(اداریہ) PDM کی 16 ماہ کی حکومت - ایوب بیگ مرزا

7 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاPDM کی 16 ماہ کی حکومتاقتصادی جائزہ بلا تبصرہ


                                        16 ماہ قبل                16 ماہ بعد
1     پیٹرول کی قیمت (فی لیٹر)        149 روپے              273 روپے
2     بجلی فی یونٹ                    18 روپے                35 روپے
3     قدرتی گیس کی قیمت                                       150 فیصد اضافہ
4     ڈالر                             178 روپے               285-300 روپے
5     افراطِ زر                        13.4 فیصد               28 فیصد
6     شرحِ سود (پالیسی ریٹ)         9 فیصد                    22 فیصد
7     سرکاری قرضے                 44.4 کھرب روپے        62.9 کھرب روپے (18.5 کھرب روپے یعنی 42 فیصد اضافہ)
8     ترسیلاتِ زر                                                 13 فیصد کمی
9     برآمدات                                                      14 فیصد کمی
10    غیر ملکی سرمایہ کاری                                      77 فیصد کمی
11     شرحِ نمو                       6.1 فیصد                 0.29 فیصد
12    زراعت میں شرحِ افزائش        4.4 فیصد                 1.55 فیصد
13    سروسز سیکٹر میں شرحِ افزائش   6.2 فیصد               0.86 فیصد
14    صنعتی شرحِ افزائش               7.2 فیصد               2.94 فیصد
 اعداد و شمار 10 اپریل 2022ء تا 09 اگست 2023ء
ہم نے PDM کی 16 ماہ کی حکومت کا جو اقتصادی نقشہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے، یعنی جب وہ برسر اقتدار آئے تو اقتصادی اعداد و شمار کیا تھے اور اب اُن کی حکومت کے اختتام پر کیا صورتِ حال ہے۔ اس کے بعد ہم نہیں سمجھتے کہ ہماری طرف سے کسی قسم کے تبصرے کی ضرورت ہے۔ قارئین خود ہی آسانی سے اُن کی حکومت کی کارکردگی کو سمجھ لیں گے۔ البتہ سیاسی اور اجتماعی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے حوالے سے ہم اُن کی 16 ماہ کی حکومت پر اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں گے۔ اس تحریر سے پہلے ہم نے بڑی سنجیدگی اور دیانتداری سے غور و خوض کیا اور چاہا کہ بات اُن کی کسی کارکردگی کی تعریف اور تحسین سے شروع کی جائے اور اس کے بعد ناقدانہ تبصرہ کیا جائےلیکن یقین کیجئے کہ انتہائی مغز ماری کے بعد بھی ہم ایک قابلِ تعریف نکتہ بھی ایسا نہ ڈھونڈ سکے جس سے یہ معلوم ہو کہ گزشتہ سولہ ماہ میں فلاں ملکی یا قومی سطح پر اچھا یا مفید کام ہوا۔ خود سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف ایک ہی اچھے کام کا ذکر کیا کرتے تھے اور وہ یہ تھا کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا۔ حالانکہ اُن کی حکومت کا جب آغاز ہوا تو زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر تھے اور پھر اُن کی حکومت میں وہ وقت بھی آیا کہ یہ ذخائر کم ہوتے ہوتے ساڑھے تین ارب ڈالر رہ گئے۔
سوال یہ ہے کہ ڈیفالٹ کی طرف ملک کو لے کر کون گیا تھا لہٰذا یہ انتہائی مضحکہ خیز دعویٰ ہے کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ ہم یہاں یہ بات نوٹ کرواتے چلیں کہ ہمیں اعلانیہ طور پر ڈیفالٹ قرار دینا امریکہ کی صوابدید پر ہے۔ وہ ہم پر کسی وقت بھی ڈیفالٹ کا ٹھپہ لگوا سکتا ہے۔ آخر کیوں PDM کی حکومت نے امریکہ کے ساتھ سکیورٹی کا وہ معاہدہ renewکر لیا ہے جو قریباً 2020ءسے معلق تھا، جس کی ایک شق کے مطابق پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے اڈے استعمال کر سکتے ہیں۔ ظاہرہے وقت پڑنے پر امریکہ ہی ہمارے اڈے استعمال کرے گا۔ بات خارجہ پالیسی پر چل پڑی ہے تو یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ پاکستان پر الزام ہے کہ روس کے مخالف ملک یوکرائن کو پاکستان کے راستے اسلحہ بھجواتے ہیں۔ پہلی بار یوکرائن کے وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا جس کی پریس کانفرنس سے روسی صحافی کو نکال دیا گیا ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اپنے غیر ملکی دوروں پر خزانے سے اربوں روپے خرچ کیے جن میں امریکہ کے کئی سرکاری اور غیر سرکاری دورے شامل تھے۔ لیکن برادر ملک افغانستان جو ہمسایہ بھی ہے جس کے ساتھ ہمارے مسائل روز بروز سنگین ہو رہے تھے، وہاں کا ایک دورہ بھی نہیں کیا۔
