اور ٹھیٹ سیکولر جج جسٹس منیر نے فراہم کیا۔ پاکستانی نژاد برطانوی محققہ سلینہ کریم نے اپنی تحریر میں جسٹس منیر کی بد دیانتی اور جھوٹ کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ عدل اسلام کا کیچ ورڈ ہے اگر اسلام سے عدل نکال دیا جائے تو کچھ نہیں بچتا۔ نفاذِ عدلِ اسلام صرف حکومت یا کسی ایک جماعت کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ایک ایسا فرض ہے جو ریاست کے ہر فرد پر عائد ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ فیصلہ دیتی ہے لیکن حکومت اور مقتدد قوتیں اس پر عمل درآمد کرنے سے صاف انکار کر دیتی ہیں۔ دو صوبوں میں غیر آئینی حکومتیں قائم ہیں۔ ہر شخص اپنی ذمہ داری اور کوشش کا مکلف ہے اگر ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہو جائے لیکن ایک فرد کا اس جدوجہد میں کوئی حصہ نہ ہو تو وہ فرد ناکام تصور ہوگا۔ البتہ اگر ایک شخص نفاذِ عدلِ اسلام کے لیے اپنا تن من دھن لگا دے لیکن پھر بھی اسلامی نظام قائم نہ ہو سکے تو وہ شخص کامیاب و کامران ٹھہرے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسی حوالے سے ہم سے سوال کرنا ہے لہٰذا ہمیں اس سوال کے جواب کی تیاری کرنا ہوگی۔
محمد حسین محنتی:(امیر جماعت اسلامی سندھ): قرار داد ِمقاصدکا پاس ہو جانا ایک بڑی سعادت کی بات تھی لیکن بدقسمتی سے اس قرار داد پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم ایک اسلامی نظامِ حکومت کی بجائے سیکولر نظامِ حکومت کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ دستورِ پاکستان پر عمل نہ کرکے پاکستان کے قیام کے بنیادی مؤقف سے انحراف کیا گیا۔ سود کے خلاف فیصلہ بھی آگیا لیکن حکومت میں شریک افراد کیونکہ اسلامی سوچ کے حامل نہیں اس لیے کوئی روڈ میپ تک نہیں بنا سکے کہ کس طرح اس ملک کو سود کی لعنت سے پاک کیا جائے۔ جو قرضے لیے جا رہے ہیں وہ حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں ترقی اور خوشحالی صرف نظام کی تبدیلی کے ذریعہ ہی آسکتی ہے۔جو بھی جماعتیں دین کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں ہمیں ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ تنظیم اسلامی کی قرآن کی طرف رجوع کی تحریک بہت پُر اثر ہے ہمیں اس کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی بقاء نفاذِ عدلِ اسلام کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔
مفتی منیب الرحمان:(صدر دارالعلوم نعیمیہ ): (ویڈیو پیغام) اگر ہم اپنے ملک کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو اس ملک میں شریعتِ اسلامی کو نافذ کرنا ہو گا۔یہ وطن ہمیں کسی نے تحفہ میں نہیں دیا بلکہ اس کے حصول کے لیے ہمارے اکابرین کی بے شمار قربانیاں اور شہادتیں شامل ہیں۔ ہمیں آزادی کی جو قدر کرنی چاہیے تھی وہ نہ کر سکے۔ دفاعِ پاکستان کے لیے مسلح افواج کی قربانیوں کی قدر کرنی چاہیے۔ ہم نے عہد کیا تھا کہ اگر آزاد وطن ملا تو ہم اس میں نظامِ مصطفیٰﷺ کو نافذ کریں گے۔ ہم نے قرآن و سنت کی بالا دستی کی دفعہ کو تو آئین میں شامل کر لیالیکن اس پر عمل درآمد نہ کیا۔ اللہ ہمیں نظریہ ٔپاکستان کی طرف لوٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
نماز ظہر کے وقت یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا ۔ اہل کراچی بڑی تعداد میں پروگرام میں شریک ہو کر کمال یکسوئی کے ساتھ تین گھنٹےمعزز و محترم مقررین کے خیالات سے مستفید ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سیمینا رمیں تقریباً 1800 حضرات نے شرکت کی۔ تنظیم اسلامی کے رفقاء نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور محنت کی ۔ رب کریم ان کی مساعی کو شرف قبولیت سے نوازے اور اصلاح احوال کا ذریعہ بنائے۔ آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2025