الہدیٰ
ملکہ ٔ سبا کا فیصلہ
آیت 34{قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا} ’’اُس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میںداخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کر دیتے ہیں‘‘
اس نازک موقع پر ملکہ نے بڑی دانش مندانہ بات کی کہ بادشاہوں کا ہمیشہ سے ہی دستوررہا ہے کہ وہ جس شہر یا علاقے کو فتح کرتے ہیں اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔
{وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃًج وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ(34)} ’’اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں ‘اور وہ ایسے ہی کرتے ہیں۔‘‘
ملکہ کی یہ بات بھی بہت اہم اور حقیقت پر مبنی ہے۔ علّامہ اقبالؔ نے اپنی نظم ’’خضرِراہ‘‘ کے ذیلی عنوان ’’سلطنت‘‘ کے تحت جو فلسفہ بیان کیا ہے اس کا مرکزی خیال انہوں نے اسی آیت سے اخذ کیا ہے اور پہلے شعر میں اس آیت سے تلمیح بھی استعمال کی ہے۔ نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے : ؎
آ بتائوں تجھ کو رَمز آیۂ اِنَّ الْمُلُوْک
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری!برعظیم پاک وہند میں مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ یہاں مسلمان حکمران تھے جبکہ ہندو اُن کے محکوم تھے۔ انگریزوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے ہندوئوں کو تو کچھ خاص فرق نہ پڑا‘ ان کے تو صرف حکمران تبدیل ہوئے‘ پہلے وہ مسلمانوں کے غلام تھے‘ اب انگریزوں کے غلام بن گئے‘ لیکن مسلمان تو گویا آسمان سے زمین پر پٹخ دیے گئے ۔ وہ حاکم سے محکوم بن گئے۔ اب اگر انگریزوں کو کچھ خطرہ تھا تو مسلمانوں سے تھا۔ انہیں خدشہ تھا کہ مسلمان اپنا کھویا ہوا اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ضرور کوشش کریں گے ۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی ممکنہ بغاوت کی پیش بندی کے لیے انہیں ہر طرح سے دبانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہ طریقہ اپنایا کہ معاشرے کے گھٹیا لوگوںکو تو خطابات اور جاگیروں سے نواز کر اعلیٰ مناصب پر بٹھا دیا اور ان کے مقابلے میں معززین اور شرفاء کو ہر طرح سے ذلیل و رسوا کیا۔ ایسے تمام جاگیر دار انگریز وں کا حق ِنمک ادا کرتے ہوئے اپنی قوم کے مفادات کے خلاف اپنے آقائوں کی معاونت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔
یہی حکمت ِعملی مصر میں فرعون نے بھی اپنا رکھی تھی۔ اس نے بھی بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگوں کو اپنے دربار میں جگہ دے رکھی تھی۔ یہ مراعات یافتہ لوگ فرعون کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی قوم کی مخبری کرتے اور اپنے ہی بھائی بندوں کے خلاف فرعون کے معاون و مدد گار بنتے۔
درس حدیث
ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعثعَنِ ا بْنِ عُمَرَ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ:(( اَلظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) (بخاری ومسلم)
سید نا عبد اللہ بن عمر ؓ سےروایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ظلم قیامت کے روز بہت سی تاریکیوں اور اندھیروں کا باعث ہے۔‘‘
تشریح:اس حدیث میں خبر دار کیا گیا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں ظلم کرے گا وہ قیامت کے روز بہت سے اندھیروں میں بھٹکتا پھرے گا۔ اور یہ ظلم اپنی تمام اقسام پر مشتمل ہے خواہ جان پر ہو، مال میںہو، کسی کی عزتِ آبرو پر ہو، حقوق اللہ میں ہو یا حقوق العباد میں، حرام ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024