(الہدیٰ) ملکہ ٔ سبا کے حضرت سلیمان ؑ کے لیے قیمتی تحائف - ادارہ

9 /

الہدیٰ

ملکہ ٔ سبا کے حضرت سلیمان ؑ کے لیے قیمتی تحائف


آیت 35 {وَاِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ اِلَیْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌ م بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ(35)} ’’تو مَیں اُن کی طرف اپنے ایلچی کچھ تحائف
کے ساتھ بھیجتی ہوں ‘ پھر دیکھتی ہوں کہ وہ کیا جواب لے کر واپس آتے ہیں۔‘‘
حضرت سلیمان ؑ کی خدمت میں قیمتی تحائف بھیج کر وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ آیا دنیوی مال و دولت کا حصو ل ہی ان کا مقصد و مدّعا ہے یا اس سے آگے بڑھ کر وہ کچھ اور چاہتے ہیں۔
آیت 36 {فَلَمَّا جَآئَ سُلَیْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ ز فَمَآ اٰتٰىنِیَ اللہُ خَیْرٌ مِّمَّآ اٰتٰىکُمْ ج} ’’تو جب وہ (وفد) آیا سلیمانؑ کے پاس‘ اُس نے کہا کہ کیا تم میری اعانت کرنا چاہتے ہو مال و دولت سے ؟تو جوکچھ مجھے اللہ نے دے رکھا ہے وہ کہیں بہتر ہے اُس سے جو اُس نے تمہیں دیا ہے۔‘‘
{بَلْ اَنْتُمْ بِہَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوْنَ(36)} ’’ اپنے ان تحائف سے تم خود ہی خوش رہو۔‘‘
آیت 37 {اِرْجِعْ اِلَیْہِمْ فَلَنَاْتِیَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمْ بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِّنْہَآ اَذِلَّۃً وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ (37)} ’’تم لوٹ جائو اُن کی طرف‘ تو ہم اُن پر ایسے لشکر وں سے حملہ آور ہوں گے جن کا مقابلہ ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا‘ اور ہم نکال باہر کریں گے انہیں اس ملک سے ذلیل کر کے اور وہ خوار ہو جائیں گے۔‘‘
یعنی انہیں یا تو ہماری پہلی بات ماننا پڑے گی کہ وہ مسلم (مطیع) ہو کر ہمارے پاس حاضر ہو جائیں‘ ورنہ ہم ان پر لشکر کشی کریں گے۔

درس حدیث

نیکی اور بُرائی کی کسوٹی


عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ؓ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِرَسُوْلِ اللہِ ﷺ کَیْفَ لِیْ اَنْ اَعْلَمَ اِذِا اَحْسَنْتُ وَاِذَا اَسَأْتُ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: (( اِذَاسَمِعْتَ جِیْرَانَکَ یَقُوْلُوْنَ قَدْاَحْسَنْتَ فَقَدْ اَحْسَنْتَ وَاِذَاسَمِعْتَھُمْ یَقُوْلُوْنَ قَدْ اَسَأْتَ فَقَدْ اَسَأْتَ)) (مسند احمد )
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا مجھے کیسے پتہ چلے کہ میں نے اچھا کام کیا ہے یا بُرا؟آپﷺ نے فرمایا:’’ جب تو اپنے پڑوسیوں سے سنے کہ تو نے اچھا کام کیا ہے تو یقین جان لے کہ فی الواقع تو نے اچھا کام کیا ہے اور جب تو اپنے پڑوسیوںکو یہ کہتے سنو کہ تو نے بُرا کیا ہے تو تجھے سمجھ لینا چاہیے کہ تو نے یقینا ًبُرا کیا ہے۔‘‘
تشریح: ہر شخص کے نیک یا برے ہونے کے متعلق بے لاگ رائے صرف اس کے ہمسائے کی ہو سکتی ہے پڑوسی بتا سکتا ہے کہ فلاں شخص کے اخلاق کیسے ہیں؟ وہ لین دین میں کیسا ہے؟ وہ رحمدل ہے یا بدخو اور سنگدل ہے؟تقویٰ کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ انسان اپنے غریب رشتہ داروں، اور نادار ہمسایوں سے بے رخی نہ برتے، انہیں حقیر نہ جانے۔