(اداریہ) سانحاتِ جڑانوالہ - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا
سانحاتِ جڑانوالہ

جڑانوالہ میں ایک سانحہ نہیں بلکہ دو سانحات ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کی بے حرمتی کی گئی۔ رسالت مآب حضرت محمد ﷺ جو انبیاء اور رُسل کے سردار ہیں، اُن کی شان میں گستاخی کی گئی۔ اور دوسرا سانحہ یہ ہوا کہ بعض شرپسندوں نے جہالت اور حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عیسائی اقلیت کی آبادی اور اُن کی عبادت گاہوں پر حملہ کرکے اپنے ہی دین و مذہب اسلام اور اپنے ہی رہبر و رہنما حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے فرمودات کی نفی کر ڈالی۔ یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ مسلمان کے لیے اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول ﷺ کی توہین اور بے حرمتی ناقابلِ برداشت ہے یہ اُن کے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ لیکن بلواہ اور Mob Justice کی بھی یہی اللہ، یہی نبی ﷺ اور یہی کتاب اجازت نہیں دیتے۔ مسلمانوں کو اس حوالے سے آج کے دور اور اُس دور میںفرق کرنا چاہیے جبکہ نبی آخرالزمان ﷺ خود دنیا میں موجود تھے۔ آپ ﷺ کی رہنمائی وحی آسمانی سے کی جاتی تھی۔ آپ ﷺ دنیا میں اللہ کے نمائندے تھے، آپ ﷺ کے فرمودات قانون کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُن پر نہ صرف عملدر آمد لازم تھا بلکہ کوئی مسلمان ان احکامات کے بارے میں اگر دل میں بھی ناگواری کے احساسات (معاذ اللہ) رکھتا ہے تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ آج کسی عمل کا رد عمل یا کسی جرم کی سزا عوامی اور گروہی سطح پر نہیں دی جا سکتی۔ اب سزا کے لیے تحقیق اور تفتیش کی ضرورت ہے اور اس ہی کی بنیاد پر ریاست کا نمائندہ فریقین کو سن کر فیصلہ کرے گا۔
ہمارے آئین میں توہینِ رسالت کا قانون 295 اور اُس کی ذیلی شقیں A,B,C موجود ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جس طرح ہم زندگی کے ہر شعبہ میں بُری طرح ناکام ثابت ہو رہے ہیں، اسی طرح rule of law قائم کرنے میں بھی انتہائی بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ اسی حوالے سے لبرلز اس قانون کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ اس قانون کی وجہ سے حملے ہوتے ہیں جس سے معصوم اور بے گناہ لوگ قتل ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس قانون کے تحت عدالتوں نے سزائیں تو سنائی ہیں لیکن کسی ایک مجرم کو عملاً سزا نہ ہوئی یعنی سزا پر عمل درآمد نہ ہوا بلکہ مجرم یورپ وغیرہ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے اور وہ یہ سوچنے لگے کہ ریاست تو اس حوالے سے خود کچھ نہیں کرتی یا اُس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں لہٰذا وہ خود جوابی کارروائی کے لیے اور بدلہ چکانے کے لیے میدان میں اُترتے ہیں جس سے بلوے ہو جاتے ہیں ۔ حالانکہ یہ عمل خود اللہ اُس کی کتاب اور اُس کے رسولﷺ کے احکامات کی نافرمانی ہے۔ مسلمان معاشرہ خود اس عمل کو انتہائی غلط سمجھتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان اپنے مذہبی جذبے کو منفی انداز میں کیوں بروئے کار لاتے ہیں، اس لیے کہ مذہبی جذبہ مثبت انداز میں بروئے کار لانا ہر سطح پر ایثار اور قربانی مانگتا ہے۔ اُس کے لیے ہر سطح پر زبردست جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایسی جدوجہد جو ملک میں عدل و قسط کا نظام لے آئے ’’ایں کارِ مشکل است ‘‘ لہٰذا سب اس سے جان چھڑاتے ہیں اور منفی کاموں میں اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں کیونکہ یہ آسان ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ فرد، معاشرہ اور ریاست سب دوسروں کو عدل کی تلقین کرتے ہیں اور دوسروں پر قانون لاگو کرتے ہیں۔ دوسروں سے فرمانبرداری کی توقع رکھتے ہیں اور جس کا زور چلتا ہے وہ دوسرے کو اس پر مجبور بھی کرتا ہے۔ لیکن اپنے ہاتھ صرف اور صرف ظلم کے لیے کھلے رکھنا چاہتا ہے۔ جبکہ فطرت کا اصول یہ ہے ’’گندم از گندم بروید جوازجو ‘‘۔ چند روز پہلے رخصت ہونے والے وزیراعظم نے سویڈن کے وزیراعظم کو للکار کر کہا تھا کہ اگر سویڈن نے پھر یہ حرکت کی تو پھر ہم سے گلہ نہ کرے۔ اُن ہی کے دورِ حکومت میں سویڈن میں یہ ناپاک حرکت دہرائی گئی۔ لیکن وہ وزیراعظم صاحب اُسی تنخواہ پر کام کرتے رہے بلکہ عبوری حکومت کے دور میں سانحہ جڑانوالہ سامنے آگیا۔ گویا ہم نہ صرف غیروں کو اس سے روک سکے بلکہ خود ہمارے ملک میں بھی ایسا گھناؤنا فعل دہرایا گیا۔
اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیوں ہمیں پے در پے یوں سانحات کا سامنا ہے۔ جیسے تسبیح ٹوٹ جائے تو اُس کے دانے مسلسل گِرنے لگتے ہیں۔ ایک سانحہ سے سنبھل نہیں پاتے کہ دوسرا ہو جاتا ہے۔ ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہماری مشابہت اُس قوم سے تو نہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سورۃ انعام آیت نمبر 65 میں فرماتا ہے : ’’کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔ ‘‘
سانحہ جڑانوالہ کے حوالے سے ریاست کا عدل ملاحظہ کریں کہ وہ عالمی برادری کے خوف سے عیسائی اقلیت کے لیے بچھی جا رہی ہے۔ ہم بھی سمجھتے ہیں اُن سے ظلم ہوا ہے، اُس کی تلافی ہونی چاہیے۔ مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور اُنہیں کسی صورت میں معاف نہیں کیا جانا چاہیے لیکن اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول ﷺ کی توہین کا معاملہ یہ کہہ کر ختم کر دیا گیا کہ ملزمان بیرون ملک فرار ہو گئےہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے سیاسی حریفوں کی نقل و حرکت پر مکمل نگاہ رکھنے اور اُنہیں فرار ہوتے ہوئے گرفتار کرنے میں تو بڑی چابکدستی دکھائی جاتی ہے، لیکن یہ اللہ اور رسولﷺ کے مجرم کیسے آپ کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر فرار ہوگئے؟
اس وقوعہ سے سازش کی بُو بھی آتی ہے۔ علاقہ کے بعض لوگوں کے مطابق بلوے میں مقامی لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی بلکہ بعض مسلمانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر عیسائیوں کو تحفظ دیا۔ لیکن فسادیوں نے اُن مسلمانوں کو بھی زد وکوب کیا جو عیسائیوں کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس حوالے سے اُس A.C شوکت مسیح کا رول بھی بڑا مشکوک دکھائی دیتا ہے جس کا فرض تھا کہ وہ امن کے لیے فوری کارروائی کرتا۔ پھر یہ کہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ قرآن پاک کی توہین کرنے والے راتوں رات بیرون ملک فرار ہوگئے۔ اگر ایسا ہی ہوا ہے تو اس پر بہت سے سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا اُن کے پاسپورٹ پہلے ہی تیار تھے۔ کیا دوسرے ملک جہاں وہ فرار ہوئے اُس کے ویزے واردات سے پہلے ہی لگ چکے تھے۔ کیا وہ فرار ہوتے ہوئے اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس اور انتظامیہ نے اس حوالے سے اگر کوئی اقدامات کیے ہیں تو وہ عوام کے سامنے کیوں نہیں لائے جا رہے ہیں؟
ہمیں تو یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ان دونوں سانحات کے حوالے سے بھی وہی کچھ ہوگا جو ہماری پرانی روایات ہیں۔ وہ یہ کہ ہر نئے سانحہ پر چنددن ماتم کرو، کسی کو بُرا بھلا کہو ،کسی کو چیک دے دو، لیکن مکمل انکوائری کرکے حقائق عوام کے سامنے نہیں لائے جائیں گے اور بالآخر ’’مٹی پاؤ‘‘ کی پالیسی پر عمل ہوگا۔ میڈیا کسی اور موضوع کو زیربحث لے آئے گا اور لوگ بھی بھول جائیں گے۔
ہماری رائے میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہماری حکومتیں، ہماری اشرافیہ اور ہمارے مقتدر حلقے احساس کمتری سے نجات حاصل کریں۔ کسی بیرونی دباؤ کو قبول نہ کریں۔ دیانت داری سے تحقیقات کی جائیں اور قصور وارں کو فوری طور پر عبرت ناک سزا دی جائے۔ کسی کے مذہب کا اور نہ ہی کسی کے منصب کا لحاظ رکھا جائے۔ قانون کے مطابق جس کو جو سزا ملنی چاہیے اُس کا اعلان بھی ہو اور اُس پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ملک میں ہونے والے تمام جرائم اور سانحات اُس ظالمانہ نظام کا ثمرہیں جو دوسروں کے محتاج ہونے کی وجہ سے اور اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ہم نے خود پر مسلط کر رکھا ہے جب تک ایک حقیقی عادلانہ نظام نہیں آتا ہم ایسے سانحات سے دو چار ہوتے رہیں گے۔