(منبرو محراب) بقائے پاکستان:نفاذ عدل اسلام - ابو ابراہیم

7 /

بقائے پاکستان:نفاذ عدل اسلام

(سورۃ الانفال کی آیات 26تا 29کی روشنی میں)

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ،کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے11اگست 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اورتلاوت آیات کے بعد!
پاکستان کا 76واں یوم آزادی منایا گیا یہ وہ مملکت ہے جس کو ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام پرحاصل کیا۔البتہ اس وقت زمینی حقائق یہ ہیںکہ اللہ اوراس کے رسولﷺ کےساتھ بے وفائی ہےاور انفرادی اوراجتماعی سطح پراکثر وبیشتر اللہ کے احکامات کی مخالفت ہے۔ آج ہماری سیاست کا ستیاناس ہے ۔ معیشت تباہ ہے۔معاشرتی بگاڑاپنے عروج پر ہے ۔ ایک طرف اندرونی سطح پر سخت خلفشار ہے ، عداوتیں ، دشمنیاں ، تعصبات اور نفرتیں انتہا پر ہیں اور دوسری طرف بیرونی قوتوں کے پریشرز ہیں ، حالات یہ ہیں کہ لوگ اس مملکت کے ٹکڑے کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔
ان حالات میں تنظیم اسلامی نے 11اگست تا 3 ستمبر’’ بقائے پاکستان : نفاذ عدل اسلام‘‘ کے عنوان سے ایک ملک گیر مہم کا آغاز کیا ہے ۔ چونکہ اب پاکستان کے استحکام ہی نہیں بلکہ بقاء کا مسئلہ ہے۔ اس لیے تنظیم اسلامی کی اس مہم کا مقصد یہ ہے کہ اُس عظیم نصب العین کی یاددہانی کروائی جائے جس کے لیے اس ملک کو حاصل کیا گیا تھا کیونکہ یہ ملک جس نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اس کی بقاء ، سلامتی اور استحکام بھی اسی نظریہ کے نفاذ سے وابستہ ہے ۔ موجودہ حالات میں پاکستان کی بقاء اور سلامتی کو جو خطرات لاحق ہیں اور جو عدم استحکام کی صورتحال ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اسلام جو عدل کا دین ہے اور سوشل جسٹس کاپورا سسٹم عطا کرتاہے اس کے نفاذ کے لیے پیش قدمی کریں۔ اس حوالے سے تنظیم اسلامی کی اس آگاہی مہم میں خطبات جمعہ کا اہتمام ہو گا ،گلی کوچوں میں جاکر ہینڈ بلز اوربروشرز کے ذریعے لوگوں تک بات کو پہنچایا جائے گا ۔ علماء اور آئمہ مساجد تک اس بات کو پہنچایا جائے گا۔ پھرحکمرانوں اورمقتدر طبقات تک یہ پیغام پہنچا یا جائے گا۔ اسی طرح عدالتوں کے ججز،اداروں کے سربراہان، میڈیا اینکر پرسنز،میڈیا ہاؤسز کے مالکان ، صحافی برادری تک خطوط اور مختلف ذرائع سے پیغام کو پہچانے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی طریقے پر سیمینارز، ریلیاں، سوشل میڈیا، تمام میڈیمز کواستعمال کرکے اس سبق کوہم عام کرنے کی کوشش کریں گے ۔ان شاء اللہ ۔اہل علم حضرات اور عوام الناس سے گزارش ہے کہ ہمارے اس کام میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔
آج کے خطاب جمعہ میں بھی اسی حوالے سے کچھ تذکیری پہلوؤں کو اُجاگر کرنا مقصود ہے ۔ سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
’’اور یاد کرو جبکہ تم تھوڑی تعداد میں تھے اور زمین میں دبا لیے گئے تھے‘تمہیں اندیشہ تھا کہ لوگ تمہیں اُچک لے جائیں گے‘تو اللہ نے تمہیں پناہ کی جگہ دے دی اور تمہاری مدد کی اپنی خاص نصرت سے اور تمہیں بہترین پاکیزہ رزق عطا کیا‘ تاکہ تم شکر ادا کرو۔‘‘(آیت :26)