حال ہی میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کرے گا اور پاکستان کو جدید اسلحہ بھی دے گا اللہ خیر کرے۔ اللہ پاکستان کو اپنی امان میں رکھے۔ کیا امریکہ سے پوچھنے کی جرأت کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرواتا کون ہے؟ PDM کی حکومت نے سابقہ حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے ذاتی سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے امریکہ سے تعلقات بگاڑ لیے تھے۔ یقیناً کسی بھی ملک سے تعلقات بگاڑنا خاص طور پر عالمی قوت سے بگاڑ پیدا کرنا حماقت ہے، نقصان دہ ہے، لیکن PDM تو اس کی وجہ سائفر بتاتی تھی کہ سائفر کا جھوٹا افسانہ عمران خان نے گھڑ لیا تھا جبکہ امریکہ ہی کے اخبار intercept نے سائفر کو ایک حقیقت بتا کر P.T.I حکومت کے مؤقف کی تصدیق کر دی ہے۔ بہرحال PDM حکومت نے تو تعلقات سنوارنے کی آڑ میں امریکی غلامی کا قلادہ پھر قوم کے گلے میں ڈال دیا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اب ہم یہ قلادہ کب اور کیسے اپنے گلے سے اتار سکیں گے؟
داخلی سطح پر PDM کی سولہ ماہ کی کارکردگی اور مخالفین کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیاں پاکستان کی تاریخ پر ایسا سیاہ دھبہ ہیں جو شاید کبھی دھویا نہ جا سکے۔ پاکستان میں چار مارشل لاء لگے ہیں لیکن سیاسی مخالفین کے ساتھ ایسا خوف ناک سلوک کسی مارشل لاء میں بھی نہیں ہوا۔ ہزاروں سیاسی کارکنوں کو مقدمات قائم کیے بغیر جیلوں میں بند کیا گیا۔ جیلوں میں کارکنوں کو ایسی ایسی اذیتیں دی گئیںجن کی تفصیلات انتہائی درد ناک اور ناقابل بیان ہیں۔ لہٰذا انہیں پبلک کرنے پر میڈیا پر سخت ترین پابندیاں لگا دی گئیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر اپوزیشن لیڈر کی تصویر دکھانے اور اُس کا نام لینے پر پابندی لگا دی گئی۔ ٘مخالف جماعت کے سربراہ پر 180 سے زائد مقدمات دائر کیے گئے۔
اپوزیشن لیڈر عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں عدالت نے سزا سنا دی۔ اگر اعلیٰ عدالتیں بھی اس سزا کی توثیق کر دیں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اُنہیں سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں لیکن جن سیاسی لیڈروں نے توشہ خانہ سے ایسی اشیاء حاصل کیں جن کا لینا قانونی طور پر جائز ہی نہ تھا مثلاً آصف زرداری، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی نے توشہ خانہ سے گاڑیاں لیں جو قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اُس پر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ پھر یہ کہ ہائی کورٹ واویلا کرتا رہا کہ 1990ء سے 2003ء تک توشہ خانہ کی فہرست بھی دی جائے لیکن عدالتی احکامات کو پاؤں تلے روندتے ہوئے وہ فہرست دینے سے آج تک گریز کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ توشہ خانہ پر اصل ڈاکے تو اُس دور میں پڑے تھے۔عدالتی احکامات کے پرخچے اُڑائے گئے۔ کسی سیاسی رہنما کی عدالت ضمانت منظور کرتی تو جیل کے باہر پولیس اُسے کسی دوسرے مقدمہ میں گرفتار کر لیتی۔
PDM کے دورِ حکومت میں ہی وفاقی شرعی عدالت نے سود کے حرام ہونے کا ایک بار پھر فیصلہ دیا بعض دوستوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ کیونکہ اس حکومت میں JUI شامل ہے بلکہ PDM اتحاد کی قیادت، قائد جمعیت علماء اسلام کے ہاتھوں میں ہے لہٰذا اس فیصلہ پر لازماً عمل کیا جائے گا، لیکن جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ البتہ اس حوالہ سے شریف خاندان کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ دونوں مرتبہ اُنہوں نے ہی اللہ سے جنگ بند کرنے کے فیصلہ کو چیلنج کیا۔