سورۃ الانفال کے اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ہجرت مدینہ اور مدینہ میں مسلمانوں پر اپنی نوازشات کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ استاد محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ اس مقام کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ ان آیات میں گویا پاکستانی قوم سے بھی خطاب ہورہا ہے ۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ ہجرت مدینہ کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت قیام پاکستان کے موقع پر ہوئی اور یہ ہجرت بھی اسلام کے لیے تھی ۔مکہ میں جس طرح مسلمان تھوڑے تھے، ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے ، اندیشہ تھا کہ انہیں دبا لیا جائے گا ، چنانچہ اللہ نے انہیں یثرب میں ٹھکانہ عطا کردیا، اسی طرح ہندوستان میں مسلمان تھوڑے تھے ، ہندو اکثریت میں تھے ، انگریز کی غلامی تھی ۔ اگر انگریز چلا بھی جاتا تو ہندو اکثریت ہمیں مٹا کر رکھ دیتی ۔ اللہ نے ہمیں اس دُہری غلامی سے نجات دی اور ایک خطہ عطا کیا ۔ ہندو لیڈر کہتے تھے کہ پاکستان ہماری لاشوں پر بنے گا لیکن اللہ نے بنا کر دیا ۔ رمضان کی ستائیسویں شب اللہ نے یہ ملک عطا کیا ۔ یہی وہ شب مبارک تھی جب اللہ نے قرآن کو بھی نازل کیا تھا ۔ 157مسلم ممالک میں سے کسی ملک نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اسلام کے نام پر قائم ہوا ۔ ہم نے صرف یہ دعویٰ کیاتھا اور اللہ نے اپنےنام پر ہمیں پاکستان عطا کیا ۔کوئی ملک نسل کی بنیاد پر بنتا ہے ، کوئی زبان کی بنیاد پر ، کوئی خطہ کی بنیاد پر کوئی تاریخ کی بنیاد پر ۔ یہاں نہ نسل ایک ، نہ زبان ایک ، نہ خطہ ایک ، نہ تاریخ ایک ، ہر قوم کی ایک تاریخ ہوتی ہے مگر پاکستان نام کا کوئی ملک تاریخ میں موجود نہیں تھا۔پاکستان بنا صرف کلمہ کی بنیاد پر ، ہمارا کلمہ ہی ہمارا نظریہ ہے ۔ اس نظریہ کو مضبوط کریں گے تو ملک بچے گا ۔ نظریہ مضبوط نہیں کیا ، تعصب ابھر آیا اور 1971ء میں آدھا ملک کھو دیا ۔ زبان کی بنیاد پر بنگلہ دیش وجود میں آگیا ۔ نظریہ ہی باقی ماندہ ملک کو بھی قائم رکھ سکتا ہے ، کوئی سمجھتا ہے کہ ہمارے پاس طاقت ہے ، ایٹمی صلاحیت ہے تو وہ سوویت یونین کاانجام دیکھ لے ۔ جب انہوں نے نظریہ کو چھوڑا تو ایٹمی صلاحیت بھی کام نہ آئی اور سوویت یونین دفن ہو گیا ۔ ہم بھی اگر نظریہ کو مضبوط نہیں کریں گے تو تحریکیں اُٹھیں گی کوئی رنگ کی بنیاد پر ، کوئی نسل کی بنیاد پر ، کوئی زبان کی بنیاد پر ۔
مدینہ میں جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ٹھکانہ عطافرمایا ، رزق عطا فرمایا اور اپنی نصرت سے تائید فرمائی تو مسلمانوں نے قولی اور عملی طور پر تشکر ادا کیا اور اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں ۔ 259 صحابہ کرامj نے حضور ﷺکی حیات طیبہ میں جانیں پیش کی ہیں۔پھر جب دین جزیرہ نما عرب پر غالب ہوگیا تو اس کے بعد بھی مومنین کی جماعت نے امانت کا حق ادا کیا ہے اور صرف جنگ یمامہ میں 1200 صحابہ کرامj شہید ہوئے ہیں باقی تمام جنگوں کے اعدادو شمار اس کے علاوہ ہیں ۔ حضور ﷺ کا مشن انہوں نے جاری رکھا ہے جہاں تک وہ پہنچ سکتے تھے وہاں تک انہوں نے اللہ کے دین کو قائم کیا ۔ یہاں تک کہ ایک روایت کے مطابق صحابہ کرامj کی ایک جماعت نے گھوڑے سمندر میں ڈال دیے اور عرض کیایااللہ ! ہمارا جذبہ جہاد ختم نہیں ہوا تیری زمین ختم ہوگئی ۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
انہوں نے امانت کا حق ادا کردیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ایک سرزمین عطا فرمائی جہاں ہم آزاد ہیں اور ہمارے پاس پورا موقع تھا کہ ہم کم ازکم پاکستان میں نفاذاسلام کا اپنا وعدہ پورا کرتے ۔ چنانچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگلی آیات کا پیغام گویا یثرب کے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہمارے لیے نازل ہوا ہے ۔ فرمایا :
’’اے اہل ایمان! مت خیانت کرو اللہ سے اور رسول (ﷺ) سے‘اور نہ ہی اپنی (آپس کی) امانتوں میں خیانت کروجانتے بوجھتے ۔‘‘(الانفال :27)
ہمیں خوب معلوم ہے کہ خیانت کسے کہتے ہیں ، وعدہ خلافی کسے کہتے ہیں ، فراڈ ، دھوکہ اور جھوٹ کسے کہتے ہیں ،کسی دوسرے کو پتا چلے نہ چلے لیکن خود اپنا ضمیر اندر سے گواہی دے گا۔ ارشاد ہوتاہے :
{بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ(14)}(القیامہ) ’’بلکہ انسان تو اپنے نفس کے احوال پر خود ہی خوب بصیرت رکھتا ہے۔‘‘
پاکستان ہم نے اس وعدے پر حاصل کیا تھا کہ یہاں نظام عدل قائم کریں گے ۔ آج کی نوجوان نسل کو تو پتا بھی نہیں ہے کہ کیوںکہ اتنی قربانیاں دی گئیں ، کس طرح  ہمارے جوانوں کی گردنیں اڑائی گئیں،ہمارے بچوں کو ذبح کیا گیا ، ہماری ماؤں بہنوں کی عصمتیں لوٹی گئیں ، کس طرح اپنے گھر بار کو، جائیدادوں کو چھوڑ کر آئے ، میں خود اس دادا کا پوتا ہوں جو اپنی جائیدادیں چھوڑ کرآئے ۔ کیوں آئے ؟ کیا سود کے نظام کے لیے؟ فحاشی وعریانی کے لیے؟ شیطانی کاموں کے لیے؟ دجالی تہذیب کے لیے؟ بے پردگی و بے حیائی کے لیے؟یہ سارا کچھ تو بھارت میں بھی موجود تھا ، فلم انڈسٹری ، شوبز، ڈرامے ، ناچ گانے کیا بھارت میں کم ہیں ؟
مسلمانان ِ ہند نے اتنی قربانیاں اللہ کے نام پر دی تھیں ۔ ہم اس لیے آئے تھے کہ’’ پاکستان کا مطلب کیا: لاالٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگ رہا تھا ۔ ایک ہجرت مدینہ میں  ہوئی تھی اور ایک ہجرت ہم نے کی تھی۔ دونوں کا مقصد اسلام تھا۔ صحابہ کرام ؓ نے تو امانت کی پاسداری کی ، انہوں نے نہ صرف مدینہ میں بلکہ پورے عالم میں اسلام کو غالب کیا ، لیکن ہم نے کیا کیا؟ 76 برس میں ہم نے اللہ سے بدعہدی ، بددیانتی ، بے وفائی اور غداری نہیں کی ؟ 
اللہ حفاظت فرمائے ہم نے خیانت کی خدا کی قسم یہ آیات ہمارا ہی نقشہ کھینچ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے : 
{لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰـبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(10)}(الانبیاء) ’’(اے لوگو!) اب ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کر دی ہے‘ اس میں تمہارا ذکر ہے ۔ تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘
ہم جانتے ہیں امانت صرف روپے پیسے کی نہیں ہوتی ، یہ جان بھی میری نہیں ہے ،یہ اللہ کی امانت ہے ، میںنے اس کے متعلق جواب دینا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ بندے کے قدم روزمحشر اُٹھ نہیں پائیں گے جب تک وہ پانچ سوالوں کے جواب نہ دے دے ۔ زندگی کہاں کھپائی ، جوانی کہاں لگائی ، مال کہاں سے کمایا ، کہاں خرچ کیا ، علم جو حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا ۔ مال امانت ہے ، اولاد امانت ہے ، اختیار امانت ہے ، ان سب کے بارے میں جواب دینا ہے ۔ گھر کے سربراہ کو گھر کے سارے معاملات کے بارے میں جوا ب دینا ہوگا ۔جس کےپاس جو عہدہ ہے ، اختیار ہے اس کے مطابق اس کو جواب دینا ہوگا ۔ یہ قرآن اللہ کے رسولﷺ مجھے اور آپ کو دے کرگئے ، یہ امانت ہے ، اس کو پڑھنا، سمجھنا، عمل کرنا اور اس کے نظام کو دنیا کے سامنے پیش کرنا اور دنیا کےسامنے اس کا نمونہ پیش کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔ محمد الرسول اللہ ﷺ کا اُسوہ ہمارے پاس امانت ہے۔ اسی طرح یہ ملک پاکستان بھی ہمارے پاس امانت ہے ، کیوں امانت میں خیانت کرتے ہو ،کیوں چند ٹکوں کی خاطر قوم کو لوٹتے ہو ، بیچتے ہو ؟ سورۃ الانفال کی اگلی آیت میں اللہ فرماتاہے :
’’اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیںاور یہ کہ اللہ ہی کے پاس ہے بڑا اجر۔‘‘(الانفال :28)
یہ مال اور اولاد دے کر تمہیں امتحان میں ڈالا ہے۔ ان کی محبت میں پڑ کر اللہ کے ساتھ بے وفائی نہ کرنا، اس کے پیغمبر ﷺکے ساتھ بے وفائی نہ کرنا ، بحیثیت پاکستانی قوم شروع شروع میں جذبہ بھی تھا اور جو ش و خروش بھی تھا ، قائداعظم کا ویژن بڑا واضح تھا ۔انہوں نے اپنی وفات سے قبل واضح کہا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان بن گیا ، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا روحانی فیضان ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ خلافت راشدہ کوسامنےرکھتے ہوئے عہد حاضر کی اسلامی فلاحی ریاست دنیا کے سامنے پیش کریں۔اس کے بعد قرارداد مقاصد بھی پاس ہوگئی جس میں طے پاگیا کہ حاکمیت اللہ کی ہو گی ، کتاب و سنت کی بالا دستی ہوگی ۔ پھر تمام مکاتب فکر کے چوٹی کے علماء کے 22 نکات بھی سامنے آگئے کہ ان اصولوں پر اسلام کا نفاذ پاکستان میں ہو جائے سب کا اتفاق ہو گا ۔ یعنی شروع میں اچھی پیش رفت ہوئی لیکن پھر ریورس لگ گیا ۔ مال کی محبت، دنیا کی محبت میں کبھی امریکہ کے سامنے جھکے ، کبھی چائنا کے سامنے جھکے اور بیرونی اشاروں پر ، بیرونی پیریشر پراپنی سیاست ، معیشت ، معاشرت کا بیڑا غرق کرلیا ۔ گزشتہ ایک حکومت نے ایک دن میں 33 بل پاس کر دیے اور بعد والی شہباز حکومت نے دو دن میں 54بل پاس کر دیے ۔ 54 بلوں کو گننا مشکل ہے، پڑھے گا کون ؟ پڑھے گا تو رائے دےگا ، بہت سوں کو سمجھ ہی نہیں آتا کیا لکھا ہے ۔ یہ فرسودہ نظام ہم نے اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے ۔ ہر ایک کے سامنے جھکنے کو تیار مگر اللہ کے دین کے ساتھ غداری ، ایک ہی سانس میں 33 بل پاس کرنے کا تمہارے پاس وقت ہے لیکن اللہ کا ایک حکم نافذ کرنے کے لیے تمہارے پاس وقت نہیں ہے ۔ کیا آپ لوگوں نے مرنے کے بعد اللہ کے سامنے جوا ب نہیں دینا ؟ کتنا بڑا ظلم کرتے ہواپنے ساتھ، اپنی قوم کے ساتھ۔ شریعت کے نفاذ کے لیے کوئی سنجیدہ نہیں ہے ۔ دو چار کام بڑے بڑے ہوئے ۔ قادیانیوں کو کافر قرار دینے والی بات بالکل ٹھیک ہے۔ علماء کا اتفاق رائے ہونا بالکل ٹھیک بات ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں نصاب میں اسلامیات لازمی ہوئی اچھی بات ہے ، وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی لیکن اس کے فیصلوں پر کوئی عمل درآمد نہیں ہے ، اسلامی نظریاتی کونسل قائم ہوئی اس کو بھی غیر مؤثر بنا دیا گیا۔دوسری طرف IMFکے سامنے گھٹنے ٹیک کر التجائیں کرتے ہیں کہ ہمیں ایک موقع دیجئے بس ہم آپ کی ساری شرائط ماننے کو تیار ہیں ۔
جتنی جتنی بے وفائی اور غداری ہم نے اللہ کے ساتھ کی اتنا غیروں کی غلامی کے دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ زیر مطالعہ آیات میں اللہ نے کیا فرمایا تھا :
’’اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں۔‘‘(الانفال :28)
اللہ کے نام پر ، اسلام کے نام پر ملک لے کر وعدہ بھول گئے ، خیانت کی اور پھر مال اور اولاد کے فتنوں میں مبتلا ہوگئے اور آزمائش میں ناکام ہو گئے ۔یاد رکھئے یہ آزمائش صرف طبقہ اشرافیہ کے لیے نہیں تھی بلکہ جو اپنے گھر بار میں ، اپنی اولاد میں عدل نہیں کررہے وہ بھی ظلم ہے ، رشتہ داروں کے ساتھ عدل نہیں کر رہے تو یہ بھی ظلم ہے ،ملازمین کے ساتھ عدل نہیں کر رہے تو یہ بھی ظلم ہے، اپنی سولہ آنے نوکری حلال نہیںکررہے تویہ بھی خیانت ہے۔نیچے سے لے کر اوپر تک عدل ہوگا تو ہماری بقاء بحیثیت قوم ممکن ہوگی ۔ اسی لیے ہم نے مہم کانام رکھا : بقائے پاکستان : نفاذ عدل اسلام ۔ پاکستان بنا اسلام کےنام پراورکوئی شے جوڑ نہیں سکتی ہیں۔ہم مختلف نسلوں ، زبانوں ، خطوں کے لوگ ہیں ، خداکی قسم! ہمیںکلمے نے جوڑا۔ اس کلمے کے نفاذ کی طرف جائیں گے توملک بچے گا۔اسلام اورپاکستان لازم وملزوم ہیں ۔ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ زیر مطالعہ آیات میں آگے فرمایا :
’’اور یہ کہ اللہ ہی کے پاس ہے بڑا اجر۔‘‘(الانفال :28)
’’اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کے تقویٰ پر برقرار رہو گے تو وہ تمہارے لیے فرقان پیدا کر دے گا‘اور دور کر دے گاتم سے تمہاری برائیاں (کمزوریاں) اور تمہیں بخش دے گا۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘(الانفال :29)
ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں نے امانت کی پوری پوری پاسداری کی تو اللہ نے بدر کے دن کو فرقان بنا دیا ۔ حق کو فتح نصیب ہوئی اور باطل سرنگوں ہو گیا ۔ قرآن بھی فرقان ہے ۔ اگر ہم اللہ کاتقویٰ اختیار کرنے والے بن جائیں ، قرآن کو نافذ کرنے والے بن جائیں تو اللہ ہمارے لیے بھی فرقان پیدا کر دے گا ۔ شریعت اگر پارلیمنٹ میںنافذ ہوتوپھرظلم کے قوانین نہیں بنیں گے، عدل کا راستہ ہموار ہوگا ۔ ناانصافی اور ظلم کی وجہ سے لوگ متنفر ہو رہے ہیں ، شریعت کے تحت عدالتوںمیںفیصلے ہوںگے تو منافرتیں نہیں پھیلیں گی۔ آج ہمارے لاکھوں نوجوان نشے کی لت میں مر رہے ہیں۔ ریپ کے کیسز بڑھ رہے ہیں ، فحاشی اور بے حیائی اپنے عروج پر جارہی ہے ۔ تعلیمی اداروں میں شریعت نافذ ہو گی تو یہ بے پردگی نہیں چلے گی، نشہ نہیں چلے گا۔ شریعت میں بعض سزائیں فکسڈ ہیں، باقی تعزیرات ہیں۔ ظلم شدیدتوسزا شدید، علی الاعلان سزادو تو لاکھوں کو عبرت ملے گی اورہمارے بچوں کی زندگیاں بچیں گی۔اسی طرح نکاح کو آسان کریں گے تو زنا کے دروازے بند ہو جائیں گے ۔زنا کی سزائوں کا نفاذ ہوگا توریپ کے کیسز نہیںہوں گے۔ شریعت کانفاذ ہو گاتوزکوٰۃ اور عشر کی وصولی ہوگی ۔ جو معاش کی محنت میں کمزور رہ گئے ریاست ان کی کفالت کرے گی۔ عدل اسلام کے نفاذ کامطلب صرف شرعی سزائیں نہیں ہیں بلکہ یہ عدل کا پورا ایک پیکج ہے جس میں پہلے لوگوں کو انصاف اور سہولیات فراہم کی جائیں گی اور اس کے بعد جو جرم کرے گا تو اس کو سزائیں ملیں گی ۔ عدل کا نظام قائم ہوگا تو اللہ کا فضل نازل ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطافرمائے ۔ آمین